ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 جولائی، 2011

قیام پاکستان اور اس کے اہم تقاضے

قیام پاکستان اور اس کے اہم تقاضے



مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ، دنیا کے نقشے پر ایک منفرد محل وقوع ، جغرافیائی عوامل ، معدنی ذرائع ، نظریاتی تشخص اور ثقافتی وجود رکھتی ہے ۔ اگر اس خطے میں مسلم تاریخ کا کھوج لگایا جائے تو بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کے بقول پاکستان تو اسی روز معرضِ وجود میں آ گیا تھا ، جب کسی مسلمان نے سب سے پہلے اس خطے پر قدم رکھا تھا ۔ 711ءمیں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ برصغیر میں پہلی اسلامی ریاست کا آغاز ہوگیا ۔ اگرچہ اس سے پہلے عہدِ فاروقی میں مکران ( بلوچستان ) کے علاقے میں صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت قدم رنجہ فرما چکی تھی ۔ ان کی قبور آج بھی وہاں پر موجود ہیں ، جن کی نسبت سے پنج گور کا قصبہ معروف ہے ۔ صحاح ستہ کے ایک مجموعے کے مدون امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا تعلق سجستان سے ہے ، جو اُس عہد میں بلوچستان کی جغرافیائی حدود میں تھا ۔ یوں برصغیر میں اسلامی سلطنت کو اصل قوت سندھ اور بلوچستان کے راستے سے فراہم ہوئی ہے ۔ امویوں اور عباسیوں نے سندھ میں اپنے گورنر مقرر کئے جس کے نتیجے میں282 سال تک عرب خاندانوں کی حکومت سندھ میں قائم رہی ۔ اس کے بعد مقامی سومرہ خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ اس مقامی حکومت نے باطنی مذہب کو اپنا لیا ، جس کے باعث اس کی سیاسی وفاداریاں فاطمینِ مصر کے ساتھ قائم ہو گئیں ۔ اسی دور میں افغانستان میں غزنوی برسرِ اقتدار آئے ۔ ہندوستان میں اس زمانے میں جے پال کی حکومت تھی جو غزنویوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنا چاہتا تھا مگر سبکتگین نے اسے غزنی کے قریب شکست دی اور نتیجۃً وہ صلح پر مجبور ہو گیا ۔ غزنوی سلطنت کی سرحدیں پشاور تک قائم ہوگئیں ۔ محمود غزنوی نے1022ءمیں پنجاب کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا اور لاہور کو پایہ تخت بنایا جہاں918 سال بعد بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کی صدارت میں دوقومی نظرےے پر مبنی ایک اسلامی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی ۔

برصغیر کی ملتِ اسلامیہ ایک ہزار سالہ اقتدار کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سیاسی اقتدار سے محروم ہو کر قعر مذلت میں گر گئی ۔ لیکن بہت جلد اس میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے مسلمانوں کے تنِ خستہ میں ایک نئی روح ڈال دی ۔ تحریکِ مجاہدین نے ایک ولولہ تازہ دیا ۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری نے مغربی تہذیب کا نقاب اتار دیا ۔ حالی کی مسدس نے ماضی کے جھروکوں سے مستقبل کی درخشندگی کی تصویر دکھائی ۔ اقبال نے ملت کی خاکستر میں چھپی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنا دیا ۔ ملتِ اسلامیہ کی درماندگی پر فطرت کو رحم آ گیا اور بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کی صورت میں وہ بطلِ جلیل اور مردِ حریت سامنے آیا جس نے ملی قیادت کے پرچم کو سربلند کر دیا ۔ بیسویں صدی کی ملتِ اسلامیہ کے پاس قائداعظم رحمہ اللہ سے بہتر سیاسی بصیرت اور تدبر رکھنے و الی کوئی اور شخصیت نہ تھی ۔ متوسط درجے کے کاٹھیاواڑی تاجروں کے سپوت نے انگریز کے پٹھوؤں اور ان کے کاسہ لیس جاگیرداروں کی دوغلی پالیسی کے باوجود منزل مراد کو حاصل کر لیا ۔ یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا ۔

نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
( اقبال )

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں ۔ یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھتا ۔ کم از کم تین نسلیں اس میں پرورش پا چکی ہیں ۔ مگر قومی اور ملی سطح پر ابھی تک ہم بہت سی محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار ہیں ۔ سولہ کروڑ کی آبادی کا موجودہ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے ۔ اس کے زرعی اور معدنی وسائل ایسے ہیں کہ ہمیں خود انحصاری پر مبنی معیشت کو رواج دینا چاہئیے ۔ مگر ہماری معاشی صورتِ حال مسلسل قرضوں کے باعث مفلوج ہو چکی ہے ۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے وسیع تر آبادیوں کو نگل رہا ہے ۔ ناخواندگی اور جہالت کی دلدل سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے ۔ جمہوری کلچر ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے مگر وقفے وقفے سے اس پر شب خون مارے جاتے ہیں ۔ اس کا باعث اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کی نہیں افراد کی حکومت ہے ، جو قومی تشکیل اور ملی مقاصد کے لیے کوئی مفید راہِ عمل نہیں ہے ۔ ہماری انتظامیہ قوم کی خدمت میں یکسر ناکام رہی ہے ۔ انتظامی اور عدالتی اداروں کے زخم خوردہ لوگ ابھی تک غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی جس کی اس ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے ، ابھی تک مفقود ہے ۔ نوجوان نسل بیروزگاری کے چنگل میں گرفتار ہے ، اسے نجات دلانے کا کیا راستہ ہے ، ہمیں اس کی چنداں فکر دکھائی نہیں دیتی ۔ معاشرے کے بعض طبقات میں انتہا پسندی کی علامتیں پائی جاتی ہیں ۔ ہم ایک امتِ وسط اور اعتدال کے رویوں کو حاصل کیوں نہیں کر سکے ، اس پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہے ۔

ہماری مملکت کا ایک واضح دستور ہے جس کی حقیقی روح پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں صوبائی منافرت کے جراثیم ملی وجود کو بیمار کر رہے ہیں ۔ توانائی کا بحران ہماری قومی اور صنعتی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں ہے ؟ معاشرے میں جرائم کی مسلسل بڑھتی ہوئی لہر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی ، اس کے اسباب و وجوہ پر غور کر کے اس کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کاوش کیوں نہیں کی جاتی ؟ ہمارا تعلیمی نظام اعلیٰ معیارات سے بہت دور ہے ۔ تحقیق ہمارے تعلیمی نظام میں وہ اعتبار حاصل نہیں کر سکی جو کسی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے ؟ دینی مدارس میں جو نصابِ تعلیم پڑھایا جا رہا ہے ، اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ سوچ اور تنگ نظری پیدا ہو رہی ہے ۔ اس میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ملی مقاصد کو بروئے کار لانے کی سوچ کیوں مفقود ہے ؟ فقہ کا تقابلی مطالعہ اور جدید تمدنی مسائل پر اجتہادی بصیرت پیدا کرنے کے ذرائع پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی ؟ اردو زبان ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکی ۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے ساتھ اس قومی زبان کی سرپرستی نہ کرنے کی بنا پر ہم اپنی ملی تشکیل اور قومی مزاج سے محروم ہیں ۔ ذرائع ابلاغ نے اگرچہ ملک میں بہت ترقی کی ہے مگر وہ سولہ کروڑ افراد کو ایک متحد الفکر قوم بنانے کے فریضے سے غافل ہیں ۔ میڈیا شعور تو پیدا کر رہا ہے مگر اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ عورتوں کے حقوق معاشرے میں پامال ہیں اور کم عمر بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ایک بہت بڑی تعداد میں قبل از وقت ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ، جس کے باعث ان کی موزوں ذہنی تربیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں ۔ ایسے گوناگوں اسباب کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر سامراجی قوتیں خوف زدہ کر رہی ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور یہ معاذ اللہ بہت جلد اپنا وجود کھودے گی ۔ بہت سے عناصر اس قسم کی مایوسی پھیلا کر قوم میں بے عملی ، انتشار اور انار کی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

ہمارے نزدیک قومی سطح پر سب سے پہلے ہمیں اس مایوسی اور افسردگی کی فضا سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں وسائلِ معیشت کا ملک ہے ، جس میں ترقی و تعمیر کے تمام تر امکانات موجود ہیں ۔ اس ملک کی جغرافیائی صورتِ حال پر توجہ کریں تو جا بجا قدرت کی فیاضیاں دکھائی دیں گی ۔ قومی اور ملی قیادت کا بحران اگر ختم ہو جائے تو ہم اپنے وسائل پر زندہ رہنے کی مکمل اور بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمیں جن اہداف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئیے ۔

ہمیں سب سے پہلے نظریاتی تشخص کا دفاع کرنا چاہئیے ۔ قومیں معاشی بحران سے ختم نہیں ہوتیں مگر نظریاتی اور ثقافتی شناخت کھو کر تاریخ میں مرقع عبرت بن جاتی ہیں ۔ غربت بلاشبہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے مگر اس کا علاج معاشی ناہمواریوں کو ختم کر کے سادگی کے کلچر کو اپنانے میں مضمر ہے ۔ قومی سطح پر ہم ایک سادہ طرزِ زندگی کے خوگر نہیں رہے ۔ اس سلسلے میں حکام بالا اور خوش حال طبقے کو مثال قائم کرنا ہو گی ۔ ہمارے بہت سے وسائل غیر تعمیری کاموں پر صرف ہو رہے ہیں ۔ قرضوں کی معیشت کو ختم کر کے خود انحصاریت کے کلچر کو رواج دینا ہوگا ۔

جہالت اور خواندگی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ دوسرے تمام مسائل اس کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں ۔ قومی سطح پر بہت جلد ایسی تعلیمی پالیسی بنانا چاہئیے جس میں کم سے کم وقت میں مکمل خواندگی کی سطح کو حاصل کیا جاسکے ۔ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا ۔ بیسیوں قسم کے نصاب ہائے تعلیم کے بجائے قومی سطح کے ایک مربوط نصابِ تعلیم کو جو ہماری نظریاتی اور ثقافتی قدروں سے ہم آہنگ ہو ، فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ تعلیمی معیار اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اساتذہ کی ہمہ وقت تربیت اور ان کی ذہنی آسودگی کا اہتمام نہ کیا جائے ۔ ہمارے ہاں اساتذہ کی علمی ، تدریسی اور تحقیقی ترقی کے لیے موزوں ادارے نہیں بنائے گئے ہیں ۔

دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اب سنجیدگی سے اپنے نصابات کی تشکیلِ جدید پر توجہ دینا ہو گی ، وگرنہ جس قسم کے ائمہ اور خطیب وہ پیدا کر رہے ہیں‘ نئی نسلیں ان سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور معاشرتی وحدت کا نقیب ہے ۔ ہم نے اس دینِ فطرت کو فقہی تنگ نائیوں کا شکار کر رکھا ہے اور یہ جدید تمدنی اور سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔ علمائے کرام اگر اخلاص اور شعور سے توجہ دیں گے تو وہ ایک ایسی راہِ عمل ترتیب دے سکتے ہیں ، جس سے ان کے علمی اور معاشرتی وقار میں اضافہ بھی ہو گا اورامت کی وحدت کے سامان بھی پیدا ہوں گے ، جن کی موجودہ ماحول میں اشد ضرورت ہے ۔





قومی وحدت کے فروغ میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے کردار کی اہمیت ہر صاحب نظر پر واضح ہے ۔ مگر ہمارے چینل حالاتِ حاضرہ پر تبصرے تو بہت اچھے کرتے ہیں لیکن قومی وحدت کے حصول کے لیے کوئی نمایاں خدمات انجام نہیں دے رہے ۔ ہمیں ابلاغ کے ان ذرائع سے یہ بھی اختلاف ہے کہ وہ تفریح کے مثبت پروگرام پیش کرنے کا تخلیقی شعور نہیں رکھتے ۔ ان کی کمرشل ضرورتوں کا احترام بجا مگر پروگراموں کی علمی اور ثقافتی سطح کو اپنے مخصوص نظریاتی تشخص کے حوالے سے پیش کرنا ، ایک قومی ضرورت ہے ۔ میڈیا کو اگر قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تو قوم کو بہت جلد مایوسیوں سے نکال کر عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے ۔





معاشی سطح پر نوجوانوں کو میٹرک کے بعد ایسی فنی اور ووکیشنل تعلیم فراہم کی جائے ، جس کے باعث وہ محض دفتروں میں ملازمت تلاش کرنے کے بجائے اپنی فنی مہارتوں کے ذریعے سے معاشرے کی خدمت کرنے کے ساتھ اپنے لیے باوقار معیشت کا انتظام بھی کریں ۔ اسی طرح گھریلو خواتین کے لیے بالخصوص دیہاتوں میں ایسے صنعت و حرفت کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں جس سے ان خاندانوں کی معاشی کفالت میں مدد ملے اور قومی معیشت کو بھی اس سے سہارا ملے ۔ قوم کی سیاسی ، معاشی ، عدالتی اور تعلیمی اصلاح سے زیادہ اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کا دستوری تقاضا ہے کہ ہم باشندگانِ وطن کو بہترین مسلمان بنائیں ۔ ان کی اخلاقی تربیت کے لیے تمام قسم کے تعلیمی ، دعوتی اور ابلاغی وسائل کو بروئے کار لائیں ۔ اس سلسلے میں ایک ملک میں عوامی کتب خانوں کو رواج دینا چاہئیے ۔ نیز بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک مستقل تعلیمی چینل ترتیب دینا چاہئیے جو ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کے مقاصد کو پورا کر سکے ۔

پاکستان میں مایوسی کی جو لہر دکھائی دیتی ہے ، یہ عالمی استعمار اور اس کے 
مقامی گماشتوں کی پیدا کردہ ہے ۔ یہ ملک آج سے ساٹھ سال پہلے جن حالات میں معرضِ وجود میں آیا ، اس کی نسبت تو آج ہم بہت ترقی کر چکے ہیں ۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں ۔ ہمارے وسائلِ زندگی میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے ۔ ہم تعلیم اور ابلاغ کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں ۔ ہمارا ایک روشن مستقبل ہے اور ہمیں انشاءاللہ اس وطن عزیز کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل بنانا ہے اور امنِ عالم کے فروغ میں اپنا مثبت کردار انجام دینا ہے ۔ معاشرے میں ہر نوع کے ذمہ داران اٹھیں اور مملکت کی عزت اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ حکمرانوں اور قیادت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں مگر علمائے کرام ، اساتذہ اور ابلاغ کے اداروں پر بھی اس تبدیلی کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ع

وہ جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب



Pakistan 14 august, urdu speech, independance day. youm e pakistan, pakistan k masael ore un ka hal. Paksitan ki ehmeat

22 جولائی، 2011

sahadat hassan minto k engloindian pagal

saadat hassan manto kay englo indian pagal by orya maqbul jaan
sahadat hassan minto k afsanay engloindian pagal
سعادت حسن منٹو کے انگلوانڈین پاگل

20 جولائی، 2011

اسلام کی قیمت بیس پنس


اسلام کی قیمت بیس پنس

  

سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔

 



لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔



ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔



امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!



 

ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔



بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔



 

ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛ کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔



اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔۔

اور اسکے بعد۔۔



ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔



مگر یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔



یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔



اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔



اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔



صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔



یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے

!!!

 

19 جولائی، 2011

کیا میں چور ہوں؟

کیا میں چور ہوں؟




ایک سوڈانی ڈاکٹر کہتا ہے کہ وہ میڈیکل کی ایک سپیشلائزیشن کے پہلے پارٹ کے امتحان کے سلسلہ میں ڈبلن گیا۔۔ اس امتحان کیلئے فیس ۳۰۹ پاؤنڈ تھی۔ مناسب کھلے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے متعلقہ ادارے میں ۳۱۰ پاؤنڈ ادا کیئے، بھاگ دوڑ اور رش کے باعث باقی کے پیسے لینا یاد نہ رہے، امتحان دے کر واپس اپنے ملک چلا گیا۔ واپسی کے کُچھ عرصے بعد اُسے سوڈان میں ایک خط موصول ہوا، خط کے ساتھ ایک پاؤنڈ کا چیک منسلک تھا اور ساتھ ہی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ اُسے ایک پاؤنڈ کا یہ چیک کس سلسلے میں بھیجا گیا تھا۔۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اس قصے نے مُجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد دلا دیا ہے۔۔ سن ۱۹۶۸ کا ذکر ہے جب میں نے انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی کے خرطوم میں ایجنٹ سے ایک لاری مبلغ ۲۴۰۰ سوڈانی پاؤنڈ میں خریدی۔ اب میں جو کُچھ آپ کو بتانے جا جا رہا ہوں اُس پر زیادہ حیران نہ ہوں، یہ اُن اچھے دنوں کا واقعہ ہے جب انسانی اقدار مادیت پر حاوی ہوا کرتی تھیں،،، لاری خریدنے کے کوئی چار یا چھ مہینے کے بعد مُجھے اُس ایجنٹ سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں درج تھا کہ انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ لاری کی پیداواری لاگت اور بیچنے کی قیمت میں حسابی غلطی ہو گئی تھی۔ اصولا ہمیں ۲۳۷۰ پاؤنڈ لینا چاہیئے تھے مگر ہم نے ۲۴۰۰ پاؤنڈ وصول کر لیئے ہیں۔ ساتھ ہی مُجھے کہا گیا تھا کہ میں اُن سے رابطہ کروں تاکہ وہ مُجھے ۳۰ پاؤنڈ لوٹا سکیں۔
ان ۳۰ پاؤنڈ کے ملنے پر مُجھے اس قدر خوشی ہو رہی تھی جو اس بناء پر نہیں تھی کہ مُجھےغیر متوقع طور پر ۳۰ پاؤنڈ کی آمدنی ہونے جا رہی تھی۔ اور نہ ہی ۳۰ پاؤنڈ میرے لئے کوئی ایسی بڑی رقم تھی جس سے میرے دن پھرنے جا رہے تھے۔ مُجھے خوشی اس عالی القدر اخلاق، ا مانت کی اس نادر مثال اور انسانی اقدار کی اس عظیم حفاظت پر ہو رہی تھی جس سے برطانوی قوم بہرہ ور تھی۔
 

جبکہ میں اپنے ہی آس پاس، اپنے ہم مذہب اور ہم جنس کاروباری لوگوں، تاجروں، دُکانداروں اور حتیٰ کہ جن پیشوں سے مُنسلک لوگوں کو عملی اخلاق و کردار اور اعلیٰ معاملات کے نمونہ ہونا چاہیئں اُنکی خیانت، بد دیانتی، غلط ترین معاملہ، بد اخلاقی اور کم ظرفی کو دیکھتا ہوں تو غم اور غصہ کے مارے رو پڑتا ہوں۔ سخت رو، درشت اور احساس سے عاری لوگ جو اپنے ہی ہموطنوں سے امانت و صداقت سے دور رہ کر برتاؤ کرتے ہیں۔ دوسروں کے حقوق غصب کر لینا یا قومی سرمایہ کو باطل طریقوں سے لوٹنا تو بعد کی بعد ہے، عوام الناس کو کس طرح لوٹا جائے کے طریقوں پر اس طرح سوچا اور غور کیا جاتا ہے جس طرح کہ گویا یہی انکی عاقبت کو سنوارنے والا معاملہ ہو۔ مذہب کی تعلیمات کی تو کُچھ پرواہ ہی نہیں رہی، دونوں ہاتھوں سے پیسہ لوٹنے کو نصب العین بنا لیا گیا ہے۔
 
معاف کیجیئے میں موضوع سے ہٹ کر غصہ کی رو میں بہہ گیا ہوں کیوں کہ اب جو بات مُجھے غصہ دلا رہی ہے وہ مُجھے ۱۹۷۸ کا وہ یاد آنے والا واقعہ ہے جب میں پہلی بار سیر و تفریح کیلئے لندن گیا۔ اُس وقت لندن جانے کا تصور میرے لئے بہت ہی فرحت بخش اور میرا مقصد وہاں کی ہر تفریح اور سیر و سیاحت والی جگہ سے لطف اندوز ہونا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سفر کو اپنے لئے یادگار بنانے کیلئے گیا تھا۔
 
میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت ۱۸ پنس ہوا کرتی تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید لیتے تھے۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
 
میں نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
 
اس بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟

اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔

کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیں کہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔


مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو  چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ وہ جسے بھی چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!


مزید حفاظت کے لئے ایک عدد سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت ھے، جو 25 گھنٹے چاق و چو بند ڈیوٹی انجام دے سکے ۔ پرکشش تنخوہ کے علاوہ مراعات بھی۔ انرجی سیور کی فل پروف سیکیورٹی کے لئے آج ھی رابطہ کریں۔

 
 
Special Thanks to Muhammad Saleem Shanto for translating this


اٹکی ہوئی سوئی


اٹکی ہوئی سوئی


 

ایک طالبعلم مضمون نویسی جیسے عام مضموں میں فیل ہوا تو سکول کے مہتمم نے اُستاد کو اپنے دفتر میں بلا کر اس طالبعلم کے اس قدر عام اور آسان مضمون میں فیل ہونے کا سبب دریافت کیا۔
اُستاد نے بتایا کہ جناب یہ لڑکا مضمون نویسی میں اصل موضوع سے توجہ ہٹا کر اپنے ذاتی افکار کی طرف لے کر چلا جاتا ہے، اِس لیئے مجبوراً سے فیل کرنا پڑا۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا ٹھیک ہے کوئی مثال تو دو تاکہ مُجھے پتہ چلے کہ تمہاری بات صحیح ہے؟
اُستاد نے بتایا، میں نے اِسے موسم بہار پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اِس طرح لکھا: موسم بہار سال کا خوبصورت ترین موسم ہے۔ کھیت کھلیان سر سبز اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ ان کھیت کھیلانوں کے ہرا بھرا ہونے سے اونٹوں کیلئے چارے کی فراہمی بہت ہی آسان ہوجاتی ہے۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ اس سے ہر قسم کی بار برداری اور آمدورفت کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اونٹ ایک پالتو جانور ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس طرح اس طالبعلم نے اصل مضمون اور اسکے عنوان کو بھلا اپنی ساری توانائی اونٹ کی غزل سرائی پر خرچ کی۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا، نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا، اصل میں تُم نے عنوان ہی ایسا دیا تھا جس میں موسم بہار کی سرسبزی اور شادابی کا تعلق زراعت اور حیوانات کے پالنے وغیرہ سے بنتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ طالبعلم اس مشابہت کی وجہ سے اصل موضوع کو بھول کر کسی اور سمت میں چلا گیا۔
اُستاد نے کہا، میں ایسا نہیں سمجھتا، ایک بار میں نے اِسے جاپان کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اس طرح لکھا کہ؛ جاپان ایک ترقی یافتہ مُلک ہے جو اپنی مصنوعات اور خاص طور پر اپنی کاروں کی مصنوعات اور برآمدات کیلئے پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ کاریٰں پوری دُنیا میں انسانوں کے سفر کے وسائل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں مگر بدو اپنی آمدورفت کے وسائل کیلئے اونٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے پوچھا، کیا تمہارے پاس ان دو مثالوں کے علاوہ بھی کوئی اور مثال ہے؟
اُستاد نے جواب دیا، جی ہاں جناب، اِسے آپ کوئی سا بھی عنوان مضمون لکھنے کیلئے دیدیں، یہ ایک سطر اُس موضوع پر لکھ باقی کا مضمون اونٹ کی مدح سرائی پر لکھ کر پورا کرتا ہے۔ ایک بار میں نے اسے ایک ایسا عنوان دیا جس سے اسکا ذہن اونٹ کی طرف جا ہی نہ سکے مگر اس نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ میں نے اسے دور حاضر کی بہترین ایجاد کمپیوٹر پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ یوں لکھا کہ؛ کمپیوٹر دورِحاضر کی مفید ترین ایجاد ہے، شہروں میں تو اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جا رہا ہے مگر بدوؤں کے پاس کمپیوٹر کہاں سے آئے۔ اُن کے پاس تو اونٹ ہوتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہتمم صاحب نے مدرس سے کہا، تم اس طالبعلم کو فیل کرنے میں حق بجانب ہو۔ ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو۔
طالبعلم کو اپنے فیل ہونے پر بہت غصہ آیا، اُس نے وزیرِ تعلیم کو ایک خط لکھ ڈالا۔
جناب وزیرِ تعلیم صاحب، السلام ُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں آپ جناب کے علم میں اپنے اوپر ہونے والے ایک ظُلم کی روئیداد لانا چاہتا ہوں۔ میں اپنی جماعت کے ذہین طلباء میں شمار ہوتا ہوں مگر اس کے باوجود بھی مُجھے فیل کر دیا گیا ہے۔ جس پر میرا صبر اونٹ کے صبر جیسا ہے۔ کیونکہ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ جناب کے علم میں مزید یہ بات بھی لانا چاہتا ہوں کہ اونٹ کی کوہان میں وافر مقدار میں پائی جانے والی چربی اونٹ کیلئے کئی دنوں کیلئے طاقت اور تونائی کی فراہمی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اونٹ کی آنکھوں کی مخصوص بناوٹ اسے صحرائی ریت کے بگولوں اور اندھیوں میں حفاظت کا باعث بنتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میری آپ جناب سے التجاء ہے کہ مُجھ پر ہونے والے اس ظلم کا سدِباب کریں بالکل اسی طرح جس طرح آجکل کے دور میں اونٹ کی کلیجی کے سندوئچ کھانے کا فیشن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس عادت کے سدِباب کی اشد ضرورت ہے۔

دوسروں کی قدر کرنا سیکھیئے

 


خاوند سارے دن کے کام سے تھکا ہارا گھر واپس لوٹا ۔ ۔ ۔


تو کیا دیکھتا ہے کہ اُس کے تینوں بچے گھر کے سامنے ۔ ۔ ۔

کل رات کے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی مٹی میں لت پت کھیل رہے ہیں۔

گھر کے پچھواڑے میں رکھا کوڑا دان بھرا ہوا اور مکھیوں کی آماجگاہ ہوا ہے۔
گھر کے صدر دروازے کے دونوں پٹ تو کھلے ہوئے تھے ہی،

مگر گھر کے اندر مچا ہوا اودھم اور بے ترتیبی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔

کمرے کی کُچھ لائٹیں ٹوٹ کر فرش پر بکھری پڑی تھیں تو قالین دیوار کے ساتھ گیا پڑا تھا۔
ٹیلیویژن اپنی پوری آواز کے ساتھ چل رہا تھا تو بچوں کے کھلونے فرش پر بکھرے ہوئے تھے اور کپڑوں کی مچی ہڑبونگ ایک علیحدہ کہانی سنا رہی تھی۔


کچن کا سنک بغیر دُھلی پلیٹوں سے اٹا ہوا تھا تو دسترخوان سے ابھی تک صبح کے ناشتے کے برتن اور بچی کُچھی اشیاء کو نہیں اُٹھایا گیا تھا۔

فریج کا دروازہ کھلا ہوا اور اُس میں رکھی اشیاء نیچے بکھری پڑی تھیں۔

ایسا منظر دیکھ کر خاوند کا دل ایک ہول سا کھا گیا۔ دل ہی دل میں دُعا مانگتا ہوا کہ اللہ کرے خیر ہو، سیڑھیوں میں بکھرے کپڑوں اور برتنوں کو پھاندتا اور کھلونوں سے بچتا بچاتا بیوی کو تلاش کرنے کیلئے اوپر کی طرف بھاگا۔ اوپر پہنچ کر کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں غسلخانے سے پانی باہر آتا دِکھائی دیا تو فوراً دروازہ کھول کر اندر نظر دوڑائی، باقی گھر کی طرح یہاں کی صورتحال بھی کُچھ مختلف نہیں تھی، تولئیے پانی سے بھیگے فرش پر پڑے تھے۔ باتھ ٹب صابن کے جھاگ اور پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا اور اُسی کا پانی ہی باہر جا رہا تھا۔ ٹشو پیپر مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، ٹوتھ پیسٹ کو شیشے پر ملا ہوا تھا۔ خاوند نے یہ سب چھوڑ کر ایک بار پھر اندر کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا تو انتہائی حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُسکی بیوی مزے سے بیڈ پر لیٹی ہوئی کسی کہانی کی کتاب کو پڑھ رہی تھی۔ خاوند کو دیکھتے ہی کتاب نیچے رکھ دی اور چہرے پر ایک مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی؛ آپ آ گئے آفس سے، کیسا گُزرا آپکا دِن؟


خاوند نے بیوی کا التفات اور استقبال نظر انداز کرتے پوچھا؛ آج گھر میں کیا اودھم مچا پڑا ہے؟


بیوی نے ایک بار پھر مُسکرا کر خاوند کو دیکھا اور کہا؛ روزانہ کام سے واپس آ کر کیا آپ یہی نہیں کہا کرتے کہ میں گھر میں رہ کر کیا اور کونسا اہم کام کرتی ہوں؟


خاوند نے کہا؛ ہاں ایسا تو ہے، میں اکثر یہ سوال تُم سے کرتا رہتا ہوں۔


بیوی نے کہا؛ تو پھر دیکھ لیجیئے، آج میں نے وہ سب کُچھ ہی تو نہیں کیا جو روزانہ کیا کرتی تھی۔

*****

میرا پیغام


ضروری ہے کہ انسان دوسروں کی محنت اور اُن کے کیئے کاموں کی قدر اور احساس کرے کیونکہ زندگی کا توازن مشترکہ کوششوں سے قائم ہے۔ زندگی کچھ لینے اور کچھ دینے سے عبارت ہے۔ جس راحت اور آرام کی معراج پر آپ پہنچے ہوئے ہیں اُس میں دوسروں کے حصہ کو نظر انداز نا کیجیئے۔ ہمیشہ دوسروں کی محنت کا اعتراف کیجیئے اور بعض اوقات تو صرف آپکی حوصلہ افزائی اور اور قدر شناسی بھی دوسروں کو مہمیز کا کام دے جایا کرتی ہے۔ دوسروں کو اتنی تنگ نظری سے نا دیکھیئے۔

شراب اور انگور




مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟
مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔