ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 جولائی، 2012

بساط الٹ چکی ہے: اوریا مقبول جان صاحب کا برما کے حالات پر ایک عمدہ کالم





بساط الٹ چکی ہے: اوریا مقبول جان صاحب کا برما کے حالات پر ایک عمدہ کالم
برما کے مسئلے کا تھوڑا سا تاریخی پس منظر، موجودہ حالات اور میڈیا و سوشل میڈیا کا کردار










25 جولائی، 2012

شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار: برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف پروپیگنڈا


برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف پروپیگنڈا 
(شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار)



Tags:
Burma Mein Qatl-e-Aam Kay Khalaf Propaganda
Burma massacre Muslim
Buddhist terrorists

21 جولائی، 2012

ہلال رمضان:اختلاف امت ختم کرنے کا ایک راستہ


 
ہلال رمضان 
اوریا مقبول جان 
اختلاف امت ختم کرنے کا ایک راستہ
Hilal ramazan
oriya maqbool jan
Ikhtilaf umat khatm karnay ka tareeqa

11 جولائی، 2012

موسیقی پلس شرک والی موسیقی سے پرہیز کریں





موسیقی پلس شرک والی موسیقی سے پرہیز کریں
گانوں میں کفریہ اشعار


ترقی یافتہ اس دور میں‌ ہم نے قُرآن کی تلاوت کو چھوڑ کر موسیقی کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے۔ اللہ معاف کرے ہمیں‌اس میں بہت لُطف ملنے لگ گیا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے موسیقی سنتے ہیں‌۔
آپ نے اکثر نہیں‌بلکہ زیادہ تر دیکھا ہو گا کالجز و اسکول میں، ڈرائیونگ کرتے ہوئے،پڑھتے ہوئے ، شادیوں‌پر، کھانا کھاتے ہوئے لوگوں‌کے ہاتھ میں‌موبائل نظر آتے ہیں‌ کوئی ایس ایم ایس کر رہا ہے کوئی کسی کو گانے سینڈ کر رہا ہے کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔ کیا یہ جہالت نہیں‌ہے۔کوئی ہم سے یہ کہہ دے کہ یار تیرے فلاں‌گانا ہے تو فورا جواب ملے گا کہ ہاں‌یار ہے تم بتائو کہ تمہیں‌کون کون سا چاہیے؟ کیا کبھی انہوں نے یہ پوچھا کہ یار تیرے پاس کوئی اسلامی کتاب ہے جس پڑھ کر میں‌ اپنی غلطیوں‌کو ٹھیک کر سکوں؟ نہیں‌ہم ایسا نہیں‌پوچھیں‌گے کیونکہ ہمیں‌دُنیاوی چیزوں‌میں‌مزہ ملتا ہے نا کہ دینی نعوذ باللہ اللہ معاف کرے ہمیں۔
موسیقی میں‌اس قدر کھوئے ہوئے ہیں‌ کہ اُس کے الفاظ  کو بھی غور سے نہیں‌ سنتے کہ اُس میں‌ کیا کیا گا جاتے ہیں‌گانے والے، شرک سے بھری ہوتی ہے انڈیا کی موسیقی لیکن ہم اُس کو مزے لے لے کر سُنتے ہیں۔شرم آنی چاہیے ہمیں ایسا کرتے ہوئے۔آپ دوستوں‌اور بھائیوں‌سے کچھ ایسے ہی الفاظ شیئر کرتا ہوں‌ جسے ہمارے ہی ایک پاکستانی نے گایا ہے جو انڈیا میں‌بڑی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔نام ہے راحت فتح علی خان،اب ذرا غور کیجیئے گا


فلم : لو آج کل 
 
گانا :۔ مانگا جو میرا ہے جاتا کیا تیرا، میں‌نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی، کیسا خُدا ہے تو بس نام کا ہے جا رَبا تیری اتنی سی بھی نہ چلی

نعوذ باللہ،نعوذ باللہ،نعوذ باللہ،نعوذ باللہ

دوستو ہم کبھی کبھی انجانے میں‌سہی لیکن بہت بڑا گُناہ کر جاتے ہیں، لیکن جو جان بوجھ کر یہ کرتے ہیں‌اُن کا کیا؟ انجانے میں‌ غلطی ایک بار ہوتی ہے اور جو بار بار ہو اُسے غلطی نہیں‌کہتے۔ ہمیں‌اس چیز پر غور کرنا ہو گا ورنہ ہم تباہی کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔
موسیقی یقینا آج کل کے دور میں نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے کر جارہی ہے اور موسیقی بھی ایسی جو شرکیہ الفاظ سے بھری ہو۔  افسوس اس بات کا نہیں کہ کافر ان کو لکھ رہے ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ نام کے مسلمان اور پاکستانی قوم ان گانوں کو گا رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم لوگ ان گانوں کو سمجھے اور دیکھے بغیر ان کو بہت مزہ لے کر سنتے ہیں ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر ہم میں‌عقل نام کی کوئی چیز ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آخر اس موسیقی میں ہے کیا اور کیسے الفاظ پر مشتمل ہے جان بوجھ کر ہم ایسے واحیات اور شرک سے بھرے گانوں کو سنتے ہیں جو کہ ہمیں‌ گمراہی اور جہنم کی طرف لے کر جا کر رہا ہے۔ آپ سے کچھ شیئر کرنا ہے پڑھ کو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یہ موسیقی کیسے مسلمانوں کے لیے جہنم کا ذریعہ بن رہی ہے۔



















 ربط 



اہم بات: کسی اسلامی معاشرے میں کسی کفریہ بات کا غلطی سے منہ سے نکل جانا  تو  مانع تکفیر ہو سکتا ہے، لیکن کسی ایسے معاشرے میں جہاں دین کی تعلیم اور فہم کا حصول ممکن ہو دین سے اعراض کرتے ہوئے کسی ایسے کفریہ شرکیہ قول کا مرتکب ہونا جس کو کتاب و سنت میں تفصیلا بیان کیا گیا ہو خالص کفر اور کسی مسلمان کو اسلام سے خارج کر دینے والا عمل ہے۔ جس کو علمائے امت نے نواقض اسلام کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اوپر کئی کفریہ اقوال کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے ہر ایک نواقض اسلام کلمے کو توڑ کر کسی بھی کلمہ گو کو مرتد کر دینے والا ہے۔
نعوذ باللہ، اللہ کی پناہ اس سے
 

10 جولائی، 2012

عالمی طاقت کی بےبسی اور انھیں خدا ماننے والے




تاریخ کا یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ ایک عالمی طاقت جو خود کو واحد عالمی طاقت سمجھتی ہو جس کے ہتھیاروں کی تکنیکی خوبی ایسی ہو کہ اس کی گرد کو بھی کوئی نہ پہنچ پاتا ہو، وہ چند ہزار طالبان کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہو جائے کہ اپنی ناکامی اور خفت کا ملبہ ایک ایسے ملک میں "بسنے والے" تین یا چار ہزار حقانی نیٹ ورک کے لوگوں پر لگا دے. یہ "بسنے والے" میں نے اس لیے لکھ دیا ہے کہ یہ امریکہ کا کہنا ہے ورنہ جس نے افغانستان دیکھا ہے اسے علم ہونا چاہئیے کہ کابل کے الٹرا ریڈ زون تک شمالی وزیرستان سے جا کر پہنچنا کسی عقلمند کا کام نہی.... یہ تو ہونا تھا اس لیے کہ آج سے گیارہ سال قبل جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا تو میرے ملک کے طاقت کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے دانشور، ادیب، سیاستدان اور جرنیل بھی یہی کہتے تھے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے. افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں. یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح مرے جائیں گے

ایسے میں پورے ملک میں میرے جیسے چند "بیوقوف" لوگ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے. آج موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے. کسی قوم کے سینے عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے پر آویزاں ہیں

امریکہ اپنی شکست کا بوجھ اس پاکستان پر ڈال رہا ہے جس کے سیاستدان، دانشور، سول سوسایٹی حتی کہ جرنیل ان کے ٹکڑوں پر پلنے کو فخر سمجھتے رہے ہیں. اس وقت میرے ملک میں دو گروہوں میں جنگ ہے. ایک وہ جو سر تا پا الله پریقین رکھتے ہیں اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو قوم کو ڈرا رہا ہے. یہ سول سوسایٹی کے فیشن زدہ لوگ اور طاقت کے مندر میں سجدہ ریز دانشور کمال کی گفتگو کر رہے ہیں... دیکھو باز آ جاؤ انتہا پسند چھا جائیں گے....واہ جو امریکہ سے لڑے گا وہی چھائے گا کبھی بزدل بھی چھائے ہیں؟

ایک اور منطق اور درف طنی چھوڑی جا رہی ہے. امریکہ وہاں رہے گا جائے گا نہی، کیا خوش فہمی ہے. میرے یہ عظیم دانشور اور سول سوسایٹی کے مہربان جو اس ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں کسی انسان کی مدد کرتے تو نظر نہی آتے، امریکہ کی جنگ لڑنے میڈیا میں موجود ہیں. یہ کمال کے لوگ ہیں. جن دسمبر 1979میں روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو یہ اس ملک کی سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے. وہ دیکھو سرخ پھریرا سرحد عبور کرنے والا ہے، تمہاری داڑھیاں نوچ لی جائیں گی اور سارا انقلاب ہوا کی طرح اڑا دیا جائے گا. کیسے کیسے مضمون لکھے گئے. کیسی کیسی نظمیں تحریر ہوئیں، سرحدوں پر انقلاب کے سویرے کی نوید سنائی گئی. لیکن ان سب کو کیا ادراک کہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی قوم بھی بستی ہے جو صرف اور صرف الله پر اعتماد کرتی ہے. میں سوویت یونین کی ذلتوں کی داستان بیان نہی کرنا چاہتا. اس ملک ہی نہی پوری دنیا کی سڑکوں نے اس عالمی طاقت کو یوں رسوا ہوتے دیکھا کہ پورے یورپ میں صرف عظیم سوویت یونین کی لڑکیوں کا جنسی کاروبار سالوں تک ہوتا رہا اور آج بھی جاری ہے.. جس امریکا کو وہ کمیونسٹ پچھتر سال گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے

یہ لوگ بھی کمال کے ہیں. اگر چی گویرا بولیویا سے کیوبا جا کر لڑے تو ہیرو، اگر فرانس کے لوگ جرنل گیاپ کے ساتھ جا کر ویتنام میں کاروائیاں کریں تو عظیم. اگر سارتر الجزائر جا کر لڑے تو عظیم انقلابی. لیکن اگر کوئی الله پر یقین رکھے اور فلسطین، بوسنیا، چیچنیا یا افغانستان کے مظلوموں کی مدد اور عالمی طاقتوں کے خلاف لڑے تو دہشتگرد، امن و امان تباہ کرنے والا . کیا عجیب منطق ہے. ان سب کو اب کچھ سجھائی نہی دے رہا




8 جولائی، 2012

قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات


قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات










 Tags:

قادیانی پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کس طرح رکاوٹ بنتے رہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہم انکشافات
پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی راہ میں حائل مشکلات
منیر احمد ایسا شخص جو پاکستان کو کبھی ایٹمی طاقت نہ بناتا
ذوالفقار علی بھٹو کی دور اندیش اور مدبرانہ قیادت
Qadiani pakistan ki atami taqat bannay main kis tarah rukawat bantay rahay.
qadianion ki pakistan dushmani. 
dr abdul qadeer khan, urdu article on difficulties he faced in making atomic power.



5 جولائی، 2012

ہمارے وجود میں عوام کی رائے بولتی ہے۔

 



عوام کے ان منتخب نمائندوں میں کتنے ایسے ہوں گے جن سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ نیٹو(NATO) کس چیز کا مخفف ہے تو حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں گے، ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں گے، کوئی بڑھ کر جواب مانگے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں ۔ اگر ان پانچ سو کے قریب جمہوریت کے پرچم برداروں میں سے چند ایک یہ کہہ بھی دیں کہ یہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنازیشن ہے تو پھر ان "صاحبان علم" سے یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیوں اور کب وجود میں آئی تھی ۔ اس کے مقصد کیا تھے؟ اس میں کتنے لوگ شامل تھے تو جواب دینے والوں کی لسٹ اور مختصر ہو جائے گی ۔ یہ لوگ جو اس قوم کے فیصلوں کے مالک اور اس کی تقدیر لکھنے کے ذمہ دار ہیں جو ووٹ دینے اور ہاتھ اٹھانے میں ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں جیسا آغاز پاکستان کے زمانے میں ایک بوڑھے کا تھا۔ واقعہ یوں تھا کہ ممتاز دولتانہ جو مسلم لیگ کے رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی تھے، ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے، سامنے بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے نے دوسرے سے سوال کیا کہ یہ کون شخص ہے جو تقریر کر رہا ہے ۔ اس نے جواب دیا یہ ممتاز ہے، اس نے پھر پوچھا کون ممتاز۔ بوڑھے نے جواب دیا "یارے(یار محمد دولتانہ) دا پتر "۔ دوسرے بوڑھے نے جوش میں آ کر کہا "یارے دا پتر ہے تو زندہ باد"۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں تو یہ تک نہیں پتا کہ یہ "یارے دا پتر" یعنی نیٹو کیا تھا، کیا ہے اور کیا چاہتا ہے۔


شاید ہی کسی کو علم ہو کہ جنگ عظیم دوم میں کروڑوں لوگوں کا خون بہانے کے بعد جب اتحادی افواج کو فتح نصیب ہوئی تو اس کے بعد امریکہ، کینیڈا اور آٹھ یورپی ممالک نے نیٹو معائدے پر دستخط کیے۔ یہ اتحاد ان تمام ملکوں نے اپنے اتحادی اور دوست روس کے خلاف بنایا تھا جس کی افواج نے انھیں جنگ عظیم دوم جیتنے میں مدد کی تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر ہٹلر کی افواج روس کی جانب رخ نہ کرتیں تو جنگ عظیم دوم کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔


یہ امریکہ اور یورپ کا اپنے عظیم محسن، دوست اور اتحادی کے خلاف اتحاد ان کی سرشت میں چھپی بے وفائی اور منافقت تھی ۔ یہیں سے سرد جنگ کا آغاز ہوا جس کا انجام تب ہوا جب روس نے طاقت کے نشے میں افغانستان پر قبضہ کیا اور نہتے افغانوں نے اسے شکست فاش دی ۔ یہ وہی مجاہدین تھے جنہیں اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے امریکہ کے بانی قائدین کا ہم پلہ قرار دیا ۔ روس کے اس اتحاد کے مقابلے میں وارسا پیکٹ نامی ایک تنظیم بھی بنائی گئی تھی جس کے ممبر ممالک بعد میں نیٹو میں شامل ہو گئے۔


اب نیٹو نے اپنے دوسرے اتحادی، دوست اور ساتھی سے غداری کی ٹھانی ۔ جب سرشت میں بیوفائی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس بار وہ مسلمان مجاہدین تھے ۔ روس نے ہٹلر پر فتح کے لیے مدد کی تھی اور مسلمان مجاہدین نے روس کے خلاف فتح حاصل کی تھی۔


پاکستان ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے جس نے نیٹو کی پہلی بیوفائی یعنی روس کے خلاف جنگ میں اس نے ساتھ دیا اور پھر اپنے ہی بھائیوں اور پڑوسیوں کے خلاف بیوفائی میں بھی نیٹو کا ساتھ دیا۔
یہ بدقسمتی اور بھی شدید ہے اور نامہ اعمال اور بھی سیاہ۔


ہم نے اپنے ایک مسلمان بھائی اور پڑوسی کو پہلے ایک غاصب طاقت اور حملہ آور ملک روس سے نجات دلانے میں مدد دی۔ ہم الله کے ہاں بھی سرخرو تھے اور پڑوسی کی نظر میں بھی عزت دار، ہمیں اس مدد کے عوض چند روپے میسر آ گئے لیکن ہماری غیرت کو دولت کا ایسا چسکا پڑا کہ ہم نے اسی ملک پر قبضے کے لیے، اس کی آزادی سلب کرنے کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی ۔ ستاون ہزار دفعہ جہاز ہماری سرزمین سے اڑے اور انہوں نے وہاں موجود ہمارے مسلمان بھائیوں کے گھروں کو تباہ و برباد کیا اور ان کے جسموں کے پڑخچے اڑا دیے ۔ ہمارے نامہ اعمال اور فرد جرم میں یہ سب لکھا گیا ۔ ہم نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اس حدیث کا انکار کیا کہ مسلمان ایک جسد واحد ہیں ۔ اگر ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو گا تو پورے جسم کو تکلیف ہو گی ۔ ہم نے اس حدیث مبارکہ کا بھی انکار کیا کہ جس نے پڑوسی کے کتے کو بھی ایذا دی اس نے پڑوسی کو ایذا دی۔ مسلمان تو دور کی بات ہم نے انسانی تاریخ کے اس مروجہ اصول پر بھی لعنت بھیجی کہ کسی قوم پر جب کوئی بڑی طاقت بلکہ بہت سی طاقتیں چڑ دوڑیں تو اخلاقا اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہم سے تو وہ بے دین ادیب اور شاعر بہتر تھے جو اس طرح کے ظلم پر مضمون تحریر کرتے تھے اور شاعری لکھتے تھے۔


اب ایک دفعہ پھر ہم اپنے فرد جرم پر قوم کی مہر لگانے جا رہے ہیں ۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جس کو نیٹو کا مطلب بھی نہیں آتا وہ بھی اس کے حق میں ووٹ دیتا ہے ۔ جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو اگر کوئی شکایت کرے کہ یہ تو غلط ہوا تھا تو جواب دیا جاتا ہے کیوں ووٹ دے کر بھیجا تھا۔ مت دیتے ووٹ، اب ہم اٹھارہ کروڑ کے نمائندے ہیں ۔ ہم بیشک پورے ملک کو بیچ دیں، ہمیں اختیار ہے کیوں کہ ہمارے وجود میں عوام کی رائے بولتی ہے۔

☀▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬