ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 اکتوبر، 2012

غازی علم الدین شہید





غازی علم الدین : شہید ناموس رسالتﷺ

برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وہ وقت بہت کڑا تھا جب ایک طرف انگریز اپنی حکمرانی کے نشے میں مست ان پر ہر طرح کے ظلم ڈھارہا تھا تو دوسری طرف ہندو بنیا سیکڑوں برس کی غلامی کا بدلہ چکانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ جب ہندو
ں اور انگریزوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب مسلمان تھک چکا ہے اور اس بے بس و بے کس مخلوق سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تو انہوں نے اپنی خباثت ِباطنی کا آخری مظاہرہ شروع کردیا۔ ہر سمت سے شانِ رسول میں ہر روز نت نئی شکل میں گستاخی کی خبروں نے مسلمانوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ بجھی ہوئی راکھ تلے عشق و وفا کی وہ چنگاریاں ابھی سلگ رہی ہیں جو بھڑکیں گی تو سب گستاخوں کو اپنے ساتھ بھسم کردیں گی۔ 

پھر دنیا نے دیکھا کہ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں ان غیور اہلِ ایمان نے نہ تو گھربار کو آڑے آنے دیا نہ ان کی بے بسی ان کا راستہ روک سکی، نہ یہ وقت کی عدالتوں، جیلوں اور ہتھکڑیوں سے گھبرائے۔ ایسے ہی خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اُن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرأت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا:
”اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تےتَرکھاناں دَا مُنڈا بازی لے گیا‘‘
(ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔)


غازی علم دین 8 ذیقعدہ 1366ء بمطابق 4 دسمبر 1908ء کو لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نجاری (بڑھئی) ان کا پیشہ تھا۔ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے۔ وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے۔ بڑا بیٹا محمد دین تو پڑھ لکھ کر سرکاری نوکر ہوگیا لیکن علم دین نے موروثی ہنر ہی سیکھا۔ علم دین نے بچپن ہی میں بعض ایسے واقعات دیکھے جن کے نقوش ان کے دماغ پر ثبت ہوئے اور ان کی کردار سازی میں کام آئے۔ ماموں کی بیٹی سے منگنی تک علم دین کوگھر اورکام سے سروکار تھا۔ باہر جو طوفان برپا تھا اس کی خبر نہ تھی۔ اُس وقت انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ گندی ذہنیت کے شیطان صفت راجپال نامی بدبخت نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ایک دل آزارکتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ حکومت کو راجپال کے خلاف مقدمہ چلانے کو کہا گیا، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالعزیز اور اللہ بخش کو الجھا کر سزا دی گئی۔ الٹا چور سرخرو ہوا اور کوتوال کے ساتھ مل گیا۔ اخبارات چیختے‘ چلاّتے راجپال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جلسے ہوتے‘ جلوس نکلتے لیکن حکومت اور عدل وانصاف کے کان پر جوں نہ رینگی۔ مسلمان دلبرداشتہ تو ہوئے لیکن سرگرم عمل رہے۔

 دلّی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی۔ علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلّی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راجپال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک اور مقررآئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے۔ یہ علم دین کی اپنی زبان تھی۔ تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راجپال نے ہمارے پیارے رسول کی شان میں گستاخی کی ہے، وہ واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریرکا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی تائید کی کہ رسول کی ذات پر حملہ کرنے والے بداندیش کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے۔ وہ اپنے دوست شیدے سے ملتے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکرکرتے۔ لیکن پتا نہیں چل رہا تھا کہ راجپال کون ہے؟ کہاں ہے اُس کی دکان؟ اورکیا ہے اس کا حلیہ؟ شیدے کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے۔ بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمود غوثؒ کے احاطہ میں مسلمانوں کا ایک فقیدالمثال اجتماع ہوا، جس میں عاشقِ رسول، امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ علم دین اپنے والد کے ہمراہ اس میں موجود تھے۔ اس تقریر نے بھی اُن کے دل پر بہت اثرکیا۔ اُس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ”تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔“

علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا۔ معلوم ہوا کہ راجپال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔ اتنے میں راجپال کار پر آیا۔ کار سے نکلنے والے کے بارے میں کھوکھے والے نے بتایاکہ یہی راجپال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے۔

راجپال ہردوار سے واپس آیا تھا، وہ دفتر میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لیے ٹیلی فون کرنے ہی والا تھا کہ علم دین دفترکے اندر داخل ہوئے۔ راجپال نے درمیانے قدکے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔ پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929ءکو عمل درآمد ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپرد ِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ
باریابی جو ہو حضور مالک تو کہنا کہ کچھ سوختہ جاں اور بھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ ایسےتمغوں کے طلب گار وہاں اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔


ربط: نون میم  



Tags:
Ghazi ilm deen shaheed 31 october 1929
raaj pal, namoos e risalat,
asi galan hi karday reh gaey tay tarkhanan da munda baazi lay gaya, allama iqbal
ham batein hi kartay reh gaiey our tarkhanon ka beta baazi le gaya.

19 اکتوبر، 2012

حاضر جواب لکڑہارہ



ایک دفعہ ایک لکڑہارےکی  کلہاڑی جنگل  میں ایک  دریا میں گر جاتی ہے ۔۔۔  بیچارہ اسے تلاش کر کے تھک جاتا ہے مگر  کلہاڑی اسے مل ہی نہیں پاتی ۔ ۔ ۔ آخر کار پریشان   ہو کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے کہ اچانک سے ایک جن اس کے سامنے نمودار ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تو کیوں پریشان ہے۔۔۔
لکڑہارہ  اپنی پریشانی اس کو بتا دیتا ہے ۔  جن  اس کی داستان سن کر ( امتحان کے طور پر ) اس کے سامنے چاندی کی کلہاڑی پیش کرتا ہے اور  اس سے کہتا ہے کہ کیا یہ تمہاری کلہاڑی ہے ۔ لکڑہارہ  نا میں جواب دیتا ہے  ۔ ۔ ۔ اس  کے بعد جن سونے کی   ۔ ایک سونے کی کلہاڑی پیش کرتا ہے اور  کہتا ہے کہ کیا یہ تمہاری کلہاڑی ہے ۔ لکڑہارہ   پھر نا میں جواب دیتا ہے  ۔ ۔ ۔  جن ' اب کی بار  لکڑہارے کی اصل کلہاڑی  ( لوہے کی) ۔ ۔ پیش کرتا ہے اور   اور لکڑ ہارہ اسے لے لیتا ہے ۔
جن  لکڑہارے کی اس ایمانداری سے متاثر ہوکر  سونے اور چاندی کی دونوں کلہاڑیا ں بھی اس لکڑہارے کو انعام میں دے دیتا ہے ۔ ۔ اور لکڑہارہ  خوشی خوشی  اپنے گھر   واپس آ جاتا ہے ۔

چند دنوں کے بعد  وہی لکڑہارہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس اسی جنگل میں چلا جاتا ہے اور اتفاقا" اس مرتبہ اس کی بیوی دریا میں گر جاتی ہے  اور ڈوب جاتی ہے۔  پھر لکڑہارہ  تھک ہار کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور وہی جن پھر اس کے سامنےحاضر ہو جاتا ہے اور لکڑہارہ اس کو اپنی کہانی سناتا ہے ۔۔۔۔۔
اب کی بار جن اس کے سامنے ایک خوبصورت دوشیزہ  حاضر کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا یہی تمہاری بیوی ہے  ۔
لکڑہارہ  اس خوبصورت دوشیزہ کو دیکھ کر فورا" جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ ۔  یہی میری بیوی ہے ۔ ۔
جن  کو لکڑہارے کی اس بے ایمانی پر بہت غصہ آتا ہے  اور وہ کہتا ہے کہ اس جھوٹ و بے ایمانی کی سزا تم کو ضرور ملنی چاہیے۔۔۔۔
لکڑہارہ ۔۔ جن کو غصے میں دیکھ کر  عرض کرتا ہے کہ پہلے میری بات سنو ۔ ۔ ۔
کہ ہاں میں نے بے ایمانی کی اور میں نے جھوٹ بولا ۔ ۔ مگر  ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اگر میں اس خوبصورت  دوشیزہ کے جواب میں  " نا " کہتا تو تم اور ایک دوشیزہ لے کر آتے ۔ ۔
میں پھر " نا " کہتا ۔ ۔ ۔ تم پھر میں اصل بیوی کو  حاضر کرتے ۔۔۔۔۔ اب کی بار میں " ہاں " میں جواب دیتا اور تم  میری  ایمانداری سے متاثر ہو کر تینوں کو (میری بیوی اور  دونوں لڑکیوں) کو میرے حوالے کرتے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  " مگر میں غریب آدمی ہوں   ۔ ۔ ۔ اس مہنگائی کے زمانے میں میں تین تین بیویوں کو نہیں سنبھال سکتا ۔ ۔ ۔ اس لئے میں نے پہلی بار ہی  "ہاں " کہہ دیا  ۔ ۔ ۔ 

لکڑہارے کا جواب سن کر جن  بھی لاجواب ہو گیا اور اس سے کہا کہ بھائ ۔ ۔ جا تو اسی دوشیزہ کو لے جا  ۔ ۔ ۔ ۔

کالکی اوتار



کالکی اوتار

حال ہی میں بھارت میں شائع ہونے والی کتاب”کالکی اوتار“ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں يہ بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کا کالکی اوتار کا تذکرہ ہے ‘ وہ آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بن عبداﷲ ہیں۔

اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوگا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگراس کے مصنف پنڈت وید پرکاش برہمن ہندو ہیں اور الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔وہ سنسکرت کے معروف محقق اور اسکالر ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور معروف محققین پنڈتوں کے سامنے پیش کیاہے جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیاہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔

ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں ايک عظیم رہنما کا ذکر ہے۔ جسے ”کالکی اوتار“ کا نام دیا گیا ہے اس سے مراد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں، ان کو کسی کالکی اوتار کا مزید انتظار نہیں کرنا ہے، بلکہ محض اسلام قبول کرنا ہے، اور آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دليل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب”وید“ سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کیے  ہیں۔

1۔ ”وید“ کتاب میں لکھا ہے کہ”کالکی اوتار“ بھگوان کاآخری اوتار ہوگا جو پوری دنیا کوراستہ دکھائے گا۔ان کلمات کاحوالہ دينے کے بعد پنڈت ویدپرکاش يہ کہتے ہیں کہ يہ صرف محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔
2۔”ہندوستان“ کی پیش گوئی کے مطابق”کالکی اوتار“ ايک جزیرے میں پیدا ہوں گے اور يہ عرب علاقہ ہے، جیسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔
3۔ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ ”کالکی اوتار“ کے والد کا نام ’‘ وشنو بھگت“ اور والدہ کا نام ” سومانب“ ہوگا۔ سنسکرت زبان میں ” وشنو“ اﷲ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” بھگت“ کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں ”وشنو بھگت“ کا مطلب اﷲ کا بندہ یعنی ”عبداﷲ“ ہے۔سنسکرت میں ”سومانب“ کا مطلب امن ہے جو کہ عربی زبان میں ”آمنہ“ ہوگا اور آخری رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے والد کا نام عبداﷲ اور والدہ کا نام آمنہ ہے۔
4۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ”کالکی اوتار“ زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ يہ دونوں پھل حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مرغوب تھے۔ وہ اپنے قول میں سچا اور دیانت دار ہو گا۔ مکہ میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے صادق اور امین کے لقب استعمال کيے جاتے تھے۔
5۔ ”وید “ کے مطابق”کالکی اوتار“ اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہوگا اور يہ بھی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی مکہ میں بے حد عزت تھی۔
6۔ہماری کتاب کہتی ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار“ کو اپنے خصوصی قاصد کے ذريعے ايک غار میں پڑھائے گا۔ اس معاملے میں يہ بھی درست ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں اﷲ تعالی نے غار حرا میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذريعے تعلیم دی۔
7۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق بھگوان ”کالکی اوتار“ کو ايک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا” براق پر معراج کا سفر“ کیا يہ ثابت نہیں کرتا ہے؟
8۔ ہمیں یقین ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار“ کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں اﷲ نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔
9۔ ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق” کالکی اوتار“ گھڑ سواری،تیز اندازی اور تلوار زنیمیں ماہر ہوگا۔

پنڈت وید پرکاش نے اس پر جو تبصرہ کیا ہے۔ وہ اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھوڑوں،تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکاہے۔اب ٹینک،توپ اور مزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا يہ عقل مندی نہیں ہے۔ کہ ہم تلواروں،تیروں اور برچھیوں سے مسلح ”کالکی اوتار“ کا انتظار کرتے رہیں۔حقیقت يہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ”کالکی اوتار“ کے واضح اشارے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیر انداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے۔




When Kalki Avtar Will Apear (ownislam) Kalki Avtar Aor Muhammad (S.) URDU

11 اکتوبر، 2012

Hazrat Hamza bin Abdul Mutlib | حمزہ بن عبدالمطلب


Hazrat Hamza bin Abdul Mutlib | حمزہ بن عبدالمطلب

اھلِ مکہ عبادت و ریاضت، محنت و مشقت اور کھیل کود کی تھکاوٹ کے باعث نیند میں غرق تھے اور قریش بے ہوشی کی نیند میں بستروں پرپہلو بدل رہے تھے مگر ایک شخص تھا کہ اُس کا پہلوبستر سے نہیں لگ رہا تھا۔ وہ رات کو جلد بستر پر دراز ہو جاتا، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد انتہائی شوق و رغبت کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوتا کیونکہ اس نے اللہ سے ایک عہد کر رکھا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں جائے نماز پر کھڑا ہوتا اور اپنے رب سے دعا و مناجات کرنے لگتا، اس کی بیوی جب بھی اس کے دل سے گریہ و زاری کی سنسناہٹ سنتی تو جاگ اٹھتی۔ اُسے شوہر پر ترس آنے لگتا، وہ اسے کہتی کہ اپنے آپ پر رحم کھائو اور نیند بھی لے لیا کرو۔ شوہر جواب دینے لگتا تو منہ سے الفاظ نکلنے سے قبل آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے۔ وہ کہتا ’’خدیجہ! سونے کا وقت گزر گیا ہے۔‘‘
یہ اس وقت کی بات ہے جب محمدرسول اللہﷺ کی دعوت کو دیکھ کر قریش کے کان کھڑے ہو گئے تھے لیکن ابھی ان کی نیندیں نہیں اُڑی تھیں۔ یہ دور آپؐ کی دعوت کا بالکل ابتدائی دور تھا، اور آپؐ انتہائی خفیہ اور رازداری کے انداز میں دعوت پیش کر رہے تھے۔ اس وقت جو لوگ آپؐ پر ایمان لائے تھے ان کی تعداد انتہائی کم تھی۔ آپؐ پر ایمان نہ لانے والوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو آپؐ سے انتہائی محبت رکھتا تھا اور آپؐ کو بہت زیادہ عزت و احترام دیتا تھا۔ پھر یہ شخص آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کے مبارک قافلے میں شریک ہونے کے لیے ذوق و شوق سے آگے بڑھتا ہے تو معاشرہ و ماحول کا مزاج اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے نہ آباو اجداد کی اندھی تقلید اس کے راستے میں حائل ہوتی ہے۔ اسے مشرق میں ہونے والی باتیں تردّد میں ڈالتی ہیں نہ مغرب میں ہونے والا پروپیگنڈا شکوک و شبہات سے دوچار کرتا ہے۔
یہ شخص آپؐ کے چچا اور دودھ شریک بھائی حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب تھے۔ حضرت حمزہؓ اپنے بھتیجے کی عظمت و کمال سے بخوبی آگاہ تھے۔ بھتیجے کے معاملے کی حقیقت اور اس کے خصائل کی عمدگی بھی ان کے اوپر روزِروشن کی طرح واضح تھی، وہ آپؐ کو محض بھائی کا بیٹا ہونے کے ناتے ہی سے نہیں جانتے تھے بلکہ آپؐ کو بھائی اور دوست کی حیثیت سے بھی پہچانتے تھے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ اور آپؓ ایک ہی دور میں پیدا ہوئے تھے اور ہم عمر تھے۔ بچپن میں اکٹھے کھیلے تھے۔ بھائی بھائی کی حیثیت سے اٹھے بیٹھے تھے اور شروع ہی سے ایک راہ پر چلتے رہے تھے۔ البتہ… ان میں سے ہر کسی کی جوانی اپنے اپنے ڈھب پر گزری تھی۔
حضرت حمزہؓ طیّبات و مرغوباتِ زندگی کے حصول میں اپنے ساتھیوں کی راہ پر چل پڑے اور زعمائے مکہ اور ساداتِ قریش میں اپنا مقام بنانے میں مصروف ہو گئے جبکہ حضرت محمدﷺ اپنے قلب و روح کی روشنیوں میں گم ہو گئے جس نے آپؐ کے سامنے اللہ کی راہ کو روشن کیا اور آپؐ زندگی کی رونقوں سے کنارہ کش ہو کر غوروفکر اور ملاقاتِ الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہوگئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ ان دونوں جوانوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے مختلف سمت میں سفر شروع کردیا تھا لیکن اپنے خون (محمدﷺ) کے فضائل و خصائل ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت حمزہؓ کے ذہن سے محو نہیں ہوئے تھے… یعنی وہ فضائل و مکارم جنھوں نے اپنے موصوف کو لوگوں کے دلوں میں بلندمقام پر پہنچا دیا تھا اور اس کے عظیم مستقبل کی واضح تصویر پیش کر دی تھی۔
ایک روز صبح کے وقت حضرت حمزہؓ معمول کے مطابق باہر نکلے تو کعبہ کے گرد کچھ معززین قریش کو بیٹھے دیکھا۔ آپؓ بھی ان کے پاس جا بیٹھے اور ان کی باتیں سننے لگے جو وہ رسول اللہﷺ کے بارے میں کر رہے تھے۔ حضرت حمزہؓ نے پہلی بار قریش کو بھتیجے کی دعوت پر مضطرب دیکھا کہ آپؐ کے متعلق ان کی گفتگوئوں میں کینہ و بغض اور غیظ و غضب جھلک رہا تھا۔ اس سے قبل قریش نے آپؐ کی دعوت کے معاملے کو کوئی اہمیت نہ دی تھی۔ وہ اس سے عدم توجہ ہی برتتے رہے لیکن آج ان کے چہرے اضطراب و بے چینی اور غم و پریشانی سے بھرے دکھائی دے رہے تھے۔ حضرت حمزہؓ ان کی باتوں کو کافی دیر تک سنتے رہے اور ان کی باتوں کو مبالغہ آرائی اور غلط فہمی خیال کیا۔
ابوجہل نے بیٹھے ہوئے لوگوں سے زوردار انداز میں کہا : حمزہ سب سے زیادہ ان خطرات کو جانتا ہے جو محمد ؐکی دعوت سے پیدا ہورہے ہیں۔ لیکن یہ چاہتا ہے کہ معاملے کو اسی طرح چلنے دیا جائے یہاں تک کہ قریش سو جائیں، صبح اٹھیں تو ان کی صبح بُری ہو اور اس کا بھتیجا ان کے اوپر غالب آچکا ہو۔ قریش کے یہ معززین اپنی باتوں میں دھمکیاں دے رہے تھے اور چنگھاڑ رہے تھے۔ حضرت حمزہؓ ایک بار پھر مسکرائے اور ایک بار پھر پریشان ہوئے۔ جب لوگ اٹھ گئے اور ہر کسی نے اپنی راہ لی تو حضرت حمزہؓ کا سر نئے خیالات اور حالات سے بوجھل تھا، آپ اپنے بھتیجے کے مستقبل پر غوروخوض کررہے تھے، اپنے دل میں ایک نئے موضوع اور عنوان پر سوچ بچار کر رہے تھے۔
دن گزرتے گئے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ قریش کی چیخ و پکار دعوتِ رسولؐ کے گرد بڑھنے لگی۔ پھر یہ گلوگرفتگی دھمکیوں میں بدلنے لگی۔ حضرت حمزہؓ دور سے سارے منظر کا جائزہ لے رہے تھے۔ بھتیجے کا عزم و ثبات انھیں حیران کر دیتا ہے۔ آپؓ دعوت و ایمان کی راہ میں بھتیجے کی جاںنثاری کو تمام قریش کے سامنے ایک نئی چیز خیال کر رہے تھے حالانکہ قریش نے عزم و استقامت اور جاںنثاری کے بڑے بڑے واقعات دیکھے تھے۔ اس روز کوئی شک و شبہ رسولﷺ کی صداقت و عظمت کے بارے میں کسی کو دھوکادے سکتا تھا مگر حضرت حمزہؓ کے دماغ میں ایسا کوئی شائبہ راہ نہ پا سکتا تھا جو انھیں بھتیجے کی دعوت کے معاملے میں متردّد کرتا۔
حضرت حمزہؓ تو وہ بہترین شخص تھے جو جناب محمدﷺ کو ان کے معصومانہ بچپن سے لے کر طاہرانہ جوانی اور جوانی سے لے کر امانتدارانہ مردانگی تک خوب جانتے تھے۔ وہ آپؐ کو ایسے ہی جانتے تھے جیسے اپنے آپ سے واقف تھے۔ بلکہ اپنے سے بھی زیادہ جانتے تھے۔ وہ حضرت محمدﷺ کو اس وقت سے جانتے تھے جب دونوں شاہراہِ زندگی پر قدم پیما ہوئے تھے۔ ایک ساتھ کھیلے کودے تھے اور ایک ساتھ ہی بلوغت و شباب کی حدوں تک پہنچے تھے اور جنابِ محمدﷺ کی ساری زندگی سورج کی شعاعوں کی مانند صاف و شفاف تھی۔
حضرت حمزہؓ کو کوئی ایسا واقعہ تک یاد نہیں تھا جس میں جنابِ محمدﷺ کو غصہ و مایوسی، حرص و لاپروائی اور اشتعال میں دیکھا ہو۔ حضرت حمزہؓ محض جسمانی قویٰ سے ہی کام نہیں لیا کرتے تھے بلکہ غوروفکر اور عقل و دانش کو بھی کام میں لایا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ان کی طبیعت و مزاج کے خلاف تھا کہ آپ ایک ایسے انسان کی متابعت و پیروی اختیار نہ کریں جس کی پوری صداقت و امانت کو آپ جانتے تھے۔ اس طرح آپؓ نے اپنے قلب کو اس معاملے پر مرکوز کرلیا جو عنقریب آپؓ کے اوپر منکشف ہونے والا تھا۔
٭٭
بالآخر وہ وقت آگیا جو قادرِمطلق نے مقرر کر رکھا تھا۔ حضرت حمزہؓ ایک ماہر شکاری تھے۔ ایک روز اپنے پسندیدہ مشغلے ’’شکار‘‘ کے لیے کمان اٹھائے گھر سے نکلے۔ شکار کھیلتے آدھا دن گزر گیا۔ جب واپس آئے تو عادت کے مطابق کعبہ گئے تاکہ گھر جانے سے قبل طواف کریں۔ کعبہ کے قریب ہی آپؓ کو عبداللہ بن جدعان کی خادمہ ملی، وہ آپؓ کو دیکھتے ہی کہنے لگی ’’ابوعمارہ! کاش! تمھیں معلوم ہو جائے کہ تمھارے بھتیجے محمدؐ کے ساتھ ابوالحکم بن ہشام نے کیا سلوک کیا ہے! ابوالحکم (ابوجہل) نے محمدؐ کو وہاں بیٹھے مارا پیٹا اور سبّ و شتم کیا۔ محمدؐ کو اس سے بہت زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔
حضرت حمزہؓ نے توجہ کے ساتھ خادمہ کی بات سنی، پھر لمحہ بھر کے لیے سر جھکایا اور اپنی کمان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس کو مضبوطی سے پکڑ کر کندھے پر رکھا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کعبہ کی جانب چل پڑے تاکہ وہیں ابوجہل سے ٹاکرا ہوجائے اور اگر وہ وہاں نہ ملے تو اسے تلاش کرکے چھوڑیں گے۔ حضرت حمزہؓ کعبہ کے نزدیک پہنچتے ہیں تو ابوجہل صحنِ مسجد میں ساداتِ قریش کے درمیان بیٹھا نظر آتا ہے۔ حضرت حمزہؓ پُرسکون اور باوقار ہیبت ناک انداز میں ابوجہل کی طرف بڑھتے ہیں اور اپنی کمان سیدھی کرکے ابوجہل کے سر پر دے مارتے ہیں اور اس کو خون آلود کر دیتے ہیں۔ حاضرین مجلس کے سنبھلنے سے پہلے ہی حضرت حمزہؓ گرج کر ابوجہل سے کہتے ہیں ’’کیا تم محمدؐ کو گالیاں دیتے ہو جبکہ میں بھی اس کے دین پر ہوں، میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے، اگر تمھارے اندر طاقت ہے تو مجھے بھی کچھ کہہ کر دیکھو۔‘‘
حاضرین اس توہین آمیز سلوک اور ابوجہل کے سر سے بہنے والے خون کو بھول جاتے ہیں اور ان الفاظ پر توجہ مرکوز کر لیتے ہیں جو اُن پر بجلی بن کر گر رہے ہیں کہ حمزہؓ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھی محمدﷺ کے دین پر ہے، وہ بھی وہی نظریہ و عقیدہ رکھتا ہے جو محمدﷺ کا ہے۔ کیا حمزہ ؓمسلمان ہوگیا ہے…؟؟ کیا قریش کا ایک معزز و کڑیل جوان مسلمان ہوگیا ہے…؟؟ یہ تو ایسی قیامت تھی جس کو روکنا قریش کے بس کی بات نہ تھی۔ حضرت حمزہؓ کا اسلام تو بہت سے سرداروں کے قبولِ اسلام کا باعث بن سکتا تھا جس سے محمدﷺ بہت جلد ایسی طاقت و قوت پالیتے کہ ان کی دعوت کو سہارا مل جاتا اور وہ توانا ہوجاتی۔ اس روز قریش ایسے تباہ کن ہتھیار سے آشنا ہو رہے تھے جو اُن کے معبودانِ باطل پر کاری ضرب لگا کر ان کو تہس نہس کر سکتا تھا۔
اللہ اکبر… حضرت حمزہؓ مسلمان ہوگئے! اور انھوں نے اس پوشیدہ راز کو برملا منکشف کردیا جسے ابھی تک دل میں چھپائے بیٹھے تھے اور قریش کی اس ٹولی کو انگشت بدنداں کرکے رکھ دیا جو اپنی امیدوں کے ناکام ہو جانے پر کفِ افسوس مل رہی تھی اور ابوجہل اپنے زخم خوردہ سر سے بہنے والے خون کو چاٹ رہا تھا۔ حضرت حمزہؓ نے دوبارہ اپنا ہاتھ اپنی کمان کی طرف بڑھایا اور اس کے دستے کو مضبوطی سے پکڑ کر پرسکون اور جرأت مندانہ انداز میں گھر کو چل دیے۔
٭٭
حضرت حمزہؓ عقلِ سلیم اور ضمیرِمستقیم رکھتے تھے۔ جب آپؓ واپس گھر پہنچے اور دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوئی تو بیٹھ کر غوروفکر کرنے لگے۔ آپؓ اپنی توجہ اس حادثہ پر مرکوز کیے ہوئے تھے جو ابھی ابھی پیش آیا تھا۔ آپؓ نے کس انداز اور کس وقت قبولِ اسلام کا اعلان کیا؟ آپؓ نے جوش و غضب اور حمیت کے لمحہ میں یہ اعلان کیا تھا۔ آپؓ کو یہ بات کھا گئی تھی کہ آپؓ کے بھتیجے کو تکلیف پہنچے اور اس پر اس حال میں ظلم توڑا جائے کہ اس کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو۔ بنی ہاشم کے خاندانی وقار کی حمیت نے آپؓ کو اکسایا اور آپؓ نے ابوجہل کے سر پر کمان دے ماری اور اس کے منہ پر اپنے اسلام کا اعلان بھی کردیا۔
لیکن کیا یہ اچھا طریقہ تھا کہ کوئی انسان زمانوں سے چلے آنے والے اپنے آبائی اور قومی دین کو یوں چھوڑ دے اور ایک ایسے دین کی طرف متوجہ ہو جائے جس کی تعلیمات کے متعلق وہ کچھ نہ جانتا ہو اور اس کی حقیقت سے بھی کچھ زیادہ واقفیت نہ رکھتا ہو۔ یہ بات درست ہے کہ آپؓ کو جنابِ محمدﷺ کی صداقت اور مقصد کی پاکیزگی میں ذرا شک نہ تھا۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی جوشِ غضب میں ایک نئے دین کو ذمے داریوں اور جوابدہی کے کامل احساس کے ساتھ قبول کرلے؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ آپؓ اس نئی دعوت کے احترام میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھے جس دعوت کا پرچم آپؓ کے بھتیجے نے بلند کر رکھا تھا۔ لیکن اس دین میں داخل ہونے کا مناسب وقت کون سا تھا؟
کیا غضب و حمیت کی کیفیت یا غوروفکر کی حالت؟
یہ تھی وہ صورتِ حال جس میں آپؓ کے ضمیر کی استقامت اور عقل کی ستھرائی نے آپؓ کو پورے معاملے پر ازسرِنو گہرے غوروخوض پر مجبور کیا۔ آپؓ نے اس مسئلے پر سوچنا شروع کردیا۔ اس کیفیت میں کئی دن ایسے گزر گئے کہ آپؓ کو دن کو سکون ہوتا نہ رات کو آنکھ لگتی۔ جب انسان عقل کے ذریعے کسی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے تو شک حقیقت تک پہنچنے میں ایک وسیلہ ہوتا ہے۔ حضرت حمزہؓ بھی جب اسلام کے معاملے کی تحقیق کے لیے عقل کو استعمال کرنے لگے اور دینِ قدیم اور دینِ جدید میں موازنہ کرنے لگے تو آپؓ کے دل میں بھی شکوک و شبہات کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا جس نے آپؓ کے اندر آبائی دین کے ساتھ فطری و موروثی محبت اور ہر نئی چیز سے دور رہنے کے جذبے کو بیدار کردیا۔ کعبہ اور اس کے اندر رکھے معبودوں اور اس دینی شرف و بزرگی سے وابستہ یادیں بیدار ہوگئیں جو اِن تراشیدہ معبُودوں نے قریش بلکہ پورے مکہ کو عطا کر رکھی تھی۔
حضرت حمزہؓ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انسان اپنے آبائی دین کو اس آسانی اور سرعت کے ساتھ چھوڑ دینا کس طرح آسان سمجھتا ہے؟ آپؓ اپنے کیے پر نادم ہو رہے تھے لیکن آپؓ عقل کے استعمال کا سفر شروع کر چکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ تنہا عقل پورے اخلاص کے باوجود آپؓ کو غائبانہ رازوں تک نہیں لے جا سکتی۔ لہٰذا آپؓ کعبہ کے قریب آسمان کی طرف منہ کرکے روتے گڑگڑاتے، کائنات کے قادرِمطلق اور ارض و سماء کے نوروضیا سے دعا کرنے لگے کہ وہ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف آپ کی رہنمائی فرمائے۔ آئیے ہم بقیہ واقعہ آپؓ ہی کی زبانی سنتے ہیں، آپؓ کہتے ہیں:
’’پھر مجھے اپنا آبائی اور قومی دین چھوڑنے پر ندامت ہونے لگی۔ میں نے پوری رات شکوک و شبہات کے طوفان میں ہی گزار دی۔ ساری رات میری آنکھ نہ لگ سکی۔ پھر میں کعبہ میں آیا اور اللہ سے دعا و مناجات کی کہ وہ حق کے لیے میرے سینے کو کھول دے اور شکوک و شبہات کو مجھ سے دور کردے۔ اللہ نے میری دعا کو قبول فرمایا اور میرے دل کو یقین کی کیفیت سے بھردیا۔ اگلی صبح میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ار آپؐ کو سارا واقعہ و کیفیت سنائی تو آپؐ نے اللہ سے دعا فرمائی کہ اللہ میرے دل کو دینِ اسلام پر ثبات عطا فرمائے۔‘‘ یہ ہے حضرت حمزہؓ کے یقینی قبولِ اسلام کی کہانی ! پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت حمزہؓ کے ذریعے اسلام کو طاقت عطا کی اور آپؓ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے کمزور ساتھیوں کی حفاظت و دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ابوجہل نے آپؓ کو مسلمانوں کی صف میں کھڑا دیکھا تو اس نے سوچا کہ اب جنگ ناگزیر ہو گئی ہے۔ اس نے قریش کو رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہ پر ظلم کرنے کی ترغیب دینا شروع کردی اور اپنے بغض و حسد کی آتش ٹھنڈی کرنے کے لیے انھیں اندرونی جنگ کے لیے اکسانا شروع کردیا۔ اگرچہ تنہا حضرت حمزہؓ قریش کی ان ساری تعذیبات و عقوبات کو نہیں روک سکتے تھے تاہم آپؓ کا اسلام لے آنا اس راہ میں بڑی ڈھارس ثابت ہوا۔ شروع شروع میں بہت سے قبائل کے قبولِ اسلام کا باعث حضرت حمزہؓ کا اسلام ہی تھا اور بعدازاں حضرت عمر بن خطابؓ اسلام لائے تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔
حضرت حمزہؓ نے جب اسلام قبول کرلیا تو اپنی تمام طاقتیں اور صلاحیتیں اللہ اور اس کے دین کی نذر کردیں حتیٰ کہ رسول اللہﷺ نے آپؓ کو (اللہ اور اس کے رسولؐ کا شیر) کے عظیم لقب سے سرفراز کیا۔ اسلام کا پہلا سریّہ جو دشمن کے مقابلے کے لیے نکلا اس کے امیر حضرت حمزہؓ ہی تھے اور وہ مسلمان جس کے ہاتھ میں سب سے پہلا پرچم تھمایا گیا وہ بھی جناب حمزہؓ ہی تھے۔ اور جب غزوہ بدر میں مسلمانوں اور قریش کے دو لشکر میدان میں جنگ آزما ہوئے تو اسد اللہ و اسد رسول ؐنے وہاں حیران کن جوہر دکھائے! قریش کے جنگی پرچموں کا رخ بدر سے مڑ کر مکہ کی طرف ہوا اور وہ اپنی شرمناک شکست اور ناکامی کا نوحہ پڑھتے، گرتے اٹھتے اور لغزشیں کھاتے مکہ کی طرف بوجھل قدموں سے جا رہے تھے۔ ابوسفیان کا دل ٹوٹ گیا تھا اور سرنِگوں ہوگیا تھا۔
وہ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف، عُقبہ بن عدی جیسے قریش کے دسیوں سرداروں، جوانمردوں، بہادروں اور جنگجوئوں کو ارض معرکہ میں چھوڑ کر جا رہا تھا۔ قریش ،اسلام کے ہاتھوں ہونے والی اپنی اس شکست کو کیسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے تھے۔ انھوں نے ازسرِنومعرکہ کی تیاری شروع کر دی اور اپنی منتشر قوت کو جمع کرنے لگے تاکہ اپنی ذات، اعزاز اور اپنے مقتولوں کی خاطر اپنے دشمن پر ایک بار پھر حملہ آور ہوں۔ قریش نے جنگ کی ٹھان لی اور غزوۂ اُحد کا وہ دن آگیا جب قریش اپنی پوری جمعیّت اور قبائل عرب کے اپنے حامیوں، حلیفوں کو لے کر ایک بار پھر ابوسفیان کی قیادت میں جنگ کے لیے نکل آئے۔ زعمائے قریش نے اپنے اس نئے معرکۂ کارزار کا ہدف صرف دو شخصیات کو بنایا۔ ایک اللہ کے رسولﷺ اور دوسری حضرت حمزہؓ ! اللہ اکبر، جنگ کے لیے نکلنے سے قبل جو شخص بھی قریش کی گفتگوئوں اور مشاورتوں کو سنتا تھا وہ جانتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے بعد حضرت حمزہؓ کو کس طرح معرکے کا ہدف ٹھہرایا گیا ہے۔
قریش نے روانگی سے قبل ایک شخص کو منتخب کیا جسے حضرت حمزہؓ کو انجام تک پہنچانے کا کام سونپا گیا۔ یہ شخص ایک حبشی تھا اور نیزہ بازی کا بہت بڑا ماہر تھا۔ قریش نے اس کو صرف یہی ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ حمزہؓ کو شکار کرے اور اسے اپنے نیزے کی کاری ضرب لگا کر زندگی سے محروم کر دے۔ قریش نے اسے اس مقصد کے علاوہ کسی اور کام میں مصروف ہونے سے سختی سے منع کر دیا تھا کہ جنگ جو بھی صورت اختیار کرجائے اور اس کا اختتام جو کچھ بھی ہو رہا ہو تمھارا کام بس یہی ہے کہ تم حمزہؓ کا خاتمہ کرو گے۔ قریش نے اسے بہت بڑے انعام کا لالچ بھی دیا تھا اور یہ اسے آزاد کر دینے کا لالچ تھا۔ یہ آدمی جس کا نام وحشی تھا، جُبَیربن مطعم کا غلام تھا اور جُبَیر کا چچا میدانِ جنگ میں مارا گیا تھا۔ جُبَیر نے وحشی سے کہا ’’تم بھی لوگوں کے ساتھ جنگ کے لیے نکلو اگر تم حمزہ ؓکو قتل کر دو تو تم آزاد ہو۔‘‘
پھر قریش نے وحشی کو ابوسفیان کی بیوی ہند بنتِ عتبہ کے حوالے کردیا تاکہ وہ اسے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مزید اُبھارے جو قریش کے پیشِ نظر تھا۔ دراصل ہند کا باپ، چچا، بھائی اور ایک بیٹا میدانِ بدر میں مارے گئے تھے اور اسے بتایا گیا تھا کہ ان لوگوں میں سے کچھ کو حمزہ نے خود قتل کیا تھا اور کچھ کے قتل میں دوسروں کی مدد کی تھی۔ اس طرح اکثر قریشی مردوں اور عورتوں کا جنگ کے لیے تحریص دلانے کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ انھیں جنگ کی صورت میں جو قیمت بھی ادا کرنا پڑی وہ ادا کریں گے لیکن حمزہ کا سر لے کر رہیں گے۔ قریش کے جنگ کے لیے نکلنے سے قبل کئی دن ہند کے لیے اس کے سوا کوئی کام نہ تھا کہ وہ اپنا پورا بغض و کینہ وحشی کے دل میں منتقل کردے اور اس کی ذمہ داری اچھی طرح اس کے ذہن نشین کر دے تاکہ وہ اسے انجام دے کر ہی رہے۔
اس نے وحشی سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ حمزہ ؓکو قتل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ اسے اپنا بیش قیمت زروجواہر سے مرصع زیور دے دے گی۔ اس نے اپنی انگلیوں کے بغض بھرے پور اپنی گردن میں پڑے سونے کے اس ہار پر رکھے جو قیمتی موتیوں سے مرصع تھا۔ پھر وحشی پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا’’ یہ سب کچھ تیرا ہوگا اگر تو حمزہؓ کو قتل کردے!‘‘ دنیا کا یہ قیمتی سامان دیکھ کر وحشی کی رال ٹپک پڑی اور اس کے شوق و رغبت نے اسے اس معرکہ میں کودنے کے لیے تیار کردیا جو عنقریب اسے آزادی سے بھی ہمکنار کرنے والا تھا۔ وہ معرکہ جس کے بعد وہ غلام نہ رہ سکتا تھا اور جس کے باعث اسے قریش کی سردار، ایک سردار کی بیوی اور ایک سردار کی بیٹی کے گلے میں پڑا قیمتی زیور بھی ہاتھ لگنے والا تھا۔ اس ساری صورتِ حال کو دیکھا جائے تو جنگ کا سارا مدار اور مشاورتوں کا اصل موضوع حضرت حمزہؓ کا قتل تھا۔
٭٭
آخرکار غزوۂ اُحد کا روز آگیا اور دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ حضرت حمزہؓ جنگی لباس میں ملبوس اور سینے کو زِرہ کی کڑیوں سے سجائے ارضِ موت و جنگ کے وسط میں گھس گئے۔آپؓ اِدھر اُدھر اپنی طاقت و مہارت کے جوہر دکھا رہے تھے۔ کسی مشرک کے سر کی طرف بڑھتے تو اِسے تن سے جدا کرکے رکھ دیتے۔ آپؓ مشرکین کی گردنیں اس بُری طرح اُڑا رہے تھے جیسے موت آپؓ کے حکم کی پابند ہو کہ آپؓ جسے چاہتے موت کے منہ میں پہنچا دیتے۔ اگر مسلمانوں کے تیرانداز پہاڑی درّے کو نہ چھوڑتے تو مسلمان… جو کہ دلجمعی اور پامردی کے ساتھ دشمن سے نبردآزما تھے، قریب تھا کہ انھیں حتمی قتح نصیب ہوجاتی اور قریش کے پرچم شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر وہ اپنی جگہ نہ چھوڑتے اور قریش کے جنگ بازوں کو وہاں سے اندر داخل ہونے کا موقع نہ دیتے، تو غزوۂ احد قریش کے تمام مَردوں، عورتوں کی ہی نہیں اونٹوں، گھوڑوں کی بھی قتل گاہ بن جاتا۔
اس دوران قریش کے جنگجوئوں نے مسلمانوں کو غافل پا کر حملہ کردیا اور ان پر اپنی خونخوار وجنون زدہ تلواروں کے پے درپے وار کر دیے۔ قریش کا یہ حملہ بڑا سخت تھا جس کے باعث مسلمانوں کو سنبھلنے میں کچھ وقت لگ گیا اور یہی وہ وقت تھا جب وہ اپنے قیمتی جوانمردوں سے محروم ہوئے۔ حضرت حمزہؓ نے دشمن کے حملہ کو دیکھ کر اپنی قوت و ہمت کو مجتمع کیا اور اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے تلوار چلانے لگے۔ اس دوران وحشی اس تاک میں تھا کہ جونہی موقع ملے تو وہ اپنا وار کر دے۔ آئیے! اس قتل کا واقعہ ہم وحشی کی زبانی ہی سنتے ہیں وہ کہتا ہے: ’’میں ایک حبشی تھا اور حبشہ کے طرز پر نیزہ بازی کرتا تھا۔ میرا نشانہ کم ہی خطا جاتا تھا۔ جب دونوں لشکر آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو میں بھی حمزہ کی تلاش میں نکل پڑا۔ میں تاکتا رہا حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان مٹیالے اونٹ کی طرح انھیں دیکھا کہ وہ لوگوں کو تہہِ تیغ کیے جا رہے ہیں اور کوئی چیز اُن کے سامنے ٹھہر نہیں رہی۔
واللہ! میں اِن پر حملے کی تیاری میں ایک درخت کی اوٹ میں چُھپ رہا تھا تاکہ دور ہی سے ان پر نیزہ پھینک سکوں یا وہ ذرا میرے قریب ہو جائیں تو پھر اپنا وار کروں۔ اسی دوران جب سباع بن عبدالعزّٰی نے انھیں دیکھا تو مجھے ان کی طرف کھینچتے ہوئے کہا: اے مقطعۃالبظور کے بیٹے! آگے بڑھو۔ پھر اس نے نشانہ لے کر حمزہ ؓکے سر پر وار کیا جو خطا نہ گیا۔ میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور جب اسے پھینکنے کے لیے اچھی طرح جانچ تول لیا تو فوراً پھینک دیا۔ نیزہ ان کی کونچ کو لگا اور دونوں قدموں کے درمیان سے آگے نکل گیا۔ وہ میری طرف پلٹے تو زخموں کی شدت نے انھیں حرکت نہ کرنے دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو کر دم توڑ گئے۔ میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور چھائونی میں آ کر بیٹھ گیا کیونکہ اب مجھے مزید لڑنے کی حاجت نہیں تھی۔ میں آزاد ہونے کے لیے انھیں قتل کرچکا تھا۔‘‘ مناسب ہو گا کہ ہم یہاں وحشی کا بقیہ بیان بھی نقل کریں، وہ کہتا ہے : ’’جب میں مکہ کو واپس لوٹا تو آزاد ہو چکا تھا۔
پھر میں یہیں مقیم رہا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے روز یہاں داخل ہوئے تو قریش خوف کے مارے بھاگ نکلے۔ جب طائف کا ایک وفد اسلام لانے کی غرض سے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے نکلا تومذاہب کی حقانیّت کا مسئلہ میرے ذہن میں اٹک گیا۔ میں کہنے لگاکہ حقیقی مذہب شام میں ہے یا یمن میں یا کہیں اور ہے۔ واللہ میں اپنی اسی پریشانی میں گرفتار تھا کہ طائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بھیجے اور مجھ سے کہا کہ وہ قاصدوں کو نہیں ستاتے تو پھر میں بحیثیت قاصد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھ کر کہا کیا تم ہی وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تم ہی نے شہید کیا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سب کیفیت معلوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم اپنا منہ مجھ سے چھپا سکتے ہو میں یہ بات سن کر باہر آ گیا۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ جہاں بھی ہوتے میں آپؐ سے اوجھل ہی رہتا تاکہ آپؐ مجھے دیکھ نہ سکیں۔ میں آپؐ کی وفات تک آپؐ کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا رہا۔ جب مسلمان یمامہ کے مسیلمہ کذّاب سے جنگ کے لیے نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ نکل پڑا۔ میں نے اپنا وہی نیزہ اٹھایا ہوا تھا جس سے حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے تو میں نے مسیلمہ کذّاب کو ہاتھ میں تلوار پکڑے دیکھا۔ میں اس کی طرف بڑھا اور اپنا نیزہ لہرانے کے بعد اچھی طرح نشانہ لے کر اس کو مارا تو نیزہ جسم میں دھنس گیا۔ میں نے اگر اس نیزہ سے بہترین انسان حمزہؓ کو قتل کیا تھا تو اسی نیزہ سے بدترین انسان مسیلمہ کا کام تمام کیا۔ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے حمزہ ؓکا قتل معاف فرما دے گا۔‘‘
٭٭
اللہ و رسولؐ کے شیر حضرت حمزہؓ شہید ہو کر گر پڑے۔ جس طرح آپؓ کی زندگی بارعب تھی موت بھی بارعب ہوئی۔ آپؓ کے دشمنوں نے صرف آپؓ کے قتل پر اکتفا نہ کیا اور وہ اکتفا کر بھی کیسے سکتے تھے یہ تو وہ لوگ تھے جو اپنے تمام حوالی و موالی اور جنگجو اس جنگ میں لے آئے تھے جس کا مقصد رسولﷺ اور عمّ رسولﷺ کے خاتمے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے وحشی کو حکم دیا کہ وہ حمزہؓ کا جگر اس کے پاس لائے ۔وحشی نے اس سگ گزیدہ خواہش کی تکمیل کر ڈالی۔ جب وہ حمزہ ؓکا جگر لے کر ہند کے پاس آیا تو وہ ایک ہاتھ سے یہ جگر وصول کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اپنا ہار وحشی کے حوالے کر رہی تھی۔ یہ وحشی کے کارنامے کا بدلہ تھا ! پھر شرک و وثنیت کے لشکر کے قائد ابوسفیان کی بیوی اور بدر میں قتل ہوجانے والے عتبہ کی بیٹی ہند، حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے لگی۔ وہ ایسا کرکے اپنے اندر بغض و کینہ کی آتش کو ٹھنڈا کرنا چاہتی تھی۔ مگر کلیجہ اس کے داڑھوں میں پھنس گیا اور وہ اسے نگل نہ سکی۔
اس نے اسے منہ سے باہر پھینک دیا اور کہنے لگی: ’’ہم نے تم سے بدر کے زخموں کا بدلہ لے لیا۔ جنگ کے بعد جنگ تو دیوانگی ہی ہوتی ہے۔ میں اپنے باپ عتبہ، چچا شیبہ اور اپنے بھائی اور بیٹے کی موت پر صبر نہیں کر سکتی تھی۔ اب میرے دل کو سکون ہو گیا ہے اور میں نے اپنی نذر پوری کر دی ہے۔ وحشی نے میرے اندر کا بغض مٹا دیا ہے۔‘‘ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تو مشرکین اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر قافلوں کی صورت میں مکہ کی طرف چلے گئے۔ رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہؓ ارض معرکہ میں اپنے شہداء کو دیکھنے کے لیے رک گئے۔ آپؐ میدان میں اپنے ان صحابہ کے چہرے شناخت کر رہے تھے جنھوں نے اپنی جانیں اللہ کے حضور بیچ دی تھیں اور اپنے آپ کو مقبول و منظور حالت میں اپنے رب کے دربار میں پیش کیا تھا۔ اس دوران آپؐ چلتے چلتے رک جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اور خاموش ہو جاتے ہیں۔ اوپر نیچے کے دانتوں کو باہم ملاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہا ڈالتے ہیں۔
یہ بات آپؐ کے تصور میں بھی نہیں آ سکتی تھی کہ عربوں کی فطرت اس بدترین درندگی کا مظاہرہ کرنے پر بھی اُتر سکتی ہے کہ کسی میّت کے چہرے کا مثلہ کر دیا جائے۔ آپؐ نے دیکھا کہ وہ میّت جس کا مثلہ کیا گیا ہے وہ آپ کے شہید چچا اسد اللہ و اسدالرسول، حمزہؓ بن عبدالمطلب کی لاش ہے۔ رسول اللہﷺ نے ہنڈیا کی طرح آنسوؤں سے اُبلتی اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے چچا کی لاش پر نظر ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’تیرے صدمے جیسا صدمہ مجھے کبھی نہیں پہنچے گا۔
میں آج اس سے بڑھ کر زندگی میں کسی غضب انگیز واقعہ سے دوچار نہیں ہوا۔ اگر مجھے صفیہ (حمزہؓ کی بہن) کے غمناک ہوجانے اور اپنے بعد یہ طریقہ بن جانے کا خدشہ نہ ہو تو میں تجھے یہیں پڑا رہنے دوں حتیٰ کہ تو درندوں کے پیٹوں اور پرندوں کے پوٹوں میں چلاجائے۔ اگر اللہ نے کسی موقع پر مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اس کے تیس آدمیوں کا مُثلہ کرکے چھوڑوں گا۔‘‘ صحابہؓ یہ سن کر فوراً بول پڑے ’’اللہ کی قسم اگر اللہ نے ہمیں ایک دن بھی قریش پر غلبہ دیا تو ہم ان کا ایسا مثلہ کریں گے کہ عرب کی سرزمین پر کسی نے ایسا مُثلہ نہ کیا ہوگا۔‘‘
لیکن وہ اللہ جس نے حضرت حمزہؓ کو شہادت کے اعزاز سے سرفراز فرمایا تھا وہ ایک بار پھر حضرت حمزہؓ کے قتل و شہادت کو اس عظیم درس کا موقع بنا دینا چاہتا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عدل و انصاف کو محفوظ کرکے رکھ دے اور ہر جگہ و موقع حتیٰ کہ سزا و قصاص میں بھی زحمت سے کام لینے کو فرض و واجب قرار دے دے۔
رسول اللہﷺ اپنی اس شدید تنبیہ سے فارغ ہی ہوئے تھے اور ابھی اس جگہ سے ہل بھی نہ پائے تھے کہ ان آیات کریمہ کی صورت میں وحی آگئی: ’’اے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔
اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔ اے نبی، صبر سے کام کیے جائو… اور تمھار ایہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
٭٭
رسول اللہؔﷺ حضرت حمزہؓ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں ذکر کیا ہے کہ حضرت حمزہؓ رسول اللہﷺ کے چچا ہی نہیں دودھ شریک بھائی بھی تھے۔ وہ آپؐ کے بچپن کے ساتھی اور زندگی بھر کے دوست تھے۔ حضرت حمزہؓکی مفارقت و وداع کے ان لمحات میں رسول اللہﷺ کے پاس اس سے بہتر کوئی ہدیہ اور تحفہ نہ تھا کہ آپؐ ان کی نماز جنازہ تمام شہداء کی تعداد کے برابر ادا کرتے۔ حضرت حمزہؓ کا جسدِ میت ارضِ معرکہ کے اس مقام سے اٹھا کر لایا گیا جہاں ان کا خون گرا تھا اور وہ شہید ہوئے تھے۔
رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک شہید کو لایا گیا اور حضرت حمزہؓ کے پہلو میں رکھ کر اس کی نماز بھی پڑھی گئی۔ اب اس شہید کی لاش کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا اور حضرت حمزہ کی لاش کو وہیں رہنے دیا گیا اور تیسرے شہید کو لا کر حضرت حمزہؓ کے پہلو میں رکھ کر آپؐ نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا شہید لایا جاتا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی اور اسے ایک طرف رکھ دیا جاتا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ نے ستر بار اپنے چچا کی نماز جنازہ پڑھی۔
٭٭
رسول اللہﷺ شہداء کی تدفین کے بعد مدینہ کا رُخ کرتے ہیں تو راستے میں بنی عبدالاشہل کی عورتوں کو اپنے شہداء پر روتے دیکھتے ہیں۔ آپؐ حضرت حمزہؓ کی فرطِ محبت میں کہتے ہیںترجمہ: ’’مگر حمزہ ؓپر رونے والی کوئی نہیں !‘‘ حضرت سعد بن معاذؓ آپؐ کے یہ الفاظ سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ شاید آپؐیہ چاہتے ہیں کہ عورتیں آپؐ کے چچا پر بھی روئیں، وہ جلدی سے ان عورتوں کے پاس  جاتے ہیں اور انھیں حکم دیتے ہیں کہ حمزہ ؓپر روئو۔ عورتیں ان کے حکم کی تعمیل کرتی ہیں، لیکن جونہی آہ و بکا کی یہ آوازیں رسول اللہﷺ کے کان میں پڑتی ہیں تو آپؐ عورتوں کے پاس جا کر کہتے ہیں : ’’(سعد ) میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا، (اے خواتین!) جائو واپس چلی جائو، اللہ تم پر رحم فرمائے، آج کے بعد کوئی آہ و بکا نہیں!‘‘
٭٭
حضرت حمزہؓ کی مدح میں کہے گئے صحابہ کے قصیدوں اور مرثیوں میں وہ الفاظ بہترین ہیں جو رسولؐ اللہ نے شہداء کو دیکھتے وقت ان کی میت کے قریب کھڑے ہو کر فرمائے تھے ’’اللہ تجھ پر اپنی رحمت برسائے میرے علم کے مطابق تو رشتوں کا پاس رکھنے والا اور نیکیوں کو انجام دینے والا تھا۔‘‘