ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

28 مارچ، 2013

نقصان


سڑک پر کالے چھولے بکھرے دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اگرچہ اس مسکراہٹ  میں گہرا دکھ بھی شامل تھا۔ بکھرے ہوئے چھولوں کے قریب ہی ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ چھولوں کی خالی تھالی کو حسرت سے کھڑا تک رہا تھا۔

"اوہ! وہی ڈرامہ میں نے دل میں سوچا اور میرے ذہن میں وہی پرانی کہانی گھوم کرختم ہو گئی، یعنی کالے چھولوں کو بڑی ادا کاری سے سڑک پر بکھیر دینا اور اپنی غربت کی من گھٹرت کہانی سنا کر راہگیروں سے پیسے بٹورنا۔

ہوں ٹھیک ہے! آج میں بھی دیکھتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں اپنی موٹر سائیکل اس بچے کے قریب لے آیا اور اس کی کہانی اس کی زبانی سننے کے لیے انتظار کرنے لگا۔ اس بچے نے ایک اچٹتی نظر مجھ پر ڈالی اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اچانک مجھے یاد آیا، اس کی تھالی تو میرے سامنے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی اور ایسا ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکر سے ہوا تھا۔
مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر سائیکل والے کے آگے آگیا ہو، یا پھر ایسا جان بوجھ کر نہ کیا ہو مگر وہ کچھ دیر بعد ایسا ہی کرنا چاہتا ہو اور سائیکل سوار نے اس کی مشکل آسان کردی ہو۔ میں خود ہی سوچ رہا تھا، اس بچے نے ابھی تک کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے خود ہی آگے بڑھ کر اس سے پوچھ ہی لیا۔ وہ چند لمحے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھتا رہا، پھر مختصر لفظوں میں اپنی رواداد سنا کر خاموش ہو گیا۔

اچھا میں نے مزاق والے انداز میں اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔
تو پھر میں کچھ مدد کروں آپ کی! نہ چاہتے ہوئے بھی میرا انداز طنزیہ ہوگیا تھا ۔ اگرچہ غریبوں کی ہمدردی اور مدد کا جزبہ میرے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ کسی ضرورت مند کی ضرورت کا علم ہو جاتا تو اس وقت تک سکون نہ ملتا جب تک اس کی ضرورت پوری نہ کر دیتا۔ اپنی جیب خرچ کسی غریب پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتا تو میرے چہرے سے خوشی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ پڑتی تھیں مگر یہ تو سراسر ڈرامہ تھا جسے میں آج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ضروری کام چھوڑ کر بھی رک گیا تھا۔

بولو۔ میں پھر مزے لینے والے انداز میں بولا۔
آپ مدد کریں تو احسان ہوگا۔ بس یہی تو میں اس کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ جونہی اس نے جملہ مکمل کیا۔ میرا زور دار قہقہ فضا میں بلند ہوگیااور اس بچے کو لگا جیسی اس نے یہ کہ کر بہت بڑی غلطی کردی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہو گیا۔ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ میں ان کارستانیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ اداکاری ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کچھ دیر میں اس کی طرف دیکھ کر ہنستا رہا۔ اس کا چہرہ اس قدر معصوم تھا کہ اگر مجھے حقیقت کاعلم نہ ہوتا تو میں اپنی جیب سے کل رقم نکال کر اس کے ہاتہ میں تھما دیتا۔

میاں پاگل کسی اور کو بنانا، ہمیں تو معلوم ہے تمھارے ان دھندوں کے بارے میں۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا اور موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد میں واپس اسی طرف آ رہا تھا۔ وہی بچہ چپ چاپ سڑک پر سے اپنے چھولے چننے میں مصروف تھا۔ میں کچھ فاصلے پر رہ کر اسے دیکھ رہا تھا۔ صاف صاف چھولے چننے کے بعد اس نے تھالی اٹھائی اور ایک طرف کو چل پڑا۔
ہوں!! تو اس کا کام بن گیا۔

یہ سوچ کر میں بھی اس کے پیچھے چل۔ ہاں اب میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا جو اس بچے سے غلط کام کروا رہا تھا۔ وہ بچہ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کا پیچھا کرنے کے لیے مجھے موٹرسائیکل پیدل چلنے والوں کی طرح چلانی پڑ رہی تھی۔ تقریبًا 20منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ایک تنگ سی گلی میں داخل ہو گیا۔ یہاں پہنچ کر اس کی رفتار بہت کم ہو گئی۔ پھر اس نے گلی کے چوتھے مکان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ میں بھی کچھ فاصلے پر ہی تھا۔ جلد ہی ایک ادھیڑعمر خاتون نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کے لئے راستہ دینے لگی۔
ماں۔ یہ کہ کر وہ تھالی زمین پر رکھ کر ماں سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رونے لگا۔
"کیا ہوا میرے بچے۔" وہ خاتون ایک دم پریشان ہو گئی۔ پھر اس نے ایک نظر تھالی پر ڈالی اور معاملہ سمجھ کر بولی۔
کیا ہو نقصان ہو گیا تو، اچھے بچے روتے نہیں، اللہ سے دعا کرتے ہیں، اللہ پاک نقصان کو پورا کر دیں گے۔ بلکہ اس سے بہتر عطا فرمائیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے بچے کو ڈھیر سارا پیار دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ ابھی تک مجھے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ اور اب دروازہ بند ہو گیا تھا۔ ادھر میری کیفیت عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھی۔ میں غیر ارادی طور پر موٹر سائیکل سمیت ان کے گھر کے دروازے کے قریب آگیا۔ گلی میں کوئی نہیں تھا۔

ماں ! میں نے چھولے چن لیے ہیں، سوچا دھو کر ان پر مصالحہ ڈال کر ہم شام کو کھالیں گے، شام کے کھانے کا خرچ بچے گا۔
پھرتو رو کیوں رہا تھا؟ ماں کے لہجہ میں گہرا شکوہ تھا۔
"ماں میں نقصان پر نہیں رویا تھا۔ بچے کا انداز کھویا کھویا سا تھا۔
نقصان پر نہیں رویا، پھرکس بات پر رو رہا تھا، ماں نے حیرت سے پوچھا۔ بچہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔
ماں آج ایک شخص نے میرا خوب مزاق اڑایا ہے، پتہ نہیں کیوں۔ غریبوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی کیا، ان کے سینوں میں دل نہیں ہوتے، پھر، پھر یہ امیر لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔

اف میرے مالک۔۔ مجھ سے مزید کچھ نہ سنا گیا۔ میں گلی سے نکل آیا۔ اس وقت میں خود کو ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کر رہا تھا۔ خود پر غصہ آ رہا تھا کہ بلا تحقیق کیے کسی سے بدگمان ہوا اور ایک غریب کا دل دکھا کر بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ اب کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس کی مدد کروں تو کیسے؟ دل میں عجیب سی بے قراری  پیدا ہو گئی تھی۔ آخر کچھ سوچ کر میں پلٹ آیا اور اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ دوسری مرتبہ کھٹکھٹانے پر وہی بچہ دروازے پر آیا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر  پڑی وہ اُچھل بڑا۔ ادھر مجھ میں اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں ہو  رہی تھی۔ میں نے اپنی جیب کے کل پیسے نکالے اور اس بچے کی مٹھی میں دبا دیے۔
"یہ رکھ لو تمھارے کام آئیں گے۔ مجھے معاف کردینا مجھ سے ایسا غلط فہمی میں ہوگیا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا مگر پیسوں پر اس کی گرفت اتنی ڈھیلی تھی کہ میں ہاتھ ہٹاتا تو پیسے زمین پر گر جاتے۔
"پلیز"۔ میں نے التجائیہ انداز میں کہا اور اس نے پیسے پکڑ لیے۔ میں تیزی سے مڑ کر گلی سے نکل آیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر، ہاں مجھ میں  مزید وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں تھی۔ واپسی پر میں سوچ رہا تھا۔

"اللہ رب العزت کے ہر حکم میں بے شمار مصلحتیں، حکمتیں اور فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی میں نقصان کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بلا تحقیق کسی کے عمل پر کوئی قدم اٹھانے سے منع فرمایا ہے اور اس حکم کے خلاف ورزی کا نقصان آج میری آنکھوں کے سامنے تھا۔


20 مارچ، 2013

جب عبدالقدوس کو کرنٹ لگا






یہ دلچسپ واقعہ 17 مارچ کی شام پیش آیا۔عبدالقدوس ایک الیکٹریشن ہے اور انتہائی شریف اور دیانتدار انسان ہے‘ میں گذشتہ چھ سال سے اُسے جانتا ہوں‘نہ آج تک اُس کے منہ سے کسی نے گالی سنی ہے نہ کبھی کسی سے اُس کی لڑائی ہوئی ہے‘ محلے کی بہو بیٹیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتاہے اورہر وقت اللہ توبہ کرتا رہتاہے۔میرے گھر کے سامنے ایک بڑا پارک ہے‘ صبح یا شام کو موقع ملے تو میں وہیں تھوڑی بہت واک کرلیتا ہوں‘ اُس روز میں دفتر سے ذرا جلدی نکل آیا اور واک کرنے پارک میں چلا گیا‘ جونہی پارک کا دروازہ کراس کیا ‘ سامنے ایک عجیب و غریب منظر میرے سامنے تھا‘ تین چار ہٹے کٹے نوجوان عبدالقدوس کو گریبان سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر ایک نوجوان سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ اُس کا جواب سن کر میرے ہوش اڑ گئے‘ وہ عبدالقدوس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا’’اِس بے غیرت نے ہماری بہن کوچھیڑا ہے‘‘۔ میری بے اختیار ہنسی نکلتے نکلتے رہ گئی‘ میں نے جلدی سے کہا’’آپ کو یقیناًکوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ عبدالقدوس توانتہائی نیک اور شرمیلا انسان ہے‘ ‘۔نوجوان نے گھور کر میری طرف دیکھا’’ غلط فہمی آپ کو ہورہی ہے ‘یہ انتہائی کمینہ اور ذلیل انسان ہے‘ اس نے ہماری بہن کو انتہائی بیہودہ میسج کیے ہیں‘ بے شک اِس سے پوچھ لیں‘‘۔ میں نے بے یقینی سے عبدالقدوس کی طرف دیکھا جو تھر تھر کانپ رہا تھا‘ میری طرف دیکھتے ہی اُس نے بے بسی سے نظریں جھکا لیں اورمجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔سارے نوجوان عبدالقدوس کو مارتے پیٹتے تھانے لے گئے اور میں شدید حیرانی کے عالم میں وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ عبدالقدوس ایسا ہوسکتا ہے‘ میں نے میڈیا کے کچھ دوستوں کو فون کیا اور خود بھی تھانے پہنچ گیا۔ عبدالقدوس حوالات کے ایک کونے میں بازوؤں میں سر دیے رو رہا تھا۔لڑکی کے بھائی پرچہ کٹوانے پر تلے ہوئے تھے تاہم کافی منت سماجت کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑا اور رات ساڑھے بارہ بجے عبدالقدوس کی رہائی عمل میں آئی۔میں اس عجیب و غریب معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہوا جارہا تھا لہذا عبدالقدوس کو گاڑی میں بٹھاتے ہی پوچھا’’قدوس بھائی! یہ سب کیا ہے؟ آپ تو۔۔۔‘‘ میری آدھی بات سنتے ہی عبدالقدوس زندگی میں پہلی بار پوری قوت سے چلایا’’ تو اورمیں کیا کرتا۔۔۔؟؟؟‘‘
لگ بھگ چھ ماہ پہلے عبدالقدوس ایک گھر میں سوئچ بورڈ تبدیل کرنے گیا‘ واپس آنے لگا تو گھر میں موجود ایک نوجوان لڑکی نے اُسے کہا کہ اپنا فون نمبر دے جاؤ تاکہ دوبارہ بلانے میں آسانی رہے۔ عبدالقدوس نے اُسے فون نمبر دے دیا۔ دوسرے ہی دن لڑکی کا دوبارہ فون آگیا کہ سوئچ بورڈ صحیح کام نہیں کر رہا۔عبدالقدوس دوبارہ وہاں پہنچا تو لڑکی ہوش ربا قسم کے لباس میں ملبوس تھی ‘ عبدالقدوس بوکھلا گیا لیکن نظریں جھکا کر اپنے کام میں لگ گیا‘ واپسی پر اُس نے لڑکی سے اپنے کا م کی مزدوری بھی طلب نہیں کی کیونکہ لڑکی سے آنکھیں چار ہونے کا اندیشہ تھا۔ تین چار دن بعد پھر لڑکی کا فون آگیا کہ سوئچ بورڈ پھر خراب ہوگیا ہے۔ اب کی بار عبدالقدوس نے اپنے شاگرد کو بھیج دیا‘ لیکن لڑکی کا فون آیا کہ جو کام تم نے خود کیا ہے وہ شاگرد کو سمجھ نہیں آئے گا لہذا تم خود آؤ۔عبدالقدوس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے‘ لیکن مجبوری تھی لہذابادل نخواستہ پھر وہاں چلا گیا‘ وہاں جاکے دیکھا توسوئچ بورڈ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا‘ اُس نے سوالیہ نظروں سے لڑکی کی طرف دیکھا تو وہ کھلکھلا کر بولی’’بس چیک کرنا تھا کہ تم میری کال پر آتے بھی ہو یا نہیں‘‘۔ عبدالقدوس کے چودہ طبق روشن ہوگئے‘ وہ جتنا اِس گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتا‘ لڑکی اُتنا ہی اُسے بہانے بہانے سے کسی کام سے بلاتی رہتی‘ عبدالقدوس بھی آخر ایک انسان تھا‘ لڑکی کے پے درپے ایس ایم ایس کے جواب میں اُس نے بھی ڈرتے ڈرتے جوابی میسج بھیجنا شروع کر دیے اور معاملہ چل نکلا۔لڑکی نے بتایا کہ وہ میٹرک فیل ہے اور عبدالقدوس کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے‘ یہ سنتے ہی عبدالقدوس کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا‘ اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اُس کی زندگی میں ایسا خوشگوار لمحہ بھی آسکتا ہے‘ پھر اُسے اپنی بیمار بیوی کا خیال آیا جو آج کل صرف دوائیاں کھانے تک محدود ہوچکی تھی۔اُس کے سارے خوابیدہ جذبے بیدار ہوگئے اور اُس نے بھی لڑکی کو میسج بھیجنا شروع کر دیے‘ ایک دن اُس کا میسج لڑکی کے بھائی نے پڑھ لیا‘ لڑکی فوراً مکر گئی کہ عبدالقدوس خود ہی اُسے اس قسم کے میسج کرتاہے۔۔۔پھر آگے جو ہوا وہ میں بتا چکا ہوں۔
ہمارے ہاں عورت کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہمیشہ مرد پر لگتاہے‘آپ نے اکثر دفاتر میں یہ لکھا دیکھا ہوگا کہ اگر کسی ملازم نے کسی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تو اُسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حرکت اگر کسی خاتون کی طرف سے ہو تو اُس کے لیے کیا سزا ہے؟؟؟ آپ نے بے شمار ایسی خواتین دیکھی ہوں گی جو چلتی پھرتی دعوت گناہ ہوتی ہیں‘ مرد اگر اِن کی طرف نہ بھی دیکھنا چاہے تو ان کے پاس مرد کو متوجہ کرنے کے لاجواب حربے ہوتے ہیں‘ لباس سے لے کرگفتگو تک اِن کا ہر انداز مرد وں کے عین مطابق ہوتاہے‘ اِن کے اُٹھنے بیٹھنے کا انداز گھر میں کچھ اور ہوتا ہے اور دفتر میں کچھ اور‘یہ بلاتکلف کسی بھی مرد کولیگ سے بات کرلیتی ہیں ‘ہاتھ بھی ملا لیتی ہیں‘کھانے کی فرمائش بھی کرلیتی ہیں لیکن کسی مرد کو ہمت نہیں ہوتی کہ اِن کی شکایت لگا سکے‘ اور اگر ہمت کر بھی لے تو آگے سے ڈانٹ یا قہقہہ سننے کو ملتا ہے۔کیسا تضاد ہے کہ خاتون بغیر آستین کی قمیض پہن کر دفتر آجائے تو خوبصورتی ۔۔۔اور مرد بنیان پہن کر آجائے تو واہیاتی۔۔۔خاتون سکرٹ پہن لے تو فیشن ایبل۔۔۔مرد کچھا پہن لے تو بے شرم۔۔۔خاتون بوائے کٹ کروائے تو ماڈرن۔۔۔مرد پونی بنا لے تو واہیات۔۔۔واہ اوئے دنیا۔۔۔!!!
حقیقت تو یہی ہے کہ بے شمار خواتین بھی مردو ں کو جنسی طور پر ہراساں کرتی ہیں لیکن اِس بات کا کوئی کیس نہیں بنتا‘ کیس بننے کے لیے مرد کا عورت کو ہراساں کرنا ضروری ہے۔بیچارے وہ مرد کہاں جائیں جنہیں ایسی خواتین اپنی ادائیں اور لاڈیاں دکھا کر اس حد تک مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھتے ہیں ۔یہ حرکت اگر خاتون کے مفاد میں ہو تو پیار کہلاتی ہے ورنہ بدتمیزی۔۔۔!! کتنے ہی بیچارے عبدالقدوس ہیں جو اِن جیسی عورتوں کی وجہ سے پھینٹیاں کھا چکے ہیں لیکن آج تک کوئی ایسا قانون نہیں بنا جس میں چھیڑنے کی سزاعورت کے لیے بھی وہی ہو جو مرد کے لیے رکھی گئی ہے۔مختصر اور ٹائٹ لباس میں ملبوس اکثر ایسی عورتیں کسی کے چھیڑنے پر ناراض اور نہ چھیڑنے پر بہت زیادہ ناراض ہوجاتی ہیں۔مٹھائی کی پلیٹ سامنے رکھی ہوئی تو کس کا کھانے کو دل نہیں کرتا‘ لیکن ہمارے ہاں پلیٹ کوئی نہیں ہٹاتا‘ سارا الزام مٹھائی کھانے والے پر آتا ہے‘۔عبدالقدوس تو بیچار ا مفت میں پکڑا گیا‘ اصل قصور تو اُس کا تھا جس نے عبدالقدوس میں کرنٹ چھوڑا۔۔۔سیدھی سی بات ہے ‘ جس کو کرنٹ لگے وہ تار کی طرف کھنچتا تو ضرور ہے ‘ لہذا ایسی خطرناک تاروں کو انڈرگراؤنڈ کرنا چاہیے تاکہ کوئی خطرناک حادثہ نہ رونما ہو۔


16 مارچ، 2013

قوم کیا پڑھ رہی ہے؟ جیو کیا پڑھانا چاہتا ہے؟



 قوم کیا پڑھ رہی ہے؟ جیو کیا پڑھانا چاہتا ہے؟ -- شاہنواز فاروقی

ذرائع ابلاغ ملک و قوم کی طاقت ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ملک و قوم کی کمزوری بن گیاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں ابلا غ کے بیشتر ذرائع پورس کے ہاتھیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ہی صفوں کو کچل رہے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پاکستانی قوم مکے اور مدینے کی طرف دیکھ رہی ہے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ واشنگٹن ‘ لندن
 اور نئی دہلی کی طرف رخ کیے کھڑے ہیں۔ پاکستانی قوم اپنی زندگی میں مزید اسلام کی خواہش مند ہے اور پاکستانی ذرائع ابلاغ اسے صبح شام سیکولر ازم اور لبرل ازم کے جام پلارہے ہیں۔ پاکستانی قوم اپنی تہذب اور تاریخ سے مزید جڑجانا چاہتی ہے او رپاکستانی ذرائع ابلاغ اسے اس کی تہذیب اور تاریخ سے لاتعلق کردینا چاہتے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال جیو کا پروگرام چل پڑھا ہے۔ یکم مارچ 2013 ء کو نشر ہونے والے پروگرا م میں پاکستان میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لیا گیا۔ پروگرام کے میزبان شہزاد رائے پروگرام میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آئے کہ نصابی کتب ذہنوں کو کھولتی ہیں مگر ہمارے یہاں نصابی کتب ذہنوں کو بند کرتی ہیں۔ ذہنوں کو بند کرنے کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے نہایت تیزی اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ایک حمد پڑھی اور قوم کو بتایاکہ ہم خدا کی ذات کے حوالہ سے بھی بچوں کو صرف رٹو طوطا بنارہے ہیں۔یہ مثال پیش کرنے کے بعد انہوں نے اپنے تئیں یہ بتایاکہ بچوں کے ذہنوں کو کس طرح کھولا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میںانہوں نے نجی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں تصویروں کی مدد سے بتایا گیا تھا کہ ہاتھی کتنا بڑا جانور ہ۔ اس کے بعد وہیل کی تصویر کے ذریعے یہ بتایا گیا تھا کہ وہیل ہاتھی سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ 

ان تصویروں اور ان کے ساتھ موجود مواد کا مقصد بچوں کو یہ بتانا تا کہ ہاتھی اوروہیل اتنی بڑی ہے تو ان کو بنانے والا رب کتنا بڑا ہوگا؟ غور کیا جائے ت ویہ مثال دے خر شہزاد رائے نے خدا کے وجود کے ساتھ معاذ اللہ جسم‘ حجم یا
Size وابستہ کردیا۔ تو کیا جیو پاکستان کے بچوں کو یہ پڑھانے کے بجائے کہ خدا ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور بلند ہے یہ پڑھانا چاہتا ہے کہ ہاتھی اور وہیل کی طرح اس کا کوئی جسم حجم یا Size ہے؟ ہمارے دینی ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں خدا کا سب سے بڑا ہونا ثابت کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کوہ ہ قادر مطلق ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ مالک ہے‘ رازق ہے۔ وہ حئی ہے۔ قیوم ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ علیم ہے۔ خبیر ہے۔ لیکن جیو اس کے برعکس یہ چاہتا ہے کہ قوم کے بچے ہاتھی اور ہویل کی تصاویر دیکھ کر یہ جانیں کہ خدا کتنا بڑا ہے؟ 

تجزیہ کیا جائے تو یہ صرف ہمارے تصور خدا ہی پر حملہ نہیں بلکہ یہ مسلم دنیا کی تیرہ سو سالہ ذہانت کی بھی توہین ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے تیرہ سو سال تک ہاتھی اور وہیل کی تصاویر کے بغیر ہی خدا کی ذات کا تصور قائم کیا ہے اور وہ اپنے خالق و مالک سے گہرا تعلق قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ شہزاد رائے پروگرام میں یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ ہمارا نصاب خیال انگیز یا
Thought Provoking نہیں۔ا س سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شہزاد رائے اور جیو پاکستانی قوم کے بچوں کے ذہنوں کو کس طرح کھولنا اور اور انہیں کتنا “Thought Provoking” نصاب پڑھانا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں جیو اور اس کے میزبان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خدا کے ساتھ جسم یا حجم کا تصور وابستہ کرنا صریح کفر ہے۔ اس لیے کہ خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ میں ایسا ہوں کہ کسی بھی چیز سے میری مثال نہیں دی جاسکتی۔ خدا جسم یا حجم یا ہمارے تصور سے بھی ماورا ہے۔ شہزاد رائے پروگرام میں ایک میڈیکل اسٹور پر جاکر پچاس ساٹھ سال پرانی دوائیں مانگتے ہیں۔ اس کے ذریعے انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جس طرح مریض کو پچاس ساٹھ سال پرانی دوا نہیں دی جاسکتی اسی طرح بچوں کو پچاس ساٹھ سال پرانا نصاب نہیں پڑھایا جاسکتا۔ ان کی بات اصولی اعتبار سے درست ہے۔ مگر شہزاد رائے اور جیو کا منصوبہ تو یہ لگتا ہے کہ وہ نئے پن کے نام پر پاکستانی قوم کو ایمان کے نام پر کفر پڑھانا چاہتے ہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قوم اس کے لیے تیار ہے؟

پروگرام میں اوکفرڈ والی امینہ سعید اس بات کا گلہ کرتی نظر آئیں کہ سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈ ہمیں پاس ہی نہیں بھٹکنے دیتا۔ورنہ ہم انہیں ’’معیاری‘‘ نصابی کتب تیار کرکے دے سکتے ہیں۔ کیا امینہ سید چاہتی ہیں ان کی تیار کردہ نصابی کتب کا تجزیہ کرکے بتایا جائے کہ اس میں کتنا سیکولر ازم اور لبرل ازم اور معنی کے نام پر کتنی بے معنویت بھری ہوئی ہے۔

چل پڑھا‘ نصاب سے متعلق دوسرا پروگرام 2مارچ 2013 ء کو نشر ہوا۔ پروگرام کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا گیا کہ 2006 ء میں پاکستان گدھوں کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر تھا۔ اس سال پاکستان میں نصاب پر بھی نظرثانی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا اس سے زیادہ توہین آمیز تعارف ممکن ہے؟یہ تعارف بھارت ‘ اسرائیل ‘ امریکہ یا یورپ کا کوئی چینل کرتا تو بات سمجھ میں آتی لیکن جیو کے بارے میں تو عام خیال یہ ہے کہ وہ پاکستانی چینل ہے۔ سوال یہ ہے پھر جیو نے پاکستان کا اتنا توہین آمیز تعارف کیوں کرایا؟ بلاشبہ پاکستان مین نصاب کی حالت خراب ہے اور بلاشبہ اس حالت پر تنقید بھی ہونی چاہیے اور اصلاح احوال کے طریقے سے بھی سمجھائے جانے چاہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ 18کروڑ انسانوں کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو گدھوں کے ملک کے مماثل باور کرانے کی کوشش کی جائے۔ 

یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کا نصاب اگر خراب ہے تو یہ حکومتوں کا قصور ہے مگر جیو نے حکمرانوں کو گدھوں کے ساتھ کھڑا کرنے کے بجائے پاکستان اور اس کے 18کروڑ لوگوں کو گدھوں کے ساتھ کھڑا کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کا کام ملک و قوم کی ساکھ یا امیج بہتر بنانا ہے یا بدتر بنا کر لوگوں کو اپنے ملک سے مایوس کرنا ہے؟ بہرحال اس بیان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ شہزاد رائے اور میر شکیل الرحمن بھی اسی ملک کے شہری ہیں جو دنیا میں گدھوں کی آبادی کے اعتبار سے 2006 ء میں دوسرے نمبر پر تھا۔
پروگرام میں ایک سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ ہمارے نصاب میں اتنی مذہبیت کیوں ہے؟ ہم اسلامیات میں اسلام پرھاتے ہیں یہ تو ٹھیک ہے مگر اردو اور سوشل اسٹڈیز میں اسلام کیوں شامل ہوتا ہے؟ پروگرام میں اس حوالے سے مختلف لوگوں کی آراء پیش کی گئی ہیں۔ معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے مذکورہ سوال کے جواب میں فرمایا کہ نصاب میں
Limited اسلام ہونا چاہیے۔ بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخر اس بات کا مفہوم کیا ہے؟

اسلام کا تصور حیات اور تصور علم یہ ہے کہ ہر چیز کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے ہماری تہذیب میں الٰہیات کے علم کو سب سے بڑے علم کا درجہ حاصل ہے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کا تصور علم یہ ہے کہ ہمارے تمام علوم وک خدا مرکز یا
God Centric ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف قرآن و سنت کا علم ہی نہیں ہماری شاعری‘ہماری طبیعات‘ ہماری عمرانیات ‘ ہماری نفسیات‘ ہماری حیاتیات غرضیکہ ہمارے تمام علوم و فنون کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں خدا تک کے لے جانے والے ہوں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری تہذیب میں علم کی ہر شاخ مذہبی یا اسلامی ہے۔ اس کے برعکس جیو یہ چاہتا ہے کہ صرف ہماری اسلامیات ہمیں خدا تک پہنچائے اور باقی علوم و فنون پر یہ ’’ناپسندیدہ بوجھ ‘‘ نہ ڈالا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس خواہش کا کیا جواز ہے؟ کیا جیو چاہتا ہے کہ صرف ہماری اسلامیات ہمیں ایمان تک پہنچائے اور باقی علوم فنون ہمیں کفر ور مشرک تک لے جانے والے ہوں؟ ویسے شہزاد رائے‘ جیو اور اس کے مالک میر شکیل الرحمن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمام علوم و فنون کا ایک مرکز سے تعلق ہونے کا مسئلہ صرف اسلام سے مخصوص نہیں۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا تو صرف ان کی معاشیات ہی کمیونسٹ نہیں ہوئی۔ کمیونسٹوں نی اپنے ادب کو بھی مارکسسٹ لٹریچر کا نام دیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی سائنس کو بھی صرف سائنس نہیں کہتے بلکہ سوویت سائنس کہتے تھے۔ 

جدید مغربی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو وہ اپنے فنون کو صرف
Arts نہیں کہتی بلکہ Liberal Arts کہتی ہے اس لیے کہ اس کے آرٹس واقعتاً لبرل ہیں۔ ذرا کوئی مغربی دنیا سے کہہ کر دکھائے کہ تمہاری عمرانیات ‘ تہماری نفسیات اور تمہارا ادب خدا اور وحی کے تصور سے کیوں بے نیاز ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر کمونسٹ دنیا اپنے ہر علم کو مارکسسٹ بناسکتی ہے اور مغربی دنیا اپنے ہر علم کو لبرل اور سیکولر بناسکتی ہے تو پاکستان کے مسلمان اپنے ہر علم کو اسلامی کیوں نہ بنائیں؟ ویسے ہمارے یہاں ہر علم کے اسلامی ہونے کی بات بھی مبالغہ آمیز ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں صرف اسلامیات ہی پوری اسلامی ہوتی ہے۔ باقی مضامین میں دو چار چیزیں ہی ایسی ہوتی ہیں جن کا تناظر اسلامی ہوتا ہے۔ باقی تمام مواد عام قسم کا ہوتا ہے۔ مگر جیو کو شاید اسلامی تناظر کی دو چار چیزوں کی موجودگی بھی گوارا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اسلام اور پاکستان کی محبت ہے یا دشمن؟ مزید سوال یہ ہے کہ جیو قوم کے بچوں کو اسلام او رپاکستان سے ’’وابستگی‘‘ پڑھانا چاہتا ہے یا ان سے ’’دوری کی تعلیم‘‘ دینا چاہتا ہے؟

پروگرام میں برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ہیروز کا ذکر اس طرح کیا گیا جیسے وہ ہمارے ہیروز نہ ہوں ولن ہوں۔ پروگرام میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آخر ہمارے ہیروز صرف فاتحین پر کیوں مشتمل ہیں؟ ہمارے ہیروز میں کوئی سائنس دان مثلاً پروفیسر عبدالسلام جیسے لوگ کیوں شامل نہیں ہیں؟ شہزاد رائے نے اس سلسلے میں یہ تک فرمایا کہ بچے یہ دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ہیرو وہی ہے جو جنگ کرتا ہے۔ ان سوالا کا ایک جواب یہ ہے کہ برصغیرپر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکوم تکی ہے تو اس کی وجہ فاتحین تھے کوئی سائنس دان ‘شاعر یا ادیب نہیں تھا۔

ان سوالات کا دوسرا جواب یہ ہے کہ فاتحین صرف مسلمانوں کے ہیرو نہیں ہیں۔ دنیا کی ہر قوم فاتحین کو ہیرو سمجھتی ہے۔ سکندر اعظم صرف یونانیوں کا نہیں پورے یورپ کا ہیرو ہے۔ پوپ اُربن دوئم نے عیسائیوں کو بیت المقدس پر قبضے کی تحریک دی اور وہ آج تک عیسائیوں کا ہیرو ہے بلکہ مسلم علاقوں کو فتح کرنے والے عیسائی سپہ سالار تک عیسائیوں کے ہیروز میں شامل ہیں۔ رام‘ لکشمن‘ ارجن ہندوئوں کی قدیم تاریخ کے ہیروز ہیں اور ان کے ہیرو ہونے میں ان کی عسکری اہلیتوں کا کردار مرکزی ہے۔ ہندوئوں کی جدید تاریخ کے ہیروز میں شوا جی اور رانا پرتاب شامل ہیں حالانکہ یہ بے چارے حقیقی معنوں میں فاتحین بھی نہیں ہیں۔ 

ان سوالات کا تیسرا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی صرف فاتحین کو ہیرو نہیں سمجھا۔ ہمارے ہیروز میں امام غزالیؒ ‘ امام رازیؒ‘ مولانا رومؒ‘ شیخ سعدی‘ حافظ شیرازی‘ شفیع …… الدین ابن عربیؒ‘ مجدد الف ثانیؒ‘ شاہ ولی اللہ‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘ بلھے شاہ‘ قائداعظم اور اقبال جیسی سینکڑوں شخصیات شامل ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ ان تمام شخصیات کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا اس لیے چند شخصیات ہی نصاب میں جگہ حاصل کرپاتی ہیں۔ مسلمان ہیروز کے سلسلے میں تنگ نظر نہیں۔ اس وقت دیکھا جائے تو ہمارے معمولی معمولی سیاست دان‘ کھلاڑی‘ اداکار اور گلوکار ہمارے ہیرو بنے ہوئے ہیں مگر مسلمان مستقل اور عارضی ہیروز کا فرق جانتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ہیرو وہی ہوتا ہے جس نے تاریخ کا رخ بدلا ہوتا ہے۔

تاریخ کی تعریف متعین کی ہوتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے پاس ایسے بہت سے فاتحین ہیں جنہوں نے تاریخ کو بدلا ہے۔ مسلمان اس پر جتنا شکر اور فخر کریں کم ہے۔ مگر جیو ہمیں اپنے ہیروز پر شکر یا فخر کرنے کے بجائے ان پر شرمندہ اور افسردہ ہونا سکھا رہا ہے؟ ایک طرف جیو کو اعتراض ہے کہ ہم فاتحین ہی کو کیوں ہیرو سمجھتے ہیں دوسری جانب اس پروگرام میں ایک مرحلے پر کہا گیا ہے کہ ہمارے تعلیمی اسباق میں گھوم پھر کر صرف اقبال اور قائد کا ذکر ہوتا ہے حالانکہ ہمارے ملک میں بڑے خطاط بھی ہوئے ہیں اور عبدالسلام بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیو محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی ‘ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان ہی پر شرمندہ نہیں وہ اقبال اور قائداعظم کو بھی ہیرو کے طور پر پیش کرنے سے اکتایا ہوا ہے۔ حالانکہ اقبال جنگی ہیرو نہیں شاعر ہیں اور قائداعظم سپہ سالارنہیں سیاسی رہنما ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جیو کا اصل دکھ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقلد پروفیسر عبدالسلام ہمارے ہیروز میں کیوں شامل نہیں۔ کیو جیو کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہر قوم کا ہیرو اس کے مذہب‘ تہذیب اور تاریخ کے مرکزی دھارے اور اس کے اجتماعی مفادات کے تحفظ سے برآمد ہوتا ہے اور پروفیسر عبدالسلام ان میں سے کسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔

پروگرام میں ایک مسئلہ عقیدے کی تعلیم
Indoctrination کا بل اٹھای اگیا ہے۔ معروف سیکولر صحافی غازی صلاح الدین نے پروگرام میں فرمایا کہ معاشرے میںموجود انتہا پسند قوتیں چاہتی ہیں کہ وہ تعلیمی نظام میں موجود بچوں کو اپنے بنیادی عقائد کی تعلیم دیںیا انہیں Indoctrinate کریں اور انہیں بتائیں کہ ہم کون ہیں اورہماری تاریخ کیا ہے۔ غازی صلاح الدین کے الفاظ یہ نہیں کہ ان کی ٹوٹی پھوٹی گفتگو کا مفہوم یہی تھا۔

غازی صلاح الدین نے یہ بات اس طرح کہی کہ صرف مسلمان انتہا پسند اپنے بچوں کو اپنے مذہبی عقائد اور تاریخ کا اسیر کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آدھی دنیا پر کمیونزم کا غلبہ تھا اور تمام کمیونسٹ ملکوں میں انتہائی کم عمر سے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی کہ جولیاتی مادیت کیا ہے۔ قدر زائد کا مفہوم کیا ہے؟ طبقاتی کشمکش کسے خہتے ہیں؟ مارکسس‘ اینجلز ‘ لینن اور اسٹالن ہمارے ہیرو ہیں۔ یہی معاملہ مغربی دنیا کا ہے۔ مغربی دنیا میں ابتداء ہی سے بچوں کو آزادی‘ مساوات‘ جمہوریت‘ آزاد منڈی اور سرمائے کی مرکزیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندو بچپن ہی سے اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ برہما ہے جس نے کائنات بنائی ہے۔ وشنو ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے اور شو ہے جو کائنات ک وفنا کرے گا۔ ہندو بتاتے ہیں کہ رام‘ کرشن‘ سیتا‘ ارجن وغیرہ ہماری مقدس ہستیاں ہیں۔ عیسائی اپنے بچوں کو بچپن سے سکھاتے ہیں کہ اصل چیز ثیثلث ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ معاذ اللہ خدا کے بیتے ہیں۔ حضرت مریم مقدس ہستی ہیں۔ ہضرت جبرائیل
Holy Ghost ہیں۔ اب مسلمان اگر پانے بچوں کو ایک خدا‘ ایک رسول اور ایک کتاب کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے دل میں اللہ اور رسول اللہ کی محبت پیدا کرتے ہیں توہ کیا برا کرتے ہیں۔ لیکن مسلمان یہ کام کریں تو وہ ’’انتہا پسندی‘‘ ہیں اور کمیونسٹ اور سرمایہ دار معاشرے کے لوگ یہی کام کریں تووہ ’’اعتدال‘‘ پسند۔ آخر جیو چل پڑھا کے ذریعے کیسی عجیب و غریب منطق قوم اور اس کے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے؟

پروگرا میں یہ مسئلہ بھی ’’تخلیق‘‘ کرکے پاکستان اور اہل پاکستان پر تھوپ دیا گیا ہے کہ ہمارے نصاب میں دوسری قوموں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ پرویز ہود بھائے نے فرمایا کہ بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانوں ۔ ہود بھائے صاحب یہ فرمارہے تھے تو ٹیلی وژن کی اسکرین پر یہ فقرے نمودار ہورہے تھے کہ انگریز تاجروں کی حیثیت سے جنوبی ایشیا میں آئے تھے مگر اپنی چالاکی اور اہل ہند کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پورے ملک کے مالک بن گئے۔ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم اور سختی شروع کردی جس سے ملک میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان فقروں کے بعد اقبال کا یہ فقرہ انگریزی میں اسکرین پر نمودار ہوا۔

Allama Mohammad Iqbal asserted that Hindus and the Muslims could not live together in the country.
اس کے ساتھ ہی ہود بھائے صاحب نے فرمایا ’’نتیجہ یہ کہ وہ ذہن پیدا نہیں ہوسکتا جو اچھے اور پرامن معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔‘‘

اس مسئلے پر معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے بھی تبصرہ فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وطن سے محبت کا مطلب ہی بھارت سے نفرت بنادی اہے۔ ہم اپنے طویل مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نظر سے آج تک کوئی ایسی نصابی کتاب نہیں گزری جس میں ہندوئوں اور عیسائیوں سے نفرت کی تلقین کی گئی ہو۔ کیا یہ کہنا انگریز وں سے نفرت کی تلقین کرنا ہے کہ انگریز تاجروں کی حیثیت سے جنوبی ایشیا میں آئے تھے لیکن وہ اپنی چالاکی اور اہل ہندکی کمزوریوں کی وجہ سے پورے ملک کے مالک بن بیٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر ظلم اور سختی کی۔ اس بیان میں جو کچھ ہے ’’امر واقعہ‘‘ ہے اور امر واقعہ کا بیان کا مطلب نفرت سکھانا نہیں ہے۔ 

پاکستان میں بھارت کو ناپسند کیا جاتا ہے مگر اس کی وجہ تاریخی تجربہ ہے۔ آزادی کے وقت بھارت کے ہندو اور گاندھی جیسے سیکولر رہنمائوں نے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اس بات کی شکایت ابوالکلام آزاد تک نے اپنی کتاب
India wins Freedom میں کی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں مسلمان قیام پاکستان کے بعد ہندوئوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ بلاشبہ مسلمانوں نے بھی ہندوئوں کو مارا۔ لیکن مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ ’’ردعمل‘‘ کی نفسیات کا حاصل تا۔ مسلمان ہندوئوں کے مقابلے پر اتنی چھوٹی اقلیت تھے کہ وہ ہندئوں کے ساتھ مار کاٹ شروع کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا۔ اس نے کشمیر پر قبضہ کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہونے دیا۔ بھارت نے 1971 ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس طرح کی تاریخ پاکستان میں بھارت کے خلاف ردعمل پید اکرنے کے لیے کافی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تاریخ میں جو کچھ ہے امر واقعہ ہی Matter of Fact ہے۔ اس کے باوجو دہم گزشتہ 30 سال کی زندگی میں ایسے ایک بھی پاکستانی سے نہیں ملے جو کہتا ہوں کہ بھارت کے ہندو ہمارے دشمن ہیں اور انہیں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

شہزاد رائے اپنے پروگرام میں دو ایسے اسکولوں میں بھی گئے جہاں ہندو اور عیسائیوں کو اسلامیات پڑھائی جارہی تھی۔ اس سے پروگرام میں یہ نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلم بچوں کو زبردستی اسلام پرھایا جارہا ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو حکمران مسلم اکثریت کے بچوں کے لیے تعلیم کا مناسب بندوبست نہ کرپارہے ہوں وہ چھوٹی سی غی رمسلم اقلیت کے بچوں کے لیے اسلامیا ت کے متبادل کی تعلیم کا بندوسبت کریں گے؟ لیکن پروگرام میں حکمرانوں کی نااہلیت کو بھی پاکستان کا ’’عیب‘‘ بنادیا گیا ۔

پروگرام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پروگرام میں جتنے دانشور ماہرین کے طو رپر نمودار ہوئے وہ سب سیکولر او رلبرل فکر کے حامل ہیں۔ مثلا پروگرام میں امینہ سید موجود تھیں او روہ لبرل پس منظر کی حامل ہیں۔ پروگرام میں ہود بھائے اور غازی صلاح الدین موجود تھے اور دونوں سیکولر تناظر کے حامل ہیں۔ پروگرام میں سلیمہ ہاشمی اور طلعت حسین شامل تھے اور ان دونوں کا مذہبی فکر سے کوئی تعلق نہیں۔پروگرام میں جاوید چوہدری موجود تھے اور وہ نہ دائیں بازو سے تعلق ہیں نہ بائیں سے سے تعلق۔ اس کے باوجود انہوں نے جو کچھ کہا وہ اسلامی تناظر کے خلاف تھا۔ پروگرام کے میزبان شہزاد رائے ک جانب داری ان کے سوالات اور تبصرے سے صاف ظاہر تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پروگرام پر سیکولر اور لبرل دانشوروں کا مکمل غلبہ تھا اور اس میں اسلام اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی ترجمانی دانشوروں ی سطح پر سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا جیو کو پورے پاکستان میں ایک بھی ایسا دانشور دستیاب نہ ہوسکا جو سیکولر او رلبرل طرز فکر کے برعکس رائے دیتا۔ بلاشبہ پروگرام میں ایک دو سرکاری اہلکار اسلامی تناظر کا دفاع کرتے نظر آئے مگر ان کی دانشورانہ حیثیت سے ملک میں کوئی واقف نہیں۔ پروگرام میں مفتی منیب الرحمن بھی موجود تھے مگر ان کی موجودگی علامتی اور چند لمحوں پر مشتمل تھی۔ تو کیا قوم کے لیے نئے نصاب اور نئے
Curriculumکا مطالبہ کرنے والے جیو کا انصاف ‘ توازن اور یامنداری یہی ہے کہ سیکولر فکر کی حمایت کے لیے پروگرام میں معروف دانشوروں کی فوج کھڑی کردی جائے اور اسلام اورپاکستان کے نظریاتی موقف کا دفاع کرنے کے لیے کوئی ممتاز اور اہل شخص موجود نہ ہو۔ جیو کے اس طرز عمل کو دیکا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ نئے نصاب کے ذریعے کتنا تنگ نظر‘ بے ایمان‘ غیر منصفانہ‘ متعصب اور خوفزدہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ ذرا سوچیئے۔


8 مارچ، 2013

نئی نانی امّاں ۔۔۔ پُرانی کہانی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک پر ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے نئے نئے محل بنانے اور طرح طرح کے لباس پہننے کا شوق تھا۔ بلکہ لباس کے اوپر لباس پہننے کا شوق تھا۔وہ ملک کا بادشاہ بھی تھا اور ایک پارٹی کا شریک چیئرمین بھی۔ اُسے دونوں لباس پہننے کا شوق تھا۔ وہ اپنے قومی خزانے کی ساری رقم اپنی آن، بان، شان اور اپنے لباس درلباس کی چمک دمک برقرار رکھنے پر خرچ کر ڈالتا۔ جب خزانہ خالی ہوجاتا تو امیر امیر ملکوں سے سودپر قرض لے لیتا اور اس قرض کی مع سود واپسی کے لیے اپنی رعایا پر مزید ٹیکس لگا دیا کرتا۔اُس کی رعایا یہ ٹیکس طوعاً و کرھاً دیتی ہی رہتی تھی۔بسوں، محفلوں اور دل میں گالیاں بک لیا کرتی تھی، مگرکبھی کوئی احتجاج نہیں کرتی تھی۔احتجاج نہ کرنے سے بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ رعایااُس کے محلات کی شان و شوکت اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی چمک دمک دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے، اور اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بادشاہ کس قیمت پر اپنا یہ شوق پورا کر رہا ہے۔ رعایا کے متعلق اُس کے وزراء بھی اُسے یہی بتایا کرتے تھے کہ :
’’ سرکار!رعایا کے لیے آپ کے محلات اور آپ کاڈبل لباس کوئی مسئلہ نہیں۔، رعایا کے مسائل تو بھوک افلاس ، بیروزگاری، دہشت گردی، سی این جی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ ہیں۔‘‘


بادشاہ کے وزراء اور اہلِ دربار بھی ہروقت باشاہ کے محلات اور اُس کے ڈبل لباس کی شان میں قصیدے ہی پڑھتے رہتے تھے۔وہ بِچارے قصیدے نہ پڑھتے یا ’’بادشاہ کھپے‘‘ کے نعرے نہ لگاتے تواور کیا کرتے ؟ ارے بھئی بچو! اگروہ ایسا نہ کرتے تو اُن کا حال بھی رعایا جیساہی ہو جاتا۔اِس وجہ سے وہ بادشاہ، اُس کے محلات اور اُس کے ڈبل ملبوسات کی شان میں ’’ روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘‘ پڑھا کرتے جو اگلے روز کے اخبارات میں چھپ جاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سوئے فرنگ سے ایک وفد آیا۔وفد سے اور جو باتیں ہوئیں سو ہوئیں۔ مگر اِس وفد میں آئے ہوئے کچھ ماہر فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو ایک جھانسا دیا۔ اُنھوں نے ڈبل لباس کے شوقین بادشاہ کو لالچ دیا کہ :
’’ یور ایکسی لینسی! ہم اپنی کاریگری دکھا کر آپ کے لیے ایسا دوہرا لباس تیار کریں گے کہ اسے زیب تن کرکے آپ کی شان وشوکت میں مزید اضافہ ہو جائے گا، شان وشوکت ہی میں نہیںآپ کی طاقت میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔طاقت ہی میں نہیں آپ کے دورِ حکومت میں بھی مزید اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
یہ سن کرتو بادشاہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔اس نے کہا :’’سائیں! ہم کو ایسا لباس کھپے۔۔۔تم جو مانگو گے ’’مئیں‘‘ تم کو دوں گا‘‘۔
فرنگی جو جو کچھ مانگتے گئے، بادشاہ اُن کو دیتا چلا گیا۔گھر بار دیے۔ زمینوں کی زمینیں دے دیں۔اُن کوفوجی ٹھکانہ بنانے کے لیے اڈے دے دیے۔کراچی ائرپورٹ پر کمپاؤنڈ بنانے کی اجازت دے دی۔ محافظوں کی چوکیاں دے دیں۔ ملک کا سارا سوت کپاس دے دیا۔ عورتوں کی اوڑھنیاں دے دیں۔ بچوں کی کتابیں اور اُن کی تختیاں دے دیں۔یہاں تک کہ اُن کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں لوٹ مارکریں قتل و غارت کریں اوراپنے کرائے کے دہشت گردوں سے دھماکے بھی کروائیں۔ اُن کو روکا جائے گا ، نہ ٹوکا جائے گا ، نہ سرکاری پوچھ گچھ ہوگی۔اُلٹاہر دھماکے کا الزام طالبان، القاعدہ اور لشکر جھنگوی پرلگادیا جائے گا۔


فرنگی کاریگر اپنا کام دکھاتے رہے۔وہ بادشاہ کے لیے دوہرا لباس بناتے رہے۔باربار قین دلاتے رہے کہ اس لباس کو پہن کر بادشاہ کی شان وشوکت ، قوت و طاقت اورزمانۂ حکومت میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔بادشاہ نے اُن کو وہ کچھ بھی دینا شروع کر دیا جو اُنھوں نے ابھی مانگا بھی نہیں تھا۔وہ قرض اُتارے کہ جو واجب بھی نہیں تھے۔ ایک دن فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کے سامنے اُس شان وشوکت اور قوت و طاقت والے لباس کو پیش کردیا۔ لباس کی خوب تعریفیں کیں اور یہ انکشاف کیاکہ:
’’ یور آنر!آپ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت ہی نہیں، آپ کا لباس بھی، صرف اُنھی لوگوں کو دکھائی دے گا جو عقل و دانش اور فہم وفراست رکھتے ہیں۔احمقوں ، بے وقوفوں اور عقل سے پیدل لوگوں کو ان میں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا‘‘۔
’’مئیں سمجھتا ہوں۔۔۔مئیں سمجھتا ہوں‘‘ ۔
بادشاہ نے کہا اور ملک بھر میں یہ اعلان کروا دیا کہ:
’’ میں اپنے نئے لباس میں قوم کو اپنا دیدار کرواؤں گا۔ سوائے احمقوں، عقل سے پیدل لوگوں اور سرکاری مناصب کے لیے نا اہل افراد کے،میرے دوہرے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت سب کو صاف نظر آئے گی۔‘‘
اور پھر وہ دن آیا۔۔۔ جب فرنگی کاریگروں کے ایما پر بادشاہ نے اپنے اس نام نہاد دوہرے لباس کو پہن کر اپنا(ہی) جلوس نکلوانے کا اہتمام کیا۔جس وقت فرنگی کاریگروں نے بادشاہ کو غیر مرئی ’’شان وشوکت اور قوت و طاقت والا لباس‘‘ پہنایاتھاتو، نظر تو بادشاہ کو بھی کچھ نہ آیاتھا۔وہ ویسے کا ویسا تھا۔ بلکہ اپنے آپ کو بے لباس بھی محسوس کر رہا تھا۔ مگران فرنگی کاریگروں اور اپنے چاپلوس درباریوں کے سامنے خود بدولت کو احمق،عقل سے پیدل اورسرکاری منصب کے لیے نااہل کیسے ثابت کربیٹھتا؟سو، اُسے اپنے اس لباسِ بے لباسی ہی میں شان و شوکت، طاقت و قوت اور اپنی اہلیت سب کچھ نظر آنے لگی۔وہ ننگ دھڑنگ باہر نکل آیا۔
’’دیکھو میرا نیا لباس!‘‘
درباریوں اور وزراء میں سے بھی کسی کویہ سچ بولنے کی ہمت نہ پڑی کہ:
’’ سر کار ! فرنگیوں نے تو آپ کو بے لباس کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘
بھلا کون یہ کہہ کراپنے آپ کو احمق، عقل سے پیدل اور اپنے منصب کے لیے نا اہل قرار دلواتا؟ایک غول کا غول تھا خوشامدیو ں کا جس نے بادشاہ کے لباس کی شان وشوکت اور قوت و طاقت کے قصیدے کورَ س کے انداز میں پڑھنے شروع کر دیے۔
’’ سبحان اﷲ! اس لباس کی کیاشان ہے‘‘۔
’’واہ واہ کیاہیبت ہے ، کیا شوکت ہے‘‘۔
’’کیارعب ہے، کیاطنطنہ ہے، کیا طاقت ہے‘‘۔
’’ کیا زور ہے، کیا قوت ہے‘‘۔
ننگے بادشاہ کا جلوس چلا جارہا تھا۔ کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں پارہاتھا کہ اُسے کوئی شان وشوکت نظر آرہی ہے ،نہ طاقت و قوت نہ بادشاہ کے تن پر کوئی لباس۔یکایک اپنے باپ کی گود میں ہُمکتے ہوئے ایک ننھے منے سے بچے نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اوربادشاہ کی طرف اُنگلی سے اشارہ کیا اور کلمۂ حق بلند کیا:
’’ ابو۔۔۔ ابو!۔۔۔ ہمار بادشاہ ننگا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی مجمع میں مکھیاں سی بھنبھنانے لگیں:
’’ ہاں واقعی، ذرا دیکھوتو سہی!‘‘
’’ہاں جی!ننگا تو مجھے بھی لگ رہاہے!‘‘
’’ بچہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، صاحب!‘‘
اس کے بعد تو پورا مجمع ہی کورَس کے انداز میں نعرے مارنے لگا:
’’ بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگا ہے ….. بادشاہ ننگاہے‘‘۔
بادشاہ کے پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔ اُس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ آگے پیچھے ہاتھ رکھ کر اور کسی ہوائی جہاز میں اُڑ کر کہیں سوئے فرنگ چلاجائے کہ وہاں ننگا رہنا کوئی عیب نہیں۔ مگر اُس نے دیکھا کہ خود فرنگی کاریگر بھی قہقہوں پر قہقہے مار رہے ہیں۔ وہ بھی سب کے ساتھ نعرے بازی کے اِس کورَس میں جوش وخروش سے شریک ہوگئے ہیں کہ:
’’ بادشاہ ننگا ہے ! ….. بادشاہ ننگاہے! ….. بادشاہ ننگاہے! …..‘‘

2 مارچ، 2013

لبیک از ممتاز مفتی






 
لبیک از ممتاز مفتی 

Labaik: A beautiful Book 
by 
Mumtaz-Mufti
DOWNLOAD (Right click + Save link as)

Alternate Links
LINK-1
LINK-2
Labbaik by Mumtaz Mufti is an reportage of his hajj travel. Written in his own style it is a must read for all Mumtaz Mufti's Lovers.
Labbaik is a travelogue and reportage of Mumtaz Mufti’s Hajj. Its a classic of Urdu and is one of the best selling books in Pakistan. In this journey he was accompanied with Qudrat Ullah Shahab and had many mystical experiences. Labbaik will surely introduce you with many different aspects of the Muslim’s greatest event. A different book in tone, and probably there are many critics of Mufti because of this book, but undoubted Labbaik has presented something which any other would dare to do so. A must read for someone especially who is going to perform Hajj!