ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

24 مئی، 2013

ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے





 فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
المائدة (٥:٦٨)
پس ان کافروں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو

قاتلو!
ہاں تم ہی ہو نا وہ
جس نے برسوں تلک
میرے بغداد اور اُس کے اطراف میں
میری مظلوم امّت کے ایک دو نہیں۔۔۔
پورے دس لاکھ بچّوں کا مثلہ  کیا!
مائوں کی جھولیوں سے اُنہیں کھینچ کر
بھوک اور مرض کے جال میں بھینچ کر
کند چھریوں سے اُن کو ذبح کر دیا !

کافرو!
پھر تمہیں ہو نا وہ !
جس نے تیموروکشمیروشیشان میں
جس نے فلپین و صومال  و سوڈان میں
میرے ایک ایک قاتل کو پرسہ دیا!
نیل کے ساحلوں سے ملایا تلک
ردِّ اسلام کی جو بھی سازش ہوئی
سر پرستی تمہاری ہی اُس میں رہی!
اور کسی نے نہیں___
میری اقصیٰ کو تاراج تم نے کیا
میرے کعبہ کو گھیرے میں تم نے لیا
وہ جزیرہ عرب کا جہاں پر کبھی
اُترا کرتے تھے جبریل؏ لے کر وحی
اُس کی حرمت کو پامال تم نے کیا
سرزمینِ حرم ، وہ دیا رِنبیؐ
جس سے لشکر نکلتے تھے اسلام کے
اپنے ناپاک قدموں سے روندا  اُسے
اُس کے پانی پہ خشکی پہ قبضہ کیا!

پوری امّت کو نرغے میں ایسے لیا_____
اُس کے اڈّوں سے اُڑ اُڑ کے چاروں طرف
تم نے ہیٹام ہاکاور ڈیزی گٹر
ہم پہ برسائے دن رات، شام و سحر!
ہم پہ یورانیم کی جو بارش رہی
تمہارے ہی دستِ ستم سے گری!
یہ تمہیں  تھے کہ جن کی ہوس کی نظر
کتنی معصوم کلیوں کے دامن ہوئے
کتنے سجدہ کناں تھے کہ جن کے بدن
آن ہی آن میں چیتھڑے بن گئے
یہ تمہارا ستم در ستم دیکھ کر
چیخنے تک کی نہ تھی اجازت مگر
پھر بھی چُپ سادھ کر
ہم سسکتے،بلکتے،تڑپتے رہے!
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یونہی بے سبب
آسمانی مدد کو ترستے رہے!
خود پہ ہنستے رہے!
ذلّتوں کا یہ زہراب پیتے رہے
روز مرتے رہے روز جیتے رہے!

اب مگر قاتلو!
انتہا ہو گئی
امن کی لوریاں سن چکے ہم بہت
وہ کہانی گئی، وہ فسانہ گیا، ہر بہانہ گیا!
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یونہی بے سبب
آسماں دیکھنے کا زمانہ گیا
“وَاَعِدّ ُلَھُمْ” کی سناں تھام کر
“تُرْ ھِبُوْنَ بِہِ” کا علم گاڑھ کر
دامنِ ہند و کش میں برسوں تلک
ہم نے “اَلْحَمْدُ ” سے لے کر “وَالنَّاسِ” تک
جو بھی کچھ ہے پڑھا ،وہ بھلایا نہیں!
ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر ___خوں  رُلایا نہیں!
روند کر اہلِ ایمان کی بستیاں
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو؟؟؟
یہ تو ممکن نہیں عیش سےتم رہو
اور ملت ہماری عذابوں میں ہو

منتظر اب رہو!
ہاتھی والو!___زرا آسمانوں سے لکھے نوِشتے پڑھو
بڑھ رہے ہیں تمہارے قلعوں کی طرف
موت کے کچھ بگولے، کچھ آتش فشاں
جراتوں کے دھنی، ہمتوں کے نشاں
کچھ ابابیل، ایسے شہیدی جواں!
لو تباہی کا اپنی تماشا کرو!
عمر باقی ہے جو
 زخم دھوتے رہو!
خود پہ روتے رہو 

ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے 
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا 
جو ہو مومن____ اُنہیں آج پرسہ نہ دے!




شاعر: انجینئر احسن عزیز شہید

کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا

 

16 مئی، 2013

علامہ اقبال کا پیغام




ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

بانگ درا از علامہ اقبال