ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 جنوری، 2014

آخری دعا بھی قبول ہو گئی!!


بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ
’’تمہارے رب نے حکم دیا ہے: مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو قبول کرنے والا ہوں‘‘۔

میں دعائوں کی قبولیت کے سنہرے واقعات نامی ایک کتاب پڑھ کر رہا تھا، اس میں ایک خوبصورت واقعہ نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس واقعے نے ایمان تازہ کر دیا۔
 
اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔

ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶  گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔ ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘

ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔


اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔

اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟

بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔

ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ ہاں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔

ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔

لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔

ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘

جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا

کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:

اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن

’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو‘‘۔ (النمل: ۶۲)

------------------------------------
دعائوں کی قبولیت کے سنہرے واقعات- عبدالمالک مجاہد ، صفحہ  ٢٣


29 جنوری، 2014

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں


زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے کہ:
انثروا القمح على رؤوس الجبال لكي لا يقال جاع طير في بلاد المسلمين.

جا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر دانے پھیلا دو، کہیں مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں۔

--------------------------------



Subscribe to Get new Posts in Email

21 جنوری، 2014

مقامِ محمود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کی ایک دعا ہوتی ہے جو وہ کرتا ہے (اور وہ قبول ہوتی ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا آخرت میں امت کی شفاعت کیلئے محفوظ رکھوں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1254


صحیح بخاری میں ایک طویل روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز جب لوگ سخت مصیبت میں مبتلا ہوں گے تو یکے بعد دیگرے مختلف انبیائے کرام کے پاک جائیں گے اور عرض کریں گے: اے الله کے نبی! الله تعالیٰ کے حضور ہماری سفارش کر دیجیے ۔ انبیائے کرام یکے بعد دیگرے  معذوری ظاہر کریں گے۔ آخر کار لوگ رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور سفارش کی درخواست کریں گے۔ اس کے بعد کیا ہو گا وہ الله کے رسول کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے پھر سب سے پہلے حضرت آدم کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ اپنی اولاد کے لئے شفاعت فرمائیں وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں تم حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں لیکن تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں سب لوگ حضرت موسیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں مگر تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ وہ روح اللہ اور کلمة اللہ ہیں چنانچہ سب لوگ حضرت عیسیٰ کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں لیکن تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔

 وہ سب میرے پاس آئیں گے میں ان سے کہوں گا کہ ہاں میں اس کا اہل ہوں اور میں ان کے ساتھ چل پڑوں گا اور اللہ سے اجازت مانگوں گا مجھے اجازت ملے گی اور میں اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی ایسی حمد وثنا بیان کروں گا کہ آج میں اس پر قادر نہیں ہوں وہ حمد وثناء اللہ اسی وقت القاء فرمائیں گے اس کے بعد میں سجدہ میں گر جاؤں گا مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد اپنا سر اٹھائیے اور فرمائیے سنا جائے گا اور مانگئے دیا جائے گا اور شفاعت کیجئے شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے پروردگار میری امت میری امت ۔ تو پھر اللہ فرمائیں گے جاؤ جس کے دل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو میں ایسے سب لوگوں کو دوزخ سے نکال لوں گا۔

 پھر اپنے پروردگار کے سامنے آکر اسی طرح حمد بیان کروں گا اور سجدہ میں پڑ جاؤں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد اپنا سر اٹھائیے فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کیجئے شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت ۔ پھر اللہ پاک مجھے فرمائیں گے کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو۔

میں ایسا ہی کروں گا اور پھر لوٹ کر اپنے رب کے پاس آؤں گا اور اسی طرح حمد بیان کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا مجھ سے کہا جائے گا اے محمد فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت۔ مجھ سے اللہ پاک فرمائیں گے کہ جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانہ سے بھی کم بہت کم اور بہت ہی کم ہو اسے بھی دوزخ سے نکال لو میں ایسا ہی کروں گا۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 479

میں ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا یہاں تک کہ دوزخ میں کوئی بھی باقی نہیں رہے گا ، بجز ان کے جن کو قرآن نے روک رکھا ہوگا یعنی (قرآن کی رو سے) جن پر دوزخ میں ہمیشہ رہنا واجب ہے ۔ انس کا بیان ہے کہ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

"عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا بنی اسرائیل 79
ترجمہ: یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا؟
  اور فرمایا کہ یہی مقام محمود ہے جس کا تمہارے نبی سے وعدہ کیا گیا تھا ۔

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2333

 





20 جنوری، 2014

حضرت سعد الاسودؓ کی شادی


حضرت سعد الاسودؓ کا اصل نام تو سعد تھا لیکن ان کی غیر معمولی سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ ان کو ’’سعد الاسود‘‘ یا ’’اسود‘‘ کہا کرتے تھے۔ حضرت سعد الاسودؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی شخص میری بدصورتی کے سبب مجھ کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پیام دیے لیکن سب نے رد کر دیے۔ ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں اور کچھ غیر حاضر ہیں۔‘‘ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اس سیاہ فام شخص کو اللہ تعالیٰ نے نورانی جبلت عطا کی ہے اور جوشِ ایمان اور اخلاص فی الدین کے اعتبار سے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت تھے، بیکسوں اور حاجت مندوں کے ملجا و ماویٰ تھے۔ اپنے ایک جاں نثار کی بیکسانہ درخواست سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی نے گوارا نہ کیا کہ لوگ اس کو محض اس وجہ سے ٹھکرائیں کہ وہ ظاہری حسن و جمال سے محروم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سعد گھبرائو نہیں، میں خود تمہاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں، تم اسی وقت عمروؓ بن وہب ثقفی کے گھر جائو اور سلام کے بعد ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کر دیا ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد الاسودؓ شاداں و فرحاں حضرت عمروؓ بن وہب کے گھر کی طرف چل دیئے۔ 

حضرت عمروؓ بن وہب ثقفی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ان کے مزاج میں زمانۂ جاہلیت کی درشتی موجود تھی۔ حضرت سعدؓ نے ان کے گھر پہنچ کر انہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر ذہین و فطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہو سکتی ہے! انہوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعدؓ کا پیام رد کر دیا اور بڑی سختی کے ساتھ انہیں واپس جانے کے لیے کہا۔
سعادت مند لڑکی نے حضرت سعدؓ اور اپنے باپ کی گفتگو سن لی تھی، جونہی حضرت سعدؓ واپس جانے کے لیے مڑے وہ لپک کر دروازے پر آئی اور آواز دی: ’’اللہ کے بندے واپس آئو، اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمہارے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوں، جس بات سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں میں بھی اس پر راضی ہوں۔‘‘

اس اثناء میں حضرت سعدؓ آگے بڑھ چکے تھے، معلوم نہیں انہوں نے لڑکی کی بات سنی یا نہیں، بہرصورت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کر دیا۔ اُدھر ان کے جانے کے بعد نیک بخت لڑکی نے اپنے والد سے کہا:
’’
ابا قبل اس کے کہ اللہ آپ کو رسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجیے۔ آپ نے بڑا غضب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پروا نہ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔‘‘

عمروؓ بن وہب نے لڑکی کی بات سنی تو اپنے انکار پر سخت پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا۔‘‘

عمروؓ بن وہب نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں نے اس آدمی کو لوٹایا تھا لیکن یہ غلطی لاعلمی میں سرزد ہوئی۔ میں اس شخص سے واقف نہ تھا، اس لیے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا اور اس کا پیام نامنظور کر دیا، خدا کے لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ مجھے اپنی لڑکی کی شادی اس شخص سے بسرو چشم منظور ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمروؓ بن وہب کا عذر قبول فرمایا اور حضرت سعد الاسودؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’سعد میں نے تمہارا عقد بنت ِ عمرو بن وہب سے کر دیا۔ اب تم اپنی بیوی کے پاس جائو۔‘‘

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعدؓ کو بے حد مسرت ہوئی، بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر سیدھے بازار گئے اور ارادہ کیا کہ نوبیاہتا بیوی کے لیے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک منادی کی آواز پڑی جو پکار رہا تھا: ’’اے اللہ کے شہسوارو، جہاد کے لیے سوار ہو جائو اور جنت کی بشارت لو۔‘‘ سعدؓ نوجوان تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دل میں ہزار امنگیں اور ارمان تھے۔ بار ہا مایوس ہونے کے بعد شادی کا مژدہ فردوس گوش ہوا تھا، لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوشِ ایمانی غالب آگیا اور نوعروس کے لیے تحائف خریدنے کا خیال دل سے یکسر کافور ہوگیا، جو رقم اس مقصد کے لیے ساتھ لائے تھے، اس سے گھوڑا، تلوار اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں غزوہ پر جانے والے مجاہدین میں جا شامل ہوئے۔ اس سے پہلے نہ ان کے پاس گھوڑا تھا، نہ نیزہ و تلوار، اور نہ انہوں نے کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا، اس لیے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ یہ سعدالاسودؓ ہیں۔ میدان جہاد میں پہنچ کر سعدؓ ایسے جوش و شجاعت کے ساتھ لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک موقع پر گھوڑا اَڑ گیا تو اس کی پشت پر سے کود پڑے اور آستینیں چڑھاکر پیادہ پا ہی لڑنا شروع کردیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر شناخت کرلیا اور آواز دی ’’سعد‘‘۔ لیکن سعدؓ اُس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر اس جوش و وارفتگی کے ساتھ لڑرہے تھے کہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی بھی خبر نہ ہوئی۔ اسی طرح دادِ شجاعت دیتے ہوئے جُرعۂ شہادت نوش کیا اور عروسِ نو کے بجائے حورانِ جنت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ 

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعدالاسودؓ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاش کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دعائے مغفرت کی اور پھر فرمایا:
’’
میں نے سعدؓ کا عقد عمرو بن وہب کی لڑکی سے کر دیا تھا، اس لیے اس کے متروکہ سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔ سعدؓ کے ہتھیار اور گھوڑا اسی کے پاس پہنچا دو اور اس کے ماں باپ سے جا کر کہہ دوکہ اب خدا نے تمہاری لڑکی سے بہتر لڑکی سعد کو عطا کر دی، اور اس کی شادی جنت میں ہو گئی۔‘‘

قبول اسلام کے بعد حضرت سعد الاسودؓ نے اس دنیائے فانی میں بہت کم عرصہ قیام کیا، لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے اپنے جوشِ ایمان اور اخلاصِ عمل کے جو نقوش صفحۂ تاریخ پر ثبت کیے وہ امت ِ مسلمہ کے لیے تاابد مشعلِ راہ بنے رہیں گے۔

ابن الاثیر(اسد الغابہ:1/668)
أَخرجه أَبوموسى.(2/418)







Subscribe to Get new Posts in Email

14 جنوری، 2014

اطاعت رسولؑ کی ایک مثال


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعیناطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کس طرح دل و جان سے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل پر نفسانی میلانات و رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دوران خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشاد کان میں پڑا تو معا ان کے قدم زمین میں گڑ گئے اور وہ اسی جگہ بیٹھ گئے۔ اور اتنی بھی جرات نہ کرسکے کہ مسجد میں پہنچ لیں تو اس حکم کی تعمیل کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے جذبہ اطاعت پر بڑی مسرت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:

"الله تمھارے دل میں الله اور رسول کی اطاعت کا جذبہ اور زیادہ کرے"

یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبہ۔

خیر البشرؐ کے چالیس جانثار :از طالب الہاشم

ربیع الاوّل کا پیغام



ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے(تاریخ میں اختلاف ہے اور متعدد اقوال ہیں)۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کی تکمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ رسالت پہنچا دیا تو بارہ ربیع الاوّل 11ھ میں سوموار کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔

جب آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی

آل عمران:144

ترجمہ: اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا ‌شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گر گیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی

بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ موذّنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اذان نہ دے سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر أشھد أن مُحمد تک پڑھا اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔

جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63 سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔

کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی روشنی میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔ جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں، ہم رک جائیں اور جس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔

آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔ اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے۔ اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے اور اللہ تعالی سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔

12 جنوری، 2014

جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا


حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز چلتے پھرتے مدینے میں یہودیوں کے محلے میں پہنچ گئے۔ وہاں ایک بڑی تعداد میں یہودی جمع تھے اس روز یہودیوں کا بہت بڑا عالم فنحاس اس اجتماع میں آیا تھا۔

صدیق اکبر رضی الله نے فنحاس سے کہا اے فنحاس! اللہ سے ڈر اور اسلام قبول کر لے اللہ کی قسم تو خوب جانتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں اور تم یہ بات اپنی تورات اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہو اس پر فنحاس کہنے لگا۔

وہ اللہ جو فقیر ہے بندوں سے قرض مانگتا ہے اور ہم تو غنی ہیں۔ غرض فحناس نے یہ جو مذاق کیا تو قرآن کی اس آیت پر اللہ کا مذاق اڑایا۔

من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا (سورہ البقرہ ٢٤٥)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ اللہ کا دشمن میرے مولا کا مذاق اڑا رہا ہے تو انہوں نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا:

”اس مولا کی قسم جس کی مٹھی میں ابوبکر کی جان ہے اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا-“

فنحاص دربار رسالت میں آگیا۔ اپنا کیس حکمران مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا۔ کہنے لگا:
”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے! آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ اس اور اس طرح ظلم کیا ہے۔“

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا:
”آپ نے کس وجہ سے اس کے ٹھپڑمارا۔“

تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی :”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ کے دشمن نے بڑا بھاری کلمہ بولا۔ اس نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ غنی ہیں۔ اس نے یہ کہا اور مجھے اپنے اللہ کے لئے غصہ آگیا۔ چنانچہ میں نے اس کا منہ پیٹ ڈالا۔“

یہ سنتے ہی فنحاص نے انکار کردیا اور کہا :” میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔“

اب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دینے والا کوئی موجود نہ تھا۔

یہودی مکر گیا تھا اور باقی سب یہودی بھی اس کی پشت پر تھے۔

یہ بڑا پریشانی کا سماں تھا۔ مگراللہ نے اپنے نبی کے ساتھی کی عزت وصداقت کا عرش سے اعلان کرتے ہوئے یوں شہادت دی۔

لَقَد سَمِعَ اَللَّہُ قَولَ الَّذِینَ قَالُو ااِنَّ اللَّہ َ فَقِیر وَنَحنُ اَغنِیَائُ(آل عمران : ۱۸۱)
”اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں-“

(تفسیر قرطبی،4۔129، زاد المیسر1۔514، ابن کثیر1۔434)

قارئین کرام ! ….صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مولا کی گستاخی پر رب کے دشمن کے طمانچہ مارا اور جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا تو رب تعالیٰ نے صدیق کی صداقت کا اعلان عرش سے کر دیا۔

6 جنوری، 2014

’’بہادر کمانڈو‘‘ کی بند شریانیں



دیکھا اس بیمارئ دل نے۔۔۔ڈرامے میں نیا موڑ از مشتاق سہیل
 ’’بہادر کمانڈو‘‘گھر سے عدالت کے لئے چلے اور اسپتال پہنچ گئے۔وکلا ء سے تو کہہ کے چلے تھے کہ عدالت جارہا ہوں،چلتے وقت الجھے الجھے تھے،راستے میں کسی نے فون کرکے الجھن دور کردی،اچانک طبیعت خراب ہوئی اور گاڑیوں کا رخ آرمڈفورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف موڑدیا گیا۔وہاں پہلے سے سیکیورٹی الرٹ تھی، سڑک پرسیکیورٹی اہلکار تعینات تھے ۔ اللہ والے لوگ ہیں،’’الہام‘‘ ہوگیا تھا کہ صاحب ادھر نہیں ادھر ہی آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے اردگرد ہزاربارہ سو پولیس والے کھڑے رہ گئے ،صاحب کواہلیٹ فورس والوں نے سنبھال لیا۔ جنہوں نے خبریں دیں انہوں نے کہا صاحب تین بار گاڑی میں بیٹھے تین بار گاڑی سے اترے،کسی ’’فرشتے‘‘کا پیغام ملا تو قافلہ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب مڑگیا،امراض قلب کے فوجی اسپتال میں پہنچتے ہی ’’علاج‘‘شروع ہوگیا،اچانک ہی پتہ چلا کہ تین شریانیں بند ہیں۔ قریبی لوگوں نے کہا کہ وقتاً فوقتاً معائنہ کراتے رہتے ہیں،کیا اس عرصے میں شریانیں بند ہونے کا پتہ نہ چل سکا،یا اچانک خون کی گردش رک گئی اور شریانیں بند ہوگئیں۔

خبریں پڑھنے اور سننے والے بڑے ذہین بلکہ فطین ہوگئے ہیں ،ایک نے کہا فارم ہاؤس سے نکلتے وقت ساری شریانیں کھلی ہوئی تھیں،بس ذہنی دباؤ تھا،پہلی بار گاڑی میں بیٹھے تو ایک شریان بند ہوگئی،نیچے اترے،کوئی فون نہ پیغام، دوسری بار بیٹھے تو دوسری شریان بند ہوگئی،فون کیوں نہیں آیا،الجھن بڑھ گئی،تیسری بار گاڑی میں قدم رکھا تو تیسری شریان بھی بند ہوگئی۔ قدم لڑکھڑائے،ہوش میں چلے تھے،اسپتال جاتے جاتے ہوش وحواس کھوبیٹھے ،گھر سے قدموں پر چل کرآئے تھے،اسپتال پہنچے تو اسٹریچر پر ڈال کر پہلے سے تیار وی وی آئی پی روم میں پہنچادیئے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا حالت خطرے سے باہر ہے ،پھر ڈاکٹروں کا ’’فل بینچ‘‘بورڈ بنانے اور بیرون ملک علاج کے مشورے کیوں ہونے لگے، صورتحال الجھی نہیں،خواہ مخواہ الجھائی جارہی ہے ،بیماری تو بیماری ہے اصلی ہو یا جعلی،بندہ خاکی کا کیا بھروسہ،کب رزق خاک بن جائے۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں،دل کسی ڈسپلن کا پابند نہیں،جانے کس وقت دھڑکنا بند کردے،سانس کا کیا بھروسہ آئی آئی نہ آئی نہ آئی،زندگی تھی آگے جانے سے بچ گئے،بھلاہو ڈاکٹروں کا جنہوں نے اس شخص سے بھی وفاداری نبھائی جو زندگی بھر صرف اپنی ذات سے وفاداری نبھاتا رہا،اور اپنے ہی خول میں بند رہا۔

’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ کی بڑھکیں مارنے اور مکے دکھاکر خوفزدہ کرنے والا شخص موت کے خوف سے اتنا گھبرایا کہ ہوش وحواس کھوبیٹھا ۔ شریانیں کیسے بند ہوگئیں،واقفان حال کہتے ہیں،پہلی شریان دہشت سے دوسری وحشت سے اور تیسری ذہنی دباؤ کے باعث بند ہوئی،تفصیل اس اجمال کی یوں بیان کی جاتی ہے کہ اکبر بگٹی کی شہادت ہوئی تو ڈیرہ بگٹی کے بے آب وگیاہ پہاڑوں سے ابھرتی چیخوں نے بہادر کمانڈو کو دہشت زدہ کردیا ایک شریان بندہوگئی،دوسری شریان لال مسجد کے شہداء کے جلے ہوئے چہرے اور جسم دیکھ کر وحشت سے بند ہوئی اور تیسری اپنے انجام سے خوفزدہ ہوکر ذہنی دباؤ کے باعث بند ہوگئی ،میرتقی میر نے کہا تھا


الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا

ابھی کام تمام نہیں ہوا،ابھی تو دنیا کی عدالت کا فیصلہ بھی نہیں آیا،فیصلہ بعد کی بات ہے ،فرد جرم عائد نہیں ہوسکی،اس سے بچنے کے لئے ہی تو شریانیں بند ہوئی ہیں،فرد جرم عدالت عظمیٰ میں ازخود حاضری کے بغیر عائد نہیں ہوتی،ایک بار فرد جرم عائد ہوجائے تو انصاف اپنا راستہ بناتا چلا جاتا ہے،استغاثہ کے وکیل اور وکلائے صفائی فرد جرم پر ہی دلائل دیتے ہیں،جس کے بعد فیصلہ سنادیا جاتا ہے ،اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کا رخ کرنے کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے عدالت میں حاضری سے گریز،فرد جرم نہ پڑھی جائے۔

کتنے ذہین وکلاء ہیں کہ دنیا کے عذابوں سے بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن جدہر جاتے جاتے رہ گئے وہاں کیا کریں گے،جب زمین اپنے سخت بھونچال سے پوری شدت کے ساتھ تھرتھرائی جائے گی اور اپنے سارے بوجھ نکال باہر پھینکے گی اور انسان (حیران وششدرہوکر) کہے گا اسے کیا ہوگیا ہے،اس دن وہ اپنے حالات خود ظاہر کردے گی،اس لئے کہ آپ کے رب نے ا س کیلئے تیزاشاروں کو مسخر فرمادیا ہوگا،اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال (فرد جرم) دکھائے جاسکیں ،تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گااور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے بھی دیکھ لے گا(سورۃ الزلزال)

فرد جرم تو عائد ہوگی،ایک کے بعد ایک جرم،سارے جرائم کے بارے میں پوچھا جائے گا،اکبر بگٹی ،لال مسجد کے سارے شہداء روشن چہروں کے ساتھ رب ذوالجلال کی عدالت میں انصاف طلب کررہے ہوں گے،ایسے وقت میں وکلاء کیا کریں گے؟ شریانیں بند نہیں ہوں گی،موت کو موت آجائے گی،اعضاء گواہی دیں گے،مجرم موت کی آرزو کرے گا جو مسترد کردی جائے گی،تب خالق کائنات اپنا فیصلہ سنائے گا،جسے اشرف المخلوقات بناکر زمین پر اتارا تھا اس نے دنیاوی فائدے کی خاطر ایک فون کال پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مذہبی کلچر تباہ کردیا،نصاب سے جہاد کی آیات نکال دیں،جو یہود ونصاریٰ کا نہ صرف دوست بنا بلکہ دوستوں کو اس ازلی وابدی دشمن کے ہاتھ فروخت کرتا رہا،جس کے آمرانہ فیصلوں کی بدولت ڈیڑھ لاکھ افغان ہلاک کردیئے گئے،خودکش دھماکوں اور دہشت گرد کارروائیوں کی ابتداء ہوئی اور پچاس ہزار پاکستانی شہید کردیئے گئے جن میں پاک فوج کے 5ہزار سے زائد جوان بھی شامل تھے۔

ایک شخص کے قتل عمد کا مجرم پوری انسانیت کے قتل کا مجرم ٹھہرے گا ،سیاسی وابستگیاں کام نہ آئیں گی،چوہدری شجاعت بھی بلائے جائیں گے دیگر اتحادی بھی حاضر ہوں گے،چوہدری صاحب کی بات یہاں سمجھ میں آئے نہ آئے وہاں سب سمجھیں گے،ساری سیاسی سوجھ بوجھ دھری رہ جائے گی،اپنی جان چھڑانی مشکل ہوگی چوہدری صاحب سمیت اتحادیوں نے اس ’’سپریم کورٹ‘‘کے لئے کیا سوچا ہے ،جہاں کوئی انٹراکورٹ درخواست دی جاسکے گی نہ ہی اپیل کی اجازت ہوگی،سیاستدانوں کی تو رحم کی اپیلیں بھی مسترد ہوجائیں گی،حقوق العبادکی خلاف ورزیوں پر ہی دھرلئے جائیں گے،جنت کی آرزو میں قبروں سے نکلیں گے لیکن آدھے راستے ہی میں گاڑیوں کا رخ جہنم کی طرف موڑدیا جائے گا۔لوگوں کے تبصرے،دل جلوں کے بیانات،متاثرین کا ردعمل رہنے دیجئے،ڈرامہ ہے یا حقیقت،بیماری اصلی ہے یا جعلی،باہر جانے کی تیاریاں ہیں یا بیگم صاحبہ کے مشورے پر حکومت سے ڈیل پر آمادگی ہے۔سعودی وزیر خارجہ امید کی کرن بن کر آرہے ہیں،شائد بچاکر لے جائیں،لیکن خالق کائنات نے فیصلہ سنادیا تو کون بچانے آئے گا،جس کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ‘‘اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے تو غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ شروع ہوگئی ہے کیا رب کائنات کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ آچکا ہے ؟