ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اپریل، 2014

یکم مئی۔۔۔۔یومِ مزدور


کسی رنگ ساز کی ماں نے کہا بیٹا اُٹھو نا۔۔ ناشتہ کرلو
کہ قسمت میں لِکھے دانوں کو چُگنے کے لئے بیٹا
پرندے گھونسلوں سے اُڑ چکے ہیں تم بھی اُٹھ جاؤ
خُمارِ نیند میں ڈُوبا ہوا بیٹا تڑپ اُٹھا
ارے ماں آج چُھٹی ہے ذرا سی دیر سونے دے
مِری آنکھوں کے تارے کون سی چُھٹی بتا مُجھ کو۔۔؟؟
ارے ماں!! آج دُنیا بھر میں مزدوروں کا چرچا ہے
میں پچھلے سال بھی گھنٹوں برش لے کر تو بیٹھا تھا
کوئی بھی آج کے دِن ہم کو مزدوری نہیں دیتا
میں پیدل چل کے چورنگی پہ جا بیٹھوں گا لیکن ماں!!
تِرے تو عِلم میں ہو گا کہ پیدل چلنے پِھرنے سے
تِرے اِس لال کو اے ماں غضب کی بھوک لگتی ہے
تو بہتر ہے مُجھے تُو ناشتہ کُچھ دیر سے دے دے
صبح دِن رات کے ہم تین کھانے روز کھاتے ہیں
جو آٹا دِن کی روٹی کا بچے گا رات کھا لیں گے
یہ مزدوروں کا دِن ہے اِس پہ مزدوری نہیں مِلتی
ذرا سی دیر سونے دے مُجھے بھی دِن منانے دے!!!!

۔۔۔۔۔شاعر : عابی مکھنوی۔۔۔۔

23 اپریل، 2014

سرخ ٹوپ کی بارات میں مسئلہ حل

  حامد میر پر حملے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنا دیا گیا ہے جس کے بعد اس بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ حملہ کس نے کیا۔ مسلح افواج کے ترجمان کی دو ٹوک تردید بھی واضح الفاظ میں چھپ چکی ہے کہ اس کے کسی ادارے کا اس واردات سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ یہ بحث تو ختم ہوئی لیکن مرکزی بحث کے بطن سے کچھ اور مباحثے برآمد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ محب الوطن کون ہے اور غدّار کون! بظاہر سادہ سا سوال ہے لیکن جواب اتنا پیچیدہ کہ تریسٹھ برس سے سمجھ نہیں آسکا بھلا ہو ایک چینل پر دو روز پہلے ہونے والے ایک پروگرام کا کہ اس نے چٹکی بجاتے میں‘ مطلب صرف ایک گھنٹے کے پروگرام میں جواب پیش کر دیا۔ پوری طرح نہیں تو کافی سے زیادہ رہنمائی ضرور دیدی جس سے اس مشکل سوال کا آسان جواب ڈھونڈنے میں مدد مل جاتی ہے۔ 

پروگرام میں شریک تھے جناب رشید صاحب‘ جناب ڈاکٹر اجمل صاحب‘ جناب لقمان صاحب اور ایک نوجوان‘ جس کے بارے میں واضح نہیں ہو سکا کہ لڑکی ہے یا لڑکا‘ بہرحال تھا وہ نوجوان اور اس بارات کے دولہا تھے جناب زید سرخ ٹوپ۔ یوں کہئے کہ میر محفل تھے۔
 اس پروگرام میں کئی انکشافات بھی ہوئے اور کئی امور پر زبان حال سے اتفاقات بھی کئے گئے۔ سرفہرست انکشاف یہ تھا کہ حامد میر اور ان کے بھائی عامر میر تو غدّار ہیں ہی ‘ ان کا خاندان بھی نسل در نسل غدّار ہے۔ جناب زید سرخ ٹوپ کے الفاظ تھے۔ حامد میر غدّار ابن غدّار ابن غدّار ابن غدّار ابن غدا۔۔۔۔۔۔ابھی ان کا شجرہ نسب کا یہ بیان جاری تھا کہ کسی نے بات کاٹ دی اور بیان ادھورا رہ گیا ورنہ شاید طوفان نوح کے بعد بچ رہنے والی نسلِ آدم تک پہنچ کر ہی دم لیتا‘ بہرحال‘ جتنا بیان سرخ ٹوپ فرما چکے تھے‘ اس کے مطابق بھی میر خاندان کی غدّاری کا سلسلہ مغل سلطنت تک تو پہنچ ہی جاتا ہے۔ 

بہت بڑا انکشاف ہے لیکن اس پر حیرت ضرور ہوئی۔ اس بات پر کہ غدّاروں کا ایک خاندان مغل سلطنت کے زمانے سے ملک میں غدّاری در غدّاری در غدّاری کئے چلا جا رہا ہے اور اس کی خبر اب 2012ء میں جا کر ہوتی ہے۔ کیا یہ ’’سکیورٹی لیپس‘‘ نہیں؟ 
اتفاقات کچھ یوں ہیں: اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ حامد میر پر کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔ وہ زخمی بھی نہیں ہوئے‘ محض ڈرامہ ہے۔ اتفاق درست ہو گا لیکن اس صورت میں یہ بیان فرمانا بھی ضروری تھا کہ یہ ڈرامہ آغا خاں ہسپتال کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
 دوسرا اتفا ق یہ کیا گیا کہ حملہ تو ہوا لیکن یہ ارینجڈ تھا۔ حامد میر نے خود ہی کروایا۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ حامد میر سے ہدایات دینے میں غلطی ہوگئی۔ یا بندوقچیوں نے ہدایات پر عمل کا خیال نہیں رکھا اور چھ گولیاں نشانے پر جا لگیں۔ 

تیسرا اتفاق اس بات پر تھا کہ حامد میر پر حملہ قابل مذمت ہے لیکن حملہ آور قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے ایک غدّار کو انجام تک پہنچانے کی کوشش کرکے اپنی حب الوطنی کا تقاضا پورا کیا۔اگرچہ بدقسمتی سے کوشش ناکام رہی۔

پروگرام میں شریک نوجوان (لڑکا یا لڑکی) کو اس بات پر شدید رنج تھا کہ چھ کی چھ گولیاں جسم کے نچلے حصہ پر کیوں لگیں‘ ایک آدھ سر میں یا دل میں کیوں نہ لگی (یہ بات دل پر ہاتھ رکھ کر کی گئی) یہ نوحہ اتنے دکھ بھرے انداز میں پڑھا گیااور لہجہ اتنا درد انگیز تھا کہ پروگرام کی فضا پر غمکی چادر چھا گئی۔ 
ایک اہم اتفاق یہ کیا گیا کہ ملّا ملوانے سب غدّار ہیں۔ ملّا ملوانے یعنی جو قرآن پاک اور حدیث رسول ؐکے عالم ہیں۔ مناسب تھا کہ ان کے بارے میں بھی اتفاق ظاہر فرما دیا جاتا جو قرآن پاک کے عالم نہیں ہیں‘ صرف طالب علم ہیں۔ شاید انہیں رعایتی نمبر دے کر نیم وفادار سمجھ لیا جانا چاہئے۔فیصلے کا حق جناب سرخ ٹوپ کو تھالیکن وہ خاموش رہے۔

 غدّاری کا مسئلہ حالات و واقعات کے حوالے سے کافی حد تک طے شدہ ہے لیکن پھر بھی کچھ شبہ ہے تو وہ اسی بحث مباحثے سے دور ہو جاتا ہے۔ کافی حد تک طے شدہ یوں ہے کہ سندھی تو پاکستان بننے سے پہلے ہی غدّار تھے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد بلوچ بھی غدّار ہوگئے۔ نائن الیون کے بعد پشتونوں کے غدّار ہونے کی سچائی بھی ثابت ہوگئی اور نائن الیون کے بعد ’’ہماری جنگ‘‘ شروع ہوئی تو آہستہ آہستہ یہ بات بھی کھلی کہ پنجاب بھی80یا90 فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ غدّار ہے۔ اب مجموعی طور پر چاروں صوبے غدّاری میں ہم پلہ ہیں‘ کسی کو ایک دوسرے پر طعنہ زن ہونے کا حق اب نہیں رہا۔ بڑے شہروں کی چند پوش‘ الٹرا پوش رہائشی کالونیوں کو چھوڑ کر بالعموم ساری آبادی غدّار ہے لیکن سرفہرست ملّا ملوانے ہیں۔ حب الوطنی اب گنتی کے چند لوگوں میں رہ گئی ہے۔مذکورہ ٹی وی پروگراموں کی روشنی میں حب الوطنی کے رول ماڈل (بلالحاظ مقام و مرتبہ) یحییٰ خاں‘ ٹکا خاں‘ نیازی خاں‘ پرویز مشرف خاں‘ ریمنڈ ڈیوس خاں‘ پاشا خاں ایک پراپرٹی کنگ‘ اسفند ولی خاں‘ لندن والے پیر صاحب اور چند ایک دوسرے ہیں۔ باقی سب ایک سرے سے دوسرے سرے تک غدّار ٹھہرے۔

 حامد میر کی چوٹی کی غدّاری ڈرون حملوں کی مذّمت بتائی جاتی ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ایک پروگرام ہوتا تو غدّاری سنگل ہوتی لیکن یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ پلورل ہوتی گئی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پہلا معروف غدّار حیات اللہ تھا۔ غدّاری کی اس شرمناک داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے پر ایک حملہ ہوا جس میں تین سو(300) بچے مارے گئے۔ حملہ امریکہ نے کیا تھا۔ حب الوطنی کے قطب مینار جنرل مشرف کی حکومت نے خبر دی کہ ہم نے کارروائی کی اور تین سو دہشت گرد مار دیئے۔ حیات اللہ نے موقع پر جا کر بچوں کی قطار اندر قطار لاشیں دیکھیں اور خبر چلا دی کہ حملہ امریکہ نے کیا اور مرنے والے چھوٹی عمر کے بچے تھے۔ غدّاری کے اس عظیم الشان ارتکاب کے بعد حیات اللہ کے بچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ چند ہی دنوں بعد غدّار کو اٹھا لیا گیا اور پھر جب وہ کسی طرح بھاگ نکلا تو پیچھا کرکے اس کے بیوی بچوں کے سامنے مار ڈالا گیا۔
 حیات اللہ کی غدّاری تو وفاداروں کی لکھی ریکارڈ بک پر پتھر کی طرح ثبت ہوگئی۔ بعد ازاں اس کی بیوی کو مار کر قدیم انصاف کی پیروی کی گئی۔ قدیم انصاف یہ تھا کہ غدّار کے بیوی بچے بھی کو لہو میں پیل دیئے جائیں۔ چنانچہ حیات اللہ کی بیوہ بھی چند دنوں بعد کیفر کردار تک پہنچا دی گئی۔ اس طرح دو حبّ الوطنیاں کی گئیں۔ ایک تو وہی قدیمی انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے اور دوسرا یہ کہ ایک غریب صحافی کی غریب بیوہ کو آنے والی دکھی اور ہیبت ناک زندگی کی آزمائشوں سے بچا لیا گیا۔

اس ساری بحث سے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تو غدّار وہ ہے جو ملّا ملوانا ہو اور دوسرا وہ جو اشارۃً   کنایتہ وضاحتہً یا صراحتہً امریکہ پر تنقید کرے‘ ڈرون حملوں کی طرف انگلی اٹھائے یا اسلام آباد میں موجود35سو امریکی میر نیز کا ذکر میلی زبان سے کرے یا کسی اور طریقے سے امریکہ کے بارے میں منفی جذبات ظاہر کرے‘ ایسے لوگوں کے غدّار ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘ بس درجہ بندی کا فرق ہوتا ہے کہ کون کس پائے کا غدّار ہے اسی طرح حب الوطنی کا فارمولا بھی طے ہوگیا‘ بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون کس پائے کا حب الوطن ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ عشرے میں سب سے بڑے اور اونچے پائے کا محب الوطن پرویز مشرف کے سوا کوئی نہیں۔ وہ تو جیسا کہا گیا‘ قطب مینار کے پائے کا محب الوطن ہے۔ ہے تو وہ اس سے بھی اونچا‘ ورلڈ ٹریڈ سنٹرکے جتنے پائے کا لیکن چونکہ یہ سنٹر اب مرحوم یعنی آنجہانی ہو چکا اس لئے مناسب نہیں کہ کسی ایں جہانی کو کسی آنجہانی سے تشبیہ دی جائے۔ 

محب الوطنی کا یہ قطب مینارکراچی پہنچ چکا ہے۔ اس کی اگلی منزل متحدہ عرب امارات ہے۔آصف زرداری نے نواز شریف سے کہا تھا کہ خبردار‘ بھاگنے نہ پائے۔ حالات نے یہ قطب مینار ان کے کورٹ میں‘ مطلب بال ان کے کورٹ میں کر دیا ہے۔ اب دیکھئے‘ نواز شریف کو ’’بہادری‘‘ کا مشورہ دینے والے زرداری کیا کرتے ہیں کہ سندھ میں انہی کی سرکار ہے۔ پتہ چل جائے گا کہ نواز شریف کو اصولی مشورہ دیا جا رہا تھا یا یہ کہا جا رہا تھا کہ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا۔

عبداللہ طارق سہیل

22 اپریل، 2014

جب خشکی پر بحری جہاز چلے

آج ایک تاریخی دن جب دنیا نے اک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی، جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ 1453ء میں محاصرۂ قسطنطنیہ کے دوران سلطان محمد فاتح نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا۔ آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج "شاخ زریں" کے دہانے پر بزنطینی افواج نے اک زنجیر لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے۔ سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا اور آج ہی کے روز یعنی 22 اپریل کو عثمانیوں کے عظیم جہاز خشکی پر سفر کرتے ہوئے شاخ زریں میں داخل ہو گئے۔
 سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا اور درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور رات ہی رات میں عثمانی بحری بیڑے کا ایک قابل ذکر حصہ شاخ زریں میں منتقل کر دیا۔ صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی آنکھیں ملتے رہ گئے کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت کہ زنجیر اپنی جگہ قائم ہے اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے قریب کھڑے ہیں؟
 بہرحال، یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں پہلی بار حریف پر نفسیاتی برتری حاصل ہوئی۔ بعد ازاں 29 مئی کو انہوں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور صدیوں کی کشت و خون کا حاصل "اسلام بول" امت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیا۔
 زیر نظر تصویر اس تاریخی واقعے کی عکاسی کرتی ہے۔ جسے معروف اطالوی مصور فاؤسٹو زونارو نے 1908ء میں بنایا تھا۔

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا


یعقوب بن جعفر بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ عموریہ کی جنگ میں وہ معتصم کے ساتھ تھے۔ عموریہ کی جنگ کا پس منظر بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ایک پردہ دار مسلمان خاتوں عموریہ کے بازار میں خریداری کے لیے گئی۔ ایک عیسائی دوکاندار نے اسے بےپردہ کرنے کی کوشش کی اور خاتوں کو ایک تھپڑ رسید کیا۔۔ لونڈی نے بے بسی کے عالم میں پکارا۔۔۔
”وا معتصما !!!! “
ہائے معتصم ! میری مدد کے لیے پہنچو۔ سب دوکاندار ہنسنے لگے، اسکا مزاق اڑانے لگے کہ سینکڑوں میل دور سے معتصم تمہاری آواز کیسے سنے گا؟۔۔۔ ایک مسلمان یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا: میں اس کی آواز کو معتصم تک پہنچاؤں گا، وہ بغیر رکے دن رات سفر کرتا ہوا معتصم تک پہنچ گیا اور اسے یہ ماجرا سنایا۔ یہ سننا تھا کہ معتصم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ وہ بے چینی سے چکر چلانے لگا اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اونچی آواز میں چلانے لگا: میری بہن میں حاضر ہوں۔ میری بہن میں حاضر ہوں۔

اس نے فورا لشکر تیار کرنے کا حکم دے دیا۔۔ مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ ہو کر رومی قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ ایک بدبخت رومی ہر روز فصیل پر نمودار ہوتا اور رسول اکرم صلّی الله علیه و آله و سلّم کی شان میں گستاخی کرتا۔ مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ وہ اتنے فاصلے پر تھا کہ مسلمانوں کے تیر وہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ مجبورا اسے اس کے انجام سے دوچار کرنے کے لیے قلعہ فتح ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ جبکہ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اسے ایک لمحے سے پہلے جہنم رسید کر دیا جائے۔

یعقوب بن جعفر کہنے لگے: ان شا اللہ میں اسے واصل جہنم کروں گا ۔ انہوں نے تاک کر ایسا تیر مارا جو سیدھا اس کی شاہ رگ میں گھس گیا۔ وہ تڑپا، گرا اور وصل جہنم ہو گیا۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے الله اکبر کہا اور ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ معتصم بھی بہت خوش ہوا۔اس نے کہا: تیر مارنے والے کو میرے پاس لایا جائے۔ یعقوب بن جعفر معتصم کے پاس پہنچے تو اس نے کہا:
گستاخ رسول کو جہنم رسید کرنے کے عمل کا ثواب مجھے فروخت کر دیں۔
میں نے کہا: امیرالمومنین ! ثواب بیچا نہیں جاتا۔
وہ کہنے لگا: اگر آپ آمادہ ہوں تو میں ایک لاکھ درہم دینے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے کہا میں ثواب نہیں بیچوں گا۔
وہ مالیت بڑھاتا رہا۔۔ یہاں تک کہ اس نے مجھے پانچ لاکھ درہم کی پیشکش کر دی۔
میں نے کہا اگر آپ ساری دنیا بھی دے دیں تب بھی میں ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ میں آپ کو اس نصف ثواب تحفے میں دیتا ہوں اور اس بات کی گواہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ معتصم کہنے لگا: الله آپ کو اس کا اعلیٰ بدلہ عطا فرمائے میں راضی ہوں۔

ماخوز
دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے اوراق :  عبدالمالک مجاہد  ص 267



16 اپریل، 2014

سچی محبت



روزینہ کو منفرد شرارت سوجی تھی۔ اس نے سعدیہ کے نام سے بھی ایک آئی ڈی بنائی اور وہ بیک وقت دونوں کے ذریعے  فیس بک پر انور سے مخاطب تھی۔
انور کی نظریں سکرین پر جمی ہوئی تھیں، اس کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر چل رہی تھیں۔ اور دماغ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے سوچ رہا تھا۔ اسکے بے ساختہ محبت بھرے پیارے جملے روزینہ کو روزانہ کی طرح محظوظ کر رہے تھے۔ فیس بک پر ان کی ملاقات کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، لیکن انہیں لگتا تھاکہ جیسے وہ صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ مختلف موضوعات پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی گفتگو نے انہیں بے تکلف کر دیا تھا، اور اب انہیں احساس ہونے لگا تھا کے جیسے وہ ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ سکیں گے۔

آج روزینہ تقریبا' دو ہفتوں بعد آن لائن آئی تھی۔ اس کے آتے ہی انور نے اس کی غیر حاضری سے متعلق اپنی بے تحاشا پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے سوالات کرنا شروع کردیے۔
روزینہ نے جواب دینے کے بجائے انور سے ایک سوال پوچھا اور انور اس اچانک سوال سے سٹپٹا سا گیا۔ انور نے سوال کو ایک بار پھر پڑھا۔

” سچی محبت کیا ہوتی ہے۔؟؟؟؟“

انور کا ادیبانہ ذہن پوری رفتار سے چل پڑا۔ اور اسکی انگلیاں کی بورڈ پر رقص کرنے لگیں۔”سچی محبت وہ ہوتی ہے جو کچھ کھونے کے ڈرسے آزاد ہو۔ دولت، شہرت سب اسکے سامنے ہیچ ہو۔ حتٰی کہ آپ اپنا وجود اور زندگی اسکے لیے داؤ پر لگا سکیں۔ محبت صرف اور صرف کچھ پانے کا نام نہیں۔ “
اس سے پہلے کے انور اپنی بات پوری کرتا، روزینہ نے اسے روک دیا اور دوسرا سوال پوچھا: اچھا تم نے جو میری تصویر دیکھی ہے، اگر اب میں ویسے نہ رہی ہوں تو بھی کیا تم مجھ سے محبت کرو گے؟؟؟

انور نے سوال کو بغور پڑھا اور اسے روزینہ کی شرارت سمجھ کر اسکی حسین ڈی پی تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا:

”سچی محبت کبھی جسم سے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ روح سے ہوتی ہے۔ میں تمھاری روح سے محبت کرتا ہوں۔ میری محبت تمھارے جسم کو پانے کی گندی خواہش کی کثافت سے پاک ہے۔ “
روزینہ نے انور کا جواب پاکر بڑی محنت سے فوٹو شاپ سے تیار کردہ اپنی جلی ہوئی تصویر اسے سینڈ کی جس میں اسکا آدھا چہرہ بری طرح جلا ہوا تھا، اور ساتھ میں لکھا:”میں پچھلے کچھ دنوں سے اس لیے غائب تھی کہ گھر پر ایک حادثے میں بری طرح جل گئی تھی۔ کیا اس تصویر کو دیکھنے کے بعد بھی تم مجھ سے اپنی محبت کے دعویٰ پر قائم رہوگے اور مجھے اپنا جیون ساتھی بنا کر ہماری دوستی کو ایک قابل عزت رشتے کا نام دوگے ؟؟؟؟؟؟“

انور نے بغور تصویر کو دیکھا، جلے ہوئے حسین چہرے کی بھیانک آگ میں اسکی سچی محبت دھواں بن کر اڑگئی۔ اس نے کوئی جواب دینے کے بجائے خاموشی سے روزینہ کو انفرینڈ کردیا۔ ...

اسی وقت اسے سعدیہ نامی لڑکی کا انباکس میں میسج آیا۔ وہ کہہ رہی تھی میں آپ کی تحریروں سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کے خیال میں سچی محبت کیا ہوتی ہے۔

انور نے سوال کو غور سے دیکھا اور ایک ہی دن میں ایک جیسے سوال کے اتفاق پر مسکرادیا۔ اور اس کی انگلیاں کی بورڈ پر رقص کرنے لگیں۔”سچی محبت وہ ہوتی ہے جو کچھ کھونے کے ڈر سے آزاد ہو“

تحریر :سکندر حیات بابا

8 اپریل، 2014

ہماری نئی تاریخ


پچھلے کچھ سالوں سے ایک عجیب ہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔اچانک کچھ لوگوں کو خیال آیا ہے کہ ہم اپنے جن اسلاف کے کارناموں پہ فخر کرتے ہیں، جن کے اچھے کردار کی پیروی کرنا باعثِ سکون و نجات سمجھتے ہیں وہ سب تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو کوئی بھی اچھا کام نہیں کیا۔ محمد بن قاسم سے لے کر سلطان محمود غزنوی اور قائدِ اعظم سے لے کر علامہ اقبال تک کسی کو نہیں بخشا گیا۔ حقائق کو توڑ مڑوڑ کر یا صرف وہ باتیں جن سے ان کے کردار پہ سوالیہ نشان لگے وہی بتائی جاتی ہیں وہ ہی بتائی جاتی ہیں باقی حذف کر دی جاتی ہیں۔

مثلاْ سلطان محمود غزنوی کے بارے میں اچانک سے لوگوں کو خواب آ گئے ہیں کہ وہ لٹیرا تھا۔ اور اس کے لیے ان کے پاس توجیہ بھی ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا کیوں کہ اس میں سونا چاندی تھا۔ اس نے صرف لوٹ مار کے لیے حملے کیے۔ اب ۱۰۰۰ سال بعد ان پہ یہ الزام لگایا جا رہا ہے اور اس کے لیے آدھے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسا سو کالڈ (so called) تاریخ دان آپ کو نہیں بتاتا کہ سلطان کے ہندوستان پر حملے سے پہلے غزنی پہ ہندوستان سے کئی حملے ہو چکے تھے اور ایک بار تو حملہ آور راجہ کو گرفتاری کے بعد زندہ بھی چھوڑ دیا گیا تھا اس وعدے پر کہ وہ آئندہ حملہ نہیں کرے گا۔ کوئی یہ نہیں  بتاتا کہ سلطان کی فوج اتنی تھی یا نہیں کہ وہ پورے کیا آدھے ہندوستان پہ بھی قبضہ برقرار رکھ پاتا۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ اس لٹیرے کے مقابلے میں لاکھوں کی فوج اکٹھی ہوتی تھی لڑنے کو۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ وہ اگر ہندوستان میں بیٹھ جاتا تو غزنی ہاتھ سے چلا جاتا۔ کیونکہ یہ سب حقائق تو سلطان کو لٹیرا ثابت نہیں کرتے۔

پھر ایک اور نئی چیز یہ کہ سائنسی بنیادوں پہ ہزاروں سالوں پہلے ہونے والے واقعات کو دیکھنے کی حس پیدا ہو گئی ہے ہمارے نئے تاریخ دانوں میں۔ ان کے پاس کوئی ایسی دوربین آ گئی ہے جو نہ صرف ماضی کے واقعات دیکھ لیتی ہے بلکہ ہزاروں  سال پہلے گزرنے والے لوگون کی ایسی نیتیں بھی جان لیتی ہے جس کا کسی مورخ نے ان کے گزرنے کے آٹھ ، نو سو سال بعد بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ بھی سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنانے کی چال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سائنس پتھروں اور ہڈیوں کی جانچ کر کے یہ بتانے کے علاوہ کہ کتنی پرانی ہے یا شاید کس طرح مرے تھے اور کچھ نہیں بتا سکتی۔ ویسے بھی سائنس کی مانیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے دین کو جھٹلا کے اپنے آبا کو بندر تسلیم کرنا پڑے گا ۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ سائنس پہ اس قدر یقین رکھنے والے پہلے اپنے آبا کو چڑیا گھر سے نکال کے اپنے گھر منتقل کریں۔

پھر ان تاریخی شعبدہ بازوں کا اسرار ہے کہ مذہب کو الگ کر کے تاریخ کو دیکھا جائے۔ عقیدے کے بغیر صرف سچ نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں اسی بنیاد پہ ایک مشہور کالم نگار نے حکم صادر کر دیا کہ راجا داہر تو مجاہد تھا اور محمد بن قاسم ظالم جس نے اس کے دیس پہ حملہ کر دیا تھا۔ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل دین ہمارا عقیدہ سچا عقیدہ ہے۔ جہاد کا حکم، دین کو پھیلانے کا حکم اور اللہ کی زمین میں اللہ کا نظام رائج کرنے کا حکم اللہ تعالٰی کا ہی ہے۔ اگر ہم عقیدے کو کسی بھی چیز سے الگ کر کے دیکھیں گے تو پھر تو نعوذ باللہ صحابہ کرام بھی غلط ہو گئے جنہوں نے بیت المقدس غیز مسلموں سے چھین لیا۔ پھر تو نعوذ باللہ اللہ کے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم بھی ظالم ہو گئے کہ مکہ پر زبر دستی قبضہ کیا۔

عقیدے کو زندگی کے کسی بھی شعبے سے الگ کرنے کا وہی انجام ہوتا ہے جو مغرب کا ہوا جہاں آدھے لوگوں کو ساری زندگی یہی پتہ نہیں چلتا کہ ان کا باپ کون تھا ۔ جہاں انسان اپنی خواہشات کے پیچھے چانوروں سے بھی گر گیا ہے۔ جہاں زندگی کا مقصد سوائے اپنی حیوانی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا۔ جہاں اپنی مرضی سے باپ بیٹی بھی ناجائز تعلق رکھ لیں تو کوئی جرم نہیں ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے اس نئی تاریخ کا ہمیں فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے۔فائدہ تو خیر یہ تاریخ لکھنے والے بھی کوئی نہیں بتا سکے ہاں پر نقصانات بے شمار ہیں۔اس تاریخ کو تسلیم کر لیں تو ہمارے پاس شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے ہمارے پاس کوئی مثال نہیں بچتی۔ ہمیں تعلیم کی طرح تربیت کے لیے بھی مغرب کی طرف دیکھنا ہو گا۔ اور پھر اس کا انجام مغرب سے اچھا تو ہو نہیں سکتا کہ جہاں ماں کو اپنے بچے سے پانچ منٹ کی ملاقات کے لیے بھی عدالت جانا پڑتا ہے اور بدقسمتی سے جہاں جا کر بھی وہ کیس ہار جاتی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توصیف احمد کشافؔ

2 اپریل، 2014

ملزم صحت جرم اور صحت جسم دونوں سے انکاری ہے

پہلے تو ہمیں یہ خبر ملی کہ سنگین غداری کیس میں ملزم پر فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کردیا۔پھر یہ خبر ملی کہ ملزم نے بیرونِ ملک جانے کی اجازت چاہی، عدالت نے اجازت نہ دی۔ اس پر ملزم نے اپنی صحتِ جسم سے بھی انکار کردیا۔ دو بارہ آئی سی یو میں گھس گیا۔ جبکہ شنید یہ تھی کہ کم از کم اسپتال سے تو آج رہائی مل جائے گی۔یوں آئی سی یو میں گھس بیٹھنے پر ہمارے ایک دوست کہنے لگے: 
’’بڑا اڑیل ملزم ہے۔جرم کی صحت اور اپنی صحت دونوں سے انکاری ہے۔ جب کہ جرم بھی خاصا ’صحت مند‘ تھا اور خود بھی‘‘۔ 

ملزم کو اسپتال میں داخلہ لیے ہوئے لگ بھگ 90دن ہوگئے ہیں۔ہمارے کالم نگار دوست سلیم فاروقی کو مریض سے زیادہ معالجوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ بلکہ معالجوں سے بھی زیادہ علاج گاہ کی بابت متفکر ہیں۔کہتے ہیں کہ اسپتال کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے کہ ایک بیمار اُن سے تین ماہ میں بھی ٹھیک نہ ہوسکا۔ مگرہمیں فاروقی صاحب کی تشویش سے اتفاق نہیں ہے۔ بدنامی اسپتال کی نہیں ہو رہی ہے۔بدنامی تو مریض کی ہو رہی ہے۔ کیوں کہ جس مریض کو فوجی اسپتال بھی ٹھیک نہ کر سکے تو ۔۔۔’نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے‘ ۔۔۔ طب کی اصطلاح میں ایسے مریض کو ’لا علاج مریض‘ کہتے ہیں۔ خود مریض کے نئے وکیل (بیرسٹر فروغ نسیم) نے بھی عدالت کے رُوبرو ایک درخواست پیش کرتے ہوئے اس امرکا اعتراف کیا ہے کہ اس مریض (کے دل) کا علاج صرف امریکا میں ہو سکتا ہے۔یہ بات ہمارے دل کو بھی لگی۔بقول شاعر:
 آپ ہی نے دردِ دل بخشا ہمیں 
آپ ہی اس کا مداوا کیجیے
 ہم نے مانا کہ ’مسلح افواج کا ادارۂ امراضِ قلب‘ (AFIC) ’مایوس مریضوں کی آخری آرام گاہ‘ نہیں ہے۔مگر مایوس ملزم کو وہاں کمرے کا کرایہ، ڈاکٹروں کی فیس، لیبارٹری ٹسٹ کے اخراجات اور ادویات کی قیمت وغیرہ کچھ بھی ادا کرنے کا بوجھ نہیں اُٹھانا پڑتا۔اُسے وہاں علاج کا استحقاق حاصل ہے۔ پنشن یافتہ ہو جانے کے بعد بھی اس قسم کا استحقاق ’ملازم مریضوں‘ کو حاصل رہتا ہے۔ ہمیں تو علم نہیں، مگر کیا عجب کہ فوجی ملازمت کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ملازم مریضوں کے مقابلے میں ’ملزم مریضوں‘ کو وہاں (روپوش) رہنے کا زیادہ (عرصے تک) مستحق سمجھا جاتاہو۔
 
 یہ بات تو طے ہے کہ ادارے کی بدنامی بالکل نہیں ہورہی ہے۔ پھر بھی ایک اخبار کے نمائندے نے مریض سے چُھپ کر مذکورہ اسپتال کے معالجوں سے دریافت کیا کہ کیا واقعی اسپتال میں سی ٹی انجیو گرافی اور مستقل نگہداشت کی سہولت نہیں ہے کہ مریض کو علاج کے لیے امریکا جانا پڑے؟ اس پر ماہرین امراضِ قلب نے جواب دیا کہ دونوں سسٹم ہمارے پاس موجود ہیں اور روزانہ اوسطاً 50مریض ان سے استفادہ کرتے ہیں۔البتہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کسی مریض کے اتنے لمبے عرصہ تک اسپتال میں رہنے سے ڈیپریشن سمیت متعدد نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔اگر آپ بہت زیادہ بیمار ہیں اور لمبا عرصہ اسپتال میں رہنا پڑے تو مجبوری ہے۔لیکن اگر اسپتال میں رہنے میں آپ کی اپنی مرضی شامل ہوتو نفسیاتی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔جو مریض اپنی مرضی سے لمبا پڑا رہے اُس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ICUکے بعض بیماروں کو پروفیسر عنایت علی خان نے \’I See You\’ کے بیمار قرار دیاہے۔بلکہ ان میں ڈاکٹروں کو بھی شمار کیا ہے۔ کہتے ہیں: 
ڈاکٹر پہلے دیکھیں گے سسٹرز کو
 آئی سی یو کے بیمار اپنی جگہ

 کچھ مریض \’I will see you\’ کے (تکیۂ کلام والے) مریض بھی ہوتے ہیں۔ایسے مریضوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو ہو رہاہے۔ 
لمبے عرصہ تک پڑے رہنے پر ایک کہانی یاد آگئی جو لڑکپن میں پڑھی تھی۔ایک بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے لیے ایک شاندار شفا خانہ تعمیر کروایا۔ ہرقسم کی سہولتیں، انواع و اقسام کی نعمتیں اور ادویات کے ساتھ ساتھ مقویات کی لذتیں بھی وہاں فراہم کردی گئیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد ’مستقل مریض‘ ہوگئی۔ یہ مریض کبھی مانتے ہی نہ تھے کہ وہ ٹھیک ہو گئے ہیں۔ معالج بھی کہتے تھے کہ کسی مریض کو ایسی حالت میں بھلا کیسے شفاخانے سے رخصت کردیں جب وہ تکلیف کی شکایت کر رہا ہو۔ بادشاہ کے لیے یہ صورتِ حال خاصی تشویشناک ہوگئی تھی۔ مگر وہ بھی اطبا کی اجازت کے بغیر ان مفت خوروں کو ’آئی سی یو‘ سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر اُس نے شاہی طبیبوں کو چھوڑ کر (جو اُس کے خیال میں شاہی مریضوں سے ملے ہوئے تھے) ایک غیر شاہی طبیب سے رابطہ کیا۔ طبیب نے کہا: 
’’بادشاہ سلامت! یہ کون سا مشکل کام ہے؟ بس مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔
 بادشاہ نے کہا:’’تم جو مانگو گے دیا جائے گا۔اور اگر شاہی شفا خانہ ان مفت خوروں سے خالی کرا لیا تو منہ مانگا انعام بھی دیا جائے گا‘‘۔
 طبیب نے کہا:’’مجھے فقط نو من تیل، دو من لکڑیاں، ایک کڑھاؤ اور کچھ ہٹے کٹے مشٹنڈے کارکنان درکار ہوں گے‘‘۔ 
بادشاہ نے مطلوبہ اشیا فراہم کردیں۔ اسپتال میں اعلان ہوا کہ ایک طبیب ایسا دریافت ہوا ہے جو پُرانے سے پُرانے اور پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کا چٹکی بجاتے علاج کر دیتا ہے۔لہٰذا جتنے پرانے مریض ہیں وہ نئے طبیب کے حضور پیش ہوں۔ 

نئے طبیب صاحب نے شفا خانے کے احاطے میں ایک دور دراز گوشہ ڈھونڈ کروہاں اپنا خیمہ لگایا۔وہیں لکڑیاں جلوائیں، اُن پر کڑھاؤ چڑھایا۔ کڑھاؤ میں تیل ڈلوایا اور اُسے خوب کھولایا۔جب تیل اچھی طرح کھول گیااور اُس میں سے بلبلے اُٹھنے لگے توپہلے مریض کو بُلوایا۔مریض بے چارا چار پائی (اسٹریچر) پر لاد کر لایا گیا۔حکیم صاحب نے نبض دیکھی۔پوچھا:’’کیا تکلیف ہے؟‘‘ 
مریض کراہتے ہوئے بولا: ’’آئے ہائے ہائے ہائے ہائے حکیم جی! یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں تکلیف ہے، وہاں تکلیف ہے‘‘۔ 
حکیم صاحب نے پوچھا: ’’کب سے تکلیف ہے؟‘‘ مریض بولا:’’اجی 90دن سے علاج کرا رہا ہوں۔ بیماری ہے ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتی‘‘۔ 
یہ سنا تو حکیم صاحب اپنے مشٹنڈوں سے مخاطب ہوئے:’’ کم بختو!یہ تین ماہ میں ٹھیک نہ ہوسکا۔ دیکھتے کیا ہو؟ یہ تو لاعلاج مریض ہے۔ اُٹھاؤ اسے اور کڑھاؤ میں پھینک دو‘‘۔
 مریض نے جب یہ سنا تو اُس میں ہڑبڑا کریکایک ایسی پھرتی، چستی، مستعدی اور چاقی و چوبندی سب پیدا ہوگئی کہ وہ چھلانگ مار کر چارپائی (اسٹریچر) سے کودا اور حکیم جی سے کہنے لگا: ’’حکیم جی!میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔ میں ٹھیک ہوگیا ہوں حکیم جی!‘‘ 

حکیم جی نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ تمھیں اسپتال سے رُخصت کیا جاتاہے۔ مگرباہر جانے سے پہلے سب سے یہ کہتے ہوئے جاؤ کہ میں ٹھیک ہوگیا ہوں‘‘۔دیکھتے ہی دیکھتے پوار شفاخانہ ’لا علاج مریضوں‘ سے خالی ہوگیا۔ اب سناہے کہ طیارہ آگیا ہے۔ پنچھی اُڑجائے گا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا! - 

ابو نثر