ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

6 مارچ، 2015

اے قائد کہاں سے لائیں تجھے

قارئین کرام  یہ نظم ایک نئی شاعرہ  فاطمہ سلیم کی ہے. اس کو نظم کے قوائد سے ہٹ  کر پڑھیے  اور صرف اس درد کو محسوس کیجیے جو شاعرہ نے کیا.

 

''اے قائد کہاں  سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔''


 لہو لہو ہیں ارِضِ وطن کی گلیاں
 کہیں سوگ ہے ، کہیں ماتم ہے یہاں
 اُٹھتے ہیں جنازےِ، ہوتی ہے آہ و بکا
 چھا گئے ظلم کے سائے ، سو گئے حکمراں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قائد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 تیر ہے، تلوار ہے، بندوق ہے
 کھو گیا قلم، ہوا دفن جذبہِ ایماں
 نعرہِ تکبیر بھی ہے، نعرہِ شمشیر بھی ہے
 بِک گئے ضمیر، نھیں ہے سکت شکستِ دُشمناں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قاٰئد کہاں سے لائیں تجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 بِکتا ھے عدل و اِنصاف سر بازار یھاں
 چور لٹیرے قاتِل سارے بنے ھیں حافِظ و نِگہبان
 مار ڈالا ہے حرص و ھوس نے جہاں
 کیسے بچائے وہ قوم پاکِستاں
 کیسے جگائیں تجھے، کیسے اُٹھائیں تجھے
 اے قائد کہاں سے لائیں تجھے

 فاطمہ سلیم

2 comments:

  1. ﷽۔۔آپ نے اکثر سناہوگاکہ انگریز وکیل سرسرل ریڈ کلف نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی کی تھی اورگورداس پورکو بغیر کسی حق کے انڈیاکےحوالےکردیاتھاوغیرہ دغیرہ۔لیکن یہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا ہوگاکہ ریڈکلف نے دو ایسی ہندو تحصلیں پاکستان کو دی تھیں جہاں۹۷٪آبادی ہندو تھی۔ایک فیروز پور تھی،جبکہ دوسری کانام کچھ کتابوں میں زیرہ کچھ میں اجنالہ لکھا ہواہےاور یہی دو تحصیلیں ہی دراصل پاکستان کی شہ رگ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر مسٹرجناح اور ان کے ساتھیوں کی ناا ہلی کی بدولت ہندو کی بہترین قیادت ہماری شہ رگ کو ہمارے قبضے سےنکال کر لے گۓ۔
    اب آپ پرچھیں گے کہ یہ کیسے پاکستان کے لیے فا ءدہ مند تھیں تو کہانی یہ ہے کہ یہاں عظیم انگریز نے دو ہیڈ ورکس تعمیر کیے تھے۔یہاں سے چار بڑی نہریں نکلتی تھیں اوراتفاق کی بات ہے کہ ان چاروں کار خ مغربی پنجاب کی طرف تھا۔یعنی پاکستان کی زراعت کا پورا انحصاران چار نہروں پر تھا۔جب نہرو کے احتجاج پر ماؤنٹ بیٹن نے سرل ریڈ کلف سے جواب مانگا تو اس عظیم انسان نے اپنے فیصلے کے دفاع میں جوابدیاکہ اس طرح پاکستان ہمیشہ بھارت کی بلیک میلنگ کا شکار ہوتا رہے گا۔جب بھی بھارت چاہے گا وہ چاروں نہروں کو بند کرکے پاکستان سے اپنی شراءط منوالے گا۔افسوس کہ جناح کی جانب سے مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے ماؤنٹ بیٹن مجبورہوگیا اور اس نے دو ہندو تحصیلوں کو انڈیاکےحوالے کردیا۔اب آپ کو سوچنا ہوگا کیا مسٹرجناح کو قاءد اعظم کہناصحیح ہے؟

    جواب دیںحذف کریں