ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

10 اکتوبر، 2012

کسی زمانے میں ایک ملک تھا


کسی زمانے میں ایک ملک تھا جس کا بادشاہ بے اولاد ہی مر گیا۔
کوئی قریبی رشتہ دار بھی ایسا نہیں تھا کہ جسےتخت و تاج سونپا جا سکتا۔ تو امیروں میں بحث شروع ہو گئی کہ بادشاہ کون بنے گا۔ ہوتے ہوتے یہ طے پایا کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے شہر کے دروازے سے داخل ہو گا اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو سب کی نگاہیں داخلی دروازے پر ٹکی تھیں۔ اچانک ایک ہیولا سا دروازےمیں سے اندر داخل ہوا۔
ہر جانب مبارک سلامت کا شور اٹھا ملک و قوم کو اگلا بادشاہ مل ہی گیا تھا اور دروازے سے داخل ہونے والا ایک گدڑی پوش فقیر حیرت سے سب امرا کے چہرے دیکھ رہا تھا جو اس کا ہاتھ چومنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے تھے۔
خیر قصہ مختصر۔ بادشاہ سلامت دربار میں جلوہ افروز ہوئے ایک وزیر نے اگے پڑھ کر عوام کے دگرگوں حالات کا رونا رونا شروع کیا اور رقت آمیز لہجے میں شاہی ٹیکس کم کرنے کی درخواست کی۔ بادشاہ سلامت نے پوری توجہ سے بات سنی اور سن کر مراقبے میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد سر اٹھایااور حکم جاری کیا۔
"حلوہ پکاؤ۔"
شاہی فرمان تھا۔ سرتابی کی مجال کسے تھی۔ داروغہ مطبخ دوڑا گیا اور شاندار حلوہ تیار کروا کے لے آیا۔ بادشاہ سلامت نے نہائت اطمینان سے حلوے کی رکابی صاف کی اور اگلی فریاد پیش کرنے کا کہا۔ فریاد سنی لیکن شاید کچھ فیصلہ کرنے کو ابھی مزید حلوہ درکار تھا اس لیےپھر ایک بار وہی فرمان جاری ہوا۔
"حلوہ پکاؤ۔"
الغرض فریاد پہ فریاد پیش ہوتی رہی اور بادشاہ سلامت حلوے کی رکابی پہ رکابی صاف کرتے رہے۔ اچانک قلعہ دار دوڑا آیا اور پھولی ہوئی سانس میں بولا کہ بادشاہ کے مرنے کی خبر سن کر پڑوسی حکمران نے یلغار کر دی ہے اور اس کی فوج فصیل کے باہر پہنچ چکی ہے۔ بادشاہ سلامت کا کیا حکم ہے؟
بادشاہ سلامت نے غیض و غضب کے عالم میں حکم جاریکیا۔
"حلوہ پکاؤ۔"
حلوہ کھا ہی رہے تھے کہ قلعہ دار پھر دوڑا دوڑا آیا اور بولا کہ حضور والیٰ دشمن کی فوج فصیل توڑ کر اندر داخل ہو چکی ہے۔
بادشاہ سلامت کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔
"ان کی یہ مجال ۔ ۔ ۔ اور حلوہ پکاؤ۔"
مزید حلوہ پیش کیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد قلعہ دار پھر سے نمودار ہوا اور بولا حضور کچھ کیجیے۔ دشمن کی فوج محل کے باہر پہنچ چکی ہے۔
اس بار بادشاہ سلامت کچھ فکر مند ہوئے اور بولے۔
"اچھا۔"
پھر کچھ سوچ کر اٹھے اور بولے۔
"اچھا بھئی بھائیو۔ فقیر نے تو حلوہ کھانا تھا وہ خوب سیر ہو کر کھا لیا۔ اب دشمن آ گیا ہے۔ تم جانو اور تمہارا ملک جانے۔ بابا تو یہ چلا۔"
اتنا کہہ کر بادشاہ سلامت نے اپنی گدڑی پہنی کشکول ہاتھ میں تھاما اور حق اللہ کی صدا بلند کر کے چل دئیے۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں