ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

15 جون، 2014

ایک منفرد اور عجوبہ جنگ از عبداللہ طارق سہیل

عراق کی خانہ جنگی میں امریکہ نے کود پڑنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے کٹھ پتلی نوری المالکی جس کو عراقی عوام ناری الامریکی کہنے لگے ہیں، کی حکومت کی مدد کیلئے باغیوں پر فضائی حملے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یوکرائن میں امریکی ’’عزت ‘‘ زیادہ بے عزت ہوئی تھی لیکن وہاں امریکی جہازوں کے پر جلتے ہیں، عراق بمباری کیلئے آسان ہدف ہے، وہاں حملوں کا اعلان کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی چنانچہ ع
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
باغیوں کو بمباری سے زیر کرکے امریکہ کی عزت پھر سے باعزت نہیں ہو جائے گی۔(اگرچہ زیر کرنا اتنا آسان بھی نہیں) اس کی عزّت کو بے عزت کرنے کے لئے تو اتنی بات ہی کافی ہے کہ جس عراقی فوج کی تربیّت پر اس نے25 ارب ڈالر لگائے اور جسے اسرائیل کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ اور جدید ترین ہتھیار دیئے، وہ باغیوں کے سامنے یوفریٹی ریت سے بنی دیوار کی طرح ڈھیر ہوگئی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عراق کا تقریباً ایک تہائی حصہ کردستان کے نام پر پہلے ہی تقریباًالگ ملک بن چکا ہے۔ اور اب کرکوک پر قبضے کے بعد سے گویا کردستان مکمل ہوگیا۔کردستان کا کرکوک میں تیل کے وسیع ذخائر کی وجہ سے جو کچھ انحصار مالکی حکومت پر تھا، اس کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ کرکوک داعش کی مرضی سے کردوں کو ملا۔ باقی دو تہائی عراق کے60فیصد زیادہ رقبے پر داعش کا قبضہ ہے۔

یوں مالکی حکومت صرف بصرہ بغداد اور جنوب تک محدود ہو گئی ہے حیرت سے زیادہ بے یقینی کی بات ہے کہ موصل میں تعینات عراقی فوج کی گنتی ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی جو آٹھ سو باغیوں کی یلغار کے بعد بھاگ نکلی اور اپنے پیچھے120بکتر بند گاڑیاں اور ہزاروں وردیاں بھی چھوڑ آئی، صرف گاڑیاں ہی نہیں، کئی ہیلی کاپٹر بھی جواب باغی اڑائے پھرتے ہیں اور سب سے اہم امریکہ سے جدید ترین ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ دو ہی روز پہلے موصل پہنچی تھی، عراق فوجی اسے بھی چھوڑ آئے۔ یہ کھیپ اب داعش کے پاس ہے۔(داعش اس تنظیم کے عربی نام دولت اسلامیہ عراق و شام(لیونت) کا مخفف ہے۔ انگریزی میں یہ مخفف آئسسISISہے جو اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا(لیونٹ)سے بنا ہے۔ داعش القاعدہ کا وہ حصہ ہے جو ایمن الظواہری سے باغی ہو چکا ہے۔ اس کا اصل بانی ابو مصعب زرقاوی تھا، اس کے بعد عمر بغدادی نے کمان سنبھالی، آج کل اس کا سربراہ ابوبکر البغدادی ہے) گوریلا جنگ کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے اور اس سے بھی مزیدار وقوعہ یہ ہوا یہ کہ باغیوں نے موصل کے مرکزی بینک سے 400ملین ڈالر لوٹ لئے ۔ شاید یہ ’’ڈکیتی ‘‘ کی دنیا کی سب سے بڑی واردات ہے اور یوں ’’داعش‘‘ دنیا کی مالدار ترین باغی تحریک بن گئی ہے۔

مالکی کی ایک اور ’’نالائقی‘‘ دیکھئے۔ عوام سے کہا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھا کر باغیوں کا مقابلہ کریں۔ یعنی یہ بات اس نے مان لی ہے کہ اس کی فوج لڑنے سے رہی، اب عوام ہی کچھ کریں۔ عوام کچھ کرتے ہیں یا نہیں، ایرانی فوج اور امریکہ فضائیہ ضرور کچھ کرے گی۔یعنی برادر صغیر اور برادر بزرگ آگے پیچھے مداخلت کریں گے۔ نوری مالکی امریکی فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر عراق کا بادشاہ بنا، اب امریکی کندھے ہی اسے بچانے آرہے ہیں۔ جلدیا بدیرایران بھی اپنی فوج عراق میں داخل کر دے گا۔ (غیر اعلانیہ طور پر اس کی کئی ڈویژن فوج عراق اور شام میں پہلے ہی موجود ہے ) اور یوں یہ خانہ جنگی، بین الاقوامی جنگ بن جائے گی پھر خدا جانے کیا ہو۔ ظہور عیسیٰ ؑ کی علامت سمجھئے۔

داعش نے شام عراق کی سرحد پوری کی پوری اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف کی چوڑی پٹی اور اردگرد کے وسیع علاقے اس کے پاس ہیں۔ یوں عراق اور شام کی حکومتیں اپنے برّی رابطے سے محروم ہوگئی ہیں۔ ایرانی اسلحہ پہلے ٹرکوں کے ذریعے سے شام پہنچایا جاتا تھا، اب ہوائی جہازوں سے جاتا ہے۔ ایک انوکھا اتفاق دیکھئے، روس امریکہ چین کئی امور پر باہم مخالف ہیں بلکہ کشمکش میں مصروف ہیں لیکن عراق میں مالکی اور شام میں اسدحکومت کی مدد اور پشت پناہی پر تینوں میں مکمل اور جامع اتفاق رائے ہے۔ روس نے قفقاز اور کوسک علاقوں سے ہزاروں رضا کار بھرتی کرکے شام کی جنگ میں جھونک دیئے ہیں۔شام و عراق، دونوں کی باغی فوجوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ایک تو یہی داعش اور دوسرا النصرۃ فرنٹ۔ان دونوں میں بھی جنگ ہے جس میں دونوں کے دو ہزار سے زیادہ سپاہی مارے جا چکے ہیں۔ (اب کچھ دنوں سے صلح کی کوشش چل رہی ہے )

ان دونوں باغی تحریکوں کو کوئی ملک اسلحی مدد نہیں دے رہا۔ صرف سعودی عرب شامی باغیوں کو رقم بھجوا رہا ہے۔ جبکہ ترکی نے شامی مہاجرین کو خیمہ گاہی سہولت دے رکھی ہے۔ ان کے پاس صرف چھوٹا اسلحہ ہے اور یہ روس اور ایران کی مشترکہ فوجوں سے لڑ رہے ہیں جنہیں امریکہ، اسرائیل اور چین سے خفیہ عملی مدد بھی مل رہی ہے۔ اتنے غیر متوازن فریق اور اتنی عجوبہ جنگ۔۔۔لیکن یہ عجوبہ شاید سارے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل دے اور مزید شاید یہ کہ ہو سکتا ہے یہ اس جنگ کا دیباچہ ہو جو آرمیگڈن کے نام سے لڑی جانی ہے، جس میں گنجان آبادیاں ویرانوں میں بدل جائیں گی اور جوکرہ ارض پر لڑی جانیوالی آخری جنگ ہوگی۔ عراق اور شام کی یہ جنگ عالمی تاریخ کی ایسی منفرد جنگ ہے جس میں امریکہ چین، روس، اسرائیل اور ایران ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔جو اپنی نوعیت کا پہلا تاریخی واقعہ ہے اور یہ غور کرنے کے لئے کافی نشان ہے۔ بہرحال آخری جنگ سے پہلے دو ظہور لازماًہونے ہیں۔ ایک دجّال کا، دوسرا مسیحؑ ابن مریم ؑ کا۔

عبداللہ طارق سہیل

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں