ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

10 جولائی، 2012

عالمی طاقت کی بےبسی اور انھیں خدا ماننے والے




تاریخ کا یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ ایک عالمی طاقت جو خود کو واحد عالمی طاقت سمجھتی ہو جس کے ہتھیاروں کی تکنیکی خوبی ایسی ہو کہ اس کی گرد کو بھی کوئی نہ پہنچ پاتا ہو، وہ چند ہزار طالبان کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہو جائے کہ اپنی ناکامی اور خفت کا ملبہ ایک ایسے ملک میں "بسنے والے" تین یا چار ہزار حقانی نیٹ ورک کے لوگوں پر لگا دے. یہ "بسنے والے" میں نے اس لیے لکھ دیا ہے کہ یہ امریکہ کا کہنا ہے ورنہ جس نے افغانستان دیکھا ہے اسے علم ہونا چاہئیے کہ کابل کے الٹرا ریڈ زون تک شمالی وزیرستان سے جا کر پہنچنا کسی عقلمند کا کام نہی.... یہ تو ہونا تھا اس لیے کہ آج سے گیارہ سال قبل جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا تو میرے ملک کے طاقت کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے دانشور، ادیب، سیاستدان اور جرنیل بھی یہی کہتے تھے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے. افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں. یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح مرے جائیں گے

ایسے میں پورے ملک میں میرے جیسے چند "بیوقوف" لوگ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے. آج موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے. کسی قوم کے سینے عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے پر آویزاں ہیں

امریکہ اپنی شکست کا بوجھ اس پاکستان پر ڈال رہا ہے جس کے سیاستدان، دانشور، سول سوسایٹی حتی کہ جرنیل ان کے ٹکڑوں پر پلنے کو فخر سمجھتے رہے ہیں. اس وقت میرے ملک میں دو گروہوں میں جنگ ہے. ایک وہ جو سر تا پا الله پریقین رکھتے ہیں اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو قوم کو ڈرا رہا ہے. یہ سول سوسایٹی کے فیشن زدہ لوگ اور طاقت کے مندر میں سجدہ ریز دانشور کمال کی گفتگو کر رہے ہیں... دیکھو باز آ جاؤ انتہا پسند چھا جائیں گے....واہ جو امریکہ سے لڑے گا وہی چھائے گا کبھی بزدل بھی چھائے ہیں؟

ایک اور منطق اور درف طنی چھوڑی جا رہی ہے. امریکہ وہاں رہے گا جائے گا نہی، کیا خوش فہمی ہے. میرے یہ عظیم دانشور اور سول سوسایٹی کے مہربان جو اس ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں کسی انسان کی مدد کرتے تو نظر نہی آتے، امریکہ کی جنگ لڑنے میڈیا میں موجود ہیں. یہ کمال کے لوگ ہیں. جن دسمبر 1979میں روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو یہ اس ملک کی سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے. وہ دیکھو سرخ پھریرا سرحد عبور کرنے والا ہے، تمہاری داڑھیاں نوچ لی جائیں گی اور سارا انقلاب ہوا کی طرح اڑا دیا جائے گا. کیسے کیسے مضمون لکھے گئے. کیسی کیسی نظمیں تحریر ہوئیں، سرحدوں پر انقلاب کے سویرے کی نوید سنائی گئی. لیکن ان سب کو کیا ادراک کہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی قوم بھی بستی ہے جو صرف اور صرف الله پر اعتماد کرتی ہے. میں سوویت یونین کی ذلتوں کی داستان بیان نہی کرنا چاہتا. اس ملک ہی نہی پوری دنیا کی سڑکوں نے اس عالمی طاقت کو یوں رسوا ہوتے دیکھا کہ پورے یورپ میں صرف عظیم سوویت یونین کی لڑکیوں کا جنسی کاروبار سالوں تک ہوتا رہا اور آج بھی جاری ہے.. جس امریکا کو وہ کمیونسٹ پچھتر سال گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے

یہ لوگ بھی کمال کے ہیں. اگر چی گویرا بولیویا سے کیوبا جا کر لڑے تو ہیرو، اگر فرانس کے لوگ جرنل گیاپ کے ساتھ جا کر ویتنام میں کاروائیاں کریں تو عظیم. اگر سارتر الجزائر جا کر لڑے تو عظیم انقلابی. لیکن اگر کوئی الله پر یقین رکھے اور فلسطین، بوسنیا، چیچنیا یا افغانستان کے مظلوموں کی مدد اور عالمی طاقتوں کے خلاف لڑے تو دہشتگرد، امن و امان تباہ کرنے والا . کیا عجیب منطق ہے. ان سب کو اب کچھ سجھائی نہی دے رہا




0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں