یا یہ سوال کیا جائے ، بھائی آپ کیا کرتے هو؟
تو ان کا کوئی مصاحب پاس سے جواب دے گا جی پیسہ ان کے لیے مسئلہ ہی نہیں ہے، آپ نے سنا نہیں ہے کہ ان کے بھائی اور بیٹے باہر ہوتے ہیں.
یہ تحریر بھی اسی موضوع پر ہے۔ جو کہ ایک پردیسی اور اس کے گھر والوں کے مابین خطوط کی شکل میں ہے۔
شاید کچھ لمبی تحریر ہے لیکن پڑھیں گے تو اچھی لگے گی۔
آپکا پیارا – جمال
تمھارا خط ملا اور ہمیں تمھاری چھٹی کے بارے میں پڑھ کر خوشی ہوئی۔باقی تمھاری امی کہہ رہی تھی کہ گھر کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے اور تم جانتے ہو برسات شروع ہونے والی ہے۔ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھر چونکہ پرانی اینٹوں اورلکڑیوں سے بنا ہے اس لیے اس کی مرمت پر کافی خرچ آئے گا۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کنکریٹ اور سیمینٹ سے بنا ہوا گھر ہو تو بہت اچھا ہو۔ ایک اچھا اور نیا گھر وقت کی ضرورت ہے۔ تم جانتے ہو یہاں کے کیا حالات ہیں اگر تم یہاں آ کر کام کرو گے تو اپنی محدود سی کمائی سے گھر کیسے بنا پاؤ گے۔ خیر گھر کا ذکر تو ویسے ہی کر دیا آگے جیسے تمھاری مرضی۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
میں حساب لگا رہاتھا آج مجھے پردیس میں دس سال ہو چکے ہیں۔ اب میں اکثر تھکا تھکا رہتا ہوں، گھر کی بہت یاد آتی ہے اور اس ریگستان میں کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اگلے ماہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے گھر آجاؤں۔ دس سال کے عرصے میں الحمدللہ ہمارا پکا گھر بن چکا ہے اور جو ہمارے اوپر جو قرضے تھے وہ بھی میں اتار چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ اپنے وطن آ کر رہنے لگ جاؤں۔ اب پہلے والی ہمت تو نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ، ٹیکسی چلا کے گھر کا خرچ چلا لوں گا۔ اس ریگستان سے میرا جی بھر گیا ہے۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی کیا رائے ہے۔
آپکا پیارا – جمال
تمھارا خط ملا اور ہم پچھتا رہے ہیں اس وقت کو جب ہم نے تمھیں باہر جانے دیا، تم ہمارے لیے اپنے لڑکپن سے ہی کام کرنے لگ گئے۔ ایک چھوٹی سے بات کہنی تھی بیٹا۔ تمھاری بہنا زینب اب بڑی ہو گئی ہے ، اس کی عمر ۲۰ سے اوپر ہو گئی۔ اس کی شادی کے لیے کچھ سوچا ، کوئی بچت کر رکھی ہے اس لیے کہ نہیں۔ بیٹا ہماری تو اب یہی خواہش ہے کہ زینب کی شادی ہو جائے اور ہم اطمینان سے مر سکیں۔ بیٹا ناراض مت ہونا ، ہم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
تمھاری پیاری امی اور ابو۔
آج مجھے پردیس میں چودہ سال ہو گئے۔ یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ دن رات گدھے کی طرح کام کر کے میں بیزار ہو چکا ہوں، کمھار کا گدھا جب دن بھر کام کرتا رہتا ہے تو رات کو گھر لا کر اس کا مالک اس کے آگے پٹھے ڈال دیتا ہے اور اسے پانی بھی پلاتا ہے پر میرے لیے تو وہ بھی کوئی نہیں کرتا، کھانا پینا بھی مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ بس اب میں ویزا ختم کروا کر واپس آنے کا سوچ رہا ہوں۔ پچھلے کچھ سالوں میں اللہ کی مدد سے ہم زندگی کی بیشتر آزمائشوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ زینب بہنا کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے گھر میں سکھی ہے۔ اس کے سسرال والوں کو خوش رکھنے کے لیے میں اکثر تحفے تحائف بھی بھیج دیتا ہوں۔ اللہ کے کرم سے آپ لوگوں کو میں نے حج بھی کروا دیا اور کوئی قرضہ بھی باقی نہیں ہے۔ بس کچھ بیمار رہنے لگا ہوں، بی پی بڑھا ہوا ہے اور شوگر بھی ہو گئی ہے لیکن جب گھرآؤں گا، گھر کے پرسکون ماحول میں رہوں گا اور گھرکا کھانا کھاؤں گا تو انشاء اللہ اچھا ہو جاؤں گا اور ویسے بھی اگر یہاں مزید رہا تو میری تنخواہ تو دوائی دارو میں چلی جائے گی وہاں آ کر کسی حکیم سے سستی دوائی لے کر کام چلا لوں گا۔ اب بھی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ کوئی ہلکا کام جیسے پرائیویٹ گاڑی چلانا کر لوں گا۔
آپکا پیارا – جمال
بیٹا ہم تمھارا خط پڑھ کر کافی دیر روتے رہے۔ اب تم پردیس مت رہنا لیکن تمھاری بیوی زہرہ نے کچھ کہنا تھا تم سے ، اسکی بات بھی سن لو۔
(بیوی ) پیارے جانو جمال
میں نے کبھی آپکو کسی کام کے لیے مجبور نہیں کیا اور کسی چیز کے لیے کبھی ضد نہیں کی لیکن اب مجبوری میں کچھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے۔ آپکے بھائی جلال کی شادی کے بعد آپ کے والدین تو مکمل طور پر ہمیں بھول چکے ہیں ان کا تمام پیار نئی نویلی دلہن کے لیے ہے ، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ آبائی گھر جلال کو دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرا سوچیے اگر آپ یہاں آ گئے اور مستقبل میں کبھی اس بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لے کر کہاں جائیں گے۔ اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ کو پتہ ہے سیمنٹ سریہ کی قیمتیں کتنی ہیں؟ مزدوروں کی دیہاڑی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہاں رہ کر ہم کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے۔ لیکن میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ آپ خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔
آپکی پیاری جان۔ زہرہ
انیسواں سال چل رہا ہےپردیس میں، اور بیسواں بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمارا نیا علیحدہ گھر مکمل ہو چکا ہے۔ اور گھرمیں آج کے دور کی تمام آسائشیں بھی لگ چکی ہیں۔ اب تمام قرضوں کے بوجھ سے کمر سیدھی ہو چکی ہے میری ، اب میرے پاس ریٹائرمنٹ فنڈ کے سوا کچھ نہیں بچا، میری نوکری کی مدت بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر کمپنی میرا ریٹائرمنٹ فنڈ جو کہ ۲۵۰۰ ہزار درہم ہے جاری کردے گی۔ اتنے لمبے عرصے اپنے گھر والوں سے دور رہنے کے بعد میں بھول ہی گیا ہوں کہ گھر میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔بہت سے عزیز دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور بہت سوں کی شکل تک مجھے بھول گئی۔ لیکن میں مطمئن ہوں ، اللہ کے کرم ہے کہ میں گھر والوں کو اچھی زندگی مہیا کر سکا اور اپنوں کے کام آسکا۔ اب بالوں میں چاندی اتر آئی ہے اور طبیعت بھی کچھ اچھی نہیں رہتی۔ ہر ہفتہ ڈیڑھ بعد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب میں واپس آکر اپنوں میں رہوں گا۔ اپنی پیاری شریک حیات اور عزیز از جان بچوں کے سامنے۔
تمھارا شریک سفر – جمال
آپ کے آنے کا سن کر میں بہت خوش ہوں۔ چاہے پردیس میں کچھ لمبا قیام ہی ہو گیا لیکن یہ اچھی خبر ہے ۔ مجھے تو آپکے آنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑا بیٹا احمد ہے نا، وہ ضد کر رہا ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لے گا۔ میرٹ تو اس کا بنا نہیں مگر سیلف فنانس سے داخلہ مل ہی جائے گا۔ کہتا ہے کہ جن کے ابو باہر ہوتے ہیں سب یونیورسٹی آف لاہور میں ہی داخلہ لیتے ہیں۔ پہلے سال چار لاکھ فیس ہے اور اگلے تین سال میں ہر سال تین تین لاکھ۔ اور ہم نے پتہ کروایا ہے تو یونیورسٹی والے انسٹالمنٹ میں فیس بھرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اس ماہ کی ۳۰ تک فیس کی پہلی قسط بھرنی پڑے گی،
آپکے جواب کی منتطر ، آپکی پیاری جان۔ زہرہ
یہ وہ پہلا خط تھا جو اس نے اپنی پردیس کی زندگی میں نہیں کھولا ۔
I guess it happens to most of the foreigners...!
جواب دیںحذف کریںI very well written and a story of the majority.
جواب دیںحذف کریںits true story
جواب دیںحذف کریںi read with tears in.my eyes....:(
جواب دیںحذف کریںi m in dubai for almost 1 yr and now same things starts to happen with me....m afraid after reading this.
الله پاک آپ کی مشکلات کو آسان کریں اور آپ کو خوشیاں عطا کریں
حذف کریںبچهڑنے کی ازیت کو اگر تم جاںا چاهو
جواب دیںحذف کریںتو کچهہ پل کو زرا یہ سانس اپنی روک کر دیکهو
تمہیں محسوس یہ هوگا بچهڑنا موت جیسا هے......