ہمارا خون پانی ہے
سیلانی کے قلم سے
سیلانی نے دائیں دیکھا پھر بائیں دیکھا، دوبارہ دائیں بائیں
دیکھا اور آگے بڑھ آیا، بڑے سے پھاٹک کے ساتھ چوٹی سی کوٹھری یقینی طور پر اس عمارت
کے سیکیورٹی گارڈوں کی تھی، سیلانی توقع کر رہا تھا کہ اسے وہاں اونگتے جمائیاں لیتے
یا پھر افسروں کی برائیاں کرتے پولیس اہلکار دکھائی دیں گے لیکن وہاں سنتری بادشاہ
کیا ان کی جمائیاں تک نہ تھیں، ایک چوکیدار تشریف فرما تھا جو انہماک سے داڑھی میں
کنگھی کر رہا تھا، اس نے سیلانی کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا اور سوالیہ نظروں سے آنے
کا سبب پوچھنے لگا۔
”مفتی
صاحب سے ملنا ہے“
”اندر
چلے جاؤ“سیلانی بڑے سے پھاٹک سے اندر داخل ہو گیا۔ کسی نے اسے روکا نہ ٹوکا، جیکٹ
کی جیب تھپتھپا کر تلاشی لی نہ پتلون کی جیبیں اُلٹوائیں وہ اندر چلا آیا وہاں دو تین
باریش نوجوان بیٹھے تھے سیلانی نے ان سے بھی عرض کیا ”مفتی صاحب سے ملنا ہے“
”وہ
تو ابھی سو رہے ہیں، آپ مولانا منصور سے مل لیں، وہ سامنے بیٹھے ہیں“
مولانا منصور دائیں جانب برآمدے میں تخت پر بیٹھے ہوئے تھے
سیلانی ان کے پاس چلا آیا اور اپنا تعارف کروایا اور مفتی صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر
کی انہوں نے نفی میں سر ہلاتےہوئے کہا کہ حضرت ابھی سو رہے ہیں بارہ بجے تک اٹھ جائیں
گے تب ملاقات ہو سکے گی۔ سیلانی نے سیل فون کی سکرین پر وقت دیکھا ساڑھے گیارہ تو ہو
رہے تھے، وہ وہیں بیٹھ گیا اور مولانا منصور سے گپ شپ کرنے لگا۔
بات چیت میں آدھے گھنٹے کا پتا ہی نہی چلا اور دروازہ کھلا
اور سفید براق لباس میں ملبوس ایک دراز قامت لحیم شحیم سرخ و سپید بارعب شخص برآمد
ہوا اور برآمدے میں ایک نمایاں نشست پر براجمان ہو گیا، یہ معروف عالم دین مفتی زرولی
تھے، جامعہ عربیہ احسن العلوم کے مہتمم، یہ وہی جامعہ احسن العلوم ہے جس کے چھ طالب
علموں کو گزشتہ روز مدرسے کے قریب ایک ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے بےدردی سے قتل کر دیا
گیا تھا، وہ پاکباز نوجوان اپنی آنکھوں میں حیرت لیے تڑپ تڑپ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
دم توڑ گئے کہ ان کا رشتہ تو قرآن حدیث سے تھا کسی سیاسی جماعت سے واسطہ نہ کسی بھتہ
خور گروپ سے وابستگی، پھر انھیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ زیادہ نہ سوچ سکے ہوں
گے ان کا سرخ خون بدقسمت کراچی کی زمین میں جذب ہو گیا، اس واقعہ کو پانچ روز تو ہو
چکے تھے، یہ ایک بڑا واقعہ تھا ایک ہی جگہ ایک ہی مدرسے کے چھ طالب علم شہید کر دیے
جائیں، کوئی سیاسی جماعت یا لسانی گروہ ہوتا تو ان کا لیڈر ان کی لاشوں پر کھڑا ہو
کر سیاست کر کے اپنا قد بڑھا لیتا لیکن جامعہ احسن العلوم والوں نے کوئی احتجاج کیا
نہ کوئی سڑک بلاک کی، کسی گاڑی پر پتھر اچھالا نہ کوئی ٹائر جلا کر نعرہ لگایا۔
سیلانی نے مفتی زرولی خان صاحب سے سلام کلام کے بعد عرض
کیا ”حضرت سانحے کے بعد کتنی موبائلیں دی گئی ہیں؟“
زرولی صاحب مسکرا دیے ”ایک سپاہی بھی نظر آ رہا ہے؟
عبد الرحمان ملک صاحب کا فون آیا تھا تعزیت کر رہے تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جامعہ
کی سیکیورٹی کے لیے ایک پولیس موبائل کی پکی ڈیوٹی لگا دیں گے ابھی تک تو وہ ڈیوٹی
لگی نہی“
”حیرت
ہیں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا بچوں کے ذہنوں پر کتنا برا اثر پڑا ہو
گا دکھاوے کے لیے ہی سہی یہاں کچھ قریب الریٹائر
پولیس والے ہی زنگ آلود بندوقوں کے ساتھ بھیج دیے جاتے“ سیلانی نے دکھ کا اظہار
کیا اور ساتھ ہی دبے دبے لفظوں میں کہا کہ اس معاملے پر علما کرام کو احتجاج تو ریکارڈ
کروانا چاہیے تھا۔
”آج
اسلام آباد میں وفاق المدارس کا اجلاس تو ہو رہا ہے“
”یہ
بھی خوب ہے کہ بچے کراچی میں مارے جائیں اور اجلاس اسلام آباد میں ہو“ سیلانی
کچھ دیر حضرت کے پاس بیٹھا رہا پھر وہاں سے گلستان جوہر میں واقع جامعہ اشرف المدارس
کی طرف روانہ ہو گیا، پہلوان گوٹھ میں واقع اشرف المدارس کے ارد گرد بھی کوئی پولیس
موبائل گشت کرتی دکھائی نہی دی، سیلانی نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر آس پاس کا سارا علاقہ
دیکھ لیا ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا، اس نے مدرسے کے گیٹ پر چوکیدار سے کہا کہ کسی ذمےدار
سے ملوا دیں۔ اس نے کچھ دیر انتظار کروایا اور پھر فون پر کسی صاحب سے بات کروا کر
سیلانی کو ایک نوجوان کے پاس بھیج دیا اس نے سیلانی سے آنے کا مقصد پوچھا اور زاہد
صاحب کے پاس بھیج دیا، زاہد صاحب جامعہ کے ایڈمنسٹریٹر ہیں، ان سے جامعہ کی سیکیورٹی
پر بات کی، انہوں نے بتایا کہ اپنے طور پر چند سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں، لیکن ظاہر
ہے وہ ایک حد تک ہی کارآمد ہو سکتے ہیں، سیلانی نے وقت کے ولی حکیم اختر صاحب کے فرزند
اور ان سب معاملات کے نگران مولانا مظہر سے ملنا چاہا۔ زاہد صاحب نے فون پر رابطہ کیا
وہ گھر جا چکے تھے، سیلانی نے عرض کیا ”فون پر ہی بات کروا دیں، اگر وہ ابھی تھوڑا
سا وقت دے دیتے ہیں تو ملاقات ہو جائے گی، اس وقت گاڑی میرے پاس ہے“
زاہد صاحب نے مولانا سے عرض کیا ”وہ آپ سے بات کرنا
چاہتے ہیں آپ کریں گے؟“
دوسری جانب سے اجازت دے دی گئی تو فون کا ریسیور سیلانی
کے ہاتھ میں آ گیا، سیلانی نے اپنا تعارف کروایا اور ایک دو ملاقاتوں کا حوالہ دے کر
ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مولانا غالبا مصروف تھے انہوں نے بے اعتنائی سے عصر کے بعد
آنے کے لیے کہا۔ بہرحال جو اس نے دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا، وہاں ایک پولیس اہلکار بھی
نہی تھا، یہاں سے سیلانی یونیورسٹی روڈ پر واقع جامعہ دراسات پہنچا، جامعہ دراسات والے
خاصے ڈاڈے ہیں۔ انہوں نے اپنے طور پر سیکیورٹی کا معقول انتظام کر رکھا ہے لیکن سوال
یہ ہے کہ سرکار کیا کر رہی ہے؟ وہ یہ سوال لے کر جامعہ دراسات میں ناظم طلبا امور ابوالخیر
صاحب کے سامنے بیٹھ گیا، نرم لہجے میں بات کرنے والے ابوالخیر صاحب نے کہا ”جب
ہمارا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو پولیس آ جاتی ہے، ویسے مدرسے کی سیکیورٹی کے لیے کبھی
انہوں نے زحمت نہی کی، ہم نے اپنے طور پر ہی انتظام کر رکھا ہے“
برادر ابوالخیر کراچی کے حالات پر بہت دل گرفتہ اور پریشان
تھے، انہوں نے بتایا کہ کراچی کے حالات کی وجہ سے اب اندرون ملک سے لوگ اپنے بچے بھیجنے
سے ڈرتے ہیں، داخلوں کی شرح میں کمی ہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم طلبا کو مدرسے سے
باہر جانے نہی دیتے، یہاں کینٹین ہے جو کھانا پینا ہے یہاں ہی مل جاتا ہے۔
جامعہ دراسات کے بعد سیلانی کی منزل جامعہ بنوری سائٹ تھی،
مفتی نعیم صاحب دبنگ اور منہ پھٹ آدمی ہیں وہ تو سیلانی کے سامنے پھٹ پڑے "حکومت
فیل ہو چکی ہے، جو اپنا دفاع نہ کر سکے وہ ہمیں کیا سیکیورٹی دیں گے۔۔۔"
”جامعہ
بنوریہ کے لیے کتنی نفری ہے؟“
”جا
کر دیکھ لیں دو سپاہی ہیں جو اونگتے اور سوتے رہتے ہیں، اب پانچ ہزار طلباء کے لیے
دو سپاہی اور یہاں بنات کا مدرسہ بھی ہے ایک ہزار طالبات ہوتی ہیں اور انتظام یہ ہے
اب کس سے کہیں“
”پھر
آپ نے کیا کیا ہے؟“
”کرنا
کیا ہے اپنے طور پر ہی کر رہے ہیں جو لڑکے مضبوط ہیں ان کی ڈیوٹیاں لگا دیں، اسلحہ
بھی خریدیں گے اور لائسنس بھی بنوائیں گے، اس کے بنا چارہ بھی کیا ہے“۔ مفتی صاحب
سے ملنے کے بعد سیلانی مدرسے میں چلا گیا۔ حفظ کی کلاسوں میں طلباء گردان کر رہے تھے
سبق یاد کر رہے تھے سنا رہے تھے، ان میں مقامی طلباء بھی تھے اور مسافر بھی، سیلانی
ایک بچے کے پاس بیٹھ گیا
”کہاں
رہتے ہو“
”بلدیہ
ٹاؤن“
”حفظ
میں ہو؟“ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سیلانی نے اس طرح تھوڑی دیر باتیں کیں اور
جب اجنبیت ذرا کم ہو گئی تو پوچھا ”آدھی چھٹی میں کیا کرتے ہو؟“
”کچھ
نہی مدرسے میں ہی کھیلتے ہیں، پہلے باہر چلے جاتے تھے، سموسہ، رول کھا لیتے تھے اب
ڈر لگتا ہے کہ کوئی گولیاں نہ مار دے اور امی ابو بھی منع کرتے ہیں کہ باہر نہ جایا
کرو، ہمیں بہت ڈر لگتا ہے“ یہ تیرہ چودہ سالہ لڑکے کے تاثرات تھے۔ وہاں موجود
طلباء نے کہا کہ گھر جاتے ہوئے ذرا سی دیر ہو جائے تو امی ابو پریشان ہو جاتے ہیں، ایک
طالب علم کافی دیر سے سیلانی کو دیکھے جا رہا تھا کہنے لگا ”اگر جامعہ احسن العلوم
کے شہید طلباء کسی انگریزی سکول کے طالب علم ہوتے تو میڈیا ایک ہفتے تک چیختا رہتا،
ان پر رپورٹیں بناتا، اخباروں میں مضامین آتے کالم لکھے جاتے، این جی اوز احتجاج کرتی،
کوئی موم بتیاں جلاتا کوئی اس جگہ پر پھول رکھتا، یہ سب ہمارے لیے کیوں نہی ہوا؟ کیا
انگریزی سکولوں اور بی بی سی کو خط لکھنے والے ہی انسان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔“
سیلانی
کا سر جھک گیا۔ طالب علم کا شکوہ بجا تھا، کہاں ہے سول سوسائٹی، کہاں ہیں این جی اوز،
کہاں ہے عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد ، خوش بخت شجاعت اور ٹیلی وژن چینلوں کے چرب زبان
اینکر جو مائیک لے کر ایک گھنٹہ بولنے کے حیران کر دینے والا معاوضہ لیتے ہیں، جامعہ
احسن العلوم کے شہید طلباء پر کسی نیوز چینل نے کوئی پروگرام کیوں نہی کیا؟ کسی این
جی او نے پریس کلب کے سامنے ان شہید طلباء کے لیے
مظاہرہ کیوں نہی کیا، کسی نے جامعہ احسن العلوم کے گیٹ پر
پھول کیوں نہی رکھے، کسی نے جامعہ بنوریہ کے طلباء کے خوف کو اپنے کالم کا عنوان کیوں
نہ دیا، کسی نے جامعہ دراسات کے استاد ابوالخیر کی پریشانی پر قلم کیوں نہی اٹھایا.....
سیلانی سر جھکا کر جامعہ سے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور جاتے جاتے جامعہ بنوریہ
کے کھلے پھاٹک سے بلا روک ٹوک آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔۔۔۔۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں