گالی گلوچ منافق کی نشانی:
-------------------------------------
بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی چار نشانیاں ہیں۔ جب بولے جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، امین بنایا جائے توخیانت کرے اور جب جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 439
مسلم شریف(جلد سوم:حدیث 2090) کی روایت ہے کہ جب دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کریں تو گناہ ابتدا کرنے والے پر ہی ہوگا، جب تک کے مظلوم حد سے نہ بڑھے۔ ایک طرف تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ سے منع کیا اورفرمایا کہ گالی گلوچ کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہوگا اور دوسری طرف اخلاقی طور پر یہ بھی ہدایت کی ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے، اس لیے کہ اس طرح کرنے سے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
مسلمانوں کو گالی دینا فسق ہے:
-------------------------------------
کسی مسلمان کی دل آزاری کرنا یہ بہت سخت گناہ ہے اور گالی کے ذریعے انسان کو شدید تکلیف ہوتی ہے کوئی اس تکلیف کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔ مذہب اسلام نے صرف مسلموں کو نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی اہل ایمان کو گالی دے تو کس قدر سخت گناہ ہو گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے“۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 47
کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے؟ فرمایا:ہاں! کوئی آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے توجواب میں وہ اس کے والدین کو گالی دیتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 264)
گویا کہ کسی کے والدین کو گالی دینا درحقیقت حقیقی والدین کو گالی دینے کے برابر ہے۔ اللہ اکبر! مگر ہائے افسوس! آج کل تو ایسے کم نصیب لوگ بھی معاشرے میں موجود ہے جو براہ راست اپنے والدین کو گالیاں دے کر جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔
حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے گالی گلوچ کی، تو ان میں سے ایک شخص کی آنکھیں غصے کے مارے لال پیلی ہوگئیں اور اس کی باچھیں پھولنے لگیں،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہے تو اس کا غصہ جاتا رہے اور وہ کلمہ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم“ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1006
اللہ تعالی ہم سب کو ہر طرح کی برائی سے محفوظ رکھے۔ آمین
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں