جیل کی کال کوٹھڑی؟ کون سی جیل اور کون سی کال کوٹھڑی؟ مالک مالک ہوتے ہیں اور مزارع مزارع۔ وہ اپنے گھر میں ہے، اس گھر میں جو ایکڑوں پر محیط ہے، جس کی دیواریں قلعوں کی دیواروں سے بلند تر ہیں۔ جس کے باہر بھی چڑیا پر نہیں مار سکتی۔
حوالات؟ کون سی حوالات؟ اسے پولیس افسروں کے میس میں رکھا گیا، مہمانوں کی طرح۔ اس کے گھر سے ملاقات آئی تو تھرتھلی مچ گئی، روشنیاں بجھا دی گئیں، ہر طرف رینجرز، ہر طرف پولیس، پہرے، سربفلک دیواریں، ہرطرف سنگینیں ہرطرف بندوقیں۔ رہیں ہتھکڑیاں تو وہ تمہارے لیے ہیں۔ یہی پولیس جو مجرم اور مجرم کے خاندان کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پہرہ دے رہی ہے، تم مجرم بنو تو تمہارے ساتھ وہ سلوک کرے کہ تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب روٹ لگتا ہے تو یہ پولیس کس فرعونیت سے تمہارا راستہ روک کر تمہیں غلاموں کی طرح گھنٹوں شاہراہ کے کنارے کھڑا رکھتی ہے۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں، یہ ان جرنیلوں کا ہے جن کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ صادرکیا کہ وہ ’’غیرقانونی اور غیرآئینی سرگرمیوں میں شریک ہوئے اور انہوں نے ایوان صدر میں قائم غیرقانونی الیکشن سیل کے تحت ہونے والی سرگرمیوں میں حصہ لیا ‘‘ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس حکم کو صادر ہوئے پورے چھ ماہ ہو چکے ہیں، پتّہ تک نہیں ہلا۔ کون سا قانون اور کون سی کارروائی؟ کارروائی تو دور کی بات ہے، مجرم ٹیلی ویژن چینلوں پر آ کر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو غیرمنصفانہ قرار دیتا رہا۔ اس لیے کہ یہ ملک تمہارا نہیں اس کا ہے۔ ایسا فیصلہ اگر عدالت عظمیٰ … نہیں… عدالت عظمیٰ تو بہت بڑی بات ہے، اگر تحصیل سطح کی عدالت بھی تمہارے خلاف دیتی تو فیصلہ سنائے جانے کے چند سیکنڈ بعد تمہیں پکڑ لیا جاتا۔ 24 اکتوبر 2012ء کے روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے برملا لکھا کہ جنرل صاحب بھی اپنی این جی او کے لیے مالی امداد حاصل کرتے رہے۔ لیکن کس کی مجال ہے کہ جنرل صاحب سے پوچھے اور حساب لے۔ پوچھ گچھ اور حساب کتاب تمہارے لیے ہے، ان کے لیے نہیں۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو‘ پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں، ان جرنیلوں کا ہے جنہوں نے این ایل سی اور ریلوے کے محکموں میں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا، جن کے خلاف سالہا سال گزرنے کے بعد بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کچھ کر سکی نہ نیب۔ اس لیے کہ یہ ملک تمہارا نہیں، ان کا ہے۔ اگر تمہارا ہے تو کیا تم اربوں کے گھپلے کرنے کے بعد گالف کھیل سکتے ہو؟
یہ ملک فہمیدہ مرزا کا ہے جو 77 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرا سکتی ہے اور اس پر مستزاد، پوری زندگی کے لیے سرکاری خرچ پر نوکروں کی فوج رکھ سکتی ہے۔ یہ ملک اسلم رئیسانی کا ہے جو اسّی کروڑ روپے جائیداد کے نقصان کی ’’تلافی‘‘ کے طور پر سرکاری خزانے سے وصول کرتا ہے۔ یہ ملک یوسف رضا گیلانی کا ہے جو عبوری حکومت آتے ہی اپنے خاندان کے دو درجن افراد کو دبئی بھیج دیتا ہے، جس کے فرزند کے بارے میں وعدہ معاف گواہ صاف کہتا ہے کہ ایفی ڈرین کیس میں اس نے گیارہ ملین (ایک کروڑ دس لاکھ) فلاں سے وصول کیے لیکن پھر بھی کس کی مجال ہے کہ اسے ہاتھ لگائے۔ یہ ملک امین فہیم کا ہے جس کے بینک اکائونٹ میں چار کروڑ آتے اور جاتے ہیں۔ پھر بھی وہ معزز ہے اور وزیر بھی۔ یہ ملک تمہارا نہیں، اس لیے کہ تمہاری بیٹی کو مقابلے کا امتحان دینا پڑتا ہے جس کے لیے وہ مہینوں پاپڑ بیلتی ہے، پھر بھی وہ ناکام رہتی ہے اس لیے کہ نمبر کم حاصل کرتی ہے اور میرٹ سے نیچے رہ جاتی ہے۔ یہ ملک امین فہیم کا ہے جس کی بیٹی مقابلے کا امتحان دیتی ہے نہ ٹریننگ لیتی ہے۔ وہ تو بس کھل جا سم سم کہتی ہے اور آئرلینڈ میں فرسٹ سیکرٹری لگ جاتی ہے۔ یہ ملک کیپٹن صفدر کا ہے جس کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے پنجاب بھر کے عوامی نمائندے کروڑوں روپے کے فنڈز اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔
بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو، یہ ملک تمہارا نہیں۔ تم صرف ٹیکس دینے کے لیے ہو، ہر روپیہ جو تم کماتے ہو اس پر ٹیکس دیتے ہو، ہر روپیہ جو تم خرچ کرتے ہو اس پر ٹیکس دیتے ہو، ٹیکس دے دے کر تمہاری پسلیوں سے گوشت جھڑ چکا ہے یہاں تک کہ تمہاری ہڈیاں بچوں کو گنتی سکھانے کے کام آ سکتی ہیں۔ بدقسمت شخص! یہ ملک ان کا ہے جو ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے، جن کے پاس ٹیکس نمبر ہی نہیں، جو اس ڈاکہ زنی، اس بے حیا چوری کے باوجود عوامی نمائندے کہلاتے ہیں، حکومت کرتے ہیں اور ان محفوظ جزیروں میں زندگی گزارتے ہیں جو اس غربت کے اوپر جس میں تم تیر رہے ہو، فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ تم اس ملک میں غلام ہو، تمہارے بچے بھی غلام رہیں گے۔ یہ ملک ان کا ہے جنہیں حکومتیں وراثت میں ملتی ہیں۔ یہ ملک تمہارا نہیں جسے وراثت میں غربت ملی ہے۔ یہ ملک بلاول، حمزہ شہباز، مریم اور مونس الٰہی کا ہے۔ تمہارا یا تمہارے بچوں کا نہیں۔ یہ ملک ان کا ہے جن کے بارے میں نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ بھٹو فیملی کے بچے پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ ملک ان سرداروں کا ہے جو ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں۔ ’’ہماری سرداری ، ہمارا قبائلی سٹیٹس ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا‘‘
محمد علی جوہر نے لندن میں انگریزوں سے کہا تھا میں غلام ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا‘ تم اگر مجھے آزادی نہیں دے سکتے تو تمہیں قبر کی جگہ دینا پڑے گی۔ بدقسمت شخص! تمہیں تو یہاں قبر بھی نہیں ملے گی اس لیے کہ جو تمہارے ہاتھ سے گیس، بجلی، پانی، عزت اور سکیورٹی چھین چکے ہیں، وہ اب تم سے قبر بھی چھیننے والے ہیں۔ بستر باندھو، پوٹلی سر پر رکھو، صندوق اٹھائو، پاسپورٹ پکڑو اور جاتے ہوئے حافظ کا یہ غیبی شعر پڑھو جو اس نے تمہارے لیے کہا تھا ؎
ما آزمودہ ایم دریں شہر بخت خویش
بیروں کشید باید ازیں ورطہ رختِ خویش
اس دیار میں ہم اپنا بخت آزما چکے، یہ لو، اس سے ہم اپنا مال اسباب نکال لیتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں