اتنی سی کہانی۔۔مجھے اب مرنا ہوگا؟
مظفرآباد میں میرے والدین کے ساڑھے تین مرلے کے گھر میں کوئی صحن نہیں تھا اور اکثر میں کھڑکی سے نظر آنے والے چاند کو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ کیا کبھی کسی رات کھلے آسمان تلے بھیگی ہوئی گھاس پر لیٹے میں ستاروں سے باتیں کر پاؤں گی۔ لیکن یہ سب یوں بے سروسامانی کی حالت میں ہوگا ایسا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کی صبح میں سکول جانے کے لیے بس سٹاپ پر پہنچی تو پوری سڑک چھوٹے چھوٹے کرکٹ گراؤنڈز میں بدلی ہوئی تھی۔ حسبِ معمول نوجوان لڑکے سحری کے بعد کرکٹ کھیل رہے تھے۔ کوئی گاڑی آتی تو کچھ پل کے لیے وِکٹیں سڑک سے اٹھا لی جاتیں۔
میرا سفر شروع ہوا تو دل ایک مرتبہ پھر وسوسوں سے بھر گیا۔ جانے کیوں مجھے کئی دن سے لگ رہا تھا کہ گاڑی اگلا موڑ مڑے گی تو سامنے کوئی حادثہ ہو گا۔ دریا کے ساتھ سفر کرتے مجھے پانی کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ ایک خوف سا تھا کہ یونہی کوئی لاش پانی میں بہتی دکھائی دے جائے گی۔
میں کارکہ نامی گاؤں پہنچی تو روزانہ سکول کے راستے میں ملنے والا بطخوں کا گروہ مجھے آگے جانے ہی نہیں دے رہا تھا کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد ایک مقامی شخص کی مدد سے آگے بڑھ پائی۔
پہلی کلاس ختم ہونے کو تھی اور میں بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی کہ در و دیوار زور دار جھٹکے سے لرز اٹھے۔ میں اس آفت کو سمجھ نہیں پائی سوچا باہر جاکر دوسری ٹیچرز سے پوچھتی ہوں کہ اگر یہ زلزلہ ہے تو بچوں کو باہر نکالیں۔ ابھی ایک قدم ہی اٹھا تھا کہ سامنے کی دیوار پھٹ گئی۔ کئی بچے مجھ سے آکر لپٹ گئے۔ میری چادر اور قمیض سے لپٹے بچے نہ خود دروازے کی طرف بڑھ پا رہے تھے اور نہ میں۔۔۔ پانچ سیکنڈ ۔۔۔۔ ہاں پانچ سیکنڈ ہی کا وقت لگا ہوگا جب میں نے سکول کی دو منزلہ عمارت کو خود پر گرتے دیکھا تھا۔
منہ کہ بل گرے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ بس۔۔۔ اتنی سی کہانی۔۔۔ مجھے اب مرنا ہوگا؟ میں نے کلمہ پڑھا تھا یہ مانتے ہوئے کہ میری کہانی ختم ہوگئی۔۔۔ یونہی آسمان کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ دکھائی دے گیا میں نے فوراً اُٹھنے کی کوشش کی تو سارے پتھر میرے اوپر سے ایسے ہٹتے چلے گئے جیسے روئی کے گالے ہوں۔ مجھے نئی زندگی کی نوید مل گئی تھی میں نے اپنے باقی دبے جسم کو کھینچ کر نکالا اور یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گئی کہ دو منزلہ عمارت کی اُوپری چھت زمین سے لگی تھی۔
ارد گرد دیکھا تو مٹی اور گرد کی ایک گہری چادر پھیلی ہوئی تھی، پہاڑوں پر کوئی گھر سلامت نہیں تھا۔ میں چیخ رہی تھی کوئی تو آؤ ان بچوں کو نکالو۔ تین کلاسوں کے لگ بھگ سو بچے سکول کی عمارت تلے دبے ہوئے تھے۔ کون آتا؟ سبھی گھروں اور دکانوں تلے دبے تھے جو باہر تھے وہ گھروں سے اپنے پیاروں کو نکالنے میں لگے تھے۔
معلوم نہیں کتنے گھنٹے گزرے تھے مگر یوں لگ رہا تھا کہ گویا صدیاں گزر گئیں ۔ مجھے غصہ آ رہا تھا کہ مظفرآباد سے کوئی آ کیوں نہیں رہا۔ یہاں اتنے لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور وہاں کسی کو احساس تک نہیں۔ پھر میں نے کسی سے کہا کہیں سے ریڈیو لے کر آؤ شاید خبروں میں آ رہا ہو کہ کیا ہوا ہے۔ سبھی ڈھونڈنے لگے مگر منہدم گھروں سے کچھ بھی کیسے ملتا۔
بڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر دکھائی دیا تو سب کو امید نظر آنے لگی کہ اب ہمیں بچانے کوئی آ گیا ہے مگر ہیلی کاپٹر لوگوں کی چیخ و پکار کو نظر انداز کرتا واپس چلا گیا۔ مجھے اور بھی غصہ آنے لگا وہ نیچے کیوں نہیں آیا پوچھا کیوں نہیں۔۔۔ میرا دل کسی انہونی کی گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔۔ کچھ گھنٹوں کے بعد گرد بیٹھنے لگی تو سامنے پہاڑ پر ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈ سے پورا گاؤں تباہ ہوئے دیکھا تو سب جان گئے کہ یہ آفت صرف ہمارے لیے نہیں ہے۔
دن کے بارہ بجے کے قریب مظفر آباد کی طرف جانے والا ایک شخص جانے کس طرح پیدل واپس وہاں پہنچا۔ سب اس سے پوچھنے لگے مظفرآباد والے کیوں نہیں آ رہے۔ یہاں سب برباد ہوگیا ہے۔وہ شخص دونوں ہاتھ سر پر مارتے ہوئے بیٹھ گیا اور چِلانے لگا’ مظفرآباد تو خود تباہ ہوگیا۔ وہاں کچھ نہیں بچا۔ ہسپتال، سکول، کالج اور ہوٹلز سب غرق ہو گئے۔‘ میں نے اس وقت سب لوگوں کے چہروں پر آخری امید کے ٹوٹنے کا درد دیکھا تھا۔
شام ہوئی تو بارش ہونے لگی۔ تیز بارش اور اچانک ہونے والی سردی نے سبھی کی آنکھوں سے آنسو چھین لیے۔ مسلسل زلزلے کے جھٹکوں میں تیز بارش اور ژالہ باری سب ہی خدا سے رحم اور گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ چھ دن اور پانچ راتیں میں نے وہیں مقامی لوگوں کے ساتھ پلاسٹک شیٹوں سے بنے خیموں میں کاٹیں۔ ہر روز جب کسی گھر کے ملبے سے کوئی لاش نکلتی تو کوئی بھاگ کر نہیں جاتا۔ بس پوچھتا کون ملا؟ لوگ شاید تھکنے لگے تھے۔
دو دن میرے پاس بیٹھ کر اپنی نو ماہ کی بچی کو یاد کرنے والی وہ نوجوان لڑکی مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ اپنی بچی کو سُلا کر کام کرنے صحن میں آئی تو زلزلے سے مکان گر گیا۔ اس کی بچی اندر دب گئی۔ تیسرے دن اس نے مجھے آ کر بتایا کہ اس کی بچی مل گئی۔ میں نے بے ساختہ اس سے پوچھا ’کیسی ہے وہ؟‘ اس کا جواب اس کی درد بھری آنکھوں میں پا کر میں اپنے لب بھینچ گئی تھی۔ میرے سکول کی ایک آٹھ سالہ بچی اپنی چھ سالہ بہن کی لاش ملنے پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور میرے پاس اس معصوم کو تسلی دینے کے لیے لفظ نہیں تھے۔
چھ دن بعد میرا رابطہ اپنے گھر والوں سے ہوا۔ دل کو کچھ کو تسلی ہوئی۔ مظفرآباد تک جانے والے سڑکیں لینڈ سلائڈ کے باعث ختم ہو گئی تھیں۔ لینڈ سلائڈ سے گزرتے ہوئے سات گھنٹے کا پیدل سفر کرکے میں مظفرآباد پہنچی۔ یہاں دیکھاکہ وہ شہر جہاں مجھے ماں کی آغوش جیسا سکون ملتا تھا اجڑا پڑا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اپنے کئی دوستوں کے ساتھ سکول کی عمارت تلے ابدی نیند سو گیا تھا۔
میں اپنے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی، گلیاں اور چوراہے ویران پڑے تھے۔جابجا خون کے دھبے یہاں کسی انہونی کے گزرنے کی داستان سنا رہے تھے۔ دوسرے شہروں سے اپنوں کی تلاش میں آئے ہوئے لوگ ہر چہرے کو اس امید سے دیکھ رہے تھے کہ وہ شاید ان کا رشتہ دار ہو۔
میں اپنے گھر والوں سے جا ملی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بچ جانے والوں کے لیے خوشی مناؤں یا جانے والوں کا غم۔ کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں میت نہ آئی ہو۔ میری سہیلی مجھے تسلی دے رہی تھی اور میں اسی کے بھائی کے مرنے پر آنسو بہا رہی تھی۔ ابھی پچھلے آٹھ اکتوبر کو ہی تو ہم اُن کی شادی پر اپنی مرضی کے فنکشن کرنے کی ضد کر رہے تھے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں