عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے۔ ہر گھر میں اِسی بات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدی جائے، بکرا لیا جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے۔ جہاں قربانی کے جانور آجاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔ جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے۔جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں۔ یا پھر یہ کہ اِس موقع پر’گوشت‘ کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے۔
جانوروں کی خریداری کے بعد گھر کے مردوں کی اگلی فکر قصائی کی تلاش اور قربانی کے دن اُس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کے سامنے قربانی کے بعد گوشت کی جمع وتقسیم اور پھر اُس کے پکانے کے تھکا دینے والے مراحل ہوتے ہیں۔ بچے جانوروں کو گھمانے اور کِھلانے پلانے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے اس شوق کا منتہائے کمال عید کے دن ذبح ہوتے جانوروں کا نظارہ ہے۔ غرض یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دینِ اسلام کی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر کسی پہلو سے اہم ہے تو وہ محض ’جانور‘ اور اُن کے’ گوشت‘ کے حوالے سے ہے۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی چیز زیرِ بحث آتی بھی ہے تو وہ قربانی کی عبادت کا تاریخی پس منظر اور اُس کے فقہی مسائل ہیں۔
دینِ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے۔ اور دینِ خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے اُن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندہ اور اُس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرِ عنوان بنا کر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے۔
’’اے پروردگار! آج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کررہا ہوں، اگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی جان بھی اِسی طرح تیرے حضور میں پیش کردوں گا۔‘‘
دراصل اِس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں، جن سے ہم اپنے پروردگا کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اُسے زندہ کرتے ہیں، تاہم خدا کے لیے جان دے دینا ’اسلا م‘ (یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے) کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاذ ہی زندگی میں آتے ہیں۔ اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اُس کے علامتی اظہار کے طور پر مقرر کی گئی ہے۔ گویا ایک بندۂ مومن اِس عظیم عبادت کے ذریعے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب تیرے لیے ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تا کہ اللہ نے اُن کو جو چوپائے بخشے ہیں، اُن پر وہ (ذبح کرتے ہوئے) اُس کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کردو۔ اور خوشخبری دو اُن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ (الحج ۲۲:۳۴(
یہ آیت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کردینے کا علامتی اظہار ہے۔ اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے۔ مزید براں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انہیں کھانے کی اجازت دے کر انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں۔ یہ گوشت کھاؤ اور یاد رکھو کہ مجھ سے سودا کرنے والا دنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا۔
ایک طرف قربانی کی یہ عظیم عبادت اور اس میں پوشیدہ قربت رب کی یہ حکمت ہے اور دوسری طرف ہمارا وہ طرزِ عمل ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے۔ جس میں ایک عام آدمی کا ذہن کبھی بھولے سے بھی قربانی کی اِس حقیقت کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کا وہ شائبہ تعلق باللہ کی یاد دہانی کی اِس عظیم عبادت میں اِس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ جس کے بعد لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ قربانی کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار تو دور کی چیز ہے، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق تو مخلوق کی نگاہ میں نمایاں ہونے کی نیت سے آدمی اگر حقیقت میں بھی اپنی جان دے دے تب بھی روزِ قیامت میں ایسے ’’شہید‘‘ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔
ایک آخری بات اِس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ دینِ اسلام کا اصل مقصود انسان کا ’تزکیہ‘ ہے۔ یعنی انسان کو پاکیزہ بنانا۔ تاہم قربانی کے اِس عمل میں ہم لوگ نہ صرف جانور ذبح کرتے ہیں بلکہ اسلام کا یہ مقصود یعنی پاکیزگی بھی ذبح کردیتے ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے جو مظاہر عید الاضحیٰ کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں اس کی توقع کسی اچھے مسلمان سے تو کیا ایک اچھے انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے:
’’اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘
﴿الحج ۲۲:۳۷﴾
تقویٰ اور بندگی کی دلی کیفیات تو ہمارے ہاں پہلے ہی ناپید ہیں۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ گوشت اپنے فرج میں رکھ کر ہم، زبان حال سے، رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھیجتے ہیں۔ چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور بالخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں