جب آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی
آل عمران:144
ترجمہ: اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گر گیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی
بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ موذّنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اذان نہ دے سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر أشھد أن مُحمد تک پڑھا اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔
جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63 سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔
کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی روشنی میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔ جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں، ہم رک جائیں اور جس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔
آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔ اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے۔ اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے اور اللہ تعالی سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔
abay doghlay insan munafiq.
جواب دیںحذف کریں