ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

1 اکتوبر، 2014

مولوی کی سیلفی کرکٹ

 مولوی کے استاد ہونے میں کیا شبہ۔ پیر کی شام دھرنے سے باہرآیا اور کرکٹ کھیلی۔ یہ سولو کرکٹ تھی۔ جیسے ادب میں مونو لاگ ہوتا ہے‘ ویسے ہی مولوی نے سولو کرکٹ متعارف کرا دی ہے‘ اسے سیلفی کرکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود ہی باؤلنگ کی‘ خود ہی بیٹنگ کی اورچھوٹتے ہی چھکے لگائے۔ پہلی بال میں آؤٹ ہوگیا لیکن امپائر بھی خود ہی تھا اس لئے انگلی کھڑی نہیں کی بلکہ خود کو ناٹ آؤٹ قرار دے کر پھر سے باؤلنگ اور بیٹنگ شروع کر دی ۔ پتہ نہیں‘ ’’سیلفی‘‘ میں مزہ نہیں آیا ورنہ سنچری کرنا کیا مشکل تھا۔ ہو سکتا ہے‘ کنٹینر سے باہر کی ’’خوشبو دار فضا‘‘ نے مولوی کی ناک کھٹی کر دی ہو (محاورہ دانت کا ہے لیکن ناک حسب حال بلکہ حسب موقع ہے )اور مزید چھکّے لگانے کا دم نہ رہا ہو۔

سیلفی کرکٹ اچھا شغل ہے‘ بعض لوگ توقع کر رہے ہیں کہ دھرنوں کی شاندار ناکامی کے بعد مولوی کا یہی شغل ہمہ وقتی ہو جائے گا ۔یہ مولوی بھی خدا نے کیا شے بنائی ہے‘ سبحان اس کی قدرت ۔ کتابیں اس کے شاگرد لکھتے ہیں‘ انہیں پیسے دے کر اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے لیکن کرکٹ میں دوسروں پر انحصار نہیں کرتا۔بطور باؤلر کسی دوسرے کو بیٹسمین اور بطور بیٹسمین کسی دوسرے کو باؤلر نہیں مانتا۔ دونوں کی ڈیوٹی اکیلا دیتا ہے۔ پتہ نہیں‘ دھرنوں کے نتیجے کے لئے کسی اور امپائر پر انحصار کیوں تھا۔ اس امپائر کے انتظار میں ڈیڑھ مہینہ گنوا دیا اور سبق یہ سیکھا کہ باؤلر بھی خود‘ بیٹسمین بھی خود‘ امپائر بھی خود ہونا چاہئے۔ یہ سبق پہلے ہی سیکھ لیا ہوتا تو شاید دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔


امپائر کا انتظار رنگیلے نیازی کو بھی تھا۔ انتظار کیا‘ دونوں کو یقین تھا کہ امپائرپاس ہی کہیں دھرنوں کی اوٹ میں کھڑا ہے اسی لئے تو رنگیلا نیازی ہر رات یہ اعلان کرتا تھا کہ انگلی کل کھڑی ہوگی اور مولوی ہر دوسرے دن انقلاب کی نئی حتمی تاریخ دیتا تھا۔ ایک بار تو ’’رانگ سگنل‘‘ ملنے کے بعد پارلیمنٹ پر ہلّہ بول دیا اور فیصلہ سنا دیا کہ اب کوئی اس کے اندر جا سکتا ہے نہ باہر آسکتا ہے۔ پھر صحیح سگنل ملنے پر حکم بدل دیااور ارکان پارلیمنٹ کو آنے جانے کی اجازت دیدی۔ جو لوگ کہتے ہیں پارلیمنٹ طاقتور ہے‘ انہیں ماننا چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طاقت مولوی کی محتاج ہے۔ خود انصاف کیجئے‘ مولوی پارلیمنٹ میں آنے جانے کی اجازت نہ دیتا تو پارلیمنٹ اب تک سیلفی کرکٹ کا گراؤنڈ نہ بن چکی ہوتی۔ 


عبداللہ طارق سہیل  

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں