ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

14 اگست، 2012

پینسٹھواں یوم آزادی


پاکستانی قوم آج اپنا پینسٹھواں یوم آزادی منا رہی ہے۔ اس موقع پر ہم رسمی خوشی تو منا سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم آزاد تو نہیں ہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے آزادی کا نعرہ لگایا گیا تھا اس میں تو رتی بھر بھی کوئی کام نہی کیا۔ پاکستان حاصل کرتے وقت جو قربانیاں ہمارے اسلاف نے دی تھیں وہ ہمارے آج کے ماحول کے لئے نہیں دی تھیں بلکہ وطن عزیز کے حصول کا واحد اور اولین مقصد اس سرزمین میں اسلام کا نفاذ کرنا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔ ایسی سرزمین جس میں ہر پاکستانی کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے اور ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا۔ لیکن آج کے پاکستان کی جو تصویر ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے اسلاف کا ہرگز مقصد اور مقصود نہ تھی۔

آج تمام ملک امن و امان سے محروم ہو چکا ہے ۔ ہم اپنے ہی گناہوں کی سزا میں جکڑے جا رہے ہیں اور ہمارے گناہوں کی سزا ہمیں کسی نہ کسی صورت میں ملتی رہتی ہے۔ پاکستان دو لخت ہوا تو ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا جبکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے یہ نعرہ لگایا گیا کہ دو قومی نظریہ (جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھی) خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم پاکستان کو ہر قسم کی مار دیں گے۔ انہوں نے ہمارے ملک میں ثقافتی نوعیت کی سرگرمیوں، فلموں اور ڈراموں کی صورت میں اور ثقافتی طائفوں کی صورت میں ایک یلغار کر دی تو بھی ہم نے سبق حاصل نہ کیا ۔


ہم نے امریکی غلامی کو قبول کیا، اسلام کے خلاف جنگ کے صف اول کے اتحادی بنے۔ ہم نے مسلمانوں کا قتل عام خود بھی کیا اور کرنے میں کفار کو مدد بھی فراہم کی۔ جس کے بعد ہم مزید عذابوں میں ڈبو دیے گئے۔ کبھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے زلزلے آئے، کبھی سیلاب۔ لیکن ہم نے آنکھ نہی کھولی، ہم گمراہی اور ذلالت کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ قدرت نے کبھی ہمیں حادثات کے زریعے جگانے کی کوشش کی اور کبھی ہمارے سروں پر ایک مربع کلومیٹر لمبا چوڑا برفانی تودہ دے مارا۔ لیکن ہم خواب غفلت سے جاگنے کو تیار نہ ہوئے۔

آج ہر ایک پاکستانی کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ کہیں یہ عذاب، زلزلے و سیلاب، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کا عذاب اور مہنگائی کا طوفان ہمارے ان اعمال کی سزا تو نہیں کہ ہم نے اللہ سے یہ وعدہ کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ ہم اس خطہءزمین میں تیرا نظام، اسلام کا نظام نافذ کریں گے۔ اور پھر ہم اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ھم نے ہر ہر موقع پر الله سے وعدہ خلافی کی، اس کے قوانین کا مذاق اڑایا۔


اور اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ الله کا حکم آ جائے کہ ہمیں تبدیل کر کے یہاں کسی اور قوم کو آباد کر دیا جائے۔

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے ﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور ﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے
 سورة المائدة 54


اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ آمین۔




Tags:
independance day pakistan 14 august
kya ham aazad hain?
are we really independent
65th birthday of pakistan
pakistan hamari jan
کیا ہم آزاد ہیں



0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں