ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اگست، 2012

یہ دیوانگی عام دیوانگی نہیں



جی ہاں ! یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ فتح اورکامرانی ہمیشہ حق وصداقت کے حصے میں آتی ہے اورشکست وریخت باطل کی قسمت میں لکھی ہے

چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور طاقتورکیوں نہ ہو یہی اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن کریم کا فیصلہ بھی ہے کہ ” ان الباطل کان زہوقا“ ہم تسلیم کرتے ہیں اورتاریخ بھی بتاتی ہے کہ دنیا میں باطل قوتیں اکثروبیشتر بڑے کرّوفر کے ساتھ میدان میں آئیں، کئی چھوٹی اوربے بس قوموں کو محکوم بنایا، بستیوں کی بستیاں اجاڑ کررکھ دیں، بسے بسائے شہروں کو کنڈرات میں تبدیل کردیا، ہنستے بستے، مسکراتے گھرانوں کو تباہ وبرباد کیا، حکومتوں کو زیرنگیں کیا، بڑے بڑے قیمتی خزانوں کو لوٹا، اوراپنے لاؤ لشکر، مالی وسائل اورمال ودولت پر غرور کے انتہا تک پہنچے یہاں تک کہ خدائی کا دعویٰ کربیٹھے، اوراپنے جیسے انسانوں کو اپنی عبادت اورغلامی پر مجبور کیا، لیکن ان ساری باتوں کے باوجود باطل کے ہاتھ کبھی بھی آخری فتح وکامرانی سے ظفریاب نہیں ہوئے بلکہ یہ باطل قوتوں کی پرانی روش رہی ہے کہ وقت آنے پر انہوں نے حق و صداقت کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے۔

تاریخ کے صفحات ان کے شکستوں اوربعد ازاں ان کی کمزوری اورناتوانی کے اعترافات کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں اوراس کی زندہ مثال ہمارے پیارے وطن افغانستان میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، جہاں مالی ، مادی اور جدید وسائل سے محروم نہتے مجاہدین کے مقابلے میں باطل قوتیں تین مرتبہ عبرتناک شکست سے دوچار ہو چکی ہیں

پہلی بار، جب برطانوی استعمار نے افغانستان کے غیورعوام پر ہلہ بول دیا تھا، ان پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش تھی اس پاک سرزمین پر اپنے ناپاک جھنڈے گاڑنے کے خواب دیکھے تھے لیکن انہیں ان خوابوں کی ایسی بھیانک تعبیر ملی کہ وہ اس قسم کے خواب ہی دیکھنا بھول گئے اورہمیشہ کی طرح اس بار بھی شکست ان کا مقدر بن کر رہ گئی۔

دوسری بار جب اپنی طاقت کے نشے میں چور سرخ ریچھ آنکھیں بند کرکے افغان عوام کو پامال کرنے آدھمکا، لاکھوں بچوں کویتیم اورخواتین کے سرتاج چھین لئے، لاکھوں ماؤں کے امید اورسہاروں کو لیکن بالآخر اس کے قدم بھی اکھڑ گئے اور وہ اپنی تمام تر آرزوئیں تمنائیں دل ہی دل میں لئے دم دبا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا اوراب تک اپنے زخموں کا چاٹ رہا ہے۔

تیسری بار سفید ہاتھی امریکہ کی قیادت میں غاصب مغربی اتحاد جو افغان سرزمین کو چند گھنٹوں میں فتح کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے لیکن ان کے یہ چند گھنٹے گیارہ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پورے نہ ہوئے اور اور وہ افغان سرزمین کو دلدل کہہ کر راہ فرار تلاش کرنے کی فکر میں ہے۔

آخرالذکر گروہ جب افغانستان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا تھا پھر جب اس نے نہتے اورغیرمسلح افغان عوام ڈیزی کٹر بموں کی بارش کردی اور پھر جب وہ اپنی مکاری اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے گمان میں افغانستان پر قابض ہوا۔ ان تینوں حالتوں میں کامل ایمان اورمضبوط عقیدہ کے حامل لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکہ کا یہ غلبہ وقتی ہے اورامریکی اوراس کے اتحادیوں کا انجام روس سے بھی بدتر اوربھیانک ہوگا۔ انجام کار کامیابی وکامرانی مسلمان مجاہدین کا مقدر ہو گی۔

اس کے مقابلے میں مادی وسائل پر یقین رکھنے والے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اورطاقت سے ناواقف تھے احساس کمتری کا شکارہونے کی وجہ سے امریکہ کو خدائی کا درجہ دے بیٹھے تھے، جو امریکہ اوراس کی جدید ٹیکنالوجی کو ناقابل شکست خیال کرتے تھے اور اپنی شاندارماضی سے بے خبر امریکہ کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ وہ لوگ نہتے، غیرمسلح، منافقت بھری سیاست سے ناآشنا جدید ٹیکنالوجی سے محروم گنتی کے چند سرپھرے نوجوانوں کا امریکہ جیسی ”عالمی“ طاقت کو شکست سے دوچارکرنا حماقت اورپاگل پن خیال کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ کی ہر بات ہر جائز ناجائز مطالبہ بلا چوں وچرا مان کر اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان پاگل ہیں جو امریکہ کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں امریکہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا گویا کہ چیونٹی کا ہاتھی کو میدان میں آنے کی چیلنج دینا ہے ۔ یہ امریکا کی ”عظیم طاقت“ سے نا آشنا ہیں جس کا اندازہ انہیں تب ہی ہو گا جب وہ امریکہ کی طاقت کو دیکھ لیں گے۔

جی ہاں ! یہ بات بالکل بجا ہے کہ طالبان دیوانے تھے لیکن یہ دیوانگی عام دیوانگی نہیں بلکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی عظمت اوردھاک دنیا پر بٹھانے کی دیوانگی تھی یہ وہ دیوانگی تھی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ طالبان جو جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے لیکن وہ مضبوط ایمانی قوت یقین اور اپنے رب ذوالجلال کی مدد اورتائید سے مکمل طور پر آراستہ و پیراستہ تھے۔ ایک ایسی قوت جس کے سامنے دنیا بھر کی قوتیں ہیچ ثابت ہوتی ہیں، ایسی تائید جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی ۔ دنیا طالبان کو نادان سمجھ رہی تھی لیکن حقیقت میں وہ بڑے صاحب فراست وبصیرت تھے، وہ بڑے دوراندیش اور حالات کی دھار کو سمجھنے کی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ اوراس کے پٹھوؤں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی پیشین گوئی طالبان نے امریکہ کی آمد پر کی تھی۔


دنیا نے دیکھا اوردیکھ رہی ہے کہ وہ عالمی قوتیں جو چند ہی دنوں میں طالبان کا نام صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک عزائم لے کر دوڑے دوڑے چلے آئے تھے وہ گیارہ برس گزرنے کے باوجود ناصرف یہ کہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے بلکہ خود ہی شکست خوردہ ہو کر اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ آج چیخ چیخ کر شکست کا اعتراف کر رہے ہیں اور خطیرمالی نقصانات کے ساتھ ساتھ اتنے جانی نقصانات سے دوچار ہو گئے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ان کا پوشیدہ رکھنا ان کے لئے تقریبا ناممکن رہا اور انہیں اعتراف شکست کے علاوہ کوئی راہ دکھائی نہیں دی تو لاچار ہو کر نیٹو افواج نے اعتراف کیا کہ اس جنگ میں ہمارے ایک لاکھ ترپن ہزار فوجی زخمی ہو کر معذور، مفلوج اورہمیشہ کے لئے بے کار ہو چکے ہیں۔ اب جب کہ زخمی ہوکر مفلوج ہونے والوں کی تعداد ان کے بقول اتنی ہے۔ البتہ موت کے بعد امریکہ لے جانے والوں کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ امریکی افواج میں شامل حرام کی پیداوار فوجی مرنے کے بعد سمندر برد کیے جاتے ہیں۔ امریکہ صرف انہی فوجیوں کی لاشیں جاتی ہیں جن کا باپ یا ماں موجود ہو۔ بہرحال مرنے والوں اورزخمی ہوکر بے کارہوجانے والوں کی اصل تعداد تب معلوم ہوگی جب یہ عالمی خونخواربھیڑیے شکست کھا کر بھاگ جائیں گے اورنیٹومیں خدمات سرانجام دینے والے جرنیل ریٹائرڈ ہو کر اپنی سرگزشت لکھیں گے تووہ افغانستان میں کام آنے والے نیٹوفوجیوں کی صحیح اور درست تعداد بھی لکھیں گے۔

دلدل میں پھنس کر دن بدن ہلاکتوں میں اضافوں اورمالی نقصانات کی زیادتی کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو چاہئے کہ اس دورازکار جنگ کو بند کردے افغانستان کی خودمختاری اور افغان عوام کی آزاد طبعی کو تسلیم کرے اپنی عوام اور رعایا پر رحم کرے اور اپنی فوج کومزید مفلوج اورمعذور بنانے سے بچائے۔

الجھا ہے پاؤں یار کازلف دراز میں
لو ! آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا




0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں