آغا وقار کی تیار کی گئی کٹ جو کہ حامد میر کے پروگرام میں دکھائی گئی وہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے میں پانی کی برق پاشیدگی کی جاتی ہے اور دوسرے میں اس سے پیدا شدہ ہائیڈروجن اور آکسیجن گیسوں کو فلٹر کیا گیا ہے۔ برق پاشیدگی والا حصہ عام گھروں میں استعمال ہونے والے واٹر فلٹر میں بجلی کے الیکٹروڈ لگا کر بنایا گیا ہے جبکہ کہ گیسوں کی فلٹرنگ کے لیے ایک بوتل استعمال کی گئی ہے جس میں گیسوں کو کسی مائع غالبا” پانی سے گزارا گیا ہے تاکہ پانی کو توڑنے کے دوران بنی بھاپ الگ ہو جائے۔ پھر آکسیجن اور ہائیڈروجن کے آمیزے کو انجن میں جلنے کے لیے دیا جاتا ہے جس سے انجن چلتا ہے۔ اور اس طرح آغا وقار نے اپنی بنائی گئی کٹ لگا کر محض پانی پر گاڑی چلا کر دکھائی بلکہ حامد میر نے خود گاڑی ڈرائیو کی۔
اب سوال ہے کیا سائنسی لیحاظ سے ایسا ممکن ہے کہ گاڑی مکمل طور پر پانی سے چلائی جاسکے؟ تو جواب ہے نہیں!۔ وہ اس طرح کہ تھرموڈائنامکس کے اصولوں کے مطابق اور توانائی کی بقا کے قانون کے تحت ایسا ممکن نہیں۔ اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ پانی کو توڑنے کے لیے بیٹری سے برقی توانائی لی گئی اب اس سے گیس بن گئی جب اس گیس کو انجن میں جلایا گیا تو حرات پیدا ہوئی اور اس حرارت کی توانائی کو انجن نے حرکی توانائی میں تبدیل کر دیا اور انجن گھومنے لگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا انجن کی پیدا شدہ حرکی توانائی اس برقی توانائی سے ذیادہ ہے جو بیٹری سے لی گئی تھی؟ یقینا” نہیں۔ کیونکہ بہت سی توانائی حرارت اور رگڑ کی صورت میں ضائع ہو جاتی ہے۔
پانی کی برق پاشیدگی کے دوران مندرجہ ذیل عمل ہوتا ہے۔
2H2O…Electrolysis…2H2+O2
جب گیسوں کے آمیزے کو انجن میں جلایا جاتا ہے تو کچھ ایسا عمل ہوتا ہے
2H2+O2….Combustion….2H2O
یعنی پہلے پانی برق پاشیدگی سے ٹوٹا اور پھر انجن میں گیسوں کے جلنے سے دوبارہ پانی بن گیا اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پانی تو وہیں کا وہیں رہا اور ہمیں مفت میں توانائی عنائت کر گیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ہم منگلہ ڈیم کے پانی کے اخراج پر بڑے بڑے ٹیوب ویل لگا دیں اور وہ ٹربائنوں سے آنے والا پانی دوبارہ ڈیم میں چڑھا دیں اور ان ٹیوب ویلوں کو انہی ٹربائنوں کی بجلی سے چلایا جائے۔ اس طرح ڈیم بھی بھرا رہے گا اور بجلی بھی بنتی رہے گی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے؟ اگر نہیں! تو پھر سمجھ لیں کہ آغا صاحب کی واٹر کار بھی ممکن نہیں۔
اب کچھ لوگ سوال کریں گے کہ آغا صاحب نے تو سب کے سامنے گاڑی چلا کر دکھائی اگر وہ سائنسی اعتبار سے ممکن نہیں تھا تو گاڑی کیسے چل گئی!۔ تو عرض ہے کہ گاڑی کے چلنے کے پیچھے کئی ایک باتیں ہو سکتی ہیں مثلا” گاڑی کی بیٹری پہلے سے چارج تھی اور اس سے برق پاشیدگی کا عمل جاری ہو گیا لیکن جوں جوں گاڑی چلتی جائے گی بیٹری بھی ڈسچارج ہوتی جائے گی اور ایک وقت بیٹری کے ختم ہونے سے برق پاشیدگی کا عمل رک جائے گا اور نتیجے کے طور پر گاڑی بند ہو جائے گی۔ اب آغا صاحب کا کہنا ہے کہ بیٹری ساتھ ساتھ انجن سے چارج ہو جاتی ہے۔ ان کی اس بات کا جواب یہ ہے کہ جب بیٹری کا ڈسچارج ریٹ اس کے چارجنگ ریٹ سے ذیادہ ہو گا تو بیٹری مسلسل چارجنگ ملنے کے باوجود بھی ختم ہو جائے گی۔ اس بات کی جانچ کے لیے آغا صاحب کی گاڑی کی بیٹری کی ڈسچارج کرنٹ اور انجن سے آنے والی چارجنگ کرنٹ کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری بات کہ ہو سکتا ہے آغا صاحب نے کوئی خفیہ ایندھن استعمال کیا ہو جو ہائیڈروجن کے ساتھ چلتا ہو اس بات کی جانچ کے لیے گاڑی کے آیگزاسٹ پر آلہ لگا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر تو وہاں خالص پانی آ رہا ہے تو پھر تو گاڑی میں ہیڈروجن کے علاوہ کوئی اضافی ایندھن استعمال نہیں ہو رہا اور اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ یا کاربن کے دوسرے مرکبات آ رہے ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ کوئی خفیہ ایندھن استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایگزاسٹ سے مکمل پانی آ رہا ہے تو اسے جمع کیا جائے اور اس پانی کی مقدار کا کٹ میں ڈالے گئے پانی کی مقدار سے موازنہ کیا جائے تو بات واضع ہو جائے گی کہ ہائیڈروجن کا کوئی خفیہ سورس استعمال کیا گیا ہے کہ نہیں۔
اب ہم فرض کرتے ہیں کہ آغا وقار نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے کہ جس سے سائنس کے بنیادی اصول بدل گئے ہیں جیسے کوانٹم میکینکس کے آنے سے نیوٹن کی فزکس غلط ہو گئی تھی اگر ایسا ہو گیا ہے تو پھر سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے کیونکہ سائنس کی دنیا میں بھوچال آنے والا ہے اور ہماری زندگیاں سر سے پا بدلنے والی ہیں۔ اگر آغا صاحب فراڈ نہیں ہیں تو دنیا سے توانائی کے تمام مسائل ختم ہو جایں گے، اب ہمیں ڈیم بنا کر بجلی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں، سولر انرجی کی اہمیت ماضی کا حصہ بننے لگی ہے۔ اب ہمیں اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ چارج نہیں کرنے پڑیں گے۔ بجلی کی ترسیل کے لیے بڑی بڑی ٹرانسمیشن لائنیں ڈالنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ فوسل فیول سے چلنے والے انجنوں سے پیدا شدہ آلودگی کا خطرہ نہیں رہے گا، بیٹری سیل ختم ہو جایں گے، سیٹلائٹس پر سولر پینلز لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی، ایٹمی توانائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ بن جائے گی، اپنی کہکشاں سے نکل کر دوسری کہکشاؤں کا سفر ممکن ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔،
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آغا صاحب اتنی بڑی تبدیلیوں کا موجب بن سکتے ہیں؟؟ ہگس بوزان تک پہنچ جانے والی سائنس جو آج سے دو سو سال پہلے جانتی تھی کہ پانی کو گیسوں میں توڑا جا سکتا ہے اور انجن میں جلایا جا سکتا ہے وہ آج تک اس سادی سی بات سے کیسے بے خبر رہی جو دنیا کو یکسر بدل سکتی ہے؟؟
سازش!! واقعی بہت بڑی سازش!!۔
مجھے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور ڈاکٹر شوکت پرویز کی باتوں پر حیرت ہے جو انہوں نے حامد میر کے پروگرام میں کیں۔ بہرحال ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ وہ اصلی موجد پیدا کر سکے اور ایسا تبھی ہو گا جب ہم یہ مان لیں گے کہ ہماری مٹی نم نہیں ہے ہمیں اسے نم کرنا ہے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی خرابیوں اور کمییوں کی نشاندہی کر کے ان کا حل تلاش کرنا ہے۔ تاکہ ہمارے موجد خارجی دنیا میں ہمارے لیے شرمندگی کی بجائے فخر کا موجب بن سکیں۔
janab Ghulam abbas sb artical to ap nay likh dya ha or mashallah ap nay tharmodinamix ka or physics ka rule phi kahi say sun leya ha or likh deya mujhay koi aetraz nahi ye sab artical ki had tak to thik ha lakin agar ap apni soch or knowlage say kisi ka fasala ghar par bath kar or Google say nikal lay kay ye banda frad ha to is main ap ki soch ka Myar bohat kam ha Aga Waqar ka nahi apnay artical main ap koi asa sobot datay jo in sahab ko galat karta to bat thi or wo engineers jo is ko verify kar rahay hain kya andhay hain ya phir un ki degree chak karwai gaye
جواب دیںحذف کریںFirst thing ap kisi kay baray main raye to kaim kar saktay hain fasla nahi day saktay jab taki sabit na ho jaye.
Second Dunya main hazaro sal say chezay oper say nichay ki taraf girti thi lakin jis ko ye sochnay ka moqa mila kay asa q ha mera khyal ha kay us nay PHd ki hoi thi? or maray bhai science ki defination bhi search karo zara google say jaha ap nay or to bohat kuch search kya ha apnay artical kay leay or science main theories badal gati hain prectical kay bad or phir theory banti ha.
Agar haqiqatan asa ha to hamain sarahna chahay warna awam ko seach batana chahay haqaiq ki roshani main na kay apni soch say.
Thanks,
or dil azari kay leay mazarat
Note: Is ko galati say bhi ap pablis nahi karain gay.
very well said Gulam Farid...We must analyse ourselves if we claiam for rejection of this superb invention
جواب دیںحذف کریںYou have made reference to comments of Dr. Abdul Qadeer Khan. That's good. But you have not mentioned it. i mention it that he said when I started work on Atomic Bomb people made fun of me saying will i make atomic bomb on 'yougurt vessel' (dahi jamanay k bartan mein atom bomb banao gay?). But he said that he kept on working (hard) on project and one day he was able to claim Pakistan as nuclear power. These are (type of) comments made by Dr. Abdul Qadeer Khan in TeleVision (TV) Program. I want to ask you a question why are you astonished at his comments?
جواب دیںحذف کریںAllah subhanao wa'tala made him able to do which seem to be impossible to even his colleagues (let alone enemies or fellow eountry-men). Not only it seemed impossible but they did try to put obstacles in path of a man who was trying to do Ihsan on its nation.
so writer do you have any comments on my comments?
AOA,
جواب دیںحذف کریںDear Bros.
It may be an invention or land mark but we have to take it positively.
Any one of you can see Mr. Zafar Iqbal column in daily jang dtd 02/11/12 or 03/11/12 in which he has unveiled the Invention of a PAKISTANI Doc. Who has invented HIC Hepatitis C vaccination in just PK RS=36/-. He has also testified it from UK laboratories & they have confirmed it as up to the mark of the said treatment.
But our Parliamentarians & Representative of MUL TI NATIONALS MEDICINE Companies have banned him via corrupt system & The inventor is being involved in the ridiculous Court/judicial Trial system.
What should we say now????????????????????????
We should welcome the fellow countrymen who is doing such a gr8 job to SEE THE INVENTOR BEHIND THE BARS.
Everyone has shared the price to stop The INVENTOR.
Price is PK RS:20,000,000/-
Regards,
Common Man.