چونکہ میں بھی کراچی کے اجلاس کے لیے مدعو تھا مگر میر ے لیے اس مذاق کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے ایک بڑے ذمہ دار کو لکھ بھیجا کہ میں احتجاجا اب اس کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ایک ایسی کارروائی جو سنجیدہ نہ ہو۔ مجھے مدعو کی گئی خواتین سے نہ کوئی ذاتی عناد ہے نہ دشمنی، مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ خواتین پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ کیسے ہو گئیں۔ میں سب کے بارے میں نہیں کہتا مگر اکثر کا اس سوچ سے تعلق ہے جو مغرب زدہ، سیکولر اور روشن خیال تو کہی جا سکتی ہیں مگر اسلامی نہیں ہو سکتیں۔ ایک صاحبہ تو ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہیں، تو دوسری پاکستان کی نامور رقاصہ اور رقص کی تربیت بھی دیتی ہیں جبکہ ایک اور صاحبہ نے میرے ساتھ ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران یہ بات کہی کہ رقص پاکستان میں رہنے والوں کے کلچر کا حصہ ہے۔ ان میں سے ایک خاتون شراب لے جاتے ائیرپورٹ پر پکڑی گئیں۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان تمام خواتین کو کسی بھی دوسرے شخص کی طرح اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے مگر یہاں مذاق یہ ہو رہا ہے کہ ان کو پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ ہونے کے ناطے اجلاس میں بلایا جا رہا ہے تا کہ وہ فحاشی کے مسئلہ پر بات کر سکیں۔ اگر پاکستان کی عورتوں کی نمائندہ خواتین کو بلانا ہی تھا اور وہ بھی فحاشی جیسے مسئلہ پر گفتگو کے لیے تو پھر ایک مخصوص سیکولر سوچ کی بجائے فریال ٹالپر، مہرین انور راجہ، یاسمین رحمان، مریم نواز، نصرت پرویز اشرف، فوزیہ قصوری، جسٹس ناصرہ اقبال، غزالہ سعد رفیق، شاہینہ وقار، ڈاکٹر فرحت ہاشمی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، عامرہ احسان، طیبہ خانم بخاری، ثمینہ خاور حیات، سیمل کامران، عائشہ انس، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین اور بانو قدسیہ جیسی مختلف طبقہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین حکومتی ذمہ داروں کو کیوں نظر نہیں آئیں۔ جن کو بلایا گیا ان کی اکثریت کیا آئین پاکستان کی اسلامی شقوں اور نظریہ پاکستان سے متفق ہے؟ کیا وہ قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں؟ قانون ناموس رسالت پر ان کی کیا رائے ہے؟ اورآیا میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت ان کے لیے بھی اسی طرح تکلیف دہ مسئلہ ہے جس طرح یہ کسی عام پاکستانی مسلمان خاندان کا ہے؟ حکومتی ذمہ داروں کی غیر سنجیدگی اپنی جگہ مگر میں اس مذاق کو برداشت نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ میں جا کر فرماتے ہیں کہ فحاشی ہے کیا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فحاشی کی تعریف کر کے لائیں تو یہ تماشا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں نے تو 27 اگست کے اجلاس میں کہہ دیا تھا کہ مجھے حکومتی ذمہ داروں سے کوئی امید نہیں کہ وہ آئین و قانون کا نفاذ کرتے ہوئے اس برائی کے سدباب کے لیے کام کریں گے۔ میں نے تو قاضی حسین احمد کی اس تجویز کی مکمل حمایت کی تھی کہ فحاشی کی تعریف کے لیے پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ذمہ داری سونپی جائے جو نہ صرف آئینی ادارے ہیں بلکہ عوام کے نمائندہ بھی، اور پھر اس اہم معاشرتی مسئلہ پر مذاق کرنے والوں کوتو قانون یہ اختیار بھی نہیں دیتا کہ وہ فحاشی جس کو پھیلانے میں ان کا اپنا بنیادی کردار ہے اس کی تعریف کریں۔ یہ کام تو پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کواسلام کی مقرر کی گئی حدوں کو توڑنے اور ان کا مذاق اڑانے سے بچائے۔ آمین۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ 27 اگست کے اجلاس میں پیمرا کے ذمہ داروں کو میں نے کہا تھا کہ قرآن اورحدیث کے علاوہ انہوں نے فحاشی کے متعلق دنیا بھر کی تعریفیں اجلاس کے سامنے پیش کر دیں۔ اجلاس کے بعد مجھے بتایا گیا کہ presentation میں قرآن پاک کے حوالے تھے مگر اجلاس سے قبل ان کو نکلوا دیا گیا تھا۔
Allah Almighty protect us...Ameen
جواب دیںحذف کریںFUHAASHEE AUR BAY HUYYAAEE KA BAANEE PERWAIZ MUSHRAF THA..USS NAY AIK SOUCHEE SAMJEE SCHEEM KAY TAHAT YEH SILSILA SHUROOH KIYA THA..USKAY PEECHAY INDIA KA HAATH THA.USNAY SCHOOL KA SLYBUS CHANGE KIYA AUR CANTONMENTS SAY JEHAAD KAY BOARD UTAARAY AUR MOBILE KAY ZAREAY FUHAASHEE KO AAM KARAYA. INTERNET PER GUNDEE WEB SIDE KO OPEN KARNAY KEE AZADI RUKHEE JUB KE POOREE DUNYA MEIN ISS PER CONTROL HAY...MUSHRAF AIK BADEEN MUNAFIQ..PATA NEHEE MUSLIM BHEE THA KE NEHEE.AUR USS KAY BAAD AANAY WALOON KA USS SAY BHEE BURRA HAAL HAY ...
جواب دیںحذف کریںAIIAL HUMARI HEFAZT KAREA AMEEN
جواب دیںحذف کریں