اگر کوئی شخص لادین ہو یا کسی ایسے مذہب پر یقین رکھتا ہو جس میں اجتماعی احکام نہ پائے جاتے ہوں تو وہ باآسانی خود کو سیکولر قرار دے سکتا ہے لیکن ایک شخص کا خود کو بیک وقت مسلمان اور سیکولر قرار دینا ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں ایک سیکولر مسلمان ہوں تو گویا وہ اللہ تعالی سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے: "یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں۔ میں انفرادی زندگی میں تیرے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں البتہ اجتماعی زندگی میں میں تیرے کسی حکم کی پابندی نہیں کروں گا۔ اگر میری حکومت کوئی ایسا قانون بنائے گی جو تیرے حکم کے خلاف ہو گا تو میں تیرا حکم ہرگز نہیں مانوں گا۔"
یہ سیکولر مسلمان کی زندگی میں پیدا ہو جانے والا ایک ایسا تضاد ہے جس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ اگر خود کو سیکولر مسلمان کہنے والے کوئی صاحب اس تضاد کا حل پیش کر سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بیک وقت ایک اچھا سیکولر اور مسلمان بننا ممکن نہیں ہے۔
اسلام کا تصور سیکولر ازم سے مختلف ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، اس کے تمام احکام کو مانیں اور ان پر عمل کریں۔ دین پر جزوی عمل کی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ذاتی زندگی میں تو دین کے احکام پر عمل کروں گا مگر اجتماعی زندگی میں، دین سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔
تحریر: محمد مبشر نذیر
اچھی بات کا پھیلانا کار خیر ہے، مگر اصل مصنف کا حوالہ نا دینا ناانصافی ہے۔
جواب دیںحذف کریںبرائے مھربانی اس تحریر کے اصل مصنف جناب محمد مبشر نذیر صاحب کی مکمل تحریر ادھر سے ملاحظہ فرمایئے: سفرنامہ ترکی :
http://www.mubashirnazir.org/ER/0020-Turkey/L0020-0007-Kamalism.htm
عبدالروف بھائی حوالہ فراہم کرنے کا شکریہ
حذف کریںیہ حقیقتاً میرے علم میں نہی تھا کہ یہ تحریر کس کی ہے، پوری تحریر یقینا مزید فائدے مند ہو گی. میں پڑھتا بھی ہوں اور حوالہ بھی دے دیتا ہوں.
یہ تحریر میں نے فیس بک پر دیکھی تھی اور بغیر کسی نام کے تھی، مجھے اچھی لگی تو میں نے اسے شیئر کرنا اچھا خیال کیا.
عموما کوشش تو ہوتی ہے کہ جو شیئر کروں ساتھ لکھنے والے کا نام بھی لکھ دوں لیکن کئی بار ایسا نہی بھی ہوتا یا معلوم نہی پڑتا جس کے لیے معذرت