ہارتا ہوا امریکہ…!…نقش خیال…عرفان صدیقی
نائن الیون کے فوراً بعد جارج ڈبلیو بش نامی شہنشاہ عالم پناہ کی رعونت بھری پھنکار سنائی دی تھی۔ ”ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون کو نشانہ بنانے والوں کو نشان عبرت بنادیا جائے گا۔ اس دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو ”انصاف“ کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو ”انصاف“ کو ان تک پہنچا دیا جائے گا“۔ اس اعلان کے صرف ستائیس دن بعد امریکی انصاف کا قہرناک لشکر افغانستان کی لٹی پٹی بستیوں کی ادھڑی ہوئی منڈیروں تک پہنچ گیا۔ اس شب تقریباً چالیس لڑاکا بمبار طیاروں نے بہ یک وقت کابل، جلال آباد، قندھار اور مزار شریف پر حملہ کیا۔ جن پر حملہ ہوا ان کے پاس نہ فضائی معرکہ لڑنے والے لڑاکا طیارے تھے، نہ انہیں نشانہ بنانے والی توپیں، نہ طیارہ شکن میزائل نہ آتش و آہن کی اس برسات کا مقابلہ کرنے کا کوئی سامان۔ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت، دنیا کی سب سے نہتی قوم پر ٹوٹ پڑی تھی۔ وہ قوم جو گزشتہ دو دہائیوں سے ایک طویل جنگ کی تباہ کاریوں سے نڈھال تھی
اگلے روز بش نے شاداں و فرحاں امریکی قوم سے عہد کیا۔ ”طالبان کو حکم عدولی کی قیمت ادا کرنا ہوگی“۔ اس کی ہمنوائی میں اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ جانے والے ٹونی بلیئر نے اعلان کیا۔ ”ہمارا الٹی میٹم نہ ماننے والے طالبان اب نتا ئج کا سامنا کریں۔ ”تب اسلام آباد کے ایک گھر میں، جسے افغانستان کا سفارت خانہ کہا جاتا تھا۔ بیٹھے ملا عبدالسلام ضعیف نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ”امریکہ کے اتحادی دراصل مٹھی بھر غلام ہیں جو کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور امریکہ کو ان حملوں کی ایسی قیمت ادا کرنا پڑے گی جس کا وہ اس وقت تصور بھی نہیں کرسکتا“۔
امریکہ کو واقعی اس قیمت کا کچھ اندازہ و گمان نہ تھا جو وہ گزشتہ گیارہ برس میں ادا کرچکا ہے اور جنگ کے باضابطہ خاتمے کے بعد بھی سالہاسال تک ادا کرتا رہے گا۔ 2011ء میں امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز نے آئزن ہاور ریسرچ پروجیکٹ کے تحت ”کاسٹ آف وار“ (Cost of War) نامی ایک خصوصی گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ میں نامی گرامی معیشت دان، ماہرین آئین و قانون، سیاستدان اور معاشرے کے نمائندہ افراد شامل تھے۔ اس گروپ نے زبردست محنت و ریاضت کے بعد اپنی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا کہ تمام اخراجات کو یکجا کیا جائے تو افغانستان اور عراق پر امریکی یلغار کا مجموعی خرچہ 32کھرب ڈالر سے 40کھرب ڈالر تک ہے۔ جنگ کے سمٹاؤ کا عمل شروع ہوجانے کے باوجود اگلے آٹھ برس کے دوران پنٹاگون کو کم از کم 450 ارب ڈالر مزید خرچ کرنا پڑیں گے۔
عراق، افغانستان اور بالواسطہ پاکستان پر مسلط کی جانے والی اس حیاباختہ جنگ کے لئے امریکہ کو کھربوں ڈالر کا قرضہ لینا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ساری کی ساری جنگ ادھار کے پیسوں پر لڑی گئی۔ امریکی قرضوں کا حجم 160 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد قرضے بے قابو ہوگئے۔ 2003ء سے سالانہ پانچ سو ارب ڈالر قرضوں کا اضافہ شروع ہوا۔ 2008ء میں یہ دس کھرب ڈالر سالانہ تک جاپہنچا۔ 2010ء میں امریکہ نے سترہ کھرب ڈالر ادھار لیا۔ امریکی معیشت کے کھوکھلے پن کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اسے ہر سال اپنی مجموعی قومی پیداوار کے مساوی رقم قرض لینا پڑتی ہے۔ 2001ء میں ، نائن الیون سے پہلے مجموعی قومی پیداوار اور قرضوں کا تناسب 56 فیصد تھا جو اب بڑھ کر سو فیصد ہوچکا ہے۔ امریکیوں کو ہر سال پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے براہ راست جنگی اخراجات ایک سو ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہیں یعنی 9ارب ڈالر ماہانہ۔
بارک اوباما نے شہنشاہ عالم پناہ کا منصب سنبھالا تو اس کے عزائم کچھ اور تھے۔ فروری 2008ء میں اوباما نے امریکیوں کے ایک پرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”خوف کے زیر اثر پالیسیاں بنانا کوئی اچھا دستور العمل نہیں۔ میں زخموں سے چور امریکیوں کو وطن واپس آتے دیکھتے دیکھتے تھک گیا ہوں۔ وہ جو نفسیاتی طور پر بھی زخم خوردہ ہیں اور جسمانی طور پر بھی۔ سب پر واضح ہوجانا چاہئے کہ ہم اربوں ڈالر پھونک کر بھی دنیا کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ بنا رہے ہیں۔ ”یہی اوباما جب قصر سفید نامی آسیب گھر میں داخل ہوا تو اس کی کایاکلپ ہوگئی۔ اسے یقین دلادیا گیا کہ طالبان کو فیصلہ کن شکست دے کر افغانستان کو ایک مضبوط امریکی اڈہ بنایا جاسکتا ہے۔ وہ انہی اندھی راہوں پر چل نکلا جو آدم خور امریکی حکام نے تراشی تھیں۔ فیصلہ کن یلغار کیلئے اس نے 36ہزار تازہ دم امریکی فوجی افغانستان بھیجے۔ ان کیلئے 33ارب ڈالر کا اضافی بجٹ منظورکیا۔ امریکی فوج کے سربراہ نے کہا۔ ”ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس یلغار میں کتنے طالبان ہلاک ہوتے ہیں۔“
ایک لاکھ امریکی افواج کے ساتھ، پینتالیس اتحادیوں کے لشکر بھی افغانستان میں خیمہ زن ہیں لیکن خبر ہے کہ امریکہ ہار چکا ہے۔ پسپائی کا محفوظ راستہ مانگنے اور اپنے پٹھوؤں کی جانوں کی ضمانت لینے کیلئے وہ ان طالبان کی منت سماجت کررہا ہے جن کا لہو پینے کیلئے اس نے کھربوں ڈالر جھونک دیئے اور جن کو نابود کرنے کی مہم میں اسے گیارھواں برس جارہا ہے۔ نیٹو کی ایک خفیہ رپورٹ کے بعض اجزاء منظر عام پر آئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ قید کئے گئے طالبان، القاعدہ، عرب ممالک سے آئے مجاہدین اور گرفتارشدہ عام شہریوں کے انٹرویوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی پراعتماد ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ امریکہ رخصت ہورہا ہے اور آنے والا دور طالبان کا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق کرزئی حکومت کے کل پرزے بھی طالبان سے رابطے کررہے ہیں اور امریکیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی وہ بھی طالبان سے جاملیں گے۔ عام شہری طالبان کی حکومت کو موجودہ بدعنوان، نااہل اور عوام دشمن نظام پر ترجیح دے رہے ہیں۔ چار ہزار قیدیوں سے کئے گئے 27000 انٹرویوز پر مشتمل نیٹو رپورٹ نے امریکیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ خود فریبی کے جال سے نکلیں اور اس حقیقت کا سامنا کریں جسے وہ گیارہ برس سے نظرانداز کررہے تھے اورجو صدیوں سے افغانستان کے کوہساروں پہ کندہ ہے۔
اس سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل، پاکستان نے اکنامک سروے آف پاکستان کے ذریعے باضابطہ طور پر قوم کو آگاہ کیا تھا کہ اس بے چہرہ جنگ میں پاکستان 68ارب ڈالر پھونک چکا ہے۔ ڈالر کے موجودہ ریٹ کے مطابق یہ رقم 6100 ارب روپے سے زائد ہے ۔ یاد رکھئے کہ ہم صرف اس لئے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو 300ارب روپے ادا نہیں کرسکتے۔ طالبان اور افغان عوام کے خلاف امریکہ کا دست و بازو بن جانے کے اقدام کو میں ڈالروں اور روپوں کے پیمانے سے نہیں ماپتا یہ ایسی زیاں کاری ہے جس نے ہماری تہذیبی، اخلاقی، مذہبی، قومی، تاریخی اور انسانی اقدار و روایات کی بنیادیں تک ہلادی ہیں۔ ہمیں وہ کچھ بنادیا گیا ہے جس کے تصور سے بھی گھن آتی ہے۔
گزرجانے والی شب میں دیر تک سوچتا رہا کہ کھربوں ڈالر پھونک کر، لاکھوں افراد کا خون ناحق اپنی گردن پر لے کر، اپنے ہزاروں فوجی اس بے ننگ و نام بھٹی میں جھونک کر، امریکی نسلوں کو چالیس کھرب ڈالر کے نئے قرضوں میں جکڑ کر اور زمانے بھر کی رسوائیاں سمیٹ کر، امریکہ نے گھنی داڑھیوں، بھاری پگڑیوں اور لمبی عباؤں والے قبیلے کا کیا بگاڑا ہے؟ ملا محمد عمر کی داڑھی کے کچھ بال ضرور سفید ہوگئے ہوں گے لیکن کیا وہ گیارہ سال پہلے سے کہیں زیادہ سرکشیدہ و سر بلند نہیں ہے؟ کیا اس نے منوا نہیں لیا کہ موت سے ذرا نہ ڈرنے والے فاقہ کش ہی سرخرو ہوتے ہیں۔
میرے ذہن کی لوح پر قندھار کے پہلو سے گزرتے دریائے ارغنداب کی وہ سانولی سی شام اتر رہی ہے جب ہم نے ملا محمد عمر کی اقتداء میں مغرب کی نماز پڑھی تھی اور اس مرد قلندر نے بڑی سادگی سے کہا تھا۔ ”ہمیں صرف اپنے اللہ پر بھروسہ ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں