’میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘
ابو نثر
وہ زمانہ تو شاید غالبؔ نے بھی نہ دیکھا ہو جب سفر کا واحد ذریعہ’ گیارہ نمبر کی بس‘ تھی۔ یعنی بے بسی کے ساتھ پاپیادہ سفر۔ پیاں پیاں منزلیں مارتے چلے جانا۔ بستر سے اُٹھے۔ کمر کسی۔زادِ سفر بغل میں دابا۔ اسبابِ سفر کی پوٹلی بانس میں باندھی۔بانس کندھے پر لٹکایا اورنکل کھڑے ہوئے کسی قافلے کی تلاش میں کہ جو منزلِ مقصود( یامنزلِ موہوم) کی طرف جانے کو تیار کھڑا ہو۔یہ نہ ہوا۔۔۔ یعنی تلاش میں نکلنے کو آدابِ کاہلی کے خلاف جانا۔۔۔ تو۔۔۔ کوئی میرتقی میرؔ ٹائپ کا ’ٹریول ایجنٹ‘ خود آکر مطلع کرگیا۔۔۔
کیاقافلہ جاتا ہے گر تُو بھی چلاچاہے!
راہِ سفر سے ناواقفیت کا حل یہ نکالاگیا کہ کسی واقفِ راہ کو۔۔۔ ’راہبر‘۔۔۔ بناڈالا گیا۔اب رہبر صاحب تیز تیز قدموں سے لپکتے جھپکتے چلے جارہے ہیں اورقافلہ اُن کے آگے پیچھے، دائیں بائیں یا بالکل ہی پیچھے پیچھے ہانپتاکانپتابھاگتا چلاجارہاہے۔ بھلااتنے بڑے ہجوم میں ہم جیسا (عقل سے بھی) پیدل رہرو اپنے (ہرطرح سے) پیدل رہبر کو کیسے پہچان سکتا ہے؟ پس ظریف الطبع غالب نے بھی اُسے پہچاننے کی کوشش میں بڑی بھاگ دوڑ کی اور اِسیبھاگڑ کے بعد اپنی پھولی ہوئی سا نسوں کے ’مابین‘بتایا:
چلتاہوں تھوڑی دُور ہراِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
آج جب کہ رہرو انِ جہاں،آواز سے بھی تیز رفتار طیاروں کو رہوارِسفر بنائے ہوئے اُڑے جارہے ہیں ہیں، ہم چچاغالبؔ کے بھتیجے اب بھی سفر زندگی کی ہر سڑک پر دیکھتے ہیں کہ۔۔۔ ’دِوادَو ہر طرف بھاگڑ مچی ہے‘ ۔۔۔ ہم اب بھی ’رہبر‘ کی تلاش میں ہیں اور ہم میں سے ہر شخص آج بھی چچا غالبؔ کا مندرجہ بالا شعر جھوم جھوم کر گنگنائے جارہا ہے۔
سوچیے تو سہی۔۔۔ کہ اگر رہبر نامعلوم ہوں تو منزل کسے معلوم ہوگی؟مگرہمیں تو منزل معلوم تھی پھر بھی نہ پہنچ سکے۔۔۔ ارے بھائی! :
کیسے منزل پہ پہنچتا کوئی
راہ میں راہ نُما بیٹھے تھے
ہمارے راہ نُماکہنے کو تویہ کہتے ہیں کہ ہماری منزل جمہوریت ہے۔۔۔سو وہ بھی کیا معلوم؟۔۔۔اگرپوچھیے کہ اِس منزلِ موہوم کی طرف ہماری رہبری ورہنمائی کون فرمائے گا؟۔۔۔تو وہ بھی نا معلوم۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے رہبروں کا بھی یہی حال ہے کہ انھوں نے جہاں کسی کو ذرا تیز قدموں سے چلتے دیکھاتُر تُر تُر تُراُس کے پیچھے پیچھے دوڑلیے۔(قریبی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں)۔ پیاسے کو کسی طرف سے بھی پانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو وہ اِس حیص بیص میں نہیں پڑتا کہ یہ سراب تو نہیں؟ بس دوڑ پڑتاہے! خواہ بعد میں خشک ’لٹ پٹاتی‘ زبان باہر نکال کرمزید ہانپنا کیوں نہ پڑجائے۔ ہم نے بڑے بڑے دانشوروں کے۔۔۔ ’مُنھ کو اگرچہ لٹکا دیکھا ‘۔۔۔ مگر اُنھیں کوئے سیاست کے شب نوردوں سے یہی آس لگائے۔۔۔’ بِھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا‘ ۔۔۔کہ ہمیں ہماری منزل تک یہی شب نورد پہنچاآئے گا۔ ان شب نوردوں میں بعض شیوخ بھی شامل ہوئے۔۔۔(اوران شیوخ میں ایک عدد’شیخ الاسلام‘ بھی !)۔
اکبرؔ کو اطلاع ملی تھی کہ۔۔۔’خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں‘۔۔۔ مگراب تو پہلے پوچھنا پڑتاہے کہ :’’ شرع الشیخ‘‘ ہے کیا ؟ شرعِ پیغمبر یا شرعِ فرنگ؟ میخانۂ مغرب کے نرالے دستور کے تحت سرور میں آنے کے لیے وہ اندھیرے اُجالے میں چوکتا بھی نہیں۔اُس کی اِسی چُوک سے عام آدمی کو ایسی شدید غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اسے دور کرنے اور سمجھانے کے لیے پروفیسر اقبال عظیم کو آنا پڑتاہے:
شیوخِ شہر کو تُم دیکھ کر پلٹ آئے؟
کسی سے پوچھ تو لیتے یہ میکدہ ہی نہ ہو
جہانِ مغرب کے میکدوں میں جہانِ مشرق کے میخواروں کوعموماً ’خواجگی کے خواب‘ دکھائے جاتے ہیں۔اوراکثر یہ خواب ’ہاتھی والے‘ ہی دکھاتے ہیں( ’اصحاب الفیل)۔بھلاہاتھی پر بیٹھ کر ’خواجہ بلندبام‘ بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ مگر جب نادرشاہ دُرّانی نے ہاتھی پر بیٹھ کر سواری کی لگام طلب کی تو اُس کوبریفنگ دی گئی :
’’ یہ سواری بے لگام ہے۔ اس کی ڈرائیونگ کے لیے ’ڈرائیور‘ الگ سے رکھنا پڑتا ہے۔ جسے’ فیل بان‘ کہتے ہیں۔ اسٹیئرنگ اُسی کے ہاتھ میں رہتا ہے‘‘۔
جہاں بان اور جہاں دیدہ نادرشاہ دُرّانی نے ایسی سواری پربیٹھنے سے انکار کردیا جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہواور جس کا اسٹیئرنگ دوسرا کنٹرول کرتا رہے۔
مگرہمارے رہبرتو ایک مدت سے اپنی نامعلوم اور موہوم منزل کی طرف سفر کرنے کے لیے بیٹھتے ہی ایسے اونٹ پر ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔اوراونٹ بھی وہ، جسے ’ شتر بے مہار‘ کہاجاتا ہے۔اب انھیں یہ اونٹ جہاں چاہے لے جائے۔ یہ ٹھمک ٹھمک چلتے چلے جائیں گے۔ ادھر عوام انتظار فرمائیں گے کہ دیکھیں یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتاہے۔اسی عمل کو ہم اپنے یہاں ’جمہوریت‘ کہتے ہیں۔
آیت اﷲ مطہری نے اپنی دس تقاریر کے مجموعہ ’’دَہ گفتار‘‘ میں’ جمہوریت‘ کی مثال ملانصرالدین کے خچر سے دی ہے۔ ملا کو خچر پر بیٹھ کر جاتے دیکھا تو کسی نے پوچھا:
’’ملاصاحب!کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘
ملانے جواب دیا:
’’اجی حضرت!میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘‘
مطہری کا کہناہے کہ مغربی جمہوریت بھی ملانصرالدین کا خچر ہے۔ ’’جہاں چاہے لے جائے‘‘۔ اقبالؔ نے جمہوریت کوخچر نہیں سمجھا، اُنھوں نے گدھے کی مثال دی۔فرمایا:۔۔۔ ’کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانے نمی آئد۔۔۔(دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے) ۔۔۔ پہلے مصرع میں اقبالؔ ہمیں ’طرزِ جمہوری سے حذرکر کے ‘ سرکارِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’غلامے پختہ کارے‘‘ بننے کی تلقین کرتے ہیں۔
صاحبو!آج کل وطن عزیز میں جو ’جمہوری تماشا‘ ہورہاہے، یہ کبھی نہ ہوتا اگر ہمارا اعرابی ’انگلستان‘ کے رستے پر بھٹکتے پھرنے کے بجائے مکہ کی راہ پر چل پڑا ہوتا۔ ایسی سواری پر بیٹھنا عاقبت اندیشی نہیں‘جس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔۔۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات ۔۔۔ کہ جس کا کنٹرول نامعلوم اور غیرمرئی ہاتھوں میں ہو۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں