ہم غریب ملکوں کی بے وقار آزادی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
ابھی وطن عزیز کے چینلوں پر اُن کی گونجیلی آواز میں اُن کا یہ بیان گونج ہی رہا تھا کہ ’امریکا نے ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے‘ کہ مرکز یقین، امریکانے گویا۔۔۔ ’اے تکو تماشا‘ ۔۔۔ کہتے ہوئے ہنگو کے ایک دینی مدرسے پر ایک گونجدار ڈرون دے مارا۔ اب ہر طرف بس اسی ڈرون کی آواز گونج رہی ہے۔
ہنگو کی مسجد اور دینی مدرسہ ڈرون کا نشانہ کیا بنا؟ سرتاج عزیز صاحب خود مذاق کا نشانہ بن گئے۔چینلوں نے حسبِ شقاوت اس قومی سانحے پر بھی سرتاج عزیز صاحب کے اعزاز میں، خبروں کے درمیان، فلمی گانے لگانے شروع کردیے۔’کیا ہوا تیرا وعدہ۔۔۔ وہ قسم، وہ ارادہ‘ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ سو،اس رولے گولے میں سرتاج صاحب کی ساری صفائیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
صاحبو! امریکا کا یہ ڈرون حملہ کسی ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ پر نہیں ہوا ہے۔شہری آبادی کی ایک مسجد اور مدرسے پر ہواہے۔اِس حملے میں دو مفتیانِ کرام سمیت سات افراد شہید ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والے علماء کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ بہت سے علماء کے اُستاد تھے۔ استاذ الاساتذہ تھے۔مگر اُن کے ’’شہید‘‘ ہونے کا فتویٰ شاید ہمیں آئی ایس پی آر کے کسی پریس ریلیز نگار سے لینا پڑے گا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑنے والے امریکا کے ’دہشت گرد دُشمن ڈرون‘ حملے میں کوئی عالم، کوئی مفتی یا دین کی تعلیم حاصل کرنے والا کوئی معصوم پاکستانی بچہ ’’ہلاک‘‘ ہو جائے تو وہ ’’شہید‘‘ ہوتا ہے یا نہیں؟ اﷲ کے کلام، قرآنِ پاک کو نازل ہوئے، اب کوئی ڈیڑھ ہزار برس ہونے کو آتے ہیں۔ مگر ہم اب بھی اپنے دانشوروں کی طرف سے یہ تنازعطے پانے کے منتظر ہیں کہ کون ’’شہید‘‘ ہے کون نہیں؟ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے وہ دانشور بھی، جو ’’جہاد‘‘ کے مخالف ہی نہیں ’’استہزائی‘‘ بھی ہیں، کسی کے ’’شہید‘‘ ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے سے نہ جانے کیوں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’اﷲ کی راہ میں جہاد‘ کے سخت ترین مخالف بھی ’اپنے‘ مارے جانے والوں کو ’’شہید‘‘ ہی کہتے ہیں۔ ’مخالفینِ جہاد‘ بھی ’محبانِ شہادت‘ ہیں۔ تعجب ہے۔ انھیں اپنے ’ہلاک شدگان‘ کے لیے کوئی اور لفظ سوجھتا ہی نہیں۔وہ تو کہیے کہ ان کے اندر اتنی اخلاقی جرأت اورعملی بے باکی نہیں ہے کہ اپنے ہی فلسفے اور فیصلے کی روشنی میں اس موضوع پر بھی لب کشائی کرسکیں کہ نواسۂ رسولؐ اور جگر گوشۂ بتولؓ سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے جو ’’حکومتِ وقت‘‘ کے خلاف ’’نجی جہاد‘‘ کیا تھا تو اُس جہاد میں ’جاں بحق‘ ہونے والے ’’شہدائے کربلا‘‘ بھی اُن کی نظر میں ’’شہید ‘‘ہیں یا نہیں؟امے بھائی! تمھاری امریکاپرستی کا جوش اپنی جگہ، مگرمان لو کہ یہ جوش و خروش اِس اُمت کے ’متفق علیہ‘ نظریات کو ذرا بھی متزلزل نہیں کرسکتا۔ اس معاملے میں تم خائب و خاسر اور ناکام و نامراد ہی رہو گے۔ خواہ ایڑی چوٹی کازور لگا لو یا ڈرون اور ڈالر کا۔
ہاں تو۔۔۔وزیر اعظم کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز صاحب نے فرمایا تھا:
’’حکیم اﷲ محسود امریکا کا ہائی ویلیو ٹارگٹ تھا، اس لیے ڈرون حملہ کیا گیا۔بد قسمتی سے حملے کی ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ امریکا نے آئندہ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران میں ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکا نہیں چاہے گا کہ 70فی صد پاکستانی اسے ناپسند کریں، لیکن امریکا مجبور ہے۔ امریکا سے معاہدے کے مطابق نیٹو سپلائی نہیں روکی جاسکتی‘‘۔
خبروں میں یہ بتانے کی بجائے کہ یہ بیان وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ کا ہے،اگر یہ بتایا گیا ہوتا کہ (اوپر) دیا گیا بیان امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کا ہے تو ہم اس بیان کو’امریکا کی مجبوری‘ جان کرمعاف کردیتے۔ مگریہ بیان پاکستانی مشیر خارجہ کا ہے۔ اور اس بیان کا لفظ لفظ پاکستانی رائے عامہ کے آگے امریکاہی کی صفائی پیش کر رہا ہے۔ اﷲ جانے پاکستانی قوم کا نقطۂ نظردُنیا کے آگے پیش کرنے کا ذمہ کس کا ہے؟۔۔۔ ممکن ہے کہ یہ فریضہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے ذمے لے رکھا ہو۔
اگر آپ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کے اس بیان کو مسلسل پڑھنے کی بجائے سوالاً جواباً ملاحظہ فرمائیں تو ’کون کس کا ترجمان ہے‘ والی بات شاید زیادہ واضح ہو جائے:
س: پاکستان کی طرف سے طالبان سے امن مذاکرات کا اعلان ہوتے ہی امریکا نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقے وزیرستان پر ڈرون حملہ کیوں کیا؟
ج: ’’حکیم اﷲ محسود امریکا کا ہائی ویلیو ٹارگٹ تھا، اس لیے ڈرون حملہ کیا گیا‘‘۔
س: مگر یہ حملہ اُس وقت کیوں کیا گیا جب مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جارہا تھا؟ امریکا کو حکیم اﷲ محسود کے ٹھکانے پہلے بھی معلوم تھے۔اُس نے اُس پر پہلے حملہ کیوں نہیں کیا؟اُس وقت حملہ کیوں کیا جب وہ مذاکرات پر آمادہ ہوگیا؟
ج: ’’بد قسمتی سے حملے کی ٹائمنگ غلط ہوگئی‘‘۔
س:سبحان اﷲ!اگر آپ یہ بھی بتا دیتے کہ یہ ’بدقسمتی‘ کس کے حصے میں آئی، تو اچھا ہوتا۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ کسی امریکی حملے کی ٹائمنگ غلط نہ ہوگی اور امریکاہمارے ملک میں امن کی راہ کی رُکاوٹ نہیں بنے گا؟
ج: ’’ امریکا نے آئندہ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران میں ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے‘‘۔
س: کیسے کرائی ہے؟
ج: ’’صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکا نہیں چاہے گا کہ 70فی صد پاکستانی اسے ناپسند کریں‘‘۔
س: ’’70نہیں 100فی صد پاکستانی اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کسی قسم کی کوئی کارروائی غیر ملکی افواج آکر کریں‘‘۔
ج: ’’لیکن امریکا مجبور ہے‘‘۔
س: ’’چلیے مان لیا ۔’’تم ہی مجبو رہو، ہم ہی مختارہیں۔۔۔ ہم نے مانا صنم، خیر مانا صنم‘‘۔لیکن پاکستان کو کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والی جارح افواج کی جی جان سے خدمت کیے جارہاہے اوراُن کی ہر طرح سے مدد کیے جا رہا ہے۔ آخرپاکستان نیٹو سپلائی بند کیوں نہیں کردیتا؟‘‘
ج: ’’ امریکا سے معاہدے کے مطابق نیٹو سپلائی نہیں روکی جاسکتی‘‘۔
مگر افسوس کہ کسی نے پوچھا، نہ اس کا جواب ملا کہ امریکا سے ایسا معاہدہ کب؟ کس نے؟ اور کس کی منظوری سے کیا؟ یہ معاہدہ کرتے وقت پاکستان کے کم ازکم 70فی صدعوام ہی کی ناپسندیدگی کا خیال کر لیا گیا ہوتا۔
اور اے ’ڈالرزاد‘ بھائیو!
پاکستانی عوام میں اب امریکا کے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا کرناتمھارے بس کی بات نہیں رہی۔ خواہ ایڑی چوٹی کازور لگا لو یا ڈرون اور ڈالر کا۔
**
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں