ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

11 دسمبر، 2013

حضرت عبد اللہ بن حذافہ




حضرت عبد اللہ بن حذافہ السّہمی
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر پر بوسہ دے اور اس کی ابتدا میں کرتا ہوں ۔(ارشاد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ(

ہماری داستان کے بطل جلیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں جنہیں عبداللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے لئے ممکن تھا کہ وہ ان کے بارے میں بھی تغافل شعاری کا وہی سلوک روا رکھتی،جیسا کہ ہزاروں انسانوں کے بارے میں اس نے روا رکھا،لیکن اسلامی انقلاب نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو موقع عطا کیا کہ اس دور کی بڑی طاقتوں سے ملیں یعنی قیصر روم اور شہنشاہ ایران،اور ان سے مل کر ایسی داستانوں کو جنم دیں جو زمانہ کے حافظہ اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہے۔

فارس کے بادشاہ کسرٰی سے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات چھ ہجری کو ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمی بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دینے کی خاطر خطوط دے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وفود کی شکل میں مختلف ممالک کی طرف بھیجا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشن کی اہمیت کا پہلے سے اندازہ تھا۔یہ قاصد ایسے دور دراز ممالک کی طرف روانہ ہو رہے تھے جن کے بارے میں ان کو کوئی تجربہ اور علم نہ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نہ تو ان ممالک کی زبان سے آشنا تھے اور نہ آداب شاہی اور مزاج شاہانہ کے محرم راز ہی تھے۔اس سے بڑھ کر طرہ یہ کہ ان کی دعوت کا مقصد بادشاہوں کو اپنا اختیار کردہ دین ترک کرنے،سلطانی و حکمرانی سے دستبردار ہونے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر آمادہ کرنا تھا۔

مہم بذات خود بہت خطرناک تھی۔اس کے معنی تھے کہ اس مہم پر جانے والا ہتھیلی پر جان رکھ کر جائے اور جب کامیابی سے لوٹ کر آئے تو یوں سمجھے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہے۔معاملہ کی اس اہمیت کے پیش نظر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام ضی اللہ عنہمم کو جمع کیا اور اللہ سبحانہ تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:
‘‘میں چاہتاہوں کہ تم میں سے بعض حضرات کو تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں شاہان عجم کی طرف روانہ کروں۔
خبردار! تمھاری جانب سے اس معاملہ میں اختلاف کی وہ نوعیت نہ پیدا ہونے پائے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے مابین رونما ہوئی تھی۔‘‘
اس کے جواب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یک زبان ہو کر عرض کیا:‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ کے حکم کی بہر حال تعمیل کریں گے اور آپ کی منشاء کے مطابق فرائض پوری زمہ داری سے سر انجام دیں گے۔آپ جہاں چاہیں ہمیں بھیج دیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا انتخاب کیاکہ ملوک عرب اور شاہان عجم کی طرف دعوتی خطوط لے کر جائیں۔ان چھ میں سے ایک عبد اللہ بن حزافہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی لے کر فارس کے بادشاہ کسرٰی کی جانب روانہ ہوئے۔

حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری تیار کی بیوی بچوں کو الوداع کہااور تنہا صحراؤں اور میدانوں کو طے کرتے ہوئے سرزمیں فارس میں پہنچے۔باشاہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی اور درباریوں کو مکتوب گرامی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس مرحلہ پر شاہ ایران نے ان کی آمد کی خبر سن کر شاہی دربار کو آراستہ کرنے کا حکم دے دیا اور اس سلسلہ میں ایک خصوصی اجلاس طلب کر لیا اور زعمائے فارس کو اس اجلاس میں شریک ہونے کا حکم دیا۔اس اہتمام کے بعد حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دربار میں آنے کی اجازت دی۔حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ شاہ ایران کے دربار میں اس کیفیت سے در آئے کہ انہوں نے ایک معمولی چادر زیب بدن کر رکھی تھی جس سے عربوں کی سادگی صاف طور پر جھلک رہی تھی ،آپکو سر بڑا اور جسم گٹھا ہوا تھا۔
اسلام کی عزت و وقار کے شعلے دل میں بھڑک رہے تھے اور اسی طرح ایمان کی عظمت و بلندی دل کی گہرائیوں میں دمک رہی تھی اور جب کسرٰی نے انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو حاشیہ نشینوں میں سے ایک کو اشارۃ کہا کہ وہ ان سے خط پکڑے ،ایوان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب ان سے خط لیناچاہا تو آپ نے فرمایا:
‘‘یہ نہیں ہو سکتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ خط براہ راست کسرٰی کے ہاتھوں میں تھماؤں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جرات ہرگز نہیں کرسکتا۔‘‘
یہ دیکھ کر کسرٰی نے حکم دیا : اسے چھوڑ دو اور میرے پاس آنے دو۔جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کسرٰی کے قریب آئے تو اس نے آپ کے ہاتھ سے خط وصول کیا اور اہل حیرہ کے عربی ترجمان سے کہا کہ اس خط کو کھولے اور اس کے مندرجات پڑھ کر مجھے سنائے۔
مکتوب گرامی کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا :

‘‘مِن مُحَمَّد رَسُولِ اللہ اِلٰی کِسرٰی عَظِیمِ فَارِسَ سَلَام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی‘‘
یہ پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے رسول کی جانب سے عظیم فارس کسرٰی کے نام۔سلامتی اس کا استحقاق اس کو ہے جو ہدایت کی راہ پر چلا۔

کسرٰی نے ابھی خط کے ابتدائی الفاظ ہی سنے تھے کہ اس کے سینے میں غیض وغضب کی آگ بھڑک اٹھی۔چہرہ سرخ ہو گیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط میں اپنا نام پہلے لکھا تھا اور اس کا بعد میں۔کسرٰی نے مغلوب الغضب ہو کر خط چھین لیا اور اسے پرزے پرزے کر دیا اور بغیر یہ جانے کہ خط میں کیا لکھاہے ۔چیخ کر یوں گویا ہوا:‘‘میراغلام ہو کر اسے یہ جرات کیسے ہوئی کہ مجھے اس طرح مخاطب کرے پھر حکم دیا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو میرے دربار سے نکال باہر کیاجائے،چنانچہ ان کو دربار سے نکال دیاگیا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ایوان کسرٰی سے نکل کر چل دیئے۔انہیں کچھ علم نہ تھا کہ اب ان کے ساتھ قضا و قدر کیاسلوک روا رکھنے والی ہے۔انہیں قتل کردیا جائے گا یا انہیں آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔
اس پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ کہہ اٹھے۔

’’بخدا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا دینے کے بعد مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا یہ کہہ کر اونٹنی پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔
جب کسرٰی کا غصہ تھما تو اس نے درباریوں کو حکم دیا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دوبارہ میرے پاس پیش کیا جائے،انہوں نے ہر چند تلاش کیا لیکن کہیں بھی آپ کا سراغ نہ ملا۔آخر میں انہیں اتنا پتہ چلا کہ وہ جزیرۃ العرب سے نکل کر کہیں آگے چلے گئے ہیں۔جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ اس نے آپ کے گرامی نامہ کو پھاڑ کر پھینک دیا تھا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالٰی اس کی قبائے اقتدار کے پرزے اڑا دے۔‘‘
ادھر کسرٰی نے یمن میں اپنے نائب باذان نامی جرنیل کو حکم دیا کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کا اعلان کیا ہے ،اسے گرفتار کرنے کے لئے فورا اپنے ہاں سے دو آدمی روانہ کرے،جو اسے پکڑ کر میرے دربار میں پیش کریں۔

باذان نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے دو مضبوط جرنیل ایک خط دے کر مدینہ منورہ روانہ کر دیئے۔اس خط میں لکھا تھا کہ خط دیکھتے ہی بلا تاخیر ان کے ہمراہ کسرٰی کے دربار میں پہنچ جائیں،انہیں یہ بھی تاکید کی کہ اس شخص کا پوری طرح کھوج لگائیں اور اس کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کریں۔
یہ دونوں شخص تیزی سے سفر کرتے ہوئے پہلے طائف پہنچے ۔قریش کے چند تاجروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا۔انہوں نے کہا وہ یثرب میں رہتے ہیں۔تاجروں کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ تو نبی علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے جا رہے ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔شاداں و فرحاں مکہ پہنچ کر قریش کو ان الفاظ میں مبارک دی:

’’اے اہل قریش!خوش ہو جاؤ اور چین سے رہو،اب کسرٰی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹھن گئی ہےاور ان کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے آدمی روانہ کر دئے ہیں۔اب تم اس کے شر سے بچ جاؤ گے۔‘‘
باذان کے ان دونوں نمائندوں نے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔وہاں پہنچ کر نبی علیہ السلام سے ملاقات کی اور باذان کا خط آپ کو پہنچایا اور کہا:شہنشاہ کسرٰی نے ہمارے بادشاہ باذان کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو پکڑ کر اس کے دربار میں پیش کر دےہمیں اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جا کر اس کے حوالے کردیں۔اگر آپ ہماری بات مان لیتے ہیں تو اس میں آپ ہی کا بھلا ہےاور اگر آپ نے ہمارے ساتھ چلنے سے انکار کیا تو جان لیجئے کہ کسرٰی کا جاہ وجلال اور اس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔وہ اس بات پر قطعی قدرت رکھتا ہے کہ تمھیں اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو ہلاک کر دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ بچگانہ باتیں سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ آج تم اپنی قیام گاہ میں آرام کرو،کل دیکھا جائے گا۔جب دوسرے دن یہ نبی علیہ السلام کے پاس آئے اور پوچھا کیا آپ کسرٰی کے دربار میں پیش ہونے کے لئے آمادہ ہیں۔اس کے جواب مٰیں نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’کون کسرٰی؟،سن رکھو آج کے بعد تم اس کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گے۔اللہ تعالٰی نے اسے ہلاک کر دیاہےاور اس کا بیٹا اس کو قتل کر کے خود سلطنت پر قابض ہو گیا ہے۔
ان دونوں کا اس خبر کا سننا تھا کہ حیران وششدر رہ گئےاور خوف و دہشت کے ملے جلے جزبات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے۔
جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں،کیا آپ کو اس کا یقینی علم ہے؟کیایہ وحشت اثر خبر ہم بازان تک پہنچا دیں؟
آپ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں یہ سچ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اسے بتادینا کہ دین اسلام کا دائرہ کسرٰی کی سلطنت تک پھیل جائے گا۔اگر تم اسلام قبول کر لو،تو ہم سبھی کچھ تمھارے حوالے کر دیں گے جو اب تمھارے پاس ہے گویا اس صورت میں تمھاری موجودہ حکمرانی اپنی قوم پر بدستور قائم رہے گی۔

یہ دونوں نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے یہ خبر سنائی۔اس نے سن کر کہا:’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اگر درست ثابت ہوئی تو پھر ان کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں،لیکن اگر یہ بات صحیح ثابت نہ ہوئی تو پھر ہم ان کے متعلق جو رائے قائم کریں گے وہ تم دیکھ لو گے۔ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ باذان کو کسرٰی کے بیٹے شیرویہ کا خط موصول ہوا جس میں یہ تحریر تھا’’میں نے کسرٰی کومار ڈالا ہے اور مارا بھی اسی لئے ہے کہ اپنی قوم کا انتقام لے سکوں۔اس نے اپنے عہد اقتدار میں میری قوم کے شرفاء کا قتل عام شروع کیا تھا۔یہی نہیں اس نے ان کی عورتوں کی بے حرمتی بھی کی اور ان کے مال و دولت کو غصب بھی کیا۔میرا یہ خط جب تمھارے پاس پہنچے تو تم میری حلقہ بگوشی اختیار کرنا۔‘‘
باذان نے شیرویہ کا خط جب پڑھا تو خط کو ایک طرف پھینک دیا اور اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا اور اس کے ساتھ بلاد یمن کے تمام فارس النسل باشندے بھی مسلمان ہو گئے۔


یہ تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی فارس کے بادشاہ کسرٰی کے ساتھ ملاقات کی دلچسپ داستان ہوئی۔قیصر روم کے ساتھ ان کی ملاقات کی تفصیلات کیاہیں؟
قیصر کے ساتھ اپ کی ملاقات کا واقعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا۔یہ بھی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔

۱۹ ھ میں حضرت عمر بن خطاب نے جنگ کے لئےمجاہدین اسلام کا ایک لشکر روانہ کیا جس میں حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے۔بادشاہ روم کے پاس لشکر اسلام کے متعلق خبریں برابر پہنچ رہی تھیں اور اسے معلوم تھاکہ مجاہدین اسلام پختہ حوصلے ،سچائی کے خوگر اور راہ خدا میں اپنی جانیں نثار کرنے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔
اس نے اپنے فوجیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ اگر لشکر اسلام میں سے کوئی قیدی تمھارے ہاتھ لگے تو اسے زندہ پکڑ کر میرے پاس لے آنا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رومی فوج نے گرفتار کر لیااور قیصر کے سامنے حاضر کیا۔اسے یہ بتایا کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کر کے لائے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ساتھیوں میں سے ہے جنہوں نے سب سے پہلے دعوت اسلامی کو قبول کیا۔
جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ روم کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے آپ کو بنظر غائر دیکھا۔پھر کہنے لگا۔
میری ایک تجویز ہے۔
حضرت عبدللہ نے فرمایا:’’وہ کیا؟‘‘
اس نے کہا میری تجویز ہے کہ آپ عیسائیت قبول کر لیں۔آپ کو میری یہ تجویز اگر قبول ہو تو میں اپ کو آزاد کر دوں گا اور آپ کے ساتھ عزت و تکریم والا معاملہ روا رکھوں گا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جرات و عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ممکن ہی نہیں،جس چیز کی طرف آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں ،اس سے ہزار درجہ یہ بہتر ہے کہ میں مر جانا پسند کروں۔
قیصر نے کہا۔
’’آپ مجھے بہادر انسان معلوم ہوتے ہیں۔آپ میری یہ تجویز قبول کر لیں تو میں آپ کو اپنی سلطنت میں شریک کر لینے پر بھی تیار ہوں۔
بیڑیوں میں جکڑا ہوا یہ قیدی اس پر مسکرایا اور یوں گویا ہوا:
اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی حکومت اور جزیرۃ العرب کی مملکت دے کر بھی یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لحظہ کے لئے بھی منحرف ہو جاوں۔
اس نے غضب ناک ہو کر کہا:
’’میں آپ کو قتل کر دوں گا۔‘‘
آپ نے فرمایا:’’آپ جو چاہیں کر دیکھیں ۔اس کے بعدآاپ کو پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا گیا اس کا حکم یہ تھا کہ تختہ دار پر پا بجولاں اس شخص کو اس طرح تیروں کا نشانہ لگاؤ کہ تیر اس کے ہاتھوں کے بالکل قریب گریں اور ہاتھوں کو زخمی کر دیں،چنانچہ اس کے حکم کے مطابق نشانہ باندھا گیا اور تیر چلایا گیا۔
اس نازک اور تکلیف دہ موقعہ پر قیصر نے آپ کو عیسائیت قبول کرنے کی تیسری مرتبہ دعوت دی۔لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا۔پھر اس نے حکم دیا کہ اب اس کے پاؤں کے بالکل قریب تیر مارو۔اس حکم کی بھی تعمیل کی گئی۔اس نے اس موقعہ پر بھی اسلام کو ترک کرنے اور عیسائیت کے حلقہ بگوش ہوجانے کی دعوت دی۔آپ نے ایسا کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔بالآخر قیصر نے حکم دیا کہ اسے تختہ دار سے نیچے اتار دو۔پھر ایک بہت بڑی دیگ منگوائی گئی اور اس میں تیل ڈال کر نیچے آگ جلا دی گئی،جب تیل کھولنے لگا تو اس نے حکم دیا کہ مسلمان قیدیوں کو حاضر کیا جائے ۔اس کے حکم کے مطابق دو مسلمان قیدی پیش کر دیئے گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک کو کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دیا۔گرم اور کھولتے ہوئے تیل میں گرتے ہی اس کا گوشت پوست چثٹخنے لگا اور چشم ذدن میں کھال ہڈیوں سے الگ ہو گئی۔
اس کے بعد وہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوااور کہنے لگا اب بھی موقع ہےعیسائیت کو قبول کر لو ۔آپ نے پہلے سے بڑھ کر دعوت کو ٹھکرا دیا۔جب قیصر حد درجہ مایوس ہو گیا تو اس نے چاروناچار انہیں کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دے دیا۔جب آپ کو دیگ کے پاس لایا گیا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔قیصر کہ حواریوں نے جب یہ دیکھا تو عرض کی حضور یہ تو سچ مچ رو رہا ہے ۔اس نے گمان کیا شاید یہ اس تکلیف سے گھبرا گیا ہے۔
اسے میرے پاس لاؤ۔جب آپ کو قیسر کے سامنے پیش کیاگیا تواس نے پھر آپ کو تیسری مرتبہ عیسائیت کے سامنے سر جھکانے کی دعوت دی۔آپ نے اس بار بھی انکار کر دیا۔
اس نے تعجب سے پوچھا:ارے یہ بات تھی تو تم روتے کیوں تھے؟
آپ نے جواب میں کہا:’’میرے رونے کی وجہ یہ تھی یہ منظر دیکھ کر میرے خیال میں آیا تھا کہ میرے پاس تو صرف ایک ہی جان ہے۔کاش میرے پاس ہزارہا ایسی جانیں ہوتیں اور ہر جان کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا۔
اس ظالم کا یہ سننا تھا کہ انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا:کہنے لگا اب اگر تم میرے سر کو چوم لو تو میں تمھیں آزاد کر دوں گا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کر دو گے؟
اس نے کہا:
ہاں! میں تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر دوں گا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
میںنے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میں اس دشمن دیں کے سر کو چوم لوں اور اس کے بدلے میں یہ سب مسلمان قیدیوں کو رہا کردے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
پھر آپ اس کے قریب آئے اور اس کے سر پر اپنا بوسہ ثبت کر دیا۔قیصر روم نے حسب وعدہ حکم دیا کہ تمام مسلمان قیدیوں کو حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا جائے۔تاکہ وہ ان کو اپنے ساتھ لے جائیں۔رہائی پا کر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سیدھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ سارا ماجرا تفصیل سے کہہ سنایا۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انتہائی مسرت کا اظہار فرمایااور کہنے لگے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کو چوم لے اور لو میں سب سے پہلے ان کے سر پر بوسہ دیتا ہوں۔پھر آپ اٹھے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
۱۔الاصابۃ فی تمییزالصحابہ ۲/۲۸۷۔۲۸۸
۲۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام
۳۔حیاۃ الصحابہ لمحمد یوسف کاندھلوی ۴
۴۔تھذیب التھذیب ۵/۱۵۸
۵۔امتاع الاسماع ۱/۳۰۸
۶۔حسن الصحابہ ۳۰۵
۷۔المحبر ۷۷
۸۔تاریخ الاسلام علامہ ذھبی ۲/۸۸


0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں