ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

21 دسمبر، 2013

Disposable America soldiers


 

 “قابل تلف”("Disposable")امریکن فوجی!
 مریم عزیز
 
بات کچھ تفصیل طلب ہے مگر ہم تلخیص کیے دیتے ہیں۔ڈسپوزبل کا لفظ دراصل ٹشو پیپر جیسی چیزوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔مغرب میں کئی چیزیں اسی مقصد کیلئے بنائی جاتی ہیں کہ ایک بار استعمال کے بعد ردی کردی جائے تاکہ ’maintenance‘ یعنی دیکھ بھال کے ’اخراجات‘ میں کمی لائی جاسکے۔پنٹاگون کے بتائے گئے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق امریکی فوجیوں میں ذہنی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ہر دس میں سے ایک امریکی فوجی دماغی امراض کیلئے ہسپتال میں داخل ہے۔امریکی سیکریٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس کے الفاظ میں امریکی فوجیوں کے نفسیاتی مسائل کے علاج معالجے پرآنے والے اخراجات ”دفاعی محکمے کو سالم نگل رہے ہیں“!۔امریکی فوج نے حال ہی میں ایسے فوجیوں کے علاج پر”تین ہزار ڈالر روزانہ“کے خرچے کا رونا رویا۔ 
قارئین کرام، بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی بات یہاں سے شروع ہوتی ہے ان طریقوں کی جن کو استعمال کرکے امریکی دفاعی محکمہ ’خرچے کم‘کرنے کی کوشش کررہا ہے۔جیویش ٹائمز نامی اخبار میں مصنفہ جوائس ایس اینڈرسن ؛دی نیشن نامی میگزین میں جوشوا کورزکے چھپنے والے مضامین کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی وجہ سے شور تو بہت اٹھا تھا مگرمعاملے کودبا دیا گیا۔مضامین کا عنوان تھا“Disposable Soldiers!” ۔جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2001ء سے اب تک ساڑھے بائیس ہزار امریکی فوجیوں کو یہ کہہ کر فوج سے بے دخل کردیا گیا ہے کہ وہ ’پہلے سے‘ذہنی مریض تھے اور فوج کیلئے بے کار ہیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ فوجی داخلے کے وقت صحتمند قرار دیے گئے تھے مگر جب جنگ کے دوران کھائی جانے والی مرئی و غیر مرئی چوٹوں(جیسے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سر کا یاجسم کاشدید درد، کانوں میں سماعت کے مسائل،بینائی کے مسائل وغیرہ)کیلئے علاج کیلئے درخوست گزار ہوئے تو ان کو خبطی ،پہلے سے دماغی امراض کا شکاراور ڈرامہ باز قرار دے کر فوج سے رخصت کردیا گیا۔
 ایسی رخصت کے نتیجے میں پھر نہ صر ف ان کو علاج کی سہولت سے محروم کردیا گیا بلکہ دیے گئے بونس میں سے موٹی رقم کی واپسی بھی اس میں شامل ہے۔چنانچہ قابل تلف معمولی استعمال کی اشیاءکی طرح ان امریکی فوجیوں کودیکھ بھال کے اخراجات میں کمی کیلئے ’ردی ‘کردیا گیاہے۔ایک دو تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں مگر انہوں نے بھی مہینوں بعد فیصلہ سنایا کہ فوج کے ڈاکٹروں کی تشخیص صحیح تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تحقیق کے لئے ان میں سے کسی فوجی سے براہ راست کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب بھی اس نظام میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے اوراسی طرح کئی ہزارامریکی فوجی عضو معطل کی طرح کاٹ پھینکے جاتے ہیں! اپنی طرز حکومت اور ویلفیر سوسائٹی کے ماڈل کو بزور قوت دنیا میں نشر کرنی والی سپر پاور کا جو حشر ہو رہا ہے وہ دنیا کے لئے ایک تازیانہ ہے۔خوش حالی میں حقوق انسانی کا راگ الاپنا اور غریب ممالک کو انسانیت کا سبق سکھانا بہت آسان ہے۔ لیکن کسی کے ظرف کو ناپنے کا پیمانہ برے وقت میں اس کا طرز عمل ہوتا ہے۔

 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں