رات کی تاریکی میں چاروں طرف سناٹا چھا چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں چلتا چلتا تین میل دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی تو وہ اسی طرف ہو لیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہنڈیا رکھے کچھ پکا رہی ہے اور قریب دو تین بچے رو رہے ہیں۔ عورت سے صورت حال دریافت کرنے پر اسے علم ہوا کہ یہ اس عورت کے بچے ہیں جو اشیا خوردو نوش کی عدم دستیابی کے باعث کئی پہر سے بھوکے ہیں اور وہ محض ان کو بہلا کر سلانے کے لیے ہنڈیا میں صرف پانی ڈال کر ہی ابالے جا رہی ہے۔ یہ سنتے ہی اس طویل قامت شخص کے بارعب چہرے پر تفکرات کے آثار امڈ آئے۔ وہ یک دم واپس مڑا اور پیدل ہی چلتا ہوا اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ کچھ سامان خورد و نوش نکال کر اپنے خادم سے کہا سامان کی گٹھڑی میری پیٹھ پر لاد دو خادم نے جوابا کہا کہ میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں مگر طویل قامت اور بارعب شخصیت نے کہا روز محشر بھی میرا بوجھ اٹھاو گے، مجھے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ المختصر یہ کہ اس نے اپنی پشت پر سامان لادا اور پیدل ہی تین میل کا فاصلہ طے کر کے اس ضرورت مند عورت اور اس کے بھوک سے بے تاب بچوں کو وہ سامان دیا۔ جب تک بچوں نے کھانا کھا نہیں لیا تب تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بچوں کو کھاتا دیکھ کر رات کی تاریکی ہی میں خوشی سے واپس آ گیا۔ طویل قامت اور بارعب شخصیت کو امت مسلمہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو عموما رات کو رعایا کے احوال سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔
آپ کا اسم گرامی عمر، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک نویں پشت پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ اللہ ان کے سینہ سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اللہ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ آپ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپ کے مقابل آتا۔
ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہے۔ غزو بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزو احد میں انتشار کے باوجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزو خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزو بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کر دیا تھا اس وجہ سے کفار پر دہشت طاری ہوگئی۔ غزو حدیبیہ میں آپ مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سرِ تسلیم خم کیا۔ اور جب سور فتح نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ سورت سنائی کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت آپ رضی اللہ عنہ ہی کے لیے تھی۔ غزوہ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات فتح خیبر کا ایک اہم سبب ثابت ہوئیں۔ غزو حنین میں مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کی سرداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ میں عمرہ یا طواف کی اجازت طلب کی تو نبی علیہ السلام نے اجازت کے ساتھ فرمایا اے میرے بھائی!اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک جملہ کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپ رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو جب علم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی مواقع پر جو رائے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ظاہر فرمائی قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے پردہ، قیدیانِ بدر، مقامِ ابراہیم پر نماز، حرمتِ شراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت، تطہیرِ سیدہ عائشہ رضی اللہ جیسے اہم معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے، مشورہ اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علما و فقہا کے مطابق تقریبا 25 آیات قرآنیہ ایسی ہیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تائید میں نازل ہوئیں۔
جب آپ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر برسرِعام ٹوک دیا جائے۔ امیرالمومنین کا لفظ سب سے پہلے آپ ہی کے لیے استعمال ہوا۔ اپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ اپنے دورِ خلافت میں اپنے بیٹے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کا وظیفہ 3 ہزار مقرر کیا جب کہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا 5،5 ہزار اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا 4 ہزار وظیفہ مقرر کیا۔ آپ نے 17 ہجری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور 40 ہزار درہم مہر ادا فرمایا۔
آپ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازہ پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا ہوا ہے تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے۔ یہ معقول جواب سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مطمئن ہو گئے۔
اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1 ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فورا مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپ کے زمانہ میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبل اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپ کے حوالہ کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔ انہی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جوابا ایک خط تحریر فرماکر روانہ کیا کہ یہ خط دریا کی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بلکہ پہلے سے چھ گنا زیادہ پانی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خط کا مضمون یہ تھا کہ اے دریا! اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔"صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880
مزید ایک موقع پر فرمایا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔
کئی قرآنی وعدے اور نبوی خوش خبریاں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دورخلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپ رضی اللہ عنہ ہی نے قائم فرمایا تھا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابی ابن کعب، حضرت ابوالدردا، حضرت سعد اور حضرت ابو موسی اشعری وغیرہ جیسے اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ آپ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ 27 ذی الحجہ بروز بدھ ایرانی مجوسی ابو لل فیروز نے نماز فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اور یکم محرم الحرام بروز اتوار اسلام کا یہ بطلِ جلیل، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوں کا ثمر، اسلامی خلافت کا تاج دار 63 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ روضہ نبوی میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیف بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبروں کے ساتھ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں