ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

25 مارچ، 2014

شہزادوں کی عید


عید الفطر کی چاندنی رات تھی، ہر سو خوشیاں بکھر رہی تھیں ، گھر گھر عید کی تیاریاں ہو رہی تھیں ، ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا،  روزہ دار خدا کا شکر ادا کررہے تھے، کہ انہیں رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، بچے صبح عید کا انتظا رکر رہے تھے، ان کے چہرے خوشی وشادمانی سے دمک رہے تھے، ابھی سے صبح عید کے لیے نئے نئے کپڑوں کو ترتیب دیا جارہا تھا، محلہ میں خوشی ومسرت کا ایک شور تھا، شہر دمشق روشنیوں سے جگ مگا رہا تھا، ہر دکان ومکان مسرت وشادمانی کا گہوارہ بنا ہوا تھا، کہ ایسے میں امیر المومنین اور مسلمانوں کے بادشاہ کا معصوم وخوب صورت بچہ دوڑتا ہوا حرم سرا میں آیا اور اپنی ماں سے لپٹ کر، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

ماں اس خوشی کے موقع پر اپنے لخت جگر کو اس طرح روتا دیکھ کر تڑپ اٹھی ، گھبرائے ہوئے اپنے آنچل سے بیٹے کے آنسو پونچھے اور پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے گویا ہوئیں”میرے پیارے بیٹے، میری آنکھوں کے نور! کیوں روتے جارہے ہو ؟“

لیکن بچہ مسلسل روتا جاتا ہے ، ماں پوچھتی ہے ” کیا کوئی تکلیف ہے؟“

شہزادہ روتے ہوئے کہتا ہے ”نہیں“ ۔

کسی نے مارا ہے؟

”نہیں“

”تو پھر کیوں روتے ہو؟“ ماں پیار سے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے ” دیکھو! آج تو خوشی کا دن ہے کل عید المبارک ہے، تم اپنے ابا امیر المومنین کے ساتھ عید گاہ جاؤ گے ، اپنے ہم عمر دوستوں سے ملو گے۔“

ماں کا یہ جملہ سن کر بچہ او رپھوٹ پھوٹ کر روتا ہے، لیکن اس بار روتے ہوئے وہ کہتا ہے” امی جان! میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ کل عید کا دن ہے ، سب بچے اچھے اچھے اور نئے نئے کپڑے پہن کر عید گاہ جائیں گے، لیکن آپ نے کہا ہے کہ ہمیں عید کے لیے یہی پرانے کپڑے دھلوا دیں گی۔ کیا ہم یہی پرانے کپڑے پہن کر عید گاہ جائیں گے ، نہیں امی جان! ہمیں بڑی شرم آئے گی ، ہم ابا کے ساتھ عید پڑھنے نہیں جائیں گے۔ “ اپنا دکھڑا بیان کرکے شہزادہ اور بلک بلک کر رونے لگا۔

اپنے نورِ نظر اور لخت جگر کویوں بلکتا دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں موتی چھلک آئے ، بیٹے کو اپنے گلے سے چمٹا لیا او ربڑے ضبط کے ساتھ کہا ”میرے لال یہ کون سی رونے کی بات ہے ؟ تم اپنے کو اس طرح ہلکان مت کرو، امیر المومنین کو گھر آنے دو، میں ان سے کہہ کر تمہارے لیے آج رات ہی نئے او راچھے کپڑے بنوا دوں گی ، تم انہیں پہن کراپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی سے کھیلنا ، اماں کی تسلی بھری خوش خبری سن کر شہزادے کی آنکھیں خوشی سے دمکنے لگیں اور وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے میری اچھی وپیاری امی کہہ کر اپنی ماں یعنی ملکہ عالیہ سے لپٹ گیا۔

تھوڑی دیر بعد امیر المومنین جب اُمور سلطنت سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے تو رفقیہ حیات اور ملکہ سلطنت بیٹے کی آرزو اور رونے کا ماجرا سناتے ہوئے بیٹے کی ترجمانی کے انداز میں گویا ہوئیں ” سب بچے کل عید کے دن نئے کپڑے پہنیں گے ۔ لیکن خلیفہ وقت کے فرزند پرانے کپڑے پہنیں گے ، کیا انہیں شرم نہیں آئے گی ان کی خوشی اداسی میں تبدیل نہیں ہو گی؟“

شہزادہ کی آواز اور ملکہ کی گفتگو سن کر امیر المومنین نے جواب دیا، فاطمہ! تمہیں تو معلوم ہے کہ میں دو درہم روزانہ کا مزدور ہوں ، اس قلیل رقم میں کھانے پینے کا گزارہ کرنا ہی مشکل ود شوار ہے ، چہ جائیکہ دیگر اخراجات“!

فاطمہ بولیں” لیکن بچے تو نہیں مانتے، وہ تو ضد کرتے ہیں کہ نئے کپڑے پہن کر عید گاہ جائیں گے، ورنہ نہیں ۔“

امیر المومنین نے کہا کہ ” اچھا ایسا کرو، اگر تمہارے پاس کوئی چیز ہو تو اسے فروخت کرکے بچوں کی ضد اور آرزو پوری کردو“ امیر المومنین کا جواب سن کر ملکہ وقت کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، بولیں ”یا امیر المومنین جس دن آپ تخت خلافت پر بیٹھے تھے، میرا تو ایک ایک زیور علیحدہ کرکے آپ نے بیت المال میں جمع کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ زیور غریب اور مسکین لوگوں کا حق ہے،
بلکہ میرا قیمتی ہار بھی جو میرے والد نے مجھے تحفہ دیا تھا آپ نے وہ بھی جمع کر وادیا ، بھلا اس کے بعد میرے پاس کیا جمع ہے اور آپ تو خود جانتے ہیں  کہ اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔“


بادشاہ وقت اپنی بیوی کی باتیں سن کر خاموش ہو گئے اور سر جھکا کر سوچتے رہے، پھر سر اٹھایا، چہرے پر ہلکی سی شادابی آئی ، خادم کے ذریعہ بیت المال کے نگران، یعنی وزیر خزانہ کو ایک حکم نام بھجوایا کہ ” ہمارا ایک ماہ کا حق خلافت ( تنخواہ) پیشگی بھیج دو“۔

تھوڑی دیر بعد خادم واپس آیا مگر اس کے ہاتھ میں رقم کے بجائے وزیر خزانہ کا جوابی خط تھا، خط کیا تھا؟ امیر المومنین کی نظریں تحریر میں گڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں، لکھا تھا ”امیر المومنین! آپ کا غلام آپ کے ارشاد کی تعمیل کے لیے حاضر ہے، لیکن امیر المومنین آپ کو یہ کیوں کر یقین ہوا کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں اور جب یہ یقین نہیں کیا جاسکتا تو پھر غریبوں کے مال کا حق کیوں پیشگی اپنی گردن پر رکھتے ہیں؟!“

خط پڑھ کر امیر المومنین پر لرزہ طاری ہو گیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کپکپاتی ہوئی آواز میں گویا ہوئے ” فاطمہ ! والله بیت المال کے وزیر خزانہ نے مجھے ہلاکت سے بچالیا۔“

دوسرے دن دمشق کے بازار رنگ ونور میں ڈوبے ہوئے عید کا حسین منظر پیش کر رہے تھے ، بوڑھے جوان اور بچے سب عمدہ لباس زیب تن کیے دو گانہ عید ادا کرنے عید گاہ کی طرف رواں دواں تھے، امیر المؤمنین، خلیفة المسلمین، حاکم وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی الله عنہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ پیادہ ہی عید گاہ تشریف لے جارہے تھے، گو کہ آپ کے بچوں نے نئے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے، تاہم وہ خوش تھے ، ان کے چہرے روحانی مسرت اور صبر وشکر کی روشنی سے منور تھے، ان کی پیشانی ایمانی نور سے دمک رہی تھی۔

اس لیے کہ رات کو باپ نے انہیں سمجھایا تھا کہ جو بچے دنیا میں صبر وشکر کے ساتھ پرانے کپڑے پہن لیتے ہیں تو الله تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں نئے واعلیٰ کپڑے پہنائے گا، جو کبھی پرانے نہیں ہوں گے اور وہ خوشی عطا کرے گا جو دائمی ہو گی، جسے نہ تو کوئی چھین سکے گا اور نہ ہی وہ غم میں تبدیل ہو گی ۔

  حالانکہ یہی عمر بن عبدالعزیز مسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل انتہائی تنعم وراحت کی زندگی بسر کرتے تھے ، جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقع نہیں ملتا تھا، وہ جس راستے سے گزرتے خوشبوؤں سے معطر ہو جاتا، لیکن خلافت کابارِ گراں اٹھانے کے بعد آپ نے اپنے آپ کو ابوہریرہ کے قالب میں ڈھال کر آنے والے تمام مسلم حکمرانوں کے لیے ایک زندہ وجاوید مثال قائم کر دی ، جب حکمران اتنا سادہ وخدا ترس ہو تو اس کی اولاد اور ماتحت کیوں نہ متقی وپرہیز گار بنے گی؟ یہ اصول ہے کہ ہر بلند چیز کا سایہ اس کے نیچے پڑتا ہے ، اگر حکمران مخلص، ایمان دار ، خدا ترس ، قانون کے پابند اور حقیقی خدا کے نائب بن جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے ماتحت بھی ایمانی وقرآنی صفات سے بھرپور نہ ہوں۔

مگر آج عالم یہ ہے ، خصوصاً اسلامی مملکت پاکستان کی صورت حال تو ہم سب پر آشکارا ہے کہ آج طویل مدت گذرنے کے بعدبھی اسلام کے نام پر حاصل کرنے والے ملک میں اسلام کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا جاتارہا ہے ،انتہا تو یہ کہ ہر آنے والے حکمران نے اپنے اقتدار کے طول او رکرسی کی حفاظت کے لیے اسلام ہی کو بازیچہ اطفال بنایا، اپنی ہر من مانی کو اسلام کا نام دے کر مسلمانوں اور یہاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی اسلام سے خوف زدہ کیا گیا ہے۔

یہ اسلام پر چلنے ہی کی برکت تھی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی الله عنہ کے دو رمیں شیر وبکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگے تھے، مگر آج ایک ہی پلیٹ میں دو مسلمان ایک ساتھ کھانا کھانا گوارا نہیں کرتے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی الله عنہ اور ان جیسے دیگر مسلم حکمرانوں نے شاید ہی اپنی پوری زندگی اور دورِ حکومت میں اپنے اور اپنے خاندان پر اتنا خرچ کیا ہو گا، جتنا آج مسلم حکمران خصوصاً پاکستانی حکمران صرف اپنی ذات پر، عیش وعشرت کے کام پرایک دن  میں دولت خرچ کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ پہلے بیت المال کو عوام الناس کا حق سمجھا جاتا تھا، آج حکمران اسے اپنا ذاتی خزانہ سمجھتے ہیں۔


0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں