یعنی ایسا شخص جو حقوق العباد کو نظر اندازکر کے حقوق اللہ پر زیادہ زور دیتا ہے!
جس کا کل مطمح نظر مذہبی مظاہر اور رسومات ہیں!
جو دین کے معاملے میں ذرا بھی اختلاف رائے برداشت نہیں کرتا۔ دین پر عمل کرنے کے معاملے میں رخصت کی اجازت نہیں دیتا۔!
جو صرف اپنے مسلک کو ہی حق سمجھتا ہے!
انتہائی غصہ ور!
جو مسئلے کا حل دینے کے بجائے صرف فتوے دیتا ہے!
جو دین کے نظریاتی اور انٹلکچول پہلو سے نابلد ہے اور صرف فقہی پہلو سے واقف ہے۔
بہت بڑی داڑھی والا!
عالمی حالات اور عالم اسلام سے ناوقف۔ وقت کے تقاضوں سے آزاد!
دین کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والا۔بے عمل مبلغ!
وغیرہ وغیر...!!!
صحیح یا غلط طور پر ہمارے معاشرے میں یہی مولوی کی تصویر بنادی گئی ہے۔اس تصویر نے دیسی سیکولروں کی بہت ساری مشکلیں آسان کردی ہیں۔ مولوی دین کی کچھ بھی بات کر لے چاہے وہ بات کتنی ہی معقول ہوصرف ایک "مولوی" کا طعنہ دے کر پورے محفل لوٹی جاسکتی ہے۔
لیکن سیکولر اور ملحد طبقے کا ایک بہت بڑا مسئلہ وہ پڑھے لکھے دین دار نوجوان ہیں جو پورے شعور کے ساتھ، نہ صرف دین کو بلکہ دین کے خلاف تمام مقدمات کو سمجھتے ہوئے بڑے ہی ناموافق حالات میں اسلام پر ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ الحاد و سیکولرزم کے خلاف نظریاتی محاذ بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ اسلام کا نظریاتی اور فکری مقدمہ مضبوط ہی ہورہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ ایک طرف ہمارے کچھ علماء ومحققین کی تحقیق ہے تو دوسری اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ مغربی نظریات کی منطقی بنیاد انتہائی بودی ہے۔ مغرب نے ایک غلط عقیدہ یعنی مسیحیت کا مقابلہ کر کے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا تھا کہ اس نے تمام مذاہب کو شکست دی ہے۔ لیکن ایسے مسلمان جو مغربی فکر سے مرعوب نہیں ہیں جب انہیں مغربی نظریات کو معروضی انداز میں پرکھتے ہیں تو اندر سے لغو قسم کے دعوے ہی نکلتے ہیں۔دوسری طرف دیسی سیکولر ان مغربی نظریات کی خالص علمی نمائندگی کرنے کےبجائے صرف اس علمی مرعوبیت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی علمیت سے وہ قطعی نابلد ہیں۔ ان دیسی سیکولروں کا پورا مقدمہ اور فکر در اصل اس مولویت کے خلاف ہوتی جس کے صفات پیچھے بیان کی گئیں۔
ان کی منافقت کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی باشعور مسلمان سے ان کو پالا پڑتا ہے تو اس شعور کا فکری مقابلہ کرنے کے بجائے فوراً مولویت کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں۔
اول تو مولوی کی جو صفات مانی یا منوائی جاتی ہیں وہ غلط پروپیگنڈا ہے۔ لیکن اس مولویت کے سانچے کے باہر جیسے ہی انہیں دین نظر آتا ہے، اس کو سمجھنے، قبول کرنے، یا مقابلہ کرنے کے بجائے فوراً مولویت کی طعنہ دے کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو نظریاتی شکست دے دی۔
انہیں اندھا ایمان اس لئے پسند ہے کیونکہ وہ سیکولرزم پر اپنے اندھے ایمان سے مسلمانوں کے اندھے ایمان کا مقابلہ کرنے میں ایک گونہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ہاں کسی باشعور مسلمان کو دیکھتے ہی ان کی سٹی گم ہوجاتی ہے، کیوں کہ سیکولرزم پر ان کا ایمان کسی شعور کے بجائے مرعوبیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اب انہیں کون سمجھائے کہ اسلام انکی اپنی مزعومہ مولویت سے بہت آگے جاچکا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولویت کے ساتھ غلط یا صحیح طریقے سے جو جمود اور فرسودگی منسوب کی جاتی ہے اس کے شکار وہ خود سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔اندھی تقلید جو کہ مولویت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے وہ انہیں دیسی سیکولروں کا خاصہ ہے۔ان کے نزدیک مغرب کے چند عقائد مکمل طور پر ثابت شدہ ہیں اور جیسے ہی ان کو چیلنج کیا جاتا ہے وہ مولویت کی دہائی دے کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ انداز ایسے ہی بے شعور دیندا ر کا سا کہ جب دین کے کسی معاملے میں سوال اُٹھایا جاتا ہے تو وہ اس کا منطقی جواب دینے کے بجائے الحاد کا فتوی داغ دیتا ہے۔
ابوزید
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں