ابو نثر
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ:
’’کوئی طاقت انقلاب کو نہیں روک سکتی‘‘۔
علامہ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ ایسی ناطاقتی صرف زمینی طاقتوں کے حصے میں آئے گی یا جوشِ انقلاب میں اُنھوں نے تمام آسمانی طاقتوں کو بھی کھلا چیلنج دے مارا ہے۔ویسے انقلاب کے آنے کی نوید تو ہم جنوری 2013ء سے سن رہے ہیں جب علامہ صاحب اسلام آباد کے ’ڈی چوک‘ پر سخت سردی کے موسم میں گرما گرم کنٹینر کے اندر کافی پی پی کر انقلاب لانے پر تلے ہوئے تھے۔مگر اب تک جو انقلاب نہ آسکا تو آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟کیا اس کی وجہ انقلاب کی اپنی ناطاقتی ہے؟ یا واقعی کوئی طاقت انقلاب کو آنے سے روکے کھڑی ہے؟ ابھی پچھلے ماہ یعنی جون 2014ء میں بھی علامہ صاحب ’انقلاب بذریعہ ہوائی جہاز‘ لے کر آرہے تھے۔ مگریہ بھی اﷲ ہی جانے کہ اُس انقلاب کی آمد کی راہ میں کون سی طاقت آڑے آگئی؟ سو،انقلاب کو آنا تھا نہ آیا۔ بلکہ انقلاب کی جگہ ماہِ صیام آگیا اور ’اﷲ کا مہینہ‘ یعنی ’رمضانِ کریم‘ انقلاب کا رستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ ابھی تک کھڑا ہے۔ اب علامہ صاحب بھی کھڑے انتظار کر رہے ہیں کہ ماہِ صیام کسی طرح رُخصت ہو تو اُن کا انقلاب بھی کسی طرح آئے۔ (ارے بھئی رمضان میں قید کر دیا جانے والا، اُن کا ’محرکِ انقلاب‘ ، اُن کا گڈو بٹ، رہائی پائے گا تو انقلا ب آئے گا نا!)
صاحبو! علامہ صاحب کا انقلاب، انقلاب نہ ہوا، ایک پرانی کہانی کے چرواہے کا شیر ہوگیا، جس کے متعلق چرواہا ہر روز صدا لگاتا تھا کہ۔۔۔’شیر آیا، شیر آیا دوڑنا‘۔۔۔صدا سن کر گاؤں کے لوگ کلھاڑے لے لے کر دوڑے چلے آیا کرتے۔ مگر اُنھیں کہیں شیر نظر آتا نہ شیر کی دُم۔ بالآخر ایک روزشیر آہی گیا۔ اُس روز بھی چرواہے نے بڑی آوازیں لگائیں۔ مگر گاؤں والوں نے کہا: ’’ایویں رولا پاندا اے‘‘۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ شیر چرواہے کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ ہم بھی سوچتے ہیں کہ علامہ کے صدا لگاتے لگاتے اگر کسی روز سچ مچ انقلاب آگیا تو ہم کنیڈا والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
علامہ صاحب نے یہ بھی فرمایاہے کہ:’’کرپٹ پولیس اہلکار انقلاب کے رستے میں نہ آئیں‘‘۔
اس سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ شاید کرپٹ پولیس اہلکار ہی انقلاب کے رستے میںآکر کھڑے ہوگئے تھے۔انقلاب پولیس سے ڈر گیا اور مارے ڈر کے نہ آسکا۔ اب علامہ صاحب نے جو پولیس کو للکارا ہے تو اس پر ہمیں آغاحشر کاشمیری کی للکار یاد آگئی کہ:
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو، ہٹ جاؤ! دے دو راہ جانے کے لیے
اس سے ہمیں پتا چلا کہ کرپٹ پولیس اہلکاروں کی طرح، فلک پر گشت یا مٹر گشت کرتے ہوئے بادل بھی آغا صاحب کی ’آہ‘ کا رستہ روکے کھڑے تھے۔ وہ تو آغا صاحب مرحوم نے اُنھیں للکار، للکار کر ہٹایا تو ’آہ‘ کو فلک پر جانے کا رستہ ملا۔ تاہم، آغا صاحب کی ’آہ‘ فلک سے رحم لانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں؟ اس باب میں اُردو زبان کے شیکسپیئر کے ڈراموں کی تاریخ خاموش ہے۔ مگر علامہ صاحب خاموش نہیں ہیں۔ اب تک نہ آنے والے انقلاب کے رستے کی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کرپٹ پولیس والوں کو للکارے چلے جارہے ہیں کہ:
انقلاب آتا ہے تم پر قہر ڈھانے کے لیے
پُلسیو، ہٹ جاؤ! دے دو راہ آنے کے لیے
اُردو محاورے کی ’رادھا‘ اپنے ناچنے کے لیے ’نومن تیل‘ فراہم کرنے کی شرط عائد کیا کرتی تھی، اس اطمینان کے ساتھ کہ۔۔۔ ’نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘ ۔۔۔ مگر علامہ کو اپنے انقلاب کے لیے ’دس لاکھ تعلیم یافتہ افراد‘ کا لشکر اقتدار بنانے کی حاجت ہے۔ آپ نے فرمایا :
’’ان کی فہرست ابھی سے تیار کرنا شروع کردی جائے گی‘‘۔
دس لاکھ افراد کی فہرست بنانے میں کم از کم، کم ازکم بھی سو، دوسو، دن تو لگ ہی جائیں گے۔پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ڈھائی کروڑ تعلیم یافتہ افراد تو بیروزگار پھر ہی رہے ہوں گے۔علامہ نے تعلیم یافتہ افراد سے درخواستیں طلب فرما لی ہیں۔ درخواستیں جمع کروانے اور پھر ان کی اسکروٹنی کرکے اُن میں سے دس لاکھ افراد کی فہرست بنانے کا کام ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے کام سے بھی زیادہ دقت طلب کام ہے۔اب دیکھیے اس میں کتنا وقت لگتا ہے اور ہمارے اِس ٹیڑھے آنگن میں ناچنے کے لیے انقلاب کو دس لاکھ تعلیم یافتہ افرادکی فہرست کب تک میسر آتی ہے۔
رانا ثناء اﷲ صاحب کا کام اور اُن کا مقام آج کل رانا مشہود صاحب نے سنبھال رکھا ہے۔ سو اُنھوں نے بھی اُسی ۔۔۔ ’طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا‘ ۔۔۔ شروع کردیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’کنٹینر والے بابا کنیڈا برانڈ انقلاب لے کر جلد اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔مولانا مسلسل بیان بازی کرکے عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔وہ رمضان المبارک میں اسلامی تعلیمات کی بجائے خود نُمائی کی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔اُن کی شعبدہ بازی اور مسلسل جھوٹ سے عوام زچ ہو چکے ہیں۔وہ لاشوں کی سیاست کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔
ہمیں رانا مشہود صاحب کے اِن خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں ہے۔یہ غلط ہے کہ مولانا عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔وقت وہ صرف اپنا ضائع کر رہے ہیں۔عوام کو تو اُن کے بیانات سے لطف اندوز ہو ہو کر اپنا وقت مزے سے گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ عوام کا سارا وقت علامہ صاحب کے بیانات سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر اپنا ’روزہ بہلانے‘ میں صرف ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں کی اس سے بڑھ کر دینی خدمت بھلا ہمارے علامہ صاحب اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ بھی درست نہیں ہے کہ اُن کی شعبدہ بازی وغیرہ سے عوام زچ ہو چکے ہیں۔عوام زچ نہیں ہوئے۔وہ آج بھی علامہ کے بیانات سے اتنے ہی لطف اندوز ہو رہے ہیں جتنا پہلے ہوتے تھے۔رہی یہ بات کہ وہ لاشوں کی سیاست کرنے میں کبھی کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ تو رانا مشہود صاحب ’خدا کے خوف سے ڈریں‘۔ لاشوں کی سیاست کی یہ کامیابی کم ہے کہ اب رانا ثناء اﷲ صاحب کی جگہ رانا مشہود صاحب آگئے ہیں۔ہمیں یقین ہے رانا مشہود صاحب بیان بازی میں رانا ثناء اﷲصاحب کے مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے، ہاں اُن کے انجام تک ضرور پہنچائے جاسکتے ہیں۔
اب آخر میں ایک بار پھر وہی بات۔ یعنی علامہ کی کہی ہوئی جس بات سے ہم نے آج کے کالم کا آغاز کیا ہے کہ ’’کوئی طاقت انقلاب کو نہیں روک سکتی‘‘۔ تو یااولی لابصار! یہ تو بڑے تکبر کی بات ہے۔ جس ذات نے علامہ کو طلاقتِ لسانی کی طاقت بخشی ہے،اُس ذات کی عزت و جلال کی قَسم، وہ انھیں ضرور دکھا کر رہے گی کہ کوئی طاقت اُن کے تکبر بھرے انقلاب کو روک سکتی ہے یا نہیں؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں