ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

5 اگست، 2014

دنیا کے دو خیموں میں بٹنے کا وقت



 جو لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری ایک اچانک عمل ہے اور یہ چند دنوں تک جاری رہے گا اور پھر عالمی طاقتیں بیچ بچائو کروا دیں گی۔ اس دوران غزہ کے مسلمانوں کو کافی سبق سکھایا جا چکا ہو گا۔ ایسے افراد کو ایک دفعہ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران یہودی دانشوروں‘ سیاستدانوں اور خصوصاً صیہونی لٹریچر کا مطالعہ کر لینا چاہیے جو ان سالوں میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے شایع ہوتا رہا ہے۔ جن ’’عظیم‘‘ دانشوروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسرائیل دنیا میں موجود قومی ریاستوں کی طرح کی ایک ریاست ہے جس کی متعین حدود ہیں‘ اقتدار اعلیٰ ہے‘ جمہوری حکومت ہے تو انھیں بھی اس خوش فہمی کو دل سے نکال دینا چاہیے۔

یہودی دنیا بھر کے ممالک میں اگرچہ مطعون تھے‘ دو ہزار سال سے در بدر تھے‘ انھیں شدید نفرت کا سامنا تھا‘ اس کے باوجود وہ دنیا کے کاروبار‘ بینکاری اور میڈیا پر انیسویں صدی کے آخر تک چھا چکے تھے۔ اسپین میں ازابیلا اور فرڈنینڈ کی حکومت آنے پر یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے علاقوں میں امان بھی مل چکی تھی اور یورپ سے امریکا ہجرت کرنے والوں میں جہاں ہر ملک کے بدنام زمانہ لوگ شامل تھے وہیں کثیر تعداد میں یہودی تھے جنہوں نے جنگ عظیم اول سے پہلے ہی امریکی اقتدار کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔


1896ء میں جب صیہونیت کی داغ بیل ڈالتے ہوئے مشہور زمانہ پروٹوکولز لکھے گئے تو وہ تاج برطانیہ جو یہودی سودی سرمائے کا مقروض تھا اس نے انھیں ایک قوم تصور کرتے ہوئے بالفور ڈیکلریشن 1916ء میں جاری کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیوں کو پوری دنیا میں کوئی جائے پناہ میسر نہ تھی۔ تمام اتحادی ممالک اور امریکا کے دروازے ان کے لیے کھلے تھے۔ پھر وہ حیفہ اور تل ابیب جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں کیونکر آباد ہوئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تو یورپ میں بھی ان کا غلبہ ہو چکا تھا۔ ان کے خلاف گفتگو کرنا بھی قابل سزا جرم بن چکا تھا۔ پھر وہ یورپ کے ’’جنت نظیر‘‘ اور پر امن ممالک کو چھوڑ کر ایک ایسے ملک میں کیوں آباد ہو گئے جہاں انھیں چاروں جانب سے دشمنوں کا سامنا تھا۔ انھیں اپنے دفاع کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں، حفاظت کے لیے اونچی اونچی دیواریں بنانا پڑیں، پوری قوم کو لازمی فوجی تربیت دینا پڑے۔


قومی ریاست کے تصور کے علمبردار اور سیکولر نظریے کے داعی اس سوال کا جواب نہیں دیتے۔ اس لیے کہ اس کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ یہودی ایک آخری عالمی جنگ کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ایسی جنگ کے نتیجے میں ان کے مذہبی ربیئوں کے نزدیک فتح نصیب ہوگی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح کی عالمی حکمران حکومت قائم ہونی ہے جسے وہ Ruling state of the world کہتے ہیں۔


پوری دنیا کے یہودی اس جنگ کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں اور متحد ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی یہ جنگ مسلمانوں سے ہونا ہے۔ گزشتہ پندرہ سال سے یہودی مفکرین‘ مذہبی رہنما‘ یہاں تک کہ ان کے اہل تصوف بھی بار بار یہ تحریر کر رہے تھے کہ 2014ء اور 2015ء میں لگنے والے چار مکمل چاند گرہن اس وقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دنیا کا ہیڈ کوارٹر اب امریکا سے اسرائیل منتقل ہونا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں انھوں نے ایک مستقل منصوبہ بندی کے ساتھ امریکا اور اس کے حواریوں سے اپنے لیے راہ ہموار کروائی۔
 

عراق کی طاقت کا خاتمہ‘ عرب بہار کے نتیجے میں مسلم امہ میں انتشار جس کا نتیجہ یہ کہ مصر میں اخوان حکومتی تشدد کا شکار‘ حزب اللہ شام اور عراق میں اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف لڑتی ہوئی‘ ایران جو آواز اٹھاتا تھا وہ سعودی عرب سے کشمکش اور داعش کے خطرے کی وجہ سے عراق میں الجھا ہوا‘ سعودی عرب اور عرب ریاستیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کی دست نگر‘ ایسے میں یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں نے اپنی پیش گوئیوں اور منصوبہ بندی کے مطابق جنگ کا آغاز کر دیا۔ اب کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ جنگ انجام سے پہلے ختم کردی جائے گی۔
 

لیکن کیا مسلم امہ نے کبھی غور کیا کہ یہی وقت ہے جس کی بشارت سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں۔ اس لڑائی میں مسلمان یہودیوں کو قتل کردیں گے‘ یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائیں گے تو پتھر اور درخت یوں کہے گا۔ ’’اے مسلمان اللہ کے بندے ادھر آ میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے اس کو مار ڈال۔ مگر غرقد نہیں کہے گا کیوں کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔ (مسلم)۔ اسے دنیا بھر میں JEW TREE کہا جاتا ہے اور اسرائیل میں اس کی سب سے زیادہ شجرکاری کی گئی ہے۔

دنیا بھر سے یہودی اسرائیل کی سرزمین پر پکنک منانے یا کسی معاشی فائدے کے لیے جمع نہیں ہوئے بلکہ اس جنگ کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کے بعد ان کے بقول ایک ایسی حکومت قائم ہونی ہے جو عالمی سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہو۔ وہ اپنی کتاب ایزاخیل کی اس پیش گوئی پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’اے صہیون کی بیٹی خوشی سے چلاو‘ اے یروشلم کی بیٹی مسرت سے چیخو‘ دیکھو تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔ وہ عادل ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ خچر یا گدھی کے بچے پر۔ میں یو فریم سے گاڑی کو اور یروشلم سے گھوڑے کو علیحدہ کر دونگا۔ جنگ کے پر توڑ دیے جائیں گے۔ اس کی حکمرانی سمندر اور دریا سے زمین تک ہوگی۔ (زکریا9:9-10) اسی کتاب میں لکھا ہے’’اس طرح اسرائیل کی ساری قوموں کو ساری دنیا سے جمع کرونگا‘ چاہے وہ جہاں کہیں بھی جا بسے ہوں اور انھیں ان کی اپنی سرزمین میں جمع کرونگا، میں انھیں اس سرزمین میں ایک ہی قوم کی شکل دے دونگا‘ اسرائیل کی پہاڑی پر جہاں ایک ہی بادشاہ ان پر حکومت کرے گا۔ (ایزاخیل‘ 37:21-22)


انہی بشارتوں کے مکمل ہونے کے لیے وہ اس سرزمین پر جمع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا حال بھی ویسا ہے جیسا آج ہمارے مسلمانوں کا ہے۔ اپنی مرضی کی آیت اٹھا کر اسے مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ اسی کتاب ایزاخیل میں اس آخری جنگ کا وہی انجام درج ہے جو سید الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ایزاخیل کے 22 ویں باب میں لکھا ہے ’’پھر ایلی کہتا ہے کہ کیونکہ تم لوگ میرے نزدیک کھوٹے سکے ثابت ہوئے ہو۔ اس لیے تمہیں یروشلم میں جمع کرونگا جیسے سونا‘ چاندی‘ ٹن‘ لوہا اور کانسی کو آگ میں ڈالنے کے لیے جمع کرتے ہیں، اس طرح میں بھی تمہیں غصے اور غضب کے درمیان جمع کرونگا اور پھر تمہیں پگھلا دوں گا۔ میں تم پر اپنے غضب کی آگ بھڑکا دونگا اور تم پگھل جاؤ گے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے رب نے تمہارے اوپر اپنا غضب نازل کیا ہے۔ (22:19-22)
لیکن ان کی کتاب جرمیاہ (Jeramiah) میں تو اس آخری معرکے کے اختتام کا منظر ہولناک ہے۔ ’’ان کی تباہی اور سزا کے اعلان کے بعد جس کے بعد ان کی لاشیں کھلے آسمان تلے ڈال دی جائیں گی‘ جہاں گدھ اور کیڑے مکوڑے ان کو کھالیں گے حتی کہ ان کے بادشاہوں اور لیڈروں کی ہڈیاں بھی گل جائیں گی اور زمین میں کوڑے کرکٹ کی طرح پھیل جائیں گی‘‘۔ (8:3) لیکن کیا مسلم امہ اور خصوصاً عرب دنیا کو اس کا اندازہ ہے۔
اسرائیل جس جنگ کے لیے سات دہائیاں قبل قائم کیا گیا‘ جس کی تیاری پوری یہودی قوم 1896ء سے کر رہی ہے ہمیں اس کا احساس نہیں۔ ہم خصوصاً عرب اقوام ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہیں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک ایسا فتنہ ظاہر ہوگا جو سب عربوں کو لپیٹ میں لے لے گا۔ اس فتنے میں قتل ہونے والے جہنم میں جائیں گے۔ اس فتنے میں زبان کی کاٹ تلوار سے زیادہ ہوگی۔‘‘ (مسند احمد‘ ابی داؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ) کیا اس لمحے جب اسرائیل نے اپنی جنگ کا آغاز کردیا ہے‘ وہ سب لوگ جو مسالک کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو زبان کی کاٹ سے حکومتوں کی گدیوں پر بیٹھے یا منبروں پر براجمان امت کے گروہوں کو لڑنے پر اکسا رہے ہیں کیا ان کے سامنے سید الانبیاءﷺ کی جہنم کی وعید موجود نہیں۔


یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ’’عرب کی تباہی‘‘۔ ابھی تو شامت اعمال کے دن ہیں کہ اس اندرونی فتنے سے جو بچ نکلے گا وہی ہو گا جس کے ہاتھ میں اللہ کی نصرت کا پرچم ہو گا۔ یہ بڑی جنگ جس کے آخر میں دجال کا ظہور ہو گا اس سے پہلے دنیا دو خیموں میں بٹ جائے گی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے‘ ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہو گا دوسرا منافقین کا خیمہ جن میں بالکل ایمان نہیں ہو گا۔ جب ایسا ہو تو دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے یا کل‘‘۔ (ابوداؤد‘ مستدرک) ابتلا کا دور ہے‘ شامت اعمال ہے‘ صفائی کا موسم ہے‘ دنیا دو خیموں میں بٹنے کے نزدیک ہے۔ 


اوریا مقبول جان 





 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں