وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ البقرہ ۱۷۹
ترجمہ: اور اے اہل عقل! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے کہ تم (قتل وخونریزی سے) بچو ۔
یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔
دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔
آج بعض ملکوں میں قتل کی سز ا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ اور بہیمانہ ہے۔ متقول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دارپر لٹکا دنیا بےرحمی نہیں تو کیا ہے۔
آپ خوفناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین بنا سکتے ہیں۔ لیکن نہ آپ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم قاتل کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پرنم ہو جائیں وہاں مظلوم و بےکس کا خدا ہی حافظ، وہ اپنے آغوش میں ایسے مجرموں کو نازو نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل وانصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بےجا بلکہ نازیبا ناز برادری کی توقع عبث ہے۔
ہمارے ہاں بھی کچھ لنڈے کے انگریز جو خود کو لبرل کہلواتے ہیں اس سزا کے خلاف ہیں۔ نام نہاد "انسانی حقوق " کی تنظیموں اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کئی سال سے رکا ہوا تھا ۔ اور اس وقت پاکستانی جیلوں میں دہشتگری کے الزام میں سزا یافتہ 500 افراد سمیت قریباآٹھ ہزار افراد ایسے ہیں جنھیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
حالیہ واقعہ کے بعد جب حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تو سب ایک بار پھر اپنی اپنی ڈفلی لے کر پہنچ چکے ہیں۔ الطاف حسیں کہتے ہیں کہ سزا صرف دہشتگردوں کو دی جائے اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشتگرد تو ہرگز نہیں، بوری بند لاشیں پیک کرنے والے بھی دہشت گرد نہیں ۔ الطاف بھائی پر خود بھی کئی قاتل اور اقدام قتل کے مقدمات ہیں، وہ بھی دہشتگرد نہیں اس لیے اسے سزا نہ دی جائے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دوسری نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لنڈے کے انگریز بھی میدان میں آ چکے ہیں اس سزا کے خلاف۔
عجیب منطق ہے ان "انسانی حقوق" کی تنظیموں کی بھی، ایک مجرم کو سزا دینے سے تو ان کے مطابق انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں جبکہ بغیر کسی کا جرم ثابت کیے اس پر ڈرون اور میزائل مار کر اسے، اسکے گھر والوں کو ،اس کے بچوں کو، اسکے محلے اور پڑوس والوں سب کو مار دینے سے "انسانی حقوق "بالکل محفوظ رہتے ہیں۔کبھی آپ نے کسی "انسانی حقوق" کی لبرل تنظیم کو ڈرون حملوں کے خلاف بولتے نہیں دیکھا ہو گا۔
یہ تنظیمیں کسی طاقتور ملک کو بغیر کسی کا جرم ثابت کیے کسی ایک شخص کی "تلاش" میں کسی غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے، اس پر قالینی بمباری کرنے اور لاکھوں افراد کو قتل کرنے ، بچوں عورتوں اور بزرگوں کو وحشیانہ بمباری کر کے ان کے چیتھڑے اڑانے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن کسی قاتل کو عدالتی کاروائی کے بعد جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔
قرآن کہہ رہا ہے کہ "تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ۔"
اے اہل عقل اگر امن چاہتے ہو تو بلا تفریق تمام مجرموں کو سزا دو۔ چاہے وہ دہشتگردی کے جرم میں ہو، ٹارگٹ کلنگ میں یا ذاتی دشمنی کی بنا پر ۔ چاہے وہ ایم کیو ایم کے ہوں چاہے اے این پی کے یا چاہے فوجی۔چاہے الطاف بھائی ہو یا مشرف ۔ تمام مجرموں کو جب تک بلا تفریق سزا نہیں دی جاتی، امن محال ہے کیونکہ قصاص میں زندگی ہے۔
قصاص میں زندگی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں