ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 جولائی، 2018

اصلی مساوات


سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور اس کے ارد گرد قحط سالی ہو گئی۔ ہوا چلتی تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی ۔ چنانچہ اس سال کو ”عام الرمادة “ یعنی خاک اڑنے کا سال کہا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ گھی، دودھ اور گوشت اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک لوگ پہلے جیسی زندگی پر نہ لوٹ آئیں۔ایک دفعہ بازار میں گھی کا ایک ڈبہ اور دودھ کا کٹورا بکنے کے لیے آیا۔کسی خادم نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ چیزیں چالیس درہم میں خرید لیں اور عرض کیا: امیر المومنین! الله نے آپ کی قسم پوری فرما دی ہے ۔ الله تعالیٰ آپ کو زیادہ اجر سے نوازے! ہم نے آپ کے لیے یہ اشیائے خوردنی خریدی ہیں قبول فرمائیے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! تم نے میرے لیے اتنے مہنگے داموں یہ چیزیں کیوں خریدیں؟ جاؤ! انہیں صدقہ کر دو۔ میں کھانے میں اسراف ہرگز پسند نہیں کرتا، پھر فرمایا: مجھے عوام کے دکھ کا اس وقت تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک خود میں بھی انہی حالات سے نہ گزروں جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔

پھر ایک موقع ایسا آیا کہ مہنگائی ہو گئی۔خاص طور پر گھی مہنگا ہو گیا۔لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، عام لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بھی گرانی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے گھی کھاناموقوف کر دیا۔ عام خوردنی تیل پر گزارا کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں ان کا پیٹ خراب ہو گیا۔ ایک دفعہ پیٹ سے گڑ گڑ کی آواز آئی تو پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: 
"تم گڑگڑ کرو یا خاموش رہو، تم گھی مانگتے ہوگے۔ الله کی قسم! جب تک سب میری رعایا کے لوگ گھی نہ کھا سکیں گے تجھے بھی میسر نہیں ہو گا۔" 
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ آپ کی بات سن کر وہاں سے نکل آئے۔ آپ روتے جاتے اور کہتے جاتے: 
”اے عمر ! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے، تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے(یعنی آپ جیسی متوازن اور مثالی شخصیت کہاں سے لائیں گے۔) “
(مناقب امير المؤمنين لابن الجوزي: ص 101)
(الطبقات الکبریٰ: 218/3)


بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے

ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکرنے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو ۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں ۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔ میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کرکے کپڑے ٹھیک کرکے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑلیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ 
میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہوگیا اور مرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو ۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے ۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا ۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آگئی آیت 

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ
 النمل27:62
 ترجمہ: بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو

 یعنی اللہ ہی ہے جو بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آرہاہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آر پار ہوگیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہنے لگا اللہ کے لئے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کو ٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔

 تفسیر ابن کثیر: سورة النمل، آیت 62

اپنی جیب کی حفاظت کیجیے


آپ نے اکثر عوامی ہوٹلوں میں یہ فقرہ لکھا ہوا دیکھا ہوگا کہ ’’اپنی جیب کی حفاظت کیجیے‘‘۔زیادہ محتاط لوگ یہ فقرہ دیکھتے ہی اس نصیحت پر شکر گزار ہوکر ہوٹل سے پلٹ آتے ہیں۔جو نہیں پلٹتے اور کچھ کھاپی بیٹھتے ہیں تو انھیں بل ادا کرتے وقت اس فقرے کی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر۔۔۔ اب پچھتائے کا ہوت جب خود ہی چُگ گئے جیب۔جن ہوٹلوں کے پروپرائٹر صاحبان محتاط گاہکوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں، وہ اسی فقرے کو یوں لکھتے ہیں کہ ’جیب کتروں سے ہوشیار رہیں‘۔سو گاہک بڑی ہوشیاری سے چوکنا بیٹھا اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا کھاتا پیتا رہتا ہے۔مگر جیب اُس کی بھی کاؤنٹر پر کتر لی جاتی ہے اور وہ دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ جاتاہے۔ سارا چوکنا پن وہاں پہنچ کر ہوا ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جیب خالی اور چوکنا پن ختم کرکے کسی لدھڑ کی طرح بھاری بھاری قدم گھسیٹتا ہوا باہر نکلتاہے۔

جیب شاید ایجاد ہی اس لیے کی گئی ہے کہ وہ کتری جائے۔ صبح ہزار روپئے جیب میں ڈال کر نکلیے۔ شام کو واپس آئیں گے تو شاید اُس ہزار روپئے کی کچھ کترنیں ہی جیب میں بچی ہوں گی۔ دن بھر میں اچھی خاصی جیب کتری جاچکی ہوگی۔
 یہ روپیہ پیسہ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ جب تک آپ کے پاس رہے گا، آپ ایک ایک چیز کو ترستے رہیں گے۔جب آپ کے پاس سے دفع ہو گا تو آپ کو کچھ ملے گا۔ پھر بھی لوگ جیب کی حفاظت جان سے زیادہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک محافظِ جیب کو راستے میں لٹیروں نے آلیا۔بندوق دکھاکر بولے کہ: ’’بولو! جان دوگے یا پیسا؟‘‘
 انھوں نے گھگھیا کرکہا: 
’’بھائی میرے! جان لے لو۔پیسا تو آڑے وقتوں کے لیے بچا کر رکھا ہے‘‘۔ 
لٹیروں نے دیکھا کہ اُن کا داؤ خالی جا رہا ہے، کیوں کہ بندوق کی جیب بھی خالی ہے۔۔۔’گولی وولی کوئی نہیں اس میں‘۔۔۔تو ایک لٹیرے نے آگے بڑھ کر سمجھایا:
 ’’میاں! جان پر نہ کھیلو۔ جیب میں جتنے پیسے ہیں، نکال دو۔ بھلا اِس سے زیادہ آڑا وقت اور کب آئے گا؟‘‘ 

جان پر کھیلنے کا ایک سچا واقعہ بھی سن لیجیے۔ نیویارک کے اُس علاقے میں جو نیگرو لٹیروں کا گڑھ تھا، ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک مردِ کہستانی جانکلے۔ اُن گلیوں میں جانے والوں کو تجربہ کار لوگ یہ نصیحت کرکے بھیجا کرتے تھے کہ: 
’’ جیب میں ایک آدھ ڈالر ضرور ڈال لینا۔ اگر جیب سے کچھ نہ نکلے تو طیش میں آکر یہ کالے مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں‘‘۔

پر ہمارے خان صاحب سے جب اُن کالوں نے جیب خالی کرنے کا مطالبہ کیا تو یہ خود طیش میں آکر مار پیٹ پر اُتر آئے۔ بلکہ کراچی والوں کی اصطلاح میں ۔۔۔ ’دے مار ساڑھے چار‘ ۔۔۔ مچا دی۔ پورے گینگ کو’ ہٹ ہٹ کے مارنا‘ شروع کردیا۔بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ مگر کب تک کرتے؟ یہ اکیلے تھے وہ چار پانچ۔ بالآخر پٹ پٹا کر ہانپتے ہوئے کالوں نے کسی طرح ان پر قابوپا کرزمین پر لٹالیا۔جیب کی تلاشی لی تو فقط پچاس سینٹ برامد ہوئے۔مگر جتنی پٹائی ہوچکی تھی اُس کی ’معاشی قدر‘ یقیناًپچاس سینٹ سے ہزار گُنا زیادہ ہوگی۔ 
خیر، خان صاحب کی بہادری کی قدر کرتے ہوئے اُنھیں مع اُن کے پچاس سینٹ کے چھوڑ دیاگیا۔ مگر لٹیروں نے اپنے گینگ کے ممبروں کے نام ایک ’منہ زبانی‘ سرکلر جاری کردیا کہ: ’’آئندہ ان شلوار قمیض پہننے والے پاکستانیوں سے بالکل پنگا نہ لیا جائے۔یہ لوگ پچاس سینٹ کی خاطر بھی جان پر کھیل جاتے ہیں‘‘۔ لیکن اُنھیں کیا معلوم کہ یہ پچاس سینٹ کی بات نہ تھی۔ بات یہ تھی کہ ۔۔۔ ’غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں‘ ۔۔۔تاہم خان صاحب کی بدولت خاصے عرصے تک پاکستانیوں کو یہ ’استثنیٰ‘ حاصل رہا۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی بھائی ایک دوسرے کو یوں نصیحت کیا کرتے تھے:
 ’ ’اُس علاقے میں جاؤ تو شلوار قمیض پہن کر جاؤ‘‘۔ 
جیب کے معاملے میں ہر انسان بڑا حساس ہوتاہے۔اگر کوئی آپ کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو جیب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود آپ گھبرا کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیں گے۔ہاسٹل کے زمانے کی بات ہے۔ایک تبلیغی دوست تمام ساتھیوں کو فجر کی نماز کے لیے جگانے آتے تھے۔ اُن کے آتے ہی، جو ساتھی جاگ رہے ہوتے تھے وہ بھی سوتے بن جاتے تھے۔ مگر یہ سب کی جیبوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر گہری نیند سونے والوں کو بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ حالاں کہ سوتے وقت بھلا جیب میں ہوتاہی کیا ہے؟ 
یوں تو آپ کی جیب آپ کے جانتے بوجھتے بھی کتر لی جاتی ہے، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل آپ کی جیب میں ڈال کر۔ مگر جیب کتروں کی معروف قسم وہ ہوتی ہے جو بھیڑ بھاڑ میں آپ کی جیب اتنی مہارت سے کتر کر چل دیتے ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا۔ایسے ہی ایک جیب کترے کی ’جیب کتری‘ کا نہایت دلچسپ قصہ ریاض (سعودی عرب) سے ابوالخطاب محمد طاہر صدیقی نے بھیجا ہے، گیان پرکاش ویویک کے ایک مختصر افسانے کی صورت میں۔گیان پرکاش کا یہ افسانہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔ لکھتے ہیں:

 بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپئے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: 
’’میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا‘‘۔
 تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔نو روپئے جاچکے تھے۔یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہواُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔ 
کچھ دن گزرے ۔۔۔ ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا!ماں نے لکھا تھا: 
’’بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا۔تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا‘‘۔ 
میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔بڑی مشکل سے پڑھ سکا:
 ’’بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟ ۔۔۔ تمھارا جیب کترا‘‘۔ 

ابو نثر  

5 جولائی، 2016

مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں - سعد الله شاہ

مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں

جب میں عمرہ کرنے گیا تو آصف شیخ مجھے ساتھ لے کر ایک ڈاکٹر علوی صاحب کو مبارکباد دینے گیا کہ انہیں بادشاہ نے شہریت دی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی کیا کمال کے تھے۔ پوچھنے لگے”شاہ صاحب، کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ میں نے کہا” جدہ کا قصد کیا ہے“ کہنے لگے آپ میرے ساتھ چلیں گے۔جب یہ پتہ چلا کہ وہ مجھے پڑھتے ہیں اور بھی خوشی ہوئی۔سفرکا آغاز ہوا تو انہوں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک عجیب و غریب سوال کردیا ”مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں؟“ اپنا علم تو وہیں دھرا رہ گیا۔ وہ پھر گویا ہوئے” شاہ صاحب میں نے دنیا کے کئی پہاڑ دیکھے مگر وہ مکہ کے پہاڑوں کی طرح بنجر اور بے آب و گیاہ نہیں ہیں؟ اس کے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے“؟ میںنے تو سر نڈر کر دیا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے ”قبلہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہیں بنایاجائے گا۔ بات دل کو لگی۔

 یہ پرانا واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا؟اس کے پیچھے ہمارے دوست انگریزی ادب کے استاد اسد اعوان ہیں جنہوں نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی اور ساتھ تاکید کی کہ یہ جو رمضان شریف میں چینلز پر طوفان بدتمیزی چل رہا ہے اس کے خلاف لکھیں۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی تو چونک اٹھا۔ اس میں ایک عالم دین بڑی صراحت ‘و ضاحت کے ساتھ موجودہ سحر و افطار پر لگنے والے میلوں کی حقیقت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ بات سمجھ میں آئی، دل کو لگی۔ سچ کہا انہوں نے کہ یہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مختلف میڈیا مالکوں کو کروڑوں روپے دیئے جارہے ہیں کہ رمضان کا تقدس پامال کرو، سحر و افطار کے اوقات کو تفریح بنا دو۔ انہوں نے مکہ کے اس عکاس میلہ کا حوالہ دیا کہ قبل اسلام جب لوگ مکہ میں خانہ کعبہ عبادت کے لئے آتے تو وہاں عکاس کا میلہ لگا ہوتا تھا۔ گویا زمانہ جہالت میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس کا چھوٹا موٹا عکس درباروں پر لگنے والے عرسوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں سرکسی موت کا کنواں اور کئی اور خرافات ہوتی ہیں۔ مجھے معاً خیال آیا کہ واقعی رمضان کوئی فیسٹیول نہیں ہے۔

 خدا کے لئے آﺅ بیٹھ کے سوچیں واقعی سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ وہ اوقات جو اللہ کی رحمتیں لوٹنے کے ہیں سب ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ گھڑیاں جو دعائیں مانگنے کی ہوتی ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سراسر لہو و لعب ، کھیل تماشہ اور رنگ بازی، نام اس کا رمضان سپیشل ہوتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے ۔ میں نے کراچی کے اس ڈرامہ مولوی کو دیکھا ۔ یقین کیجیئے یہ کلپ کسی نے بھیجا۔ وہ حضرت زبان نکال کر کے اداکاری کر رہے ہیں۔ دو سنگرز کچھ گا رہی ہیں۔ حاضرین تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ کہیں انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور کہیں موبائل بانٹے جارہے ہیں۔ بجا کہا ان عالم دین نے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیکٹ کرنے والوں نے پروگرام کے لئے ماڈل کو ضروری قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ دین فروش مولوی بھی ہائر کر لئے جاتے ہیں تاکہ اس پروگرام کو اسلامی کہا جا سکے۔ وہ عالم دین کہنے لگے میں تو دو تین سال پہلے تو بہ تائب ہو گیا اور کسی چینل پر نہیں جاتا۔

 معزز قارئین! میں بھی ان پروگرامز کو نہ صرف جائز سمجھتا تھا بلکہ میں نے ان کے حق میں لکھا بھی کہ کیا حرج ہے کہ اداکار اور اداکارائیں اسی بہانے اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کر لیتی ہیں۔ اور یقیناً اچھی باتیں ان پر اثر انداز بھی ہوتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے میرے دل میں کہیں یہ خواہش بھی چھپی ہو کہ روشن خیالوں اور دنیا داروں سے میں خوب داد پاﺅں گا۔ جہالت کے پا س حق سے زیادہ دلیلیں ہوتی ہیں۔ مگر اخلاص اور سچائی نہیں ہوتی۔ اسد اعوان کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھ کر میں چونک اٹھا اور حقیقت ذہین نشین ہوئی کہ نہیں بھئی یہ تو ہمیں شوگر کوٹڈ زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ واقعی ایسا ہے کہ ہماری عبادات کے تقدس کو برباد کرنے کا پروگرام ہے کہ ہماری مذہبی روایات و اقدار کی روح مار دی جائے۔ یہ شیطان ہی ہے جو اپنے حیلوں اور بہانوں سے ہماری خواہشات پر ڈھلے ہوئے کاموں کو دین بنا دیتا ہے۔ وہ گناہ کے کاموں کونہایت دلفریب اور خوب صورت بنا دیتا ہے مثلاً اچھے اچھے شاعر اپنے تئیں کئی گانوں کو مشرف بہ نعت کرتے رہے کہ گانوں کی دھنوں پر نعتیں کہتے رہے۔ اللہ معاف کرے ،۔ نعت سن کر دھیان فلم کے سین پر چلا جاتا ہے گانے والے کی طرف۔

 کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ٹی وی کی لغویات سنتے ہوئے روزہ اچھی طرح گزر جاتا ہے حالانکہ روزہ انہی شیطانی کاموں سے بچنے کا نام ہے وگرنہ اللہ کو ہمارے بھوکا رکھنے سے کیا مطلب، روزہ اللہ کے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ کے پاس ہے بلکہ وہ خود اس کا اجر دے گا۔ روزہ سحری سے افطار تک عبادت ہی تو ہے بلکہ اس کا اہتمام بھی عبادت ہے۔ یہ مہینہ اللہ کے لئے سر نڈر کرنے اور خود سپردگی کا نام ہے۔ چاہیے تو یہ کہ سحری سے پہلے تلاوت کی جائے ، افطار کے بعد تراویح کی فکر کی جائے ، یہ مہینہ کھیل تماشہ دیکھنے کا تو نہیں۔ روزہ محسوس کرنے کا نام ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا نام۔ مجھے تو اب جاکے احساس ہوا کہ اللہ نے مکہ کے پہاڑ اس قدر بنجر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔

 اللہ توجہ چاہتا ہے وگرنہ وہ بہت بے نیاز ہے اتنا بے نیاز ہے کہ بندہ سراسر زنگ ہو جاتا ہے، دل سیاہ ہو جاتا ہے اور عقل کے در بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی توجہ ہی تو روشنی ہے۔ سب کچھ انسان پر عیاں کر دیتی ہے۔ شرط وہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، طلب پیدا کی جائے اور دامن وا کیا جائے۔ جس طرح کے میلے ٹھیلے ٹی وی پر ہو رہے ہیں اللہ تو انسان کو ویسے ہی بھول جاتا ہے۔ وہاں تو اپنی خواہشات کو جو س پلایا جارہا ہوتا ہے۔ اب بھی وقت ہے میڈیا مالکان سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ کس کاسٹ پر کام کررہے ہیں۔ ان علمائے دین کو تو ضرور سوچنا چاہیے جو چند ٹکوں، شہرت یا پھر دل پشوری کے لئے ان پروگراموں میں جا بیٹھتے ہیں جہاں حضور کریم کے دین کو مسخ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ جہاں پرلے درجے کے جاہل اور فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے دینی مسائل بتا رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات مفتی کے منصب پر آن بیٹھتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم پیمرا کا بھی کوئی اس میں عمل دخل ہے کہ نہیں ۔ چلیے اگر اخلاقیات کا ہی وہ کچھ خیال کریں تو کوئی لائحہ عمل وہ بنا سکتے ہیں ۔ سب رنگینیوں میں گم ہیں اس لئے روزہ داروں ہی کو کچھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عظیم عمل کی حفاظت کریں۔ رسول پاک نے جبرائیل ؑ کی ایک دعا پر کہ جس کو رمضان شریف ملے وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، اس پر لعنت ہو، آمین کہی تھی۔ برکتوں والے اس مہینے کو قیمتی بنائیں اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں۔ سچ کہا ان عالم دین نے سحر اور افطار کے وقت جو غل غپاڑا ہوتا ہے ایسے میں اللہ کی برکتیں اور رحمتیں کہاں اتریں گی۔ ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا ان دو ایک اینکرز کو سلام جنہوں نے اپنے پروگرام میں ایسی فضولیات کو شامل کرنے سے انکار کردیا ۔لئیق احمد بھی انہی میں سے ایک ہیں۔

16 ستمبر، 2015

اردو کے مخالفین کا المیہ----از--اوریا مقبول جان

 سپریم کورٹ کے اردو کے نفاذ کے فیصلے کے بعد اس مملکتِ خداداد پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پر صرف اور صرف انگریزی زبان کی وجہ سے حکمرانی کرنے والے چند ہزار افراد کی منطقیں اور لن ترانیاں دیکھنے والی ہیں۔ ان میں سب سے سرخیل وہ گروہ ہے جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے اور جس گروہ کے درمیان میں نے تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزارا ہے۔
 دوسرا گروہ ان چند ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جنھیں اردو سے اس لیے بغض ہے کہ یہ واحد کڑی ہے جو پاکستان کے عوام کو گوادر سے لے کر گلگت تک ایک لڑی میں پروتی ہے۔ میری زندگی کے گزشتہ چالیس سال ان کے درمیان بھی گزرے ہیں۔
تیسرا گروہ ہے جسے ہمارے شہروں میں کاروباری تعلیمی اداروں نے جنم دیا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے انگلش میڈیم کا ایک خمار اس ملک کے کاروباری طبقہ کے دماغ میں پیدا ہوا اور انھوں نے گلی گلی اسکول کھول کر سرمایہ کمانے کی مشینیں لگا دیں۔ ان سے ایک ایسی نسل نے جنم لیا جسے نہ تو ڈھنگ کی انگریزی آئی اور نہ ہی وہ اردو سے شناسا ہو سکے۔ سارا دن گھروں، بازاروں، محلوں اور علاقوں میں اردو بولتے اور چند گھنٹے سب مضامین انگریزی میں پڑھتے۔ میں نے پڑھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ پاکستان میں تمام ایسے ادارے جن کا انگریزی ذریعہ تعلیم بتایا جاتا ہے، وہاں بات سمجھانے، کسی مضمون کی اصل کو تفصیل سے بتانے کے لیے اردو بلکہ بعض دفعہ علاقائی زبان استعمال کی جاتی ہے۔
 یہ تمام طلبہ اساتذہ سے مضمون اردو میں پڑھتے ہیں لیکن امتحان انگریزی میں دینے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ فریب خوردہ شاہین ہیں جنھیں زبردستی اس راستے پر ڈالا گیا اور آج وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر کہیں اردو اس ملک میں رائج ہو گئی تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔

 لارڈ کارنیوالس کی 1773ء میں جنم لینے والی بیوروکریسی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے “اسلاف” نے اس زبان کو اس لیے اختیار کیا تھا کہ یہ ان کے حاکموں کی زبان تھی اور اس کے ذریعے وہ حکمرانوں کے منظورِ نظر بھی بنتے تھے اور ساتھ ساتھ عوام سے الگ تھلگ بھی نظر آتے تھے۔ ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان پر کون مسلط ہے۔ جو مسلط ہے وہی ان کا آقا ہے، اسی کی زبان یہ بولتے ہیں، اسی کا ملبوس زیب تن کرتے ہیں اور اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ انگریز سے پہلے فارسی دربار کی زبان تھی تو یہ طبقہ فارسی بولتا، اسی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنانا اپنا فخر سمجھتا تھا۔ کون تھا جس نے اپنی زبان میں فرامین جاری کیے ہوں۔ ان شاہ پرست اور غلام صفت لوگوں کو راہِ راست پر لانا کوئی مسئلہ نہیں۔ ضیاء الحق کے لیے نماز کی پابندی کرنے، اور مشرف کے لیے عیش و عشرت کی محفلیں سجانے والے یہ بیوروکریٹ صرف ایک حکم نامے کے محتاج ہیں۔ آپ نے حکم جاری کیا تو ان میزوں پر آج کل جو انگریزی ڈکشنریاں اور تھیزیرس رکھے ہوتے ہیں، حکم نامے کے ساتھ ہی ان کی جگہ اردو لغت آ جائےگی۔

 اپنے کمال تجربے کے باوجود یہ انگریزی بھی بدترین حد تک بری لکھتے ہیں جس کا ہر انگریزی جاننے والا مذاق اڑاتا ہے اور اردو بھی کوئی اتنی اچھی نہیں لکھیں گے لیکن کم از کم اردو میں لکھنے سے ان کے حکم نامے اس زبان میں ضرور آ جائیں گے جسے عام آدمی پڑھ کر سمجھ سکے۔ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ انھوں نے ایک منافقانہ طرز کا دفتری نظام چلایا ہے۔ وزیر ِاعظم سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک تمام گفتگو، میٹنگ، بریفنگ وغیرہ اردو میں ہوتی ہے۔ سائل سے اردو یا اس کی علاقائی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن منافقت دیکھیں کہ میٹنگ کے “منٹس” یعنی کارروائی انگریزی ہی میں لکھتے ہیں۔ اور سائل کو فیصلہ انگریزی میں تھماتے ہیں۔

 اسی بیوروکریسی کے ہم پلہ ہمارا عدالتی نظام ہے۔ تمام کارروائی سپریم کورٹ سے لے کر سول جج تک اردو یا علاقائی زبان میں ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن مسل پر بیان تک انگریزی میں ترجمہ کر کے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں، PLD انگریزی میں مرتب ہوتا ہے۔ وکیل بحث اردو ہی میں کرتا ہے اور حوالہ انگریزی میں پیش کرتا ہے کیونکہ منافقانہ طرزِعمل یہ ہے کہ ہم اس زبان میں فیصلے تحریر نہیں کرتے جو عدالت میں بولی جا رہی ہوتی ہے۔

 شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی لن ترانیاں عجیب ہیں۔ یہ اردو کہاں سے آ گئی، یہ تو صرف چند لوگوں یعنی 9 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ علاقائی زبانوں اور مادری زبانوں میں تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن آپ ان لوگوں کا اپنا طرزِ عمل دیکھیں۔ پیدا ملتان میں ہوتے ہیں، مادری زبان سرائیکی، کالم اردو میں لکھتے ہیں، بلکہ پروگرام بھی اردو میں کرتے ہیں۔ پیدا پشاور میں ہوئے ہیں مادری زبان پشتو، لیکن اردو کے لازوال شاعر، پیدا تربت میں ہوئے، مادری زبان بلوچی، اردو کے قابلِ فخر شاعر۔ پنجاب کے تو ہر قصبے اور قریے میں یہ ہی معمول ہے کہ کوئی مادری زبان میں لکھنا پسند ہی نہیں کرتا۔ فیض احمد فیضؔ سے مجید امجد اور سعادت حسن منٹو سے راجندر سنگھ بیدی تک، سندھ سے تلوک چند محروم، بلوچستان سے گوپی چند نارنگ، عطا شاد، سرحد سے احمد فراز۔ ان سے کہو پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی میں کیوں نہیں لکھتے، تو بڑے وثوق سے کہیں گے کہ علاقائی زبان کے سننے اور پڑھنے والے کم ہیں۔ بڑے بڑے شعرا اور ادیبوں کی اکثریت سے میں ملا ہوں، جن میں فیض احمد فیض سے احمد فراز تک اور منیر نیازی سے عطا شاد تک شامل ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو طبیعت اردو میں ہی رواں ہوتی ہے۔

 دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ انگریزی کی وکالت میں قلم توڑ دیتے ہیں لیکن اس انگریزی کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ دو انگریزی چینل چلانے کی جسارت کی گئی مگر عدم مقبولیت کی وجہ سے بند کرنا پڑے۔ ان سارے علاقائی زبانوں کے حامیوں اور اس کا نعرہ بلند کرنے والوں سے کہو کہ تم نے آج تک اپنی زبان میں کیا لکھا، کتنے پروگرام کیے، کتنی کتابیں لکھیں تو ان کا منہ لٹک جاتا ہے۔ لیکن ہر کسی نے اردو میں کتاب، کالم، مضمون لکھا بھی ہوتا ہے اور بار بار تقریر بھی کی ہوتی ہے اور ٹاک شو میں علم کے جوہر بھی دکھائے ہوتے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی ایسی زبان کو پاکستان میں رائج ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے جس سے اس ملک میں یک جہتی کی فضا نظر آئے، جو پاکستان کو بحثیت قوم زندہ کر سکے۔ رہا نظامِ تعلیم کا مسئلہ تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ دنیا میں ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ جیسے ملک جن کی آبادیاں چند لاکھ لوگوں پر مشتمل ہیں وہ بھی انگریزی نہیں بلکہ قومی زبان میں تعلیم دلواتے ہیں بلکہ پی ایچ ڈی تک اسی زبان میں کرواتے ہیں۔ چین، جرمنی، جاپان کی تو مثال ہی اور ہے کہ ان کی آبادی بہت بڑی ہے۔

 یہ انگریزی میڈیم ہمارے ہاں چند دہائیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اس مقصد کے لیے نافذ کیا گیا کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو بچپن ہی سے ایسے خواب دیکھے جیسے یورپ کا بچہ دیکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہیر، سسی اور سوہنی کی جگہ سنڈریلا آباد ہو، تا کہ وہ اگر ایک دن یہاں سے پڑھ لکھ جائے تو خدمت کرنے کے لیے یورپ کا انتخاب کرے اور وہ مغرب کے کسی بھی ملک میں جائے تو وہ اسے اجنبی محسوس نہ ہو۔ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔

 سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کے ساتھ ایک تازہ فیصلہ الہٰ آباد ہائی کورٹ بھارت کا بھی پڑھ لینا چاہیے۔ الہٰ باد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام سرکاری ملازم اور سیاسی رہنما اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں۔ جس دن وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ، چیف سیکریٹری، آئی جی، کور کمانڈر اور سیکریٹری تعلیم کے بچے، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں، سرکاری اسکولوں میں داخل ہو گئے ان اسکولوں کا معیار پاکستان کے کسی بھی انگلش میڈیم سے بلند ہو جائے گا۔ رہا بیوروکریسی کا معاملہ تو آج سول سروس کا امتحان اردو میں لینے کا فیصلہ ہو جائے، دس دن کے اندر اس کی تمام کتابیں اردو زبان میں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ ہر بڑے خاندان کا بچہ کسی ایسے اسکول میں داخل ہونے کے لیے تڑپے گا جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہو کیونکہ اس نے اردو میں امتحان دے کر آفیسر بننا ہو گا۔ رہا شاعروں، دانشوروں، ادیبوں اور تجزیہ نگاروں کا مسئلہ تو وہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو کے حق میں اردو میں گفتگو کرتے رہیں گے، اردو میں کالم بھی لکھیں گے، شاعری، افسانہ نگاری بھی کریں گے، ٹی وی میں اینکری بھی اردو میں کریں گے اور اپنی مادری زبان کے لیے آنسو بھی بہاتے رہیں گے۔


13 ستمبر، 2015

حلال



آج گوشت لینے دوکان پر گیا تو دوکاندار کو سر تھامے پریشان بیٹھا پایا ۔ خلاف معمول دوپہر گئے بھی کُنڈے پر (نیک گمان کے مطابق) گائے کی ران سالم لٹک رہی تھی ۔ دوکاندار سے پُرانی جان پہچان ہے ۔ خیریت ہے ٹوکے !! کچھ پریشان سا لگ رہا ہے ؟؟
 ٹوکا میں اُسے پیار سے بولتا ہوں ریٹ کا مہنگا اور بہت پکا ہے ۔ ارے مولانا خاک خیریت ہے !! اُس نے بھی مجھے میرے لیے مخصوص عرفیت سے پُکارا ۔ اس وقت تک پندرہ ہزار کا کام ہو جاتا تھا اور ابھی چار ہزار بھی پورے نہیں ہوئے !! جسے دیکھو مشکوک نظروں سے دوکان کو گھورے جا رہا ہے !!
 ہممم واقعی میڈیا نے بدنام کر دیا ہے تمھاری فیلڈ کو !!
 اچھا دام کیا ہے ؟؟؟
چارسو پچاس ہے ۔
 میں نے ہزار کا نوٹ اُسے تھماتے ہوئے ڈیڑھ کلو کا آرڈر دے دیا ۔
ویسے یار آپس کی بات ہے ناراض نہیں ہونا ۔ میں نے جھجکتے ہوئے کہا بس اتنی گارنٹی دے دے کہ ہے تو "" حلال "" نا !!
 چھری ران سے ہٹاتے ہوئے انتہائی سرد لہجے کچھ یُوں گویا ہوا۔ "" مولانا صاحب جس دن آپ نے اپنے نوٹوں کی گارنٹی دے دی کہ یہ حلال کے ہیں تواُس دِن مجھ سے بھی گارنٹی لے لینا گوشت کی !!!
 اچھا بھائی جلدی تول دے مہربانی ہو گی سبزی بھی لینی ہے !!!!!
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: عابی مکھنوی

19 جولائی، 2015

پوری امت کے مطلع کا ایک ہی چاند ہے


کیا کبھی کسی نے یہ تصور کیا ہے کہ جو امت صرف چندسکینڈ کے وقفے سے بلکہ بعض اوقات تو براہِ راست عرفات میںدیے جانے والا خطبہ سنے، لندن، سڈنی یا دبئی میں ہونے والا میچ دیکھ لے ، کسی بھی ملک کے کسی شہر میں ہونے والے پولیس مقابلے کو دیکھے اور اس پر یقین بھی کرے، گیارہ ستمبرکو گھنٹوں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کا منظر ایسے دیکھے جیسے وہ ان کے سامنے برپا ہے، لیکن اگرآپ اس امت کے اربابِ اختیارسے لے کر علمائے کرام سے پوچھیں کہ یہ پوری امت دنیا بھر میں ایک ساتھ چاند کیوں نہیں دیکھ سکتی تو آپ کو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں گی۔
سب سے پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ زمینی حقائق میں قومی ریاست سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس قومی ریاست کی حکومت ہی مسلمانوں کا ایک نظمِ اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی کے تحت ہر ملک کی ایک رویتِ ہلال کمیٹی ہے۔ یعنی 1920 کے آس پاس عالمی طاقتوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جس کمال مہارت کے ساتھ سرحدوں میں تقسیم کیا ہے وہ زمینی حقیقت آسمانی حقیقتوں، الہامی کلام اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات سے بڑی حقیقت ہیں۔ طورخم، تفتان اور خنجراب کی لکیروں کے ایک جانب کھڑے پاکستانی اور دوسری جانب کھڑے افغان، ایرانی اور چینی، جن کے سروں پر ایک ہی وسیع آسمان ہے۔
جس پر چاند اپنا سفر مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس آسمانی حقیقت کے باوجود، لکیر کے اسطرف موجود لوگ روزے سے ہوتے ہیں اور دوسری طرف والے عید منا رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں ہرات، ایران میں اردبیل اور چین میں شنگھائی میں کسی نے چاند دیکھ لیا ہو، اور وہ ممالک اپنی حدود تک عید منا رہے ہوں اور ان کی عید یا چاند کی رویت پاکستان کی سرحد پر طورخم، تفتان اور خنجراب پر آکر ختم ہو جائے، اس لیے کہ آسمان پر چمکنے والے چاند پر بھی قومی ریاستوں کے عالمی قانون کا اطلاق لازم ہے اس لیے کہ چاندکے پاس اس ملک کا ویزہ نہیں ہے اور یہ ویزہ ہر ملک کی رویتِ ہلال کمیٹی لگاتی ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر مسلمان ملک میں رویتِ ہلال کمیٹیاں موجود ہیں اور وہ علمائے کرام پر مشتمل ہیں جو اپنے خطبوں میں یقینا سید الانبیاء ﷺ کی یہ حدیث ضرور سناتے ہوں گے کہ یہ امت ایک جسدِ واحد کی طرح ہے۔ اس بات کا بھی اعلان زور و شور سے کرتے ہوں گے کہ سرورِ دو عالم ﷺ کو ساری انسانیت کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ علمائے امت جب اپنے مسالک کی عالمی کانفرس منعقد کرتے ہیں تو پوری دنیا سے اپنے مسلک کے علماء کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر لیتے ہیں۔ شیعہ، سنی، دیو بندی، بریلوی، اہلِ حدیث، آپ سب کے عالمی اجتماعات علیحدہ علیحدہ جا کر دیکھ لیں ،امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک جہاں بھی ایک مسلک کے چندعلماء آپس میں اکھٹا ہوں گے، آپ کو ان میں ذرا برابربھی اختلاف نظر نہیں آئے گا۔
عالمی اسلامی انقلابی تحریکوں کو ایک ساتھ جمع کرنے والی سیاسی پارٹیاں جن میں پاکستان میں جماعتِ اسلامی او ر مصر میں اخوان المسلمون شامل ہیں، یہ بھی اپنے عالمی اجتماعات زور و شور سے منعقد کرتی ہیں، دھواں دار تقریرں ہوتی ہیں، مسلم امت کے دکھٹرے روئے جاتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔
یہ تمام علمائے امت اور مذہبی سیاسی رہنما آج تک ایک دن کے لیے بھی اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ اس دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا ایک ہی چاند ہے جو ایک ہی آسمان پر طلوع ہوتا ہے اور ایک ماہ میں تقریباً 29دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 28 سیکنڈ کی گردش مکمل کرتا ہے۔ اس ایک چاند کو اگر ہوائی کے ساحلوں سے لے کر فیجی کے جزیرے تک کہیں بھی دیکھ لیا جائے تو مسلمان بیک وقت روزہ رکھ سکتے اور عید منا سکتے ہیں۔
کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ دنیا میں کہیں بھی دو ملکوں کے درمیان 24 گھنٹوں سے زیادہ کا وقفہ نہیں ۔ فیجی زمین کے مشرقی کونے میں واقع ہے اور وہاںاگر یکم جنوری کو طلوعِ آفتاب 5:33 اور غروبِ آفتاب 6:46 بجے ہے۔ آپ مغرب کی طرف بڑھیں چھ گھنٹے بعد جکارتا، چار گھنٹے بعدمکہّ، ایک گھنٹے بعدقاہرہ، دو گھنٹے بعد لندن اور پانچ گھنٹے بعد نیویارک میں آپ اسی یکم جنوری کی نماز فجر اور نماز مغرب ادا کریں گے۔
لیکن اسی یکم جنوری کے آس پاس اگر چاند دیکھ کر عید کرنے کی بات آجائے تو یہ عید تین جنوری تک چلتی رہے گی جب کہ اس دوران چاند اپنا تین دن کا سفر مکمل کر چکا ہو گا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ چاند دیکھ کر عید منانا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بنائی ہوئی حدود و قیود کے مطابق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی کھینچی ہوئی حدود و قیود کے مطابق ہے۔ 1971 سے پہلے اگر چٹاگانگ یا ڈھاکا میں چاند نظر آجاتا تھا تو گوادر اور پشاور والے ایک ساتھ عید کرتے تھے لیکن آج اگر رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین سے سوال کریں تو وہ کہیں گے کہ بنگلہ دیش کا مطلع الگ ہے اور ہمارا مطلع الگ۔ روس زمین کے شمال میں واقع ایک وسیع ملک ہے جس میں گیارہ ٹائم زون آتے ہیں۔
روس میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، بلکہ ایک اندازے کے مطابق روسی فوج میں چالیس فیصد مسلمان ہیں۔ اس روس میں گیارہ ٹائم زون میں رہنے والے مسلمان ایک دن عید کرتے ہیں چونکہ روس ایک عالمی سرحدہے جب کہ 57 اسلامی ممالک بھی گیارہ ٹائم زون میں تقسیم ہیں جو مراکش سے برونائی تک واقع ہیں۔ لیکن یہاں تو اردن اور شام کی سرحدوں پر اور ایران و عراق کی سرحدوں پربھی علیحدہ علیحدہ عیدیں منائی جاتی ہیں اس لیے کہ ان کی 57 عالمی سرحدیں ہیں۔
ہمارے علمائے امت کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے مسلکی اختلاف کو زمینی حقائق کا نام دیتے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ اس پوری امت میں یہ اختلافات شاید پاکستان میں ہی ہے۔ لیکن 2007 کا رمضان ایران میں گزارنے کا موقع ملا۔ رات گئے تک پوری ایرانی قوم انتظار کر رہی تھی کہ ابھی رویتِ ہلال کمیٹی اعلان کر دے گی۔ فقہ جعفریہ کے مطابق لوگوں نے” یومِ شک ” کا روزہ رکھ لیا جسے چاند کی اطلاع نہ ملنے پر 12 بجے سے پہلے توڑا جا سکتا ہے۔ گیارہ بجے کے قریب میں کا ر میں سفر کر رہا تھا، ریڈیو لگا ہوا تھا، اس پر رویتِ ہلال کمیٹی کاقم سے اعلان ہوا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے۔
میرے ڈرائیور نے ایرانی مزاح کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ” ہمراہ آفتاب آمد” یعنی آج چاند اور سورج ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ ہمارے علماء سعودی عرب یا ایران یا پھر کسی اور ملک کی رویت اس لیے نہیں مانتے کہ ان کا ملک علیحدہ ہے۔ بلکہ ملک علیحدہ ہونا تو ایک بہانہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان کا مسلک علیحدہ ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جس نے قومی ریاستوں اور ان کی حدود کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ کی سنت سے بھی زیادہ محترم اور مقدس بنا دیا ہے۔
گزشتہ چودہ سو سال کی تاریخ اس بات پر شاھد ہے کہ اس امت کے تمام مسالک نے چاند کی رویت میں مطلع کا کبھی اختلاف نہیں کیا۔ فقہہ حنفی کی کتابوں الہدایہ او ر الدر المختار میں کہا گیا، اہلِ مشرق پر اہلِ مغرب کی رویت دلیل ہے۔ مالکی فقہہ کی کتاب “ھدایتہ المجتہد” اور ” مواہب الجلیل” بلکہ قاضی ابو اسحاق نے ” ابن الماحبثون” میں یہاں تک کہہ دیا اگر ایک ملک کے لوگوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ انھوں نے چاند دیکھاہے تو روزے کی قضا واجب ہے۔ یہی مسلک حنبلیوں کے ہاں ” الاحناف” اور شافیعوں کے ہاںالمغنی میں درج ہے اور کیوں نہ ہو ان تمام آئمہ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی سنت موجود تھی جو ان احادیث سے واضح ہے۔
ـ” ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا، آپ نے پوچھا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں ۔ اس نے کہا ، ہاں، آپ نے فرمایا، بلال اعلان کر دو کل روزہ رکھیں (ترمذی، سنن ابنِ داؤد)” اس سے زیادہ واضح بات اس حدیث میں ہے۔ ” لوگ عید کے چاند میں اختلاف کرنے لگے کہ دو اعرابی آئے، انھوں نے اللہ کے رسول کے روبرو اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ کل رات انھوں نے چاند دیکھا ہے تونبی اکرمﷺ نے حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں (ابو داؤد)”. ان دونوں احادیث میں نہ کہیں فاصلے کا ذکر ہے اور نہ ہی حدود و قیود کا۔ آج اگر مراکش کے ساحل پہ جہاں چاند پہلے طلوع ہوتا ہے۔
چند لوگ جو پارسا اور پرہیزگار بھی ہوں، وہ اگر چاند دیکھ لیں اور صرف چند گھنٹے کی فلائٹ لے کر مفتی منیب الرحمان صاحب کی رویتِ ہلال کمیٹی کے سامنے جو کراچی میں چھت پر کھڑی دوربین لگا کر چاند دیکھ رہی ہوتی ہے، اسے گواہی دے دیں تو کیا یہ رویتِ ہلال کمیٹی والے اعلان کر دیں گے کہ کل روزہ رکھو، یا اگر وہ عید کے روز لیٹ ہو جائیں تو اعلان کریں گے کہ روزہ توڑ دو ۔ شاید نہ کریں اس لیے کہ ہمارے ہاں زمینی حقائق اور قومی ریاستوں کی حدود اللہ کے رسول کی سنت سے زیادہ محترم اور مقدس ہو چکی ہیں۔ ایک چھوٹا سا ٹی وی چینل آسٹریلیا سے امریکا تک ہر چیز براہِ راست دکھانے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اس امت کے 57 اسلامی ممالک صرف چندمقامات پر چاند دیکھنے کے مراکز قائم کر کے پوری امت کو ایک رمضان اور ایک عید کا تحفہ نہیں دے سکتے۔

اوریا مقبول جان


12 مئی، 2015

جس جگہ زَر ہو خُدا


اُس ترازو سے مجھے خون کی بُو آتی ہے
یک زباں ہو کے مرے پیارے وطن کے باسی
جِس کے جھکتے ہوئے پلڑے کو خُدا کہتے ہیں
ساری تعزیریں یتیموں پہ لگانے والی
تختہ دار پہ مہروں کو چڑھانے والی
سارے شیطانوں کو مسند پہ بٹھانے والی
تُم کہو شوق سے اُس جا کو عدالت لوگو
کالے کرتوتوں کو تُم کہہ دو وکالت لوگو
میں اُسے کہتا ہوں زرداروں کی گندی منڈی
جس جگہ چلتے ہوں منصف بھی رکھیلوں کی طرح
جس جگہ اندھے گواہوں کی فراوانی ہو
اُس جگہ عدل کا سایہ بھی نہیں مِلتا کبھی
جس جگہ زَر ہو خُدا زَر کی ثناخوانی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی

30 اپریل، 2015

ربڑ ------- از --------گل نوخیز اختر

یہ1978 ء کی گرمیوں کی بات ہے جب پہلی بار مجھے ایک بیش قیمت خواب آیا۔ میں ملتان کے ایم سی پرائمری سکول میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا جسے اُس دور میں ’’پکی جماعت‘‘ کہا جاتاتھا۔یہ وہ دور تھا جب صبح صبح گلیوں میں ’’ماشکی‘‘ بڑی سی مشک اُٹھائے چھڑکاؤ کیا کرتے تھے۔میرا سکول میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔میری ماں جی نے لنڈے سے ایک ڈبیوں والی پرانی پینٹ خرید کر مجھے اس کا بستا بنا کر دیا ہوا تھا‘ اِس بستے کی خوبی یہ تھی کہ اس میں دو جیبیں تھی اورجیبوں والا یہ بستہ مجھے بہت پسند تھا۔اُس دور میں وہی ’’سیٹھ کا بچہ‘‘ شمار ہوتا تھا جس کے بستے کی جیبیں زیادہ ہوتی تھیں۔ ہر بچے کو حکم تھا کہ وہ اپنے بیٹھنے کے لیے ’’چٹائی‘‘ گھر سے لے کر آئے‘ ابا جی چٹائی تو افورڈنہیں کر سکتے تھے تاہم انہوں نے مجھے کہیں سے جگہ جگہ پیوند لگی ایک چادر لا دی تھی جو سکول میں میرے بیٹھنے کے کام بھی آتی تھی اور میں اِس سے سلیٹ بھی صاف کرلیا کرتا تھا۔صبح کے چار بجے تھے جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے اردگرد ’’ربڑہی ربڑ‘‘بکھرے پڑے ہیں‘ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا‘ اِدھر اُدھر ہاتھ مارا لیکن ہاتھ خالی تھے‘ میں نے جلدی سے پھر آنکھیں بند کرلیں اور اِسی حسین خواب میں پھر کھو جانا چاہا لیکن ’’ربڑ‘‘ اپنی ایک جھلک دکھلا کر غائب ہوچکے تھے۔میری نیند اُڑ گئی اور دل میں اپنی اوقات سے بڑھ کر ایک خیال اُبھرا کہ کاش میرے پاس بھی ایک ربڑ ہو اور میں بھی کچی پنسل سے کچھ غلط لکھ کر اُسے ربڑ سے مٹاؤں۔

سکول جانے کا وقت ہوا تو ماں جی نے بڑے سے پیالے میں چائے ڈال کر اُس میں پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال کر میرے سامنے رکھ دیے۔یہ میرا پسندیدہ ناشتہ تھا لیکن میرا دماغ تو کسی اور طرف ہی الجھا ہوا تھا۔ابا جی پاس ہی کچی زمین پر بیٹھے اپنی ہوائی چپل کو ایک مزید ٹانکا لگا رہے تھے‘ اس ہوائی چپل پر اتنے ٹانکے لگ چکے تھے کہ اب نیا ٹانکالگانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں بچی تھی لیکن ابا جی کو شائد اِسی سے عشق تھا لہذا ہر دوسرے روز اس کی ’’بخیہ گری‘‘ میں لگ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کے پاس ایک خاکی رنگ کے پرانے سے بغیر تسموں کے بوٹ بھی تھے لیکن وہ بہت کم پہنتے تھے‘ لیکن مجھے وہ ہوائی چپل کی نسبت بوٹوں میں زیادہ اچھے لگتے تھے‘ لہذا کئی دفعہ فرمائش کرکے اُن کو زبردستی بوٹ پہنا دیا کرتا تھا‘ وہ کچھ دیر تک میری خواہش کے احترام میں بوٹ پہنے رکھتے‘ پھر یہ کہتے ہوئے اُتار دیتے کہ ’’یار۔۔۔ایہہ مینوں بہت چُبھدے نیں‘‘۔

میں نے کچھ دیراپنے خواب کے بارے میں سوچا ‘ پھر آہستہ سے کہا’’ابا جی! میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ابا جی نے چونک کر میری طرف دیکھا ‘ پھر مسکراتے ہوئے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور بولے’’تم تو ابھی تختی لکھتے ہو‘ ربڑ تو چوتھی جماعت کے بچے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھا اور جھٹ سے ابا جی کی گود میں چڑھ گیا’’مجھے نہیں پتا۔۔۔میں نے ربڑ لینا ہے‘‘۔ ابا جی نے کن اکھیوں سے ماں جی کی طرف دیکھا جو رات کے بچی ہوئی روٹی پر تھوڑا سا گھی لگا کر اُسے دوبارہ زندہ کر رہی تھیں‘ ماں جی شائد ابا جی سے نظریں ملانے کی متحمل نہیں ہورہی تھیں اس لیے جلدی سے دھیان چولہے کی طرف لگا لیا۔میں پھر مچلا’’ابا جی میں نے ربڑ لینا ہے۔‘‘ میرا جملہ سن کر وہ زور سے ہنسے ‘ پھر میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولے’’لے دوں گا‘ لیکن پہلے اچھی طرح ناشتہ کر‘‘۔یہ سنتے ہی میرے اندر پھلجڑیاں سی پھوٹ پڑیں‘ مجھے لگا جیسے میری لاٹری نکل آئی ہے‘ میں نے حکم کی تعمیل میں جلدی سے پیالہ ختم کیا اور داد طلب نظروں سے ابا جی کی طرف دیکھا۔ابا جی نے فخریہ انداز سے میرے کندھے تھپتھپائے اور بولے’’شاباش میراببر شیر پُتر‘‘۔یہ خطاب میرے لیے نیا نہیں تھا‘ ابا جی جب بھی مجھ سے خوش ہوتے تھے ایسے ہی کہتے تھے‘ لیکن اُس دن مجھے اِس خطاب کی نہیں‘ ایک ربڑ کی ضرورت تھی لہذا جلدی سے کہا’’ابا جی!اب ربڑ لینے چلیں؟‘‘ میرا جملہ سنتے ہی ابا جی کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گذر گیا لیکن انہوں نے فوری طور پر مسکراہٹ کا ازلی نقاب اوڑھ لیا اورحسبِ معمول میرے گال تھپتھپا کر بولے’’لے دوں گا یار‘ پہلے چوتھی جماعت میں تو آجاؤ ‘‘۔۔۔میری اُمیدوں پر پانی پھر گیا‘ وہ تو کہتے تھے کہ صبح کے وقت آنے والے خواب سچے ہوتے ہیں‘ پھر میرا خواب کیوں سچا ثابت نہیں ہورہا تھا؟ کیا میری صبح سچے خواب والی صبح نہیں تھی؟میں نے بے دلی سے بستہ اُٹھایا‘ تختی اور چادر سنبھالی اورڈھیلے قدموں کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔

سکول پہنچا تو ’’جیرے‘‘ نے بتایا کہ وہ ربڑ لایا ہے‘ مجھے یقین نہ آیا اور میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو‘ اُس نے یہ سنتے ہی جھٹ سے اپنا بستہ کھولا اور ایک استعمال شدہ ربڑ میری آنکھوں کے آگے لہرا دیا۔‘ میں جل بھن گیا‘ جیرا بھی تو پکی جماعت میں تھا‘ پھر اُس کے ابا جی نے کیسے اُسے ربڑ لے دیا؟
میں نے اُس کے ہاتھو ں سے ربڑ لے کر الٹ پلٹ کر دیکھا‘ وہ واقعی ایک ربڑ تھا‘ اصلی ربڑ۔میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے جیرے نے جھٹ سے ایک کاغذ اور کچی پنسل نکالی‘ کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں ڈالیں اور بڑے فخر سے ربڑ پکڑ کر اِنہیں مٹانے لگ گیا۔میں حیرت سے گنگ بیٹھاربڑ کو لکیروں پر پھرتے دیکھ رہا تھا‘ جہاں جہاں ربڑ پہنچ رہا تھا‘ لکیریں اپنا وجود کھوتی جارہی تھیں‘ کلاس کے اور لڑکے بھی ہمارے سروں پر جمع ہوچکے تھے اور حسرت بھری نظروں سے جیرے کے ربڑ کو دیکھ رہے تھے‘ جیرا بڑے اطمینان سے سیٹی بجاتے ہوئے ربڑکو لکیروں پر پھیر رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا کاغذ ایسے صاف ہوگیا جیسے کبھی اُس پر کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔میری آنکھوں میں خون اُتر آیا‘ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے جیرے کا ربڑ چھینا اور دانتوں تلے دبا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔جیرے کی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی اور کلاس میں جیسے طوفان سا آگیا‘ ربڑکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے اور جیرا دھاڑیں مار مار کر ربڑ کی لاش پر ماتم کر رہا تھا۔

میرے دل میں ٹھنڈ سی اُترتی چلی گئی‘ کلاس کی چیخ وپکار سن کر ’’وڈی اُستانی‘‘ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی۔مجھے پتا تھاکہ اب میرے ساتھ کیا ہونا ہے لہذا جلدی سے بستہ ‘ چادر اورتختی اُٹھائی اور پوری قوت سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔وڈی اُستانی نے چلا کر دوسری اُستانیوں کو خبردار کیا‘ ساری اُستانیاں میرے پیچھے دوڑیں لیکن میں نے چھلانگیں لگائیں اور سکول کے عقب میں واقع سلیکون کے کارخانے میں گھس گیا۔یہ کارخانہ ایک بھول بھلیاں تھا لہذا مجھے اطمینان تھا کہ یہاں مجھے کسی کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکتا۔سارا دن میں گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا اور چھٹی کے وقت گھر پہنچ گیا‘ وہاں میری ’’کاروائی‘‘ کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی‘لیکن ماں جی نے اپنے مزاج کے عین مطابق ہلکے پھلکے انداز میں ڈانٹ پلائی اور بات آئی گئی ہوگئی۔شام کو میں حسبِ معمول گلی میں ’’لُکن میٹی‘‘ کھیلنے نکلا تو مجھے احساس ہوا جیسے ہاتھوں پیروں سے جان نکلتی جارہی ہے‘ عجیب سی تھکن تھی جو مسلسل مجھے نقاہت میں مبتلا کر رہی تھی‘ میں واپس آگیا‘ چونکہ یہ خلاف توقع تھا اس لیے ابا جی کا ماتھا ٹھنکا‘ انہوں نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کانپ گئے‘ میں نے سنا‘ وہ ماں جی کو کہہ رہے تھے کہ اِسے توسخت بخار ہے۔ رات تک سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر اعلان کر چکا تھا کہ مجھے خطرناک قسم کا ٹائفائیڈ ہوچکا ہے ۔میں بستر سے لگ گیا اورماں جی دیوانہ وار خدا سے دعائیں کرنے لگیں‘ ابا جی ہر نماز کے بعد مسجد کے نمازیوں سے پھونک مروا کے میرے لیے دم کیا ہوا پانی لاتے اور چند قطرے میرے منہ میں ٹپکا دیتے۔میرے اعصاب مسلسل شل ہوتے جارہے تھے‘ نیم غنودگی کے عالم میں مجھے ہر چیز اپنے قد سے بہت بڑی اور سلوموشن میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔میرے روٹی کھانے پر پابندی تھی‘ دل نمکین چیز کو ترس گیا تھا‘ ایسے میں ایک دن میں نے ماں جی سے کہا کہ میں نے ’’کڑی ‘‘ کھانی ہے۔ماں جی نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا‘پھر میری پیشانی چومی اور بولیں’’تم ٹھیک ہوجاؤ‘ پھر بنا دوں گی‘‘۔میں سمجھ گیا کہ ’’ہنوزکڑی دور است‘‘۔

یہ اُس روز کا ذکر ہے جب میرے ٹائیفائیڈ کو چھ روز ہوچکے تھے‘ میں بے جان سا ہوکر ابا جی کی گود میں بیٹھا ہوا تھا‘ ابا جی میرے بالوں میں انگلیاں پھیر تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’میرے ببر شیر۔۔۔دوائی تو کھا لو‘‘۔میں نے بیزاری سے نفی میں سر ہلادیا۔ابا جی نے پیار سے پوچھا’’چلو پھر بتاؤ کس چیز کو دل کر رہا ہے؟‘‘ میں نے چونک کر بے یقینی سے گردن گھمائی‘ ابا جی کی آنکھوں میں دیکھا اوردھیرے سے کہا ’’مجھے ربڑ لادیں‘‘۔ابا جی پہلے تو بے اختیارہنس پڑے ‘ پھر کسی سوچ میں گم ہوگئے‘ تھوڑی دیر بعد انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بولے’’ربڑ لادوں تو ٹھیک ہوجاؤ گے؟‘‘ میں یکدم سیدھا ہوگیا’’ہاں ابا جی! اللہ میاں کی قسم‘ میں بالکل ٹھیک ہوجاؤں گا‘‘ میں نے خوشی اوربھرپور اعتماد سے جواب دیا۔‘‘ ابا جی مسکرائے’’تو پھرپکا وعدہ‘ تم ٹھیک ہوکر دکھاؤ‘ میں ربڑ لادوں گا‘‘۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا‘ میرا خواب سچ ہونے جارہا تھا‘ ایک لمحے میں میری ساری تھکن اُتر گئی‘ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹائیفائیڈ میرے ربڑ کا دشمن ہے لہذا اِس دشمن کو اب ہرحال میں شکست دینی ہے۔

آٹھویں روز جب میں ہشاش بشا ش ہوکر سکول جارہا تھا تو میرے بستے میں ایک نہیں دو ربڑ تھے ‘ کچھ عجیب سے تھے لیکن میں شرط لگا کر کہہ سکتا تھا کہ اتنے بڑے اور رنگیلے ربڑ اور کسی بچے کے پاس ہوہی نہیں سکتے تھے‘ مجھے ابا جی پر بہت پیار آیا‘ وہ صرف میری خاطر نجانے کہاں سے اتنے مہنگے ربڑ خرید لائے تھے‘ وہ بھی ایک نہیں‘ پورے دو۔۔۔!!!سکول میں جب میں نے ’’جیرے ‘‘ اور دیگر دوستوں کو اپنے ربڑ دکھائے تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں‘ جیرے نے میرا ربڑ دیکھنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن میں نے جلدی سے ربڑ پیچھے کر لیا‘ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے ربڑ کا بدلہ ضرور لے گا۔میرے ربڑ بہت اچھے تھے ‘ عام ربڑ کی نسبت سائز میں دوگنے تھے لیکن پتا نہیں کیوں‘ جب میں اِن سے کاغذ پر ڈالی ہوئی کوئی لکیر مٹانے کی کوشش کرتا تو یہ ربڑ لکیر مٹانے کے ساتھ ساتھ کاغذ بھی پھاڑ دیتے۔

برسوں بعد ‘ جب میں خود باپ بن چکا تھا‘ ایک روز بچپن کی بات یاد آئی تو میں نے ابا جی سے پوچھ ہی لیا کہ آخر وہ ربڑ آپ کہاں سے لائے تھے‘ ابا جی نے بات گول کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اب ایک باپ کا مقابلہ ایک دوسرے باپ سے تھا جو تعلیم‘ تجربے اور پیسوں کے معاملے میں پہلے باپ سے بہت آگے تھا لہذا بات گول کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ میں نے دوبارہ پوچھا تو ابا جی کی پلکوں کے کنارے بھیگ گئے‘ انہوں نے جلدی سے اپنی قمیض کی آستین سے آنکھیں صاف کیں اور دھیرے سے مسکرا کر بولے’’یار! وہ ہوائی چپل واقعی بہت پرانی ہوگئی تھی‘‘۔۔۔میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔۔۔کسی ربڑ کی طرح۔۔۔!!!

---------------------------------

12 اپریل، 2015

شانِ حضرت ابوبکر صدیقؓ

 

عبداللہ بن محمد، جعفی، وہب بن جریر، جریر، یعلی بن حکیم، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مرض میں جس مرض میں آپ نے وفات پائی ہے، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے، پھر اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو! ابوبکر سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو یقینا ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کی دوستی افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کردو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ 

 صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 458 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14 متفق علیہ 9
  

6 اپریل، 2015

دھت تیرے کی۔۔۔!!!

  یہ ایک خالصتاً مردانہ محفل تھی، ہم پانچ دوست مختلف ایشوز پر بحث کر رہے تھے ، اچانک ایک زنانہ آواز آئی ’’آئی لو یو جان‘‘۔سب بے اختیار اچھل پڑے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن ٹی وی بھی بند تھا اوردور دور تک کوئی خاتون بھی نہیں نظر نہیں آئی۔ اتنے میں یہی آواز پھر ابھری اور عقدہ کھلاکہ یہ ایک دوست کے موبائل فون سے آرہی ہے۔دوست نے موبائل نکالا، کچھ دیر بات کی اور مسکراتے ہوئے فون بند کردیا۔ پتا چلا کہ موصوف نے اپنی بیگم کی آواز کو رِنگ ٹون بنا رکھا ہے۔ان کی بیگم کا جب بھی فون آتا ہے یہی پیار بھری ٹون بجنے لگتی ہے تاہم وہ جب بھی فون اٹینڈ کرتے ہیں دوسری طرف سے دانت پیسنے کی آوازیں چار گز دور بیٹھے بندے کو بھی سنائی دے جاتی ہیں۔پتا نہیں ایسے لوگوں کو کیا بیماری ہے، ایسی ایسی رِنگ ٹون لگاتے ہیں کہ سارا ماحول بدل کے رکھ دیتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک جنازے میں شرکت کا موقع ملا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی، کندھا بدلتے ہوئے ایک صاحب نے کلمہ شہادت کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی ان کے موبائل سے آوا زآئی’’چٹیاں کلائیاں وے‘‘۔
اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص رِنگ ٹون اس لیے لگاتے ہیں تاکہ پتا چل جائے کہ کس کا فون آرہا ہے، میرے ایک محلے دار کے فون پر اکثر گدھے، بلی، اونٹ اور بھیڑیے کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ایک دفعہ راز پوچھا تو دانت نکال کر بولے ہر سسرالی رشتہ دار کے لیے مختلف رِنگ ٹون سیٹ کی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے موبائل سے خطرے کے سائرن کی آواز آئی، میں نے پوچھا یہ کس کا نمبر ہے؟ اطمینان سے بولے ’’دوکاندار کا۔‘‘
کئی لوگوں کے ایک نام والے کافی سارے لوگ ہوں تو وہ یاد دہانی کے لیے ان کا نمبر محفوظ کرتے وقت اکثر ان کا کریکٹر بھی ساتھ لکھ دیتے ہیں مثلاًاگر شہزاد نام کے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو ان کے نام کچھ یوں درج ہوں گے’’شہزاد ڈنگر، شہزاد چول، شہزاد بونگا، شہزاد منحوس، شہزاد بھوکا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جن لوگوں کو ہر نام کے ساتھ رنگ ٹونز لگانے کا شوق ہوتاہے وہ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں ، میرے آفس بوائے نے بھی ہر نام کے لیے ڈھونڈڈھونڈ کر گانوں والی رنگ ٹونز لگائی ہوئی ہیں۔ اس کی والدہ کا فون آئے تو گانا بجتا ہے ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘۔۔۔والد صاحب کا فون آئے تو آواز آتی ہے’’پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا‘‘۔ بھائی کا فون آئے تو ’’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘‘ چل پڑتاہے۔ایک دفعہ وہ چائے بنا رہا تھا، میں نے اپنا سٹیٹس چیک کرنے کے لیے اسے بیل ماری تو آگے سے گانا چل پڑا’’گھوڑے جیسی چال ہاتھی جیسی دُم‘‘۔۔۔!!!
آپ نے یقیناًوہ لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو رِنگ ٹونز کے شیدائی ہوتے ہیں،ان کااولین شوق موبائل میں نئی نئی رنگ ٹونز بھروانا ہوتاہے ،یہ ہر دو گھنٹے بعد اپنی رِنگ ٹون بدل دیتے ہیں۔فارغ وقت میں ان کا بہترین مشغلہ اپنے ہی موبائل کی مختلف رِنگ ٹونز سننا ہوتاہے۔یہ کہیں بیٹھے ہوں تو اِن کے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز ساتویں محلے تک سنائی دیتی ہے تاہم یہ فوراً ہی کال رسیو نہیں کرتے بلکہ تیس چالیس سیکنڈ تک خود بھی ٹون سننے کا مزا لیتے ہیں اور اردگرد بیٹھے ہوؤں کو بھی ذہنی کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔کئی نیک لوگ مذہبی کلمات کو رنگ ٹون بنانا پسند کرتے ہیں ، میرے ایک دوست نے ’’بسم اللہ‘‘ کو اپنی رنگ ٹون بنا رکھا ہے، کئی دفعہ جب اس کی بیگم لڑائی کے دوران اس کے اوپر گرم گرم چائے پھینکنے لگتی ہے تو اتفاق سے کسی نہ کسی کا فون آجاتا ہے اور چائے گرنے سے پہلے آواز آتی ہے’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘۔اسی طرح ایک اور دوست ہیں جنہیں ہر وقت موت یاد رہتی ہے لہذا انہوں نے اپنی رنگ ٹون بھی اسی کے مطابق سیٹ کی ہوئی ہے۔موصوف نے پچھلے دنوں دوسری شادی کرلی، نکاح ہوگیا تو اچانک ان کے موبائل سے آواز آئی’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
اکثر لوگ میسج کی ٹون بھی مختلف رکھنا پسند کرتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ اتنی مختلف ہوجاتی ہے کہ ساتھ والوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہوا کیا ہے۔ میں ایک دفعہ آفس آنے کے لیے لفٹ میں سوار تھا کہ اچانک کتے کے بھونکنے کی زوردار آواز آئی، لفٹ میں سوار ہر بندے کی ہاف چیخ نکل گئی۔پتا چلا کہ کونے والے صاحب کے موبائل پر میسج آیا ہے۔ اسی طرح آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بھری محفل میں اچانک دروازے پر دستک کی آواز آتی ہے، یہ بھی میسج کی ٹون ہوتی ہے۔میرے دفتر کے ہمسائے میں ایک صاحب نے میسج کی ٹون پر ایک خاتون کی کربناک چیخ لگا رکھی ہے ، سو کئی دفعہ ہوا کہ گاڑی چلاتے ہوئے انہوں نے شیشے کھولے،کوئی میسج آیا اورکسی قریبی راہگیرنے ان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کرکے ون فائیو پر فون کر دیا۔تاہم پچھلے کچھ دنوں سے مجھے چیخوں کی آواز نہیں آئی تو پتا چلا کہ انہوں نے یہ رِنگ ٹون بدل دی ہے، میں نے وجہ پوچھی توکھسیانے ہوکر بات بدلنے کی کوشش کی، میں نے زور دیا تو شرمندہ ہوکربولے’’یار بس جمعہ پڑھنے گیاتھااور جلدی میں موبائل کو میوٹ پرکرنا بھول گیا۔۔۔!!!‘‘
موبائل کی ایک ٹون تو وہ ہوتی ہے جو آپ کی کال آنے پر آپ کے موبائل میں بجتی ہے، دوسری وہ ہوتی ہے جسے ’’کالر ٹون‘‘ کہتے ہیں، میں نے ایک دفعہ شوق شوق میں یہ ٹون لگا لی اور اس کے بعد عذاب میں پھنس گیا، دودھ والے کا بھی فون آتا تھا تو اسے میری طرف سے سنائی دیتا تھا’’بہت پیار کرتے ہیں تم کو صنم‘‘۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس ٹون سے چھٹکارا حاصل کر سکوں لیکن ناکام رہا، موبائل کمپنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک کوڈ بتایا کہ اِسے فلاں نمبر پر ایس ایم ایس کردیں آپ کی کالر ٹون ختم ہوجائے گی۔میں نے فوری طور پر ایسا ہی کیا اور چیک کرنے کے لیے پی ٹی سی ایل سے اپنے نمبر پر فون کیا تو آواز آئی’’گندی بات، گندی گندی گندی بات‘‘ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جلدی سے موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن پر دوبارہ کال کی، پینتیس منٹ تک تو کمپنی والے مجھے اپنی ریکارڈڈ آفرز سناتے رہے، بالآخر ان کے نمائندے سے بات ہوئی تو میں نے اپنی مصیبت بیان کی۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے، آپ یہ والا کوڈ ملائیں تو سکھی ہوجائیں گے۔ میں نے تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر نیا کوڈ ایس ایم ایس کرکے دھڑکتے دل سے دوبارہ اپنا نمبر ملایا۔ بہت خوشی ہوئی کہ کوئی گانا نہیں چلا البتہ کمپنی کا جوابی میسج آگیا کہ’’ آپ کی خواہش کے احترام میں آپ کی تمام کالر ٹونز ختم کردی گئی ہیں اور اس کے عوض آپ کے اکاؤنٹ سے مبلغ 30 روپے جھاڑ لیے گئے ہیں اگر آپ دوبارہ یہ عذاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس میسج کے جواب میں کچھ بھی لکھ کر بھیج دیں، انشاء اللہ ہم آپ کی زندگی اجیرن بنانے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔‘‘میں نے فوری طور پر میسج کیا’’پلیز میں ایسا کچھ نہیں چاہتا ،میں پہلے ہی بہت تنگ ہوں آپ کی مہربانی مجھے معاف رکھیں‘ ‘۔ فوراً ہی جواب آیا’’آپ کا بہت شکریہ، آپ کی فرمائش پر آپ کی تمام سابقہ ٹونز بحال کردی گئی ہیں۔۔۔‘‘
--------------
گل نوخیز اختر

27 مارچ، 2015

آل پاکستان نفاذِ اُردو کانفرنس

  مسلمانوں کے برصغیر میں آنے سے قبل پورا خطہ صدیوں سے چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں کا ایک مجموعہ تھا جس پر مختلف راجے حکومت کیا کرتے تھے۔ پٹنہ کے قریب پاٹلی پتر میں موریہ خاندان کی حکومت کی مختصر تاریخ ہے جس میں اِردگرد کی ریاستوں کو فتح کر کے ایک مرکزیت قائم کرنے کا پتہ ملتا ہے۔
پورے جزیرہ نماء ہند پر اسی موریہ خاندان کے اشوک نے کسی حد تک ایک مرکزی حکومت قائم کی۔ یہ مرکزیت بھی کلنگہ کی جنگ کے بعد وجود میں آئی جس میں اس نے دس لاکھ لوگوں کو قتل کیا اور تخت پر قابض ہونے کے لیے اپنے نوے کے قریب بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس تمام ظلم کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، مہینوں چین سے نہ سویا، ہندو مت ترک کیا ، بدھ ہو گیا اور مہاتما بدھ کی تعلیمات پر مبنی ایک منصف معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔
اپنی تمام افواج کو ختم کر دیا۔ شہروں میں مہا میر مقرر کیے، جو انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ زیادتی پر بھی سزائیں دیتے۔ دیکھتے دیکھتے پورا ہندوستان بغیر کسی جنگ لڑے اس کا مطیع ہو گیا۔لیکن وہ کئی لاکھ فوجی جنھیں اس نے بے روزگار کر دیا تھا، ایک دن اس کی قائم کردہ موریہ سلطنت کے خاتمے کا باعث بن گئے۔
اس کے بعد ہندوستان پھر ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد متھرا میں گپتا خاندان کی شمالی ہندوستان میں تھوڑی سی مرکزیت نظر آتی ہے۔پورا ہندوستان نہ اپنی زبان کی وجہ سے ایک تھا اور نہ ہی رسم و رواج کے ناتے۔ البتہ ایک چیز تھی، ہندومت جس نے ان تمام ریاستوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ امرناتھ یاترا کشمیر میں ہے تو گنگا کا مقدس مقام بنارس میں۔ شیو کے آنسو کٹاس اور پوشکر میں گرتے ہیں تو مہا شیو راتری انھی جگہوں پر منائی جاتی ہے۔
اجنتا اورایلورا کے غار جنوب میں ہیں تو برہما کا سب سے بڑا مندر سومنات کے نزدیک ہے۔ غرض ہندومت کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کا ایک جال پورے ہندوستان میں بچھا ہوا ہے،جس کی وجہ سے صدیوں ہندوستان ایک اکائی رہا۔ سنسکرت مقدس مذہبی زبان تھی اور اس میں علم کا ایک خزانہ بھی موجود تھا۔ مسلمانوں نے جب دنیا بھر کے علوم کے تراجم شروع کیے تو سب سے پہلے ہند سے کتابیں لا کر ترجمہ کی گئیں۔
لیکن بنگال، دکن، بہار، اڑیسہ،پنجاب، کشمیر اور دیگر علاقوں کے لوگ جب آپس میں ملتے، خواہ وہ تجارت کی غرض سے یا پھر ہردوار اور کنبھ کے مقدس میلوں پر تو آہستہ آہستہ ان کے درمیان ایک زبان نے جنم لینا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے پنڈتوں اور علم کی دنیا پر قابض برہمنوں نے اسے سنسکرت کی بگڑی ہوئی شکل کہنا شروع کیا۔لیکن عام آدمی کیا کرتا۔ اس نے تو تجارت کرنا تھی، میل ملاپ رکھنا تھا۔ اس نے شاستر تھوڑا پڑھنے تھے کہ خالص سنسکرت جانتا۔
اس نے خود ہی ایک زبان ایجاد کر لی جو شروع شروع میں پراکرت کہلاتی رہی۔ مسلمان فاتحین آئے تو برصغیر کے ایک وسیع حصے میں مرکزیت آگئی۔ دہلی سلطنت کا صدر مقام بن گیا اور بادشاہوں کی وجہ سے فارسی دفتر اور عدالت کی زبان ہوگئی۔ التمش نے جب آج سے آٹھ سو سال قبل قاضی عدالتیں قائم کیں تو قوانین کی عربی کتاب کا ترجمہ فارسی میں کیا۔
غوری،خلجی، لودھی خاندانوں سے شیر شاہ سوری اور پھر مغلیہ خاندان کے چکا چوند کر دینے والے دورِ حکومت تک دفاتر اور عدالتوں کی زبان فارسی رہی، یہاں تک کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پچاس سالہ دور میں بھی دفتری اور عدالتیِ زبان فارسی ہی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں نے برصغیر کے ہر گاؤں میں اتالیق مقرر کر رکھے تھے، جو ہر بچے کو فارسی اور حساب پڑھاتے اور مسلمان کو قرآن اور ہندو کو وید کی تعلیم دیتے۔
یوں برصغیر میں انگریز کی آمد تک شرحِ خواندگی نوے فیصد تک تھا۔ مگر اس فارسی کے پہلو بہ پہلو وہ زبان جو کئی سو سال پہلے پراکرتوں کی صورت میں رابطہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی پوری قوت سے پروان چڑھتی گئی۔مسلمانوں کی حکومت کی وجہ سے اس زبان میں عربی، فارسی اور ترکی کے بیش بہا الفاظ شامل ہوگئے۔
وہ تمام اصناف جو ہندوستان کے لیے اجنبی تھیں، یہاں لکھی جانے لگیں، جیسے غزل، نظم، رباعی، مثنوی، مرثیہ، داستان، ناول اور افسانہ۔ غرض ایک ہزار سال پہلے امیر خسرو نے جس زبان میں گیت لکھے تھے اس لیے کہ وہی دراصل اس پورے خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ، یہ اُردو اب ایک ایسی زبان بن کر ابھر چکی تھی جس کا دامن میر تقی میر سے لے کر غالب تک جیسے شعراء میر امن اور رجب علی بیگ سرور جیسے نثرنگار، انیس، دبیر جیسے مرثیہ نویس اور دیگر اصناف میں لکھنے والوں سے مالا مال تھا۔ فارسی دفتری زبان تھی۔ لیکن محبت کرنے ، گیت گانے اور کہانی سنانے کی زبان اُردو ہو گئی۔
یہی وجہ ہے کہ جب انگریز برصغیر پر حکمران ہوا تو اس نے دفتری زبان تو انگریزی کر دی لیکن ہر دفتر میں ورنیکلر کے نام پر ایک شعبہ کھولا جس میں اُردو میں دفتری کام کیا جاتا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد کہ جنہوں نے توبۃ النصوح، مراۃ العروس اور بنات النعش جیسے ناول تحریر کیے تھے، انھیں بلایا گیا اور ان سے تمام انگریزی قوانین کا ترجمہ کروایا گیا۔
یوں ضابطہ فوجداری، ضابطۂ دیوانی اور تعزیرات ہند عام آدمی کی سہولت کے لیے وجود میں آگئے۔ عرضی نویسوں، وثیقہ نویسوں اور اہلمدوں کی ایک کھیپ تھی جو اُردو میں عدالتی کام سرانجام دیتی تاکہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن سرکاری ملازمتیں انگریزی بولنے والوں تک محدود کر دی گئیں۔ انگریز نے مسلمانوں کا اتالیق کا سسٹم ختم کر دیا۔ چند سرکاری اسکول کھولے گئے۔ یوں برصغیر میں شرح خواندگی نوے فیصد سے گر کر پندرہ فیصد تک آگئی۔
تعلیم کے اس دوغلے نظام نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو انگریزی میں تعلیم یافتہ تھا۔ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتا تھا اور وہی اسی کی تہذیبی اساس تھی۔ سول سروس، فوجی اور نواب، خان وڈیرے جنھیں انگریز اپنی سرپرستی میں قائم کالجوں میں تعلیم دلواتا، اس طبقے میں شامل تھے۔ یہ مٹھی بھر لوگ اس برصغیر کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے اور انھوں نے یہ تصور مضبوط کر دیا کہ ترقی صرف اور صرف انگریزی زبان میں علم حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے۔
یہ انسانی تاریخ کے پانچ ہزار سالہ تجربے کے برعکس تصور تھا۔ انسان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی ہو۔ انگریزی دونوں ملکوں کے آزاد ہونے کے بعد بھی دفتری اور قانونی زبان کے ساتھ ساتھ ذریعہ تعلیم بھی بنا دی گئی۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے اقتدار پر وہ لوگ قابض ہوگئے تھے جنھیں انگریز اقتدار اور انگریز تہذیب کی لوریاں دے کر پالا گیا تھا۔
دونوں ملکوں میں انگریزی کو تہذیب وترقی کی علامت بتایا گیا اور اُردو سرکاری اور نجی سرپرستی، دونوں سے محروم ہوگئی۔لیکن اس زبان نے جو لوگوں کے درمیان واحد رابطے اور تعلق کا ذریعہ تھا وہ کمال دکھایا کہ دونوں کا تمام میڈیا اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا۔ پاکستان میں تو دو انگریزی چینل چلے لیکن بری طرح ناکام ہوگئے۔فلم، ریڈیو، اخبار سب جگہ جہاں گفتگو ذریعہ اظہار تھی اُردو پروان چڑھتی رہی۔ چاہے امیتابھ بچن اس میں لاکھ سنسکرت کے الفاظ ڈال کر ہندی بنائے کوئی دوسرا ایسی ہندی بولنے کو تیار نہیں ہوتا۔
لیکن اقتدار پر قابض انگریز صفت مرعوب کالوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے دونوں ملکوں کو جہالت کے اندھیروں میں غرق کر دیا۔بھارت میں ہر سال22کروڑ بچے پاٹھ شالا یعنی اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں اور صرف چالیس لاکھ گریجویٹ بنتے ہیں۔ آج ساٹھ سال بعد بھارت کے تعلیمی نظام کے سربراہ سوچ رہے ہیں، کہ اگر انگریزی ان پر تھوپی نہ جاتی تو پورا بھارت خواندہ ہوتا۔
عدالتی نظام میں انگریزی کی وجہ سے ایک کروڑ مقدمات زیر التوا ہیں اس لیے کہ عام آدمی وکیل کے بغیر عدالت تک رسائی ہی نہیں رکھ پاتا ہمارا حال بھارت سے بھی بدتر ہے۔دنیا میں پاکستان کے علاوہ تین اور ملک ایسے ہیں جو انگریزی کے جال میں پھنسے اور آج پچھتاتے ہوئے واپس قومی زبانوں کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ اس لیے کہ انھیں احساس ہو گیا ہے کہ ان کی پوری قوم بحیثیت مجموعی تخلیقی صلاحیت سے محروم ہو کر نقالچی بن گئی ہے۔
ایک سنگاپور، دوسرا بھارت اور تیسرا سری لنکا۔ ہم وہ چوتھا ملک ہیں جو اس جہالت کے راستے پر رواں دواں ہے۔ ہم وہ بدنصیب ہیں جن کا آئین ہمیں قومی زبان میں تعلیم دینے کا پابند کرتا ہے، لیکن ہم پر مسلط سول سروس اور اشرافیہ کا انگریزی دان طبقہ یہ ہونے نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں 28مارچ صبح دس بجے آرٹس کونسل راولپنڈی میں آل پاکستان نفاذ اُردو کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اللہ ہمیں جہالت کے اندھیروں سے بچنے اور اس قوم کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔



اوریا مقبول جان

23 مارچ، 2015

سورج سانجھا ہوتا ہے نا !



 سورج سانجھا ہوتا ہے نا !!!! ؟؟
سورج سب کا ہوتا ہے نا !!!! ؟؟
تیری دُنیا روشن کیسے ؟؟
مُجھ کو کِرنیں ڈستی کیوں ہیں ؟؟
سانسیں سانسیں ہوتی ہیں نا !!! ؟؟
تیری ہوں یا میری ہوں وہ
تیرے کتبے مہنگے کیسے ؟؟
میری لاشیں سستی کیوں ہیں ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی

سرمايہ ومحنت - علامہ اقبال



 سرمايہ ومحنت
 

بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِحیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

علامہ اقبال