خلافت عباسیہ اپنی حکمرانی کی آخری ہچکیاں لے رہی تھی ۔ اسلامی ریاستیں تقسیم ہو رہی تھیں اور ان کے باشندوں میں باہمی تنافس اور افتراق و انتشار کا زہر پھیل رہا تھا۔ گروہی اختلافات ان کی جڑیں گھن کی طرح کھائے جا رہے تھے۔ ادھر یوروپی عیسائیوں نے بیت المقدس اور شام و فلسطین کے ساحلی علاقوں پر قبضہ کر کے ملت اسلامیہ کو بدترین بحران سے دوچار کر دیا تھا۔ اس پرآشوب زمانے میں ایک بہت تشویشناک حادثہ رونما ہوا جس نے مسلم دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
مورخین نے لکھا ہے کہ 557ھ میں عیسائیوں نے اپنی ایک خفیہ مجلس میں متفقہ فیصلہ کیا کہ رسول اللهﷺ کی قبر مبارک سے آپ کا جسد اطہر نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا جائے، چنانچہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے اپنے دو آدمی منتخب کیے اور انھیں مدینہ منورہ روانہ کر دیا تا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کا جسم مبارک نکال لائیں اور اس طرح ان کی ناپاک سازش کامیاب ہو جائے۔ وہ دونوں آدمی مدینہ منورہ پہنچے ۔ انہوں نے مدینہ کے باشندوں کے سامنے اپنے بارے میں یہ ظاہر کیا کہ ہم مغربی ہیں اور ہمارا تعلق اندلس سے ہے ۔ یہ دونوں مسجد نبوی سے باہر قبلے کی جانب آل عمر کی کی رہائش گاہ کے نزدیک ٹھہرے جہاں سے رسول اکرم ﷺکی قبر شریف قریب تھی ۔ وہ رہائش گاہ "دیار عشرہ" کے نام سے مشہور تھی ۔ جب مسجد نبوی کی توسیع کی گئی تو مسجد نبوی کے ارد گرد کے مکانات اس کی زد میں آ گئے اور تمام مکانات کے نشانات مٹا دیے گئے۔
یہ دونوں نصرانی بظاھر وہاں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، نماز پابندی سے ادا کرتے، قبرستان بقیع اور رسول اکرم ﷺکی قبر مبارک کی زیارت التزام کے ساتھ کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو نہایت نیک، پرہیزگار اور اصحاب خیر کی حیثیت سے متعارف کرا لیا۔ لیکن اندر ہی اندر وہ اپنی ناپاک سازش کی تکمیل کے لیے کوشاں تھے، جب ان کے ارد گرد بالکل سکون ہو جاتا اور لوگ اپنی اپنی ضروریات میں مشغول ہو جاتے یا جب رات ڈھلتی اور سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے جاتے تو یہ دونوں نصرانی اپنے ناپاک مقصد کی تکمیل میں لگ جاتے ۔
اصل بات یہ تھی کہ یہ دونوں نصرانی اپنے رہاشی مقام پر خفیہ طور پر ایک سرنگ کھود رہے تھے جس کا رخ قبر نبوی کی طرف تھا ۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی، یہ دونوں وہ مٹی تھوڑی تھوڑی کر کے کبھی اپنی قریبی کنویں میں ڈال دیتے تھے اور کبھی چمڑے کی تھیلی میں بھر کر قبرستان بقیع میں پھینک آتے تھے اور لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ بقیع کی زیارت کو جا رہے ہیں۔
یہ دونوں اپنی گھناونی سازش کی تکمیل کے لیے ایک مدت تک لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور اپنا مذموم کام اپنے پروگرام کے مطابق مسلسل انجام دیتے رہے۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ وہ اب رسول اکرم ﷺکی قبر مبارک کے قریب پہنچ چکے ہیں اور مقصد حاصل ہونے والا ہے تو انھیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ جسد اطہر کو کس طرح نکالا اور منتقل کیا جائے، چنانچہ وہ رسول اکرم ﷺکا جسد اطہر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے خفیہ پلان بنانے لگے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب بہت جلد ان کی ناپاک سازش کامیاب ہونے والی ہے ۔
لیکن رب العالمین ان کی گھات میں تھا اور انھیں ذلیل و رسوا کرنے اور ان کی ناپاک منصوبہ بندی کا پول کھولنے کے لیے غضب الہی کے شعلے ان کے سروں پر لپک رہے تھے۔ ٹھیک انہی دنوں سلطاں نور الدین محمود زنگی نے خواب میں نبی کریم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ دو بھورے رنگ کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں:
"اے محمود! مجھے ان دو ظالموں سے بچاؤ۔"
نور الدین زنگی گھبرا کر اٹھا اور نماز پڑھ کر پھر سو گیا۔ لیکن لگاتار تین مرتبہ اس نے بعینہ یہی خواب دیکھا ۔ تیسری مرتبہ جب خواب سے بیدار ہوا تو اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا۔یہ وزیر نہایت عقلمند، ہوشیار، دین دار، اور تقویٰ شعار تھا۔ نورالدین زنگی نے اسے اپنا خواب تفصیل سے سنایا اور رات کے بقیہ حصے میں مدینہ منورہ روانگی کی تیاری کی اور بیس آدمیوں کی نگرانی میں بہت سے اونٹ لے کر روانہ ہو گیا۔ سلطان کے ساتھ اس کا وزیر جمال الدم موصلی بھی تھا جو بہت سا مال و متا ع بھی ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سلطان کے ساتھ اس سفر میں ایک ہزار اونٹ تھے، گھوڑے اور دیگر سواریاں ان پر مستزاد تھے۔
شام سے مدینہ کا یہ سفر سولہ دن میں طے ہوا۔ مدینہ پہنچ کر سلطان نے مسجد نبوی کے اندر ریاض الجنه میں نماز ادا کی اور قبر نبوی کی زیارت کے بعد وہیں بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اتنے میں وزیر جمال نے سلطان سے پوچھا: آپ نے جن آدمیوں کو خواب میں دیکھا تھا، کیا آپ ان کی شناخت کر سکتے ہیں؟ سلطان نے کہا: ہاں ۔
وزیر نے مسجد نبوی میوں موجود باشندگان مدینہ سے کہا: سلطان نور الدین زنگی آپ حضرات کے روبرو تشریف فرما ہیں، ان کے پاس بہت سارے اموال ہیں، آپ لوگ اپنا اپنا حصہ ابھی لے لیں اور جو افراد نہیں آ سکے انھیں یہاں لے آئیں تا کہ وہ بھی اپنا اپنا حصہ لے جائیں۔
لوگ حاضر ہوئے اور اموال تقسیم ہونے لگے۔ سلطاں حاضرین کا بغور معاینہ کر رہا تھا لیکن ان میں سے کوئی شخص ان دو آدمیوں کی شکل و شباہت سے ملتا جلتا نہ تھا جنھیں اس نے خواب میں دیکھا تھا ۔ اس لیے سلطاں نے پوچھا: کیا کوئی اور ایسا شخص باقی رہ گیا ہے جو مال لینے حاضر نہیں ہو سکا؟ لوگوں نے جواب دیا: کوئی باقی نہیں رہا ، البتہ دو مغربی آدمی ہیں۔ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے، وہ بہت نیک اور پارسا لوگ ہیں۔ سلطان نے حکم دیا: ان دونوں کو میرے پاس لاؤ!
لوگوں نے جب ان دونوں کو حاضر کیا تو سلطان دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ وہ دو آدمی ہیں جن کی طرف رسول الله ﷺنے خواب میں اشارہ فرمایا تھا ۔
سلطان نے ان دونوں سے دریافت کیا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟
انہوں نے جواب دیا: ہم مغرب(اندلس) کے ہیں ۔ حج کی نیت سے آئے تھے اور اس سال مسجد نبوی کے قریب رہنے کا ارادہ ہے۔
سلطان نے کہا سچ سچ بتاؤ تم کس نیت سے آئے ہو؟
سلطان نے ان دونوں سے بار بار اصرار کے ساتھ اصل حقیقت سے آگاہی کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہر بار ایک ہی بات دہراتے رہے ۔ سلطان نے انھیں وہیں چھوڑا اور اہل مدینہ کے چند لوگوں کے ساتھ ان آدمیوں کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ وہاں لوگوں نے دیکھا کہ بہت سارا مال موجود ہے اور دیوار پر لگی چھجی پر قران پاک کے دو نسخے اور چند کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز ان کی رہائش گاہ میں نہیں تھی۔
سلطان اس رہائش گاہ کا اچھی طرح معائینہ کرنے لگا اور چاروں طرف گھومنے لگا۔ اس نے اچانک رہائش گاہ میں بچا قالین اٹھا کر دیکھا۔ قالین کے نیچے لکڑی کا ایک تختہ تھا ۔ جب تختہ اٹھایا تو اس کے نیچے کھدی ہوئی سرنگ نظر آئی جو سیدھی قبر نبوی کی طرف جا رہی تھی اور مسجد نبوی کی دیوار کی حد پار کر چکی تھی۔
باشندگان مدینہ نے جب یہ منظر دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ گھبرا گئے کیونکہ ان دونوں مغربی شخصوں کے بارے میں ان کا اعتقاد بہت اچھا تھا اور وہ انھیں تقویٰ و پرہیزگاری کا مرقع سمجھتے تھے۔
سلطاں نے ان دونوں مجرموں کی پٹائی کی تو انہوں نے اقبال جرم کر لیا اور بتایا کہ عیسائی بادشاہوں نے بھاری مال و دولت دینے کا وعدہ کر کے ہمیں مغربی حجاج کے بھیس میں یہاں بھیجا ہے تا کہ ہم محمد(ﷺ) کی قبر کھود کر کسی طرح ان کا جسد اطہر نکال لے جائیں اور اسے مسیحی بادشاہوں کے حوالے کر دیں۔
جب ان مجرموں کی حقیققت بے نقاب ہو کر منظر عام پر آ گئی اور انہوں نے ساری سازش اگل دی تو سلطان نے حجرہ شریف کی مشرقی جالی کے پاس ان کی گردن مارنے کا حکم دیا، چنانچہ سر عام ان کی گردن اڑا دی گئی اور شام کے وقت انھیں آگ میں جلا دیا گیا۔
پھر سلطان نے حکم دیا کہ حجرہ نبوی کے اردگرد پانی کی سطح تک خندق کھود دی جائے اور اس میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے، چنانچہ سیسہ پگھلا کر پوری خندق بھر دی گئی ۔ اس کے بعد سلطان مدینہ سے رخصت ہو کر شام کی طرف واپس چلا گیا ۔ واللہ اعلم
(فصول من تاریخ المدینہ المنورہ لعلی حافظ )
اسی نوعیت کا ایک واقعہ فاطمی خلافت مصر میں بھی منقول ہے جو 400ہجری میں پیش آیا ۔ مورخین کے مطابق دولتِ فاطمیہ مصر کے شیعہ حاکم ابو علی حسن الحاکم نے اپنے چند گُرگوں کو حکم دیا کہ مدینہ منورہ جاؤ اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق( رضی اللہ تعالٰیٰ عنہم) کی قبریں ادھیڑ کر ان کی لاشیں مصر لے آؤ ۔ یہ گرگے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے بھاری مال و متاع کا لالچ دے کر ایک علوی کو پھانس لیا۔ اس شخص نے اپنے مکان میں زمین کی کھدائی شروع کر دی اور رسول الله کی قبر تک نقب لگانے کے لیے خفیہ طور پر اپنے مذموم کام میں جُت گیا ۔ ایک دن یہ شخص اسی طرح خفیہ کھدائی میں مصروف تھا کہ اس قدر خوفناک آندھی آئی کہ پورے مدینے کی فضا تاریک ہو گئی، پھر بادل گرجے اور بجلی اتنی زور سے کڑکی کہ یہ شخص لرز گیا اور اپنے مذموم فعل سے باز آ گیا۔ یہ معاملہ حاکم مدینہ کے علم میں آیا تو اس نے علوی اور ان پھانسنے والے مصریوں کو سخت سزا دی۔
(رو ضتہ الصفاء )
سنہرے نقوش- عبد المالک مجاہد
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں