ایک دن قاضی شریح سے ان کے بیٹے نے کہا؛
"اے اباجان! میرے اور فلاں قوم کے درمیان جھگڑا ہوا ہے، اگر فیصلہ میرے حق میں ہو تو انہیں گھسیٹ کر عدالت میں لے آؤں اگر فیصلہ ان کے حق میں ہو تو صلح کرلوں"۔
اور پھر جھگڑے کی تفصیل بیان کر دی۔
آپ نےکہا:"جاؤ انہیں عدالت میں لے آؤ"۔
وہ خوشی خوشی ان کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں چلنے کے لیے کہا، وہ عدالت میں پیشی کے لیے تیار ہوگئے، جب قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے تو انہوں نے مقدمہ کی سماعت کے بعد اپنے بیٹے کے خلاف سنادیا۔ وہ لوگ خوش و خرم واپس لوٹے اور بیٹا شرمندہ منہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آیا۔
باپ کا فیصلہ بیٹے کے خلاف،،،،؟؟؟ اﷲاکبر
جب قاضی شریح اور ان کا بیٹا گھر پہنچے تو بیٹے نے کہا:
'اباجان آپ نے مجھے رسوا کردیا، اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ افسوس یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ سنا دیا۔ لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہوں گے'۔
قاضی نے کہا:"بیٹا دنیا بھر کے لوگوں سے تو مجھے عزیز ہے، لیکن یاد رکھوا ﷲ کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے۔ مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے تو تم ان سے صلح کر لیتے اور وہ لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے۔
اس لیے میں نے کہا انہیں عدالت میں لے آؤ تاکہ عدل و انصاف سے ان کا حق انہیں مل جائے"۔
I am very impressed with you.And i am really appreciate your effort.
جواب دیںحذف کریںI am glad to see that your web site share valued info that can assist to several readers.
For more information....
Ansar Abbasi columns
M J gohar columns