تمام کچے پکے اصلی نقلی کالے پیلے سیکولرز لبرلز اور ملحد حضرات سے گزارش ہے میری پوسٹ پڑھنے سے پہلے منہ میں ہاجمولہ رکھ لیں ورنہ اپنی ذمہ داری پر پڑھیں۔ کیوں کہ میری اطلاعات کے مطابق ہر جگہ مرچیں موسم کے حساب سے لگتیں ہیں لیکن لبرلز کے ہاں جب سچ بولو تب ہی لگ جاتی ہیں۔ آخر ''فریڈم آف سپیچ'' کا زمانہ ہے بئی۔
جانے کب کون کس کو بلاک دے ایکسٹریمسٹ کہہ کر
فیس بک کی فیس بک لبرل ہوئی پھرتی ہے۔
یوں تو دنیا میں ''سانپوں'' اور ''لبرلز'' کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں مگر تمام ''سانپ'' زہریلے نہیں ہوتے۔ یہاں ہمارا موضوع ''سانپ'' نہیں بلکہ ''لبرلز'' ہیں۔ ''مسلم دنیا'' کے تناظر میں ''لبرلز'' کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک باہر کا بنا ہوا ''اصلی'' یا ''اوریجنل'' دوسرا یہاں کا بنا ہوا ''نقلی'' یا ''دو نمبر''۔ ''نقلی لبرلز'' ''دیسی ساختہ'' ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں ''دیسی لبرلز'' بھی کہا جاتا ہے لیکن چونکہ اس میں لفظ ''دیسی'' استعمال ہوتا ہے اور ''دیسی لبرلز'' کو ہر اس نام، چیز اور جگہ سے نفرت ہوتی ہے جس میں لفظ ''دیسی'' استعمال ہو اس لیئے یہ خود کو ''دیسی لبرلز'' کہلوانا پسند نہیں کرتے. جبکہ ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ''دیسی لبرلز'' خود کو ''امریکی سنڈی'' ''فارمی لبرلز'' اور ''بے غیرت برگیڈ'' کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگر ''دیسی لبرلز'' کے لیئے آج تک کا سب سے مناسب نام جو دریافت ہوا ہے وہ ''لنڈے کے انگریز'' ہے۔ تو آج ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ ''لنڈے کے انگریز'' کون کیوں کب اور کیسے ہوتے ہیں۔ چونکہ بات ہونے کی چل رہی ہے اس لیئے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
پیدا ہوا لبرل تو شیطان نے یہ کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے۔
ماہرین کے نزدیک ''لنڈے کا انگریز'' ہونا ایک ''مینٹل ڈس آڈر'' ہے۔ وہ لڑکا جسے بچپن سے اس کے ماما پاپا یہ کہتے ہوں ''بےبی! ڈانٹ گو آؤٹ سائیڈ، پلیز کم ان سائیڈ، پلے ود یور سسٹر'' اور وہ بچہ جو کلاس میں سب سے مار کھاتا ہو، جس کا پسندیدہ رنگ گلابی پسندیدہ کھیل گڈے گڑیا کی شادی، پہل دوج، آپا بوا ہو، جس کا سرمایہ حیات اس کی باربی ڈولز کی کلیکشن ہو، تو سمجھ جایئے وہ لڑکا بڑا ہو کر ''لنڈے کا انگریز'' بنے گا۔
یوں تو ''لنڈے کے انگریز'' گاہے بہ گاہے اپنی عالمانہ ٹائیپ جاہلانہ گفتگو سے عوام کو محظوظ کرتے ہی رہتے ہیں مگر پھر بھی ان کے شب روز اسی انتطار میں گزرتے ہیں کہ اسلام یا پاکستان سے متعلق کوئی بری خبر ملے کوئی پاکستانی چوری کرتا پکڑا جائے کوئی دھماکہ ہو کسی ملک کا جہاز گم ہوجائے بس پھر یہ ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے نہ رکنے والی دانش وڑانہ گفتگو۔ دلیل وہی دی جاتی ہے جو سعادت حسن منٹو نے دی تھی کہ اگر معاشرے میں گندگی غلاظت ہے تو میں تو دکھاوں گا۔ ان ''لنڈے کے انگریزوں'' کی مثال اس مکھی کی طرح ہے جو اگر پھولوں کے اوپر بھی اڑ رہی ہو تو غلاظت ڈھونڈ نکالتی ہے اور بیٹھتی غلاظت پر ہی ہے۔ خیر پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔
''ویسٹرن لبرل'' گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور یہ ''لنڈے کے انگریز'' ''گدھے'' کی طرح ڈھیچو ڈھیچو کرتے ہوئے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کینہ بغض اور زہر ان میں ایسے بھرا ہوا ہوتا ہے جیسے ''کوکومو'' میں چاکلیٹ۔ امید ہے آپ کو ''لنڈے کے انگریزوں'' کے بارے میں خوب پہچان ہوگئی ہوگی۔
آخر میں ''لنڈے کے انگریزوں'' کی نذر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر۔
ﺍﺭﺗﻘﺎﺀ ﭘﺮ ﺑﻬﻰ ﺁﺩﻣﻰ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ،
ﻳﺎ ﺍﻟﮩﻰ ﻳﮧ ﻛﻴﺴﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﮨﻴﮟ
بشکریہ: انگوٹھا چھاپ
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں