اویس بیگ نئی نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ انٹرویو کا بھی آخری مرحلہ، یہ تقریباً طے تھا کہ اسے نوکری ملنے والی ہے۔ انٹرویو سٹیٹ لائف بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر تھا۔ وہی سٹیٹ لائف جو بچپن سے ہمیں اے خدا میرے ابو سلامت رہیں کی دعا سنواتی رہی ہے۔ بلڈنگ میں آگ لگی جو لوگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف تھے وہ یا تو سیڑھیوں سے نیچے آئے یا چھت پر جا کر جان بچائی۔ اویس بیگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف نہیں تھا اور غالباً دھواں بھرنے کے بعد ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے ایک کھڑکی کھولی اور آٹھویں منزل سے باہر لٹک گیا۔
بڑے شہروں کی بڑی عمارتوں میں کبھی کبھار ایسے سانحے ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی اویس بیگ کھڑکی سے لٹکا اس سے آگے جو کچھ ہوا وہ ہمارے موجودہ حالات ہماری بڑھتی ہوئی یاسگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کتنی دیر تک کھڑکی تک کھڑکی سے لٹکا رہا۔ ایک اخبار نے پندرہ منٹ لکھا ہے ایک نے نصف گھنٹہ۔ لیکن کم از کم اتنا وقت ضرور تھا کہ سینکڑوں لوگوں کا ہجوم بھی اکھٹا ہوگیا، فلم بھی بن گئی اور ٹی وی چینلوں پر لائیو کوریج بھی شروع ہوگئی۔
ہمیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ میڈیا کو یہ تصویریں دکھانی چاہیئیں تھیں یا نہیں ویسے دنیا کا شاید ہی کوئی اخبار یا ٹی وی ہو جو اس طرح ڈرامائی تصویر دکھانے سے گریز کرے۔ لیکن ایک دوسری تصویر جو میں نے کہیں نہیں دیکھی وہ ان سینکڑوں لوگوں کی تھی جو مبہوت کھڑے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے، آٹھویں منزل سے لٹکے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے۔
درجنوں ایمبولینس، کئی فائربریگیڈ کی گاڑیاں اپنے کام میں مصروف تھیں لیکن اس ہجوم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا یہ سینکڑوں لوگ سوائے آسمان کی طرف دیکھنے کے اور دل ہی دل میں اویس کی سلامتی کی دعا کرنے کے علاوہ کچھ کر سکتے تھے؟
کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی!
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں اور کبھی کبھی پارکوں میں سول ڈیفنس اور فائر بریگیڈ والے اپنے کراتب کا مظاہرہ کرتے تھے تاکہ عام شہری سیکھیں کہ آتش زدگی کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ اس کا ایک لازمی حصہ یہ ہوتا تھا کہ ایک رضاکار کو آگ سے جان بچانے کے لیے اوپر کی منزل سے چھلانگ لگانی ہوتی تھی۔ نیچے آٹھ یا دس لوگ ایک دری یا کسی موٹے کپڑے کی چادر اپنی پوری قوت سے تان کر کھڑے ہوتے تھے اورگرنے والا بحفاظت زمین پر پہنچ جاتا۔
اویس بیگ کو آٹھویں منزل سے لٹکا دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہ آیا کہ سٹیٹ لائف بلڈنگ زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے واقع ہے اور زینب مارکیٹ کراچی کی کپڑے کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر قالینوں کی دریوں کی دوکانیں ہیں، رنگ برنگی رلیاں بھی ملتی ہیں کیا کسی ایک شخص کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجائے آسمان کی طرف دیکھنے اور دعا کرنے کے بھاگ دوڑ کر ایک دری کا انتظام کیا جائے جوگرنے والے کی جان بچا سکے۔
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔
آٹھویں منزل سے گرنے والے شخص کے لیے مضبوط ہاتھوں سے تانی ہوئی ایک چادر ہی واحد معجزہ ہو سکتی ہے اور یہ معجزہ صرف ہجوم میں موجود کچھ لوگ ہی کر سکتے ہیں ورنہ کھڑکی سے لٹکے ہوئے لڑکے کے بازو آخر کار شل ہوں گے اور بہت نیچے کنکریٹ کا فرش اور ایک ہجوم کی دعائیں اس کا استقبال کریں گی
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
You are right. Camera man, his crew and every one was watching it but they did nothing. Is money greater than the life of a man??? Shame on camera man who recorded this video just to get money.
جواب دیںحذف کریںKitne afsoos ki bat he. itni be hissi paida ho chuki hai qoom mai k unhain itna kheyal nahi aya. 1 bachy ko bhi pata hoga k kisi ko bachany k leye nechy koi c aisi cheez lai ja sakti thi k jis sy us shakhs ki jan bach sake. magar be hisii ka alam, kisi ko yeh kheyal nahi aya
جواب دیںحذف کریں