وہ
فلم ڈراؤنی تو بہت تھی لیکن تھی کمال کی۔آپ
میں سے بہت سے دوستوں نے بھی وہ فلم ضرور دیکھی ہو گی۔مجھے اس کا نام یاد نہیں۔میں
آپ کو اس کی سٹوری سناتا ہوں۔
اس
فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ انسانی شکلوں کی خون آشام بلائیں ہوتی
ہیں۔آپ ان کو آپ ڈریکولاز کہہ سکتے ہیں۔
وہ
لوگ چالیس پچاس کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کا مسکن شہر سے دور ایک ویران عمارت کا
تنگ و تاریک تہہ خانہ ہوتا ہے۔وہ لوگ گھپ اندھیری راتوں میں اس تہہ خانے سے نکلتے
ہیں اور شہر میں پھیل جاتے ہیں۔وہ سب کے سب انتہائی خوش شکل اور خوش لباس ہوتے ہیں
جس کے سبب لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں وہ لوگ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں
کو بہلاتے پھسلاتے ہیں اور دھوکے سے اپنے ویران مسکن میں لے جاتے ہیں پھر سب اکٹھے
اپنے اپنے شکار کی گردنوں میں اپنے دانت گاڑ کر ان کا خون پی جاتے ہیں۔
انسانی
خون ان کے لئے ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے خون پینے کے بعد ان کے جسموں میں انتہا
کی طاقت آ جاتی ہے۔ایک بڑی عجیب بات ہوتی ہے انسانوں کا خون پینے والوں کا آپس میں
بہت اتفاق ہوتا ہے اور انتہا کی آپس میں محبت ہوتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ
اقلیت میں تھے اور اقلیت میں اتحاد انتہا درجے کا ہوتا ہے۔
ان
کا ایک سردار بھی ہوتا ہے جو ایک ایسا جادو کیا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے
لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔اس لئے جب کوئی شخص شہر سے غائب ہوتا ہے تو شہر کے
لوگ اس کے غائب ہونے کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔بلکہ کئی تو خوشی محسوس کرتے ہیں۔یوں
ان کا شکار اور بھی آسان اور ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔ وہ لوگ روشنی سے
انتہائی خوفزدہ رہتے ہیں اور اندھیروں سے محبت کرتے ہیں اندھیرا ان کی زندگی ہوتا
ہے اور روشنی موت۔ان میں سے اگر کوئی غلطی سے سورج کی روشنی میں چلا جاتا ہے تو وہ
مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ ایک بار ان کا سربراہ نفرت کا جادو کسی وجہ سے نہیں کر پاتا۔
اس
رات اس کے ساتھی انسانوں کے شکار پر جاتے ہیں جب وہ اپنے شکار کو گھیر کر واپس
لوٹتے ہیں تو کچھ لوگ ان کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کے مسکن تک
پہنچ جاتے ہیں وہاں ان کا مقابلہ ان ڈریکولاز کے ساتھ ہوتا ہے جس میں انسان ان کی
بے پناہ طاقت کی وجہ سے شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ادھر
انسانوں کو کسی طرح اس راز کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی ان کے لئے موت
ہے۔چنانچہ وہ دن کی روشنی میں ان کے مسکن پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کے تہہ خانے کو
تباہ کرتے ہیں سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے جس کے باعث وہ تمام کے تمام مٹی کا
ڈھیر بن جاتے ہیں۔
مجھے
پاکستان کی تاریخ دیکھ کر وہ فلم یاد آجاتی ہے۔
آزادی
کے ساتھ ہی پاکستان کی جھولی میں بھی کچھ اسی طرح کے خون آشام جاگیردار اور سرمایہ
دار خاندان آ گرے۔
یہ
تمام خاندان آپس میں بہت متحد ہیں۔یہ باری باری اس قوم کی رگوں کا خون چوستے ہیں
اور خون پی پی کر طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔یہ سب علم اور شعور کی روشنی سے سخت
خوفزدہ ہیں۔قوم کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔علم اور شعور کی روشنی
پھیلنے سے ان کے وجود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے۔یہ تمام بہت متحد ہیں لیکن قوم کو
تعصب کے جادو سے اِنہوں نے منتشر کر رکھا ہے۔ہماری آپس کی نفرت ہمیں ان کے خلاف
متحد نہیں ہونے دیتی۔ جس کے باعث یہ کسی بھی خطرے سے محفوظ ہماری رگوں میں سے خون
نچوڑ رہے ہیں۔
کب
یہ نفرت پھیلانے والا جادو کرنا بھولیں گے؟
کب
قوم متحد ہو گی؟
کب
علم اور روشنی کا سورج طلوع ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔جس کی روشنی سے اِن کے وجود مٹی کا ڈھیر
بن جائیں گے؟
دیوانہ
مجنوں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں