پھر سوویت یونین کے ساتھ جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اس ملک ہی نہی پوری دنیا کی سڑکوں نے اس عالمی طاقت کو رسوا ہوتے دیکھا۔
اس کے بعد جس امریکا کو یہ کمیونسٹ پچھتر سال گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے، اسی کی پوجا شروع کر دی۔ یعنی آقا تبدیل ہو گئے، وفاداریاں بدل گئیں۔ وہی گارنٹیاں جو یہ سوویت کو دیتے تھے اب امریکہ کو دینے لگے۔
انہیں ادراک ہی نہی تھا کہ ہونے کیا والا ہے۔ اس وقت یہ طاقت کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے کہتے تھے کہ یہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں۔ یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح مارے جائیں گے۔ ایسے میں پورے ملک میں میرے جیسے چند”بیوقوف“ لوگ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے۔ آج موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے۔ کسی قوم کے سینے عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے پر آویزاں ہیں۔
اس کے بعد کی صورت حال بہت دلچسپ ہے، اور سوال بہت اہم کہ اب ان کا نیا آقا (امریکہ) بھی مار کھا کر بھاگنے کو تیار ہے۔ اللہ کے شیروں نے جو کام سوویت کے ساتھ کیا تھا وہی اب امریکہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔
ایسے میں ان صاحب سے اور ان جیسے تمام لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اب کس بت کو پوجو گے؟؟؟؟؟
jazak Allah bhai
جواب دیںحذف کریں