ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

27 دسمبر، 2012

غیر مشروط اطاعت


جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادے سے نکلے اور راستے میں روک لیے گئے۔ جب حضرت عثمان غنی کو گفتگو کے لیے بھیجا گیا۔ جب احرام پوش عثمان غنی سے کفارِ مکہ نے کہا:
 ’’عثمان تم آ ہی گئے ہو تو عمرہ کرلو‘‘۔

 اور جب عثمان غنی نے جواب دیا:

 ’’میرے رب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کا اشارہ کیا ہے، میں آپ کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوا۔ میرا عمرہ آپ کے عمرہ سے جڑا ہوا ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ سے روکا جاتا ہے تو میرا عمرہ کیسے قبول ہوگا‘‘۔

 کعبۃ اللہ سامنے ہے، دل طواف کو مچل رہا ہے، لیکن عثمان غنی جانتے ہیں ’’عمرہ‘‘ پتھروں کی چار دیواری کے طواف کا نام نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے، غیر مشروط اطاعت کا۔

حضرت عمر طواف ِکعبہ کررہے ہیں۔ حجر اسود کو چومتے ہیں اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں: ’’اے کالے پتھر، میں تجھے کبھی نہ چومتا اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا۔‘‘ حجر اسود نہیں، اطاعتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اہم ہے۔۔۔ غیر مشروط اطاعت۔

 اور ہمارا حال کیا ہے! پرویزمشرف۔۔۔ شراب میں ڈوبا ہوا، شباب کی رعنائیوں میں الجھا ہوا، ہوسِ اقتدار کا مارا، غیر ملکیوں کو ہی نہیں اپنے شہریوں کو بھی ڈالروں کے عوض بیچ ڈالنے والا۔۔۔ مردوں کو ہی نہیں عورتوں کو بھی، عافیہ کی بربادی کا ذمہ دار، لال مسجد میں بے شمار بچیوں کا قاتل۔۔۔ سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے: ’’مجھے کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے‘‘۔ ارے جاہل یہ اعزاز تو ابوجہل کو بھی حاصل تھا۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ کے کلید بردار نے کہا: ’’نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس فہرست میں شامل نہیں ہو جن کے لیے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھلتا ہے‘‘۔ تو کیا واقعی اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محروم تھے؟ اور وہ جن کے لیے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھلتا تھا  ’’فلاح یافتہ‘‘ تھے؟  ’’محترم‘‘ تھے؟ نہیں،  ہرگز نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو  کعبہ کے باہر بھی محترم تھے۔ اور ابوجہل کعبۃ اللہ کے اندر بھی ابوجہل ہی تھا۔ 

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں