ان لوگوں میں ایک نام ندیم فاروق پراچہ کا بھی ہے۔ ندیم فاروق پراچہ روزنامہ ڈان میں ہفتہ وار کالم تحریر کرتے ہیں۔ ان کی خاص بات صرف یہ نہیں ہے کہ وہ سیکولر اور لبرل ہیں، بلکہ ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں حقیقی معنوں میں مذہبی لوگوں، مذہبی جماعتوں اور مذہبی خیالات سے نفرت ہے۔ ان کی نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اکثر کالموں میں یہ نفرت شدت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نفرت کے مسلسل اظہار سے نہ اکتاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں۔ لیکن 16 دسمبر 2012ءکے کالم میں انہوں نے مذہبی لوگوں اور مذہبی خیالات سے نفرت کی ایورسٹ کو سر کیا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ندیم فاروق پراچہ نے کراچی میں ہونے والے تین روزہ عالمی میلہ کتب کا دورہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ کتابوں کے عالمی میلے میں کتابوں کے اکثر اسٹالز پر مذہبی کتب فروخت ہورہی تھیں۔ یہاں تک کہ جن اسٹالز پر عام ادب اور موسیقی سے متعلق کتب فروخت کے لیے رکھی گئی تھیں ان پر بھی ایک حصہ مذہبی لٹریچر کے لیے مخصوص تھا۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے کہ کتب میلے کا ایک پہلو یہ تھا کہ اس میں ”ڈاڑھی والوں کی“ اکثریت تھی۔ یہ لوگ اپنی برقع پوش خواتین اور بچوں کے ہمراہ کتب میلے میں آئے ہوئے تھے اور دھڑادھڑ کتابیں خرید رہے تھے۔ مذہبی لوگوں کے بارے میں سیکولر لوگوں کے قائم کیے ہوئے ”امیج“ کو دیکھا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو کتب میلے کے مناظر سے خوش ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ کتب میلے میں مذہبی لوگ اسلحہ نہیں کتابیں خریدنے آئے تھے، اور وہ کتاب میلے سے ”اسلحہ بردار“ نہیں بلکہ ”کتاب بردار“ بن کر نکل رہے تھے۔
سیکولر اور لبرل خود کو علم دوست اور تخلیقی رجحانات کا پاسبان کہتے ہیں، چنانچہ ندیم فاروق پراچہ کو یہ دیکھ کر دلی مسرت ہونی چاہیے تھی کہ مذہبی لوگ علم اور تخلیق کے عاشق بن گئے ہیں اور انہوں نے ٹنوں کے حساب سے لٹریچر تخلیق کرڈالا ہے۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ اس بات پر خوش ہونے کے بجائے سینہ کوبی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ندیم فاروق پراچہ کتاب میلے میں ترکی کے اسٹال پر گئے مگر یہاں بھی ان کے لیے اذیت کا سامان مہیا تھا، کیونکہ ترکی کے اسٹال پر ترکی کے مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن صاحب کی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ مذہبی لوگوں سے ندیم فاروق پراچہ کی نفرت کا اشتہار ان کا یہ بیان ہے کہ میلے میں آئے ہوئے مذہبی لوگ لمبی لمبی ”ڈاڑھی والے “ تھے، عورتیں باپردہ تھیں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے بچے پرشور یا ندیم فاروق پراچہ کے اپنے الفاظ میں “Very Noisy” تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے سیکولر اور لبرل لوگوں کے بچے بہت ”خاموش طبع“ ہوتے ہیں۔ دنیا میں تہذیب کا جو بھی معیار متعین کیا جائے گا اس کے تحت بچوں کے شور شرابے کو کوئی بھی برا نہ کہے گا۔ اس لیے کہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ مگر ندیم فاروق پراچہ صاحب کی مذہبی لوگوں سے نفرت نے بچوں تک کو ”معاف“ نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں بخشا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ کتب میلے کے ایک ہال میں ایک صاحب مائک پر پوچھ رہے تھے ”پاکستان کا مطلب کیا؟“ اور بچے پوری قوت کے ساتھ اس کا جواب دے رہے تھے ”لا الہ الا اللہ“۔ تجزیہ کیا جائے تو ندیم فاروق پراچہ کو مذکورہ سوال ہی سے نہیں بلکہ مذکورہ سوال کے جواب سے بھی تکلیف ہوئی۔ وہ اس سلسلے میں اپنی شخصی، اجتماعی اور فکری تہذیب کو اس سطح تک لے گئے کہ انہوں نے یہ لکھنا ضروری سمجھا کہ جو بچے ”پاکستان کا مطلب کیا“ کا جواب ”لا الہ الا اللہ“ کہہ کر دے رہے تھے ان کے ہاتھ میں پاپ کارن، لالی پاپ اور جوسز کے ڈبے تھے، اور یہ بچے لا الہ الا اللہ تو کہہ رہے تھے مگر پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس کے ڈبے کو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ بات ندیم فاروق پراچہ نے اس طرح لکھی ہے جیسے ”لا الہ الا اللہ“ بچوں کو پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس پینے سے روکتا ہے۔ غالباً ندیم فاروق پراچہ کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ پاپ کارن، لالی پاپ اور جوس ”جدیدیت“ کی علامت ہیں اور لا الہ الا اللہ ”قدامت“ کی علامت ہے، اور ان دونوں میں ایک تضاد ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل لوگوں کی فکری سطح کتنی بلند ہے اور وہ جدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو کتنی ”گہرائی“ میں اتر کر دیکھ اور بیان کررہی ہے۔
کتاب میلے ”ذہین“ اور” Smart“ لوگوں کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ لیکن ندیم فاروق پراچہ کے کالم کے ساتھ ڈان کے ابڑو صاحب کی بنائی ہوئی جو ”Illustration“ شائع ہوئی ہے اس میں مذہبی عورتیں برقع میں چھپی ہوئی ہیں اور مذہبی لوگ کرتے، پاجامے اور ٹوپی میں دکھائے گئے ہیں۔ بیچاروں کی ڈاڑھیاں ہی نہیں پیٹ بھی بڑھے ہوئے ہیں، بلکہ عوامی زبان میں ان کی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔ مطلب یہ کہ مذہبی لوگ کیا سمجھتے ہیں وہ کتاب میلے میں جائیں گے تو دنیا ان کو علم دوست، مہذب، ذہین اور Smart سمجھے گی؟ یہ ان کی بھول ہے۔ پاکستان کے سیکولر عناصر ان کو یہ ”امیج“ کبھی” Enjoy“نہیں کرنے دیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ندیم فاروق پراچہ کے کالم میں سب کچھ نفرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کالم کے آخری دو فقرے بہت اچھے ہیں۔ ان کا لطف انگریزی ہی میںہے۔ چنانچہ انہیں انگریزی ہی میں ملاحظہ کیجیے۔ ندیم فاروق پراچہ نے لکھا ہے:
nadeem paracha magrib zda zehen rakhta ha isjesy log deen k to kia khud apny sath bhi mukhlis nahi hoty han ager hoty to zra QURAN utha k parh lety k us ma kia likha ha.
جواب دیںحذف کریںLet the narrow minded secularist and Liberals enjoy the friendship of US. We know what they have done in Egypt. They (like Al-Biradi - the US installed puppet) are responsible for inviting the military coup that lead to martyrdom of 6,000 innocent and peaceful Egyptians.
جواب دیںحذف کریں