ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

11 فروری، 2014

مگر کیا کریں کہ شریعت کا ڈر ہے

ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کا بھی آج کل وہی حال ہوگیا ہے، جس سے بے حال ہو کر ایک زمانے میں مرحوم ضمیرؔ جعفری ہر آئے گئے  سے پوچھتے پھرتے تھے کہ:
یہ دو دِن میں دُنیا کو ’کی‘ ہو گیا ہے
کہ ہر آدمی مولوی ہو گیا ہے
جسے دیکھیے اپنی آنکھیں میچے اور بھاڑ سامنہ کھولے ’شریعت‘ پر خطبہ دیے جارہا ہے۔ کوئی سنے یا نہ سنے۔ اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو ’شریعت‘ کو خوب سمجھا سمجھا کر اُسے ’درسِ جمہوریت‘ دے رہے ہیں۔اُس جمہوریت کا درس جس میں مقتدر اعلیٰ خدا نہ ہو اور جس کے مقنن اعلیٰ مصطفی ؐ نہ ہوں۔ مگر دیکھیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہور عوام نے ’اتفاقِ رائے‘ سے جو 1973ء کادستور منظور کیاتھا، اُس میں بھی ’قرآن و سنت‘ کی بالادستی کا قانون موجود ہے۔طالبان اور مولانا عبدالعزیز نے ہی نہیں، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی قیادت میں بھی 500 علمائے کرام نے ’ملک میں فی الفور شریعت نافذ‘ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔سید منورحسن کہتے ہیں کہ ’شریعت ڈرنے یا ڈرانے کی چیز نہیں ہے، شریعت تو رحمت ہے‘۔ لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ ’بندوق سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی‘۔ یعنی شریعت آئینی طریقے سے نافذ ہوگی۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ’آئین میں پہلے ہی قرآن و سنت کا نظام موجود ہے‘۔ گویا شریعت اورآئین میں کوئی تصادم نہیں، جو ہمارے بہت سے دانشور ظاہر کر رہے ہیں۔ متعدد آئینی ماہرین بھی کہہ چکے ہیں کہ ’نفاذِ شریعت کا مطالبہ آئینی مطالبہ ہے‘۔مگر اس کے باوجود جو لوگ ’شریعت‘ کی مخالفت کر رہے ہیں اُنھیں ڈر صرف اس بات کا ہے کہ ’شریعت‘ نافذ ہوگئی تو شراب و زنا اور سود اورسٹہ بند ہو جائے گا۔پھر ’تیرا کیا بنے گا کالیا؟‘کچھ دنوں کے بعد شریعت سے ڈرنے اور ڈرانے والے یہ لوگ آئین پاکستان کی بھی مخالفت شروع کر دیں گے۔یہ کہہ کر کہ: ہم آئین پاکستان کو مانتے تو ہیں ۔۔۔ ’مگر کیا کریں کہ شریعت کا ڈر ہے‘۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ طالبان ہمارا طرزِ زندگی بدل دینا چاہتے ہیں، وہ دراصل یہ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں ’شریعت‘ ہمارا طرزِ زندگی بدل دے گی۔دراصل انھیں وہ طرز زندگی نہیں چاہیے جس میں ’خدا‘ موجود ہو۔ جس میں رسولؐ کی اطاعت لازم ہو۔وہ ایک بے خدا اور بے لگام قسم کا نظام چاہتے ہیں۔ ایسا نظام کہ جس میں ’حیا‘ نہ ہو اور وہ جو چاہیں کرتے پھریں۔آئیے ذرا ہم پلٹ کر پیچھے دیکھیں۔ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ پچھلی صدی (بلکہ پچھلے ہزاریے) میں ایک تہائی دُنیا پر ’سوشل اِزم‘ کی حکمرانی تھی۔ مگر ’سوشل اِزم‘ کے کفرہونے میں ہمارے علماء کو کبھی تذبذب ہوا نہ عوام کو۔ اِ س ضمن میں تین سو تیرہ علماء کا یہ فتویٰ بہت مشہور ومقبول ہواکہ:’’سوشل اِزم کفرہے‘‘۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس نظریہ کی بنیاد ہی کفرو اِنکار پر تھی۔تمام خداؤں کااِنکار کرنے کی دھن میں اِس نظریہ کے بانیان ’خدائے ذوالجلال و الاکرام‘ کا بھی اِنکار کربیٹھے۔ اُنھوں نے ہر مذہب کو ’افیون‘ قرار دیا، حتیٰ کہ ’دین حق‘ کا مطالعہ کیے بغیر اور اس کے نظام کو سمجھے بغیر ’حق‘ سے بھی بغاوت کا اعلان کردیا پھرزمین کے کچھ خطوں پر اقتدار حاصل ہوجانے کے نشہ سے سرشار ہوکر’ خدا‘ کو دیس نکالا دینے کا اعلان بھی کردیا۔ اب تو وہ دیس ہی نہیں رہا جس سے خدا کونکالا گیا تھا۔کیوں کہ خداہی نے اُس دیس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ٹکڑے کے ذکر پر مصوری کا ایک ٹکڑا یعنی ایک فن پارہ یاد آگیا۔ایک بار ایک مصور نے نطشے کے ایک مشہور قول کا بہت دیدہ زیب اور خوبصورت کتبہ بنایا:


(God is dead” \(Nietzsche‘‘
’’خدامرچکاہے‘‘۔(نطشے)۔

اگلا شہ پارہ اُس نے نطشے کے مقبرے کابنایا۔ قبر پر ایک خوبصورت کتبہ نصب کیا ۔ اُس کتبے پر نہایت پُر کشش کیلی گرافی کرتے ہوئے لکھا:
Nietzsche is dead”/ (God
‘‘
’’نطشے مرچکاہے‘‘۔(خدا)۔


سوشل اِزم کے برعکس’مغربی جمہوریت‘ کو کفر قرار دینے میں ہمارے عوام ہی کو نہیں ہمارے علماء کو بھی تذبذب رہا ہے۔اگرچہ بعض علمائے دین نے یہ بھی کہا:’’لااِلٰہ اِلّا اﷲ کے مقابلہ میں جمہوریت کا کلمۂ امتیاز ’لااِلٰہ اِلّا الانَام ‘ہے۔ یعنی ’عوام کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں۔جوکلمۂ کفرہے‘‘۔ ممکن ہے کہ نقلِ کفر‘ کفر نہ ہو۔مگر شاید اِس کوکفرسمجھنے میں تذبذب کی فقہی وجہ یہ ہوئی ہوکہ نظریۂ جمہوریت کے بانی کم ازکم اپنی اور اپنے زرِ کاغذی (ڈالر) کی زبانی یہ نعرہ تو لگا تے ہیں:\”In God we trust\”(ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں)۔

 چناں چہ’جمہوریت‘ کوبھی ’باخدا‘ بنانے اور پوری طرح سے مشرف بہ اِسلام کرنے کی مخلصانہ اور داعیانہ تبلیغی کوششیں شروع کر دی گئیں۔اِس نومُسلم کے لیے ’اِسلامی جمہوریت‘ کا نام بھی تجویز کردیا گیا۔پھر یہاں تک کہا گیا کہ ’جمہوریت ہی عین اِسلام ہے‘۔ خیرایسی کوششیں تو ’سوشل اِزم‘ کے غیر اِسلامی نظریات کو مشرف بہ اِسلام کرنے کے لیے بھی کی گئی تھیں۔مگر بارآور نہ ہوسکیں۔ وہاں بھی ’اِسلامی سوشل اِزم‘ کی اصطلاح گھڑی گئی تھی۔ حتیٰ کہ’عین اِسلام‘ قراردینے کے لیے اِسے بھی ’مساواتِ محمدیؐ‘ کا نام دے ڈالا گیا۔مگر مسلمانوں نے اِس کا جواب دیا:
’’ اِسلام کو غیر اِسلامی بیساکھیوں کی محتاجی نہیں ہے۔اِسلام کا اپنا معاشی نظام ہے اوراِ س کی اپنی فقہی اصطلاحات موجود ہیں‘‘۔

جواب دُرست تھا۔لیکن اگر’اِسلامی سوشل اِزم‘ کے لیے ہمارے فقہاء کے یہاں’ اِسلام کا عدلِ اجتماعی‘ کی اِصطلاح ملتی ہے تو ’اِسلامی جمہوریت‘ کے لیے بھی اِسلام میں قرآنِ کریم سے ماخوذ ’شورائیت‘ یا ’مشاورت‘ کی اپنی اصطلاح موجود ہے۔ قرآنِ مجید کی بیالیسویں سورہ کاتونام ہی ’سورۂ شُوریٰ‘ ہے۔ جومسلمانوں کی بابت بتاتی ہے کہ: ’’وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ‘‘۔(الشوریٰ۔38) یعنی مسلمان: ’’اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘۔ (یہاں شخصی، فوجی یاگروہی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں)۔

’سوشل اِزم‘ کوپھیلانے والوں نے اگر تاریخ کے صفحات پر ’سمر قندو بخارا کی خونیں سرگزشت‘ چھوڑی۔ تو دُنیابھر میں بالجبر ’جمہوریت پھیلانے والوں‘ کی طرف سے بھی عراق اورافغانستان کی لرزہ خیز داستان چھوڑی جائے گی۔ اِس میں ابوغرائب جیل کا بھی ذکرآئے گا۔بگرام جیل کابھی اورخلیجِ گوانتاناموکابھی۔ پاکستان میں کی جانے والی خوں ریزیاں اِن قصوں پرمستزاد ہوں گی۔
القصہ مختصر ۔ سید ابولاعلیٰ مودودیؒ کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔آج سوشل اِزم کو سَر اور منہ وغیرہ چھپانے کے لیے ماسکو میں محدود ہوجانا بھی مشکل نظرآ رہاہے۔ قوموں کی روِش سے ہمیں ہوتا ہے یہ معلوم ۔۔۔ کہ بہت جلد سرمایہ داری اور اس کے پھیلاؤ کے اوزار ’جمہوریت‘ سے خود واشنگٹن کے لوگ بھی بیزار ہوجائیں گے۔ پیش گوئی کا دوسرا حصہ پورا ہوجائے گا۔ تب اقبالؔ کی صدا ’اے نوجواں مُسلم‘کہہ کراپنے جوانوں ایک بارپھر پُکارے گی:
اُٹھ ! کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

تب یہ آئین پاکستان ہوگا جس کے ذریعے سے ہمارا نوجوان (یعنی ہم سے اگلی نسل) دُنیا کے سامنے رحمت و رافت کے ایک مبسوط نظام کا عملی خاکہ پیش کرسکے گا۔اُس وقت ان پر فخر کرنے کو ۔۔۔ ’ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا‘۔ 


ابو نثر



0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں