اب ہم ہدف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ مجھے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو بس ایک سپاہی ہوں، ایک قاتل مشین جو اپنا کام کر رہی ہے۔
پریتی تشکیل Phantom Formationسوئچوں کا جائزہ لو، فضا سے زمین۔
میں نے اپنے ونگ مین کو حکم دیا، اور مرکزی ہتھیار کے سوئچ کو گھمایا۔ میں مطمئن ہوں کہ میں ان کے بکھرتے ہوئے جسموں کو نہیں دیکھ پاؤں گا ،نہ ہی ان کی چیخیں سن پاؤں گا۔ میں نے حملے کیلئے جیٹ طیارے کی نوک کو زمین کے رخ پرکیا۔
پریت قیادت میں ہے۔ بصری ہدف
میری ہتھیلیاں پسینے سے تر ہیں۔ جیسے جیسے میری بلندی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے زمین پر گھر بڑے نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے میں پستی کی طرف آرہا ہوں میر روح کانپ رہی ہے ۔ اب مستحکم۔ میں ایک لمبا سانس لیتا ہوں۔
اور سرخ بٹن دبا دیتا ہوں، جیسے ہی بم نکلتے ہیں تو میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپاہٹ اور ہلکا سا جھٹکا محسوس ہو تا ہے۔
قیادت ختم ہوتی ہے پمپنگ سیدھے رخ مڑیں۔
اپنے کندھوں پر بھاری وزن کے ساتھ میں تباہ شدہ گھروں میں سے آگ اور دھواں اٹھتا دیکھ رہا ہوں۔ کوئی چیخوں کی آواز نہیں، صرف خاموش دھواں۔ محض ضمنی نقصان۔ میں گھر کی طرف واپس مڑتا ہوں،اپنے بچوں کی طرف۔ میں ان کو اس تمغے کے بارے میں نہیں بتاؤں گا جو میں نے پہن رکھا ہے بلکہ میں ان کو پریوں کا افسانہ سناؤں گا۔
ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے سنسناتے ہوئے بم اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ منہدم ہوتی ہوئی دیواریں ،گرتی ہوئی چھتیں ، ملبہ، دھول،دھواں، اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں آوازیں ، سسکیاں اورخاموش آہیں، سب مل کر اس گردش کرتی دنیا میں دکھ او ر درد کا ایک نیا باب رقم کرتی ہیں۔ ایک نوجوان دھول میں سے اٹھتا ہے، اور لوہے اور پتھروں کے ڈھیرمیں سے اپنی بہن کو کھینچ کر نکالتا ہے۔ جو خون میں لت پت مگر ابھی زندہ ہے۔ اپنے بے جان بچے کو سینے سے لگائے خاموشی سے کچھ پڑھ رہی ہے، شاید کہ وہ کوئی دعا ہے۔طبیب کہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے گی لیکن اپنی بینائی اور سماعت کھو چکی ہے۔ اور یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ وہ اپنے بچے کے علاوہ اب کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ اور اسکی معصوم آوازو ں کے علاوہ کچھ اور سننا بھی نہیں چاہتی۔ اور اس کیلئے دیکھنے کو بچا ہی کیا ہے؟جلتے ہوئے مزید گھر؟ اور سننے کیلئے بچا ہی کیا ہے؟بے غیرت مسلم حکمرانوں کی بڑبڑاہٹ؟کیا کوئی ہوشمندی بچی بھی ہے یہاں؟اس نوجوان کیلئے ہوشمندی تو بس جنون ہی ہے۔ اب وہ دوسرے پار جائے گا اور نہ صرف خود مر جائے گا بلکہ اپنے ساتھ ان ہوشمندی کے بہروپیوں کو بھی ساتھ لے جائے گا، جنہوں نے اپنا ضمیر شیطان کو بیچ دیا ہے۔ اب اس کو نہ ہی کسی کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔ اب وہ دہشت ہے اصل کرداروں کو پہچان گیا ہے۔
ارضِ مقدس، فلسطین سے آتی تصویریں دلخراش ہوتی ہیں۔ملبے کا ڈھیر جوکہ کبھی گھر ہوا کرتے تھے، کچلے ہوئے اجسام نہیں ملبے سے نکالا جا رہا ہے ۔فٹ پاتھ پر قطار میں رکھے نومود بچوں کی میتیں ، ایک بے بسی سے روتی کرب میں مبتلا بزرگ خاتون۔میں سوچتا ہوں کہ یہ مناظر کہیں پاکستان کے کسی حصے کے تو نہیں، اور دبے ہوئے ضمیر کا یہ پائلٹ کہیں ہمارا تو نہیں۔
کیا عجیب بات ہے کہ ارضِ مقدس فلسطین سے سے گھر لوٹتے وقت ہم اپنے رویوں کو جذبات سے ہٹا کر خود ساختہ مصلحت کوشی کی جانب لے جاتے ہیں، اور فوراً جانبدار بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جذبات کو مصلحت سے الگ کر سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پیارے ہی داؤ پر لگے ہوں، وہ ضمیر جودوسروں کے درد پر بے چین نہ ہوں، مردہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ۲۰ ہلاکتیں، دلبدین میں ۴۰ افراد قتل، ڈبوری میں ۸۰، محض اعدادو شمار ہی بڑھ رہے ہیں۔ جن کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ او رپتھر دل دوبارہ اپنے معمولاتِ زندگی میں کھو جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر جاری مباحثے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم بحیثیتِ معاشرہ بے حسی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ نام نہاد ہوشمندی کے راستے پر چلتے رہنے کے دہائیوں کا لا متناہی سلسلہ ہوشربا ہے ۔ ہم نے اپنا سب کچھ قابلِ فروخت بنا دیاہے، اپنی عزت، غیرت، سلامتی، آزادی، اور اپنے نظریات۔ یہاں تک کہ اپنا رب بھی۔ اور اس کے بدلے ہم نے حاصل کیا کیا ہے؟
پچھلے ۱۲ سالوں سے ہم اپنے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ٹھونس رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔ پچھلے ۱۲ سال سے ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں، اور اپنی نام نہاد حکمت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جبکہ کٹھ پتلی سربراہ ہمارے ضمیر سے کھیل رہا ہے۔ کیا بادی النظر میں اس کا کوئی اختتام یا امید کی کوئی کرن بھی ہے؟جی ہاں، یہ جنگ تو ہماری ہی ہوتی لیکن ہم نے بدقسمتی سے غلط خیمہ چن لیا ہے۔
General Shahid Aziz
جواب دیںحذف کریں