سیلانی کو یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن سیل فون پر ایس ایم ایس کی قطار بندھی ہوئی تھی، سب کا مضمون، مدعا اور پیغام ایک سا تھا، صرف الفاظ کی ترتیب مختلف تھی۔ سیلانی نے تیزی سے تکیے کے نیچے ہاتھ مار کر ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول لیا اور جھٹ سے ٹی وی آن کر دیا۔ سامنے ایک نیوز چینل کے مارننگ شو کی اینکر خرمستیوں میں مصروف تھی۔ ان مارننگ شوز کی منطق اسے آج تک سمجھ نہیں آئی، کوئی کس حال میں ہو، بم دھماکے ہو رہے ہوں، زلزلہ آئے یا دریا چڑھ آئے، ان کا ڈھول ڈھمکا جاری رہتا ہے، ان کے شو میں شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا یہ آسیب زدہ بنگلوں میں کیمرے لے کر جنات کا انٹرویو کرنے پہنچی ہوتی ہیں۔ سیلانی نے لاحول پڑھ کر ایک اور نیوز چینل لگا دیا۔ اسکرین پر دل دہلا دینے والی پٹیاں اس کے سیل میں آنے والے پیغامات کی تصدیق کر رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بمباری کی تھی۔
نیوز چینل کی اینکر وزیرستان میں موجود اپنے نمائندے سے اس بمباری کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہ رہی تھی اور ساتھ ساتھ ناظرین کو آگاہ بھی رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے طیاروں نے طالبان کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ نیوز اینکر نے بیتابی سے اپنے چینل کے نمائندے سے پوچھا: یہ علاقہ کیسا ہے، کس قسم کی آبادی ہے، کتنا جانی مالی نقصان ہوا ہے؟
مگر نیوز چینل کا نمائندہ صرف بمباری کی تصدیق کر رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ان علاقوں تک اس کی رسائی نہیں۔ ٹیلی فون وغیرہ کا نظام نہیں ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ مگر سیلانی جانتا تھا کہ جیٹ لڑاکا طیارے کے پیٹ اور پروں کے نیچے مرغابیاں گرانے والی ائیر گنیں نصب نہیں ہوتیں۔ ان بموں، میزائلوں کا وزن سینکڑوں کلو میں ہوتا ہے، جب یہ سینکڑوں کلو بارود کسی علاقے علاقے پر گرایا جاتا ہے تو زمین تھرا اٹھتی ہے، پہاڑ لرز جاتے ہیں، وہ سوچنے لگا کہ کیا یہ انتہائی خطرناک حربہ استعمال کرنے کا وقت آ گیا تھا؟
سیلانی مسہری پر نیم دراز سامنے ٹیلی ویژن اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے تھا، وہ ایک کے بعد ایک چینل بدلتا جا رہا تھا کہ شاید کہیں سے مزید کوئی اطلاعات مل سکیں، مگر ہر چینل کا نمائندہ بمباری کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے بے خبر تھا یا ابھی اسے اور اس کے نیوز چینل کو اوپر سے اجازت نہیں دی گی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اشارہ ہو گیا اور نیوز چینلز پر بریکننگ نیوز کے دھماکے ہونے لگے۔ اطلاع یہ تھی کہ کامیاب فضائی حملے میں چالیس طالبان مارے گئے تھے، ان میں ازبک اور تاجک سمیت دیگر غیر ملکی بھی شامل تھے۔ ان کے مرکز مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ سیلانی خاموشی سے چائے کا کپ ہاتھ میں لیے یہ بریکننگ نیوز دیکھ رہا تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا۔ سیلانی کا کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا، اس نے کال کاٹ دی، مگر پھر وہی نمبر سیل فون کی اسکرین پر دوبارہ نمودار ہو گیا۔ سیلانی نے پھر لائن کاٹ دی، لیکن فون کرنے والا اس سے بات کرنے پر مُصر تھا، وہ دوبارہ کال کرنے لگا۔ سیلانی نے یہ سوچ کر کہ پتا نہیں کون کس مجبوری میں بات کرنا چاہ رہا ہے، کال وصول کر لی۔
"سیلانی بھائی! آپ کدھر ہیں، میں میں..... میں عبداللہ جان ہوں، آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔" فون پر کسی نوجوان کی آواز آئی۔ وہ بدحواس اور بوکھلایا ہوا لگ رہا تھا،
اس نے بے ربط انداز میں اپنی بات مکمل کی۔
"مگر میں تو آج نہیں مل سکتا، بہت معزرت، ہاں کوئی کام ہو تو بتاؤ۔"
"نہیں، نہیں فون پر نہیں، پلیز آپ دس منٹ دے دیں، بڑی مہربانی ہو گی، میں نے بہت امید سے آپ کو فون کیا ہے۔" نوجوان بہت پریشان لگ رہا تھا۔
سیلانی کی جمعرات کے دن چھٹی ہوتی ہے، وہ گھر پر تھا اور اس کا گھر کراچی کے ایک کونے میں ہے اور پھر سچی بات ہے، آج کل کے حالات میں کسی اجنبی سے ملنے گھر پر ملنا مناسب بھی نہیں، لیکن وہ نوجوان اتنا پریشان تھا کہ سیلانی انکار نہ کر سکا اور اسے گھر کا ایڈریس سمجھانے لگا، قریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کا سیل پھر بجا۔ عبداللہ جان ہی کی کال تھی۔ "سیلانی بھائی! ہم آپ کے گلی میں کھڑے ہیں۔"
سیلانی گھر سے باہر نکلا، گلی کی نکڑ پر ایک ٹیکسی کھڑی تھی، جس میں غالبا عبداللہ جان ہی تھا۔ سیلانی نے ہاتھ ہلایا تو ٹیکسی میں حرکت ہوئی اور وہ قریب آ کر رک گئی۔ ٹیکسی سے ستائیس اٹھائیس سالہ سرخ و سپید بھوری آنکھوں والا نوجوان باہر نکلا۔ غالبا وہی عبداللہ جان تھا، اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر شخص بھی تھا۔
"سیلانی بھائی؟" نوجوان نے تصدیق چاہی۔
"اندر آ جائیں" سیلانی انھیں لے کر مہمان خانے میں آ گیا اور انھیں بٹھا کر مہمان داری کے لیے اٹھنے لگا تو عبداللہ جان نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور بولا "واللہ کوئی تکلف نہیں، ہم بہت جلدی میں ہے، بس ایک بات پوچھنا ہے۔"
"ارے ایسی بھی کیا جلدی، ذرا دم تو لو، اچھا پانی تو پیو۔" سیلانی مہمانوں کے لیے پانی لے آیا۔
"اب بتاؤ کیا بات ہے؟"
"سیلانی بھائی! میں یہاں کراچی میں جاب کرتا ہوں، مگر ہم شمالی وزیرستان میر علی کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والے ہوں، جہاں رات کو بمباری ہوئی ہے۔"
"اوہ۔"
"ہمیں صرف معلومات چاہئیں، ہمارے ادھر تین ماموں اور نانا لوگ رہتا ہے، ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔" عبداللہ جان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
"الله انھیں اپنی حفاظت میں رکھے، میں آپ کی کیا مدد کروں اور کیسے کروں؟"
"آپ کے ذرائع تو ہوں گے ناں، کسی سے معلومات کر دیں، وہ طالبان نہیں ہیں، سادہ سے لوگ ہیں، ان کا طالبوں سے کوئی واسطہ نہیں، ماموں کا ڈرائی فروٹ کا کام ہے، نانا کا ڈاٹسن گاڑی ہے۔" عبداللہ نے امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"میری جان پہچان کراچی میں ہے، کوئی شہر ہوتا تو کسی نہ کسی کو فون کر کے معلوم کیا جا سکتا تھا، مگر وہاں کس سے بات کی جائے، میری تو کوئی واقفیت نہیں، نہ ہی کسی کا نمبر ہے، وہاں تو سنا ہے کہ ٹیلی فون بھی نہیں ہیں۔" سیلانی نے عبداللہ جان کو سمجھایا۔
"اچھا، کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا؟" عبداللہ جان نے پوچھا۔
"یار میر علی کا تو نام بھی آج ہی سنا ہے، میری وہاں کوئی واقفیت نہیں، میں معزرت چاہتا ہوں۔" سیلانی نے اپنی بیچارگی ظاہر کی اور ساتھ ہی نوجوان کو حوصلہ دینے لگا کہ گھبراؤ مت، حوصلہ رکھو، وہاں سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا گیا"۔
سیلانی کی بات پر عبداللہ جان نے طنزیہ انداز میں کہا: "سیلانی بھائی! بم بارود کسی کو فرق نہیں کرتا، آپ کیا سمجھتا ہے کہ بم نے پھٹنے سے پہلے اعلان کیا ہو گا کہ غیر طالب ایک طرف ہو جاؤ، بم پھٹنے لگا ہے.... میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں اور میرے گھر والوں میں سے کوئی طالب نہیں، لیکن بمباری میں تو یہ پتا نہیں چلتا ناں، ہم کو بتاؤ کہ ہمارا کیا قصور تھا؟ ہم نے تو کسی کا گلا نہیں کاٹا، ہم نے تو جیل نہیں توڑا، ہم کو کیوں سزا دیا گیا ہے؟" عبداللہ جان اٹھ کھڑا ہوا، وہ نہایت عجلت میں تھا، اس کا کہنا تھا کہ اب اسے سہراب گوٹھ سے بس پکڑ کر بنوں جانا ہو گا سیلانی نے بہتیرا کہا کہ کم از کم ایک چائے تو پی لو، لیکن عبداللہ جان نے معزرت چاہی۔ سیلانی اسے رخصت کرنے کے لیے باہر آیا اور بولا: "اتنی سی بات کے لیے آپ نے اتنی تکلیف کی، آپ فون پر ہی پوچھ لیتے؟"
"سیلانی بھائی! فون پر بات کرنا اور وہ بھی وزیرستان کا، ٹھیک نہیں تھا ناں، اس لیے آپ کو تکلیف دیا۔"
عبداللہ نے الوداعی مصافحہ کیا اور ٹیکسی میں بیٹھتے بیٹھتے بولا: "سیلانی بھائی! نقصان بہت ہوا ہو گا، حکومت کو ابھی بمباری نہیں کرنا چاہئیے تھا، جب ہم پر ڈارون حملہ ہوتا تھا، اس وقت ہمارا جیٹ جہاز کدھر تھا؟ وہ ان امریکی ڈارون کو گرانے نہیں آتا تھا، ہم تو دونوں طرف سے مارا گیا، ادھر سے امریکا نے مارا، ادھر سے اپنوں نے مارا........"
عبداللہ جان کے شکوے کا جواب یقینی طور پر پرویز رشید یا خواجہ آصف کے پاس ہو گا، وہ یقینا جلد ہی بتائیں گے کہ حکومت کی توجہ اور محنت سے تیار کے گئے "زہین بم" شمالی وزیرستان میں گرائے گئے، ان بموں نے پھٹنے سے پہلے غیر طالبان آبادی کے دروازوں پر دستک دی انہیں بھاگنے کے لیے کہا اور جب رات ساڑھے بارہ بجے سولین آبادی کا انخلا ہوگیا، صرف طالبان اپنے ٹھکانوں پر رہ گئے تو یہ بم ایک ایک کر کے پھٹتے چلے گئے..... یقینا ایسے ہی بم لیاری، منگو پیر اور کراچی کے نو گو ایریاز کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی استعمال کیے جائیں گے۔ وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ اسلام آباد بھی اب خطرناک ترین شہر بن چکا ہے، وہاں دہشت گردوں کے گروہ ہیں، حکومت سادہ سی بات نہیں جانتی کہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں طالبان سامنے آئے، اب اس بمباری سے کون سامنے آئے گا؟؟
دہشتگردی ختم ہو گی یا بڑھے گی؟ اس طرح دہشت گردی ختم کرنی ہے تو شناختی کارڈ چیک کر کے سب وزیرستان والوں کو ایک جگہ جمع کر کے بم نہ گرا دیا جائے، ان بیچاروں کے لیے تو کوئی دھرنا دے گا، نہ یوم سوگ کا اعلان ہو گا، نہ رہے کا بانس نہ بجے گی بانسری۔ متفکر سیلانی جاتی ہوئی ٹیکسی کو گلی کے نکڑ سے مڑتے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
سیلانی کے قلم سے
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں