ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 فروری، 2014

اصلی مساوات


سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور اس کے ارد گرد قحط سالی ہو گئی۔ ہوا چلتی تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی ۔ چنانچہ اس سال کو ”عام الرمادة “ یعنی خاک اڑنے کا سال کہا گیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ گھی، دودھ اور گوشت اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک لوگ پہلے جیسی زندگی پر نہ لوٹ آئیں۔ایک دفعہ بازار میں گھی کا ایک ڈبہ اور دودھ کا کٹورا بکنے کے لیے آیا۔کسی خادم نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ چیزیں چالیس درہم میں خرید لیں اور عرض کیا: امیر المومنین! الله نے آپ کی قسم پوری فرما دی ہے ۔ الله تعالیٰ آپ کو زیادہ اجر سے نوازے! ہم نے آپ کے لیے یہ اشیائے خوردنی خریدی ہیں قبول فرمائیے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! تم نے میرے لیے اتنے مہنگے داموں یہ چیزیں کیوں خریدیں؟ جاؤ! انہیں صدقہ کر دو۔ میں کھانے میں اسراف ہرگز پسند نہیں کرتا، پھر فرمایا: مجھے عوام کے دکھ کا اس وقت تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک خود میں بھی انہی حالات سے نہ گزروں جن حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔

پھر ایک موقع ایسا آیا کہ مہنگائی ہو گئی۔خاص طور پر گھی مہنگا ہو گیا۔لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، عام لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے بھی گرانی کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے گھی کھاناموقوف کر دیا۔ عام خوردنی تیل پر گزارا کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں ان کا پیٹ خراب ہو گیا۔ ایک دفعہ پیٹ سے گڑ گڑ کی آواز آئی تو پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا:
"تم گڑگڑ کرو یا خاموش رہو، تم گھی مانگتے ہوگے۔ الله کی قسم! جب تک سب میری رعایا کے لوگ گھی نہ کھا سکیں گے تجھے بھی میسر نہیں ہو گا۔"
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ آپ کی بات سن کر وہاں سے نکل آئے۔ آپ روتے جاتے اور کہتے جاتے:
”اے عمر ! تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے، تمہارے بعد لوگ برباد ہو جائیں گے(یعنی آپ جیسی متوازن اور مثالی شخصیت کہاں سے لائیں گے۔) “
(مناقب امير المؤمنين لابن الجوزي: ص 101)
(الطبقات الکبریٰ: 218/3)


0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں