امریکہ خراسان کے بیابانوں سے بھاگنے کو ہے اور پاکستان
میں ’’ہماری جنگ‘‘ کے کیمپ میں اداسی کی گھٹائیں چھا گئی ہیں، سکوتِ سوگ طاری ہے اور
وہ غل غپاڑہ سننے کو نہیں مل رہاجو اس تکرار پر مشتمل ہوتا تھا کہ ہم ہماری جنگ لڑیں
گے۔ ’’ہماری جنگ‘‘ کو گمراہ اقلیت بھی کہا جاتا ہے اور جب یہ اقلیت کہتی تھی کہ ہم
ہماری جنگ لڑیں گے تو اس کا مطلب تھا، خود تو عیش کریں گے، پاکستانیوں کو مروائیں گے۔
’’ہماری
جنگ ‘‘ہی میں نہیں، امریکی اور یورپی میڈیا کے ایک بڑے حصے میں بھی خوب سینہ کوبی ہو
رہی ہے۔ ایک اخبار نے لکھا، امریکہ نامرد Impotentہوگیا۔
اخبار کا مطلب تھا، امریکہ اب مارنے دھاڑنے کے قابل نہیں رہا لیکن نامرد ہونے کے ایک
معنے اور بھی ہیں اور وہ ہیں نہتے اور کمزور لوگوں کو مار کر سینہ پھلائے پھرنا۔ اس
معنے میں امریکہ آج سے نہیں، شروع دن سے نامرد ہے۔ بلکہ ریاست متحدہ امریکہ کی بنیاد
ہی نامردی پر رکھی گئی تھی جب یورپ بالخصوص برطانیہ سے آنے والے جرائم پیشہ گروہوں
نے اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا اور اس کے اصل باسیوں کو ریڈ انڈینز کا نام دے کر
ان کی ایسی نسل کشی کی کہ بعض اعداد و شمار کے مطابق-2کروڑ آبادی قتل کر دی۔ ریڈ انڈینز
آج امریکہ میں کم یاب نسل ہیں۔ یہ دو کروڑ اس دور میں قتل کئے جب سارے ہندوستان کی
آبادی پانچ سات کروڑ رہی ہوگی۔ ان جرائم پیشہ انگریزوں کے ہاتھ میں بندوقیں اور توپیں
تھیں اور ریڈ انڈینز کے پاس محض تیر کمان۔ ہزاروں مربع میل کے علاقے میں ریڈ انڈینز
کا ایک آدمی بھی نہیں چھوڑا، بچے اور عورتیں زندہ جلا دی گئیں۔ اس ’’نامردی‘‘ پر امریکہ
مدتوں فخر کرتا رہا۔ فلپائن سے لے کر نکارا گواتک اور عراق سے افغانستان تک اس کی نامردی
کی داستانیں کہاں کہاں نہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک امریکی اخبار نے لکھا، ہم ان ظالم
طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں جن کے ہاتھ ہمارے اور یورپی فوجیوں کے خون سے رنگے
ہوئے ہیں۔ بتائیے، اس بے شرمی کا کوئی جواب ہو سکتا ہے۔
امریکی اور یورپی فوجی افغانستان میں کیا ولیمے کی دعوت
میں آئے ہوئے تھے! وہاں کے لوگ حملہ آوروں کی مزاحمت کریں تو ان کو خون سے رنگے ہاتھ
قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ظالم ویت نامی بھی تھے جنہوں نے معصوم امریکی فوجیوں
کے خون سے ہاتھ رنگے حالانکہ امریکیوں نے کیا ہی کیا تھا، صرف آٹھ دس لاکھ ویت نامی
شہری مارے تھے، محض آٹھ دس لاکھ ہم وطنوں کا بدلہ لینے کے لئے ظالم ویت نامیوں نے پورے
پچاس ہزار امریکی فوجی بے رحمی سے ہلاک کر دیئے۔ اُف، خون سے رنگے ہاتھوں والے ظالم
ویت نامی!
ایک امریکی جریدے نے طالبان کے اس ظلم کی دہائی بھی دی
ہے کہ انہوں نے سیدھے سادھے بھولے بھالے امریکیوں کو بے وقوف بنایا اور کرزئی کی فوج
اور پولیس میں اپنے آدمی بڑی تعداد میں بھرتی کرا دیئے۔سٹریٹ فار نے لکھا ہے کہ اس
واردات سے (معصوم) امریکیوں کا سخت نقصان ہوا۔ جریدے نے لکھا ہے کہ یہ جو آئے روز خبریں
آتی رہتی ہیں کہ ایک افغان فوجی نے اتنے امریکی مار دیئے یا کسی افغان پولیس والے نے
نیٹو فوجیوں پر گولی چلا دی، تو یہ سب وہی لوگ ہیں جو بھیس بدل کر بھرتی ہوگئے۔ لکھا
ہے، سارے افغان ایک جیسے ہوتے ہیں اس لئے کرزئی حکومت کیسے پتہ چلا سکتی تھی کہ بھرتی
ہونے والا طالبان ہے یا کوئی اور۔سٹریٹ فار نے حیرت سے لکھا کہ افغانستان پر امریکی
حملے کے فوراً بعد ہی طالبان نے یہ خفیہ منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ افسوس کی بات ہے،
طالبان کو بتا دینا چاہئے تھا کہ ہم نے یہ منصوبہ بنا لیا ہے اور فلاں فلاں بندے کو
بھرتی کرائیں گے۔ جریدے نے اصل رونا آخر میں یہ رویا ہے کہ امریکی انخلا ہوتے ہی طالبان
ملک پر قابض ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ افغان فوج اور پولیس ایک تو اس قابل ہی نہیں
کہ ان سے جنگ لڑ سکے، دوسرے ان کی وفادار یوں کا کچھ بھروسہ نہیں۔ کچھ تو ان میں طالبان
ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی تو طالبان نہیں لیکن طالبان کا حملہ ہوتے ہی طالبان ہو
جائیں گے۔ اس نے لکھا ہے کہ افغان بیوروکریسی بھی مشکوک ہے اورکرزئی کے بہت سے سینئر
مشیروں نے تو ابھی سے طالبان کے ساتھ رابطہ کر لیا ہے کہ ہم آپ کے ہیں، جب آپ آؤ گے
تو ہمارا خیال رکھنا ۔ جریدے نے لکھا ہے کہ2014ء میں بھی امریکی فوج کا ایک حصہ افغانستان
میں رہے گا لیکن اس خیال سے رہے گا کہ آخر جانا ہے۔ مضمون نگار کو افسوس ہے کہ امریکہ
’’باوقار‘‘ انداز میں افغانستان سے رخصتی چاہتا ہے لیکن افسوس کہ صرف رخصتی نظر آرہی
ہے، ’’باوقار‘‘ کا کچھ پتہ نہیں۔ اب لکھنے والے کو کوئی یہ کیسے بتائے کہ نامردوں کی
رخصتی میں ’’باوقاری‘‘ کہاں سے ڈالی جائے۔
ایک اور تھنک ٹینک نے اپنے دل کے پھپھولے یوں پھوڑے ہیں
کہ کوئی بات نہیں، امریکہ تو نکل ہی جائے گا لیکن طالبان کے ہاتھ بھی سارا افغانستان
نہیں آئے گا اور یہ دو ٹکڑوں میں بٹ جائے گا کیونکہ طالبان پشتون ہیں جبکہ غیر پشتون
یعنی تاجک، ازبک اور ہزارے مل کر50 فیصد بنتے ہیں اس لئے طالبان کو آدھا افغانستان
ملے گا۔ یہ اصل میں تجزیہ نہیں، منصوبہ ہے۔ امریکہ نے پچھلی دہائی میں جنگ تو لڑی نہیں
بس باراتوں اور جنازوں پر بم برسائے یا پھر نسلی منافرت بڑھائی اور اب یہ کڑوا سچ ہے
کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا اتحاد بچ جائے، یہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
امریکی منصوبہ یہ ہے کہ پشتونوں کو تباہ کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے لئے اس نے ایران
اور بھارت کا اتحاد کرایا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انخلا کے بعد ایران بھارت اور شمالی اتحاد
(جس کا نام اب یونائیٹڈ فرنٹ ہے) کے ذریعے شمال سے پشتونوں کو مارا جائے اور مشرقی
سمت سے پاکستان انہیں مارے۔ یعنی چکّی کے دو پاٹوں میں امریکی نامردوں کو نامراد بنانے
والے پیس کر رکھ دیئے جائیں۔ ان دنوں شمالی اتحاد کی پاکستانی افسروں سے گاڑھی چھن
رہی ہے جبکہ سارے شمالی افغانستان میں بھارتی سفارتی اور غیر سفارتی دفتروں کا چمن
زار کھلا ہوا ہے۔ ان چمن زاروں میں پاکستان کے افسروں اور شمالی اتحاد کی دوستی معنی
خیز نہیں لگتی؟ خیر، یہاں بندہ کرے کولیاں تے اللہ کرے سولیاں والامعاملہ بھی پیش آسکتا
ہے۔ تھنک ٹینک (پراجیکٹ سنڈی کیٹ) نے اپنے جائزے کے آخر میں امید ظاہر کی ہے کہ پشتونوں
اور نان پشتونوں کی جنگ بدترین خونریزی والی جنگ ہوگی، اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ
افغانستان کی تقسیم کے علاوہ کے سوا شاید کوئی راستہ نہیں۔
ادھر بھارت کے پریس میں الگ کہرام مچا ہوا ہے۔ حکومت
کو مشورے دیئے جا رہے ہیں کہ پاکستان کو امریکی انخلاء کے وقت مغربی سرحد پر مسائل
ہوں گے چنانچہ اسے مشرقی سرحد پر سکون کی ضرورت ہوگی اس لئے بھارت اس سرحد کو لیوریج
کے طو رپر استعمال کرے (یعنی وہاں فوج کھڑی کرے اور پاکستان کو دباؤ میں لائے)۔ ٹائمز
آف انڈیا نے لکھا ہے، لگتا ہے امریکہ طالبان کے سامنے سرنڈر کرنے والا ہے ، بھارت اپنے
مفادات کے لئے آگے بڑھے اور طالبان سے رابطے کا چینل قائم کرے۔ یعنی ’’دہشت گردوں‘‘
سے دوستی کرے۔
سوویت یونین اسی خطے نے توڑا اور تاریخ بدل گئی (امریکہ
نے سمجھا تاریخ ختم ہوگئی) اب امریکہ افغانستان میں خوب تباہی مچا کر Impotentہوگیا
ہے تو گویا ایک اور تاریخ بدل گئی۔ دیکھئے، صدی کا یہ عشرہ اور کیا کیا رنگ دکھاتا
ہے۔سات سال میں دھنک ہی تو کھل جائے گی۔