ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

صحابہ کرام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
صحابہ کرام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

12 اپریل، 2015

شانِ حضرت ابوبکر صدیقؓ

 

عبداللہ بن محمد، جعفی، وہب بن جریر، جریر، یعلی بن حکیم، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے مرض میں جس مرض میں آپ نے وفات پائی ہے، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے، پھر اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو! ابوبکر سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو یقینا ابوبکر کو خلیل بناتا، لیکن اسلام کی دوستی افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کردو، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ 

 صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 458 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14 متفق علیہ 9
  

7 جولائی، 2014

ایسی نازک آزمائش کہ انسانی قوت ادراک میں بھی نہ آسکے



 غزوہ بدر میں حضرت ابو عبیدہ ؓبے وخوف خطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ آپ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے دشمنوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ آپ میدان جنگ میں اس طرح بپھرے ہوئے چکر لگا رہے تھے جیسے موت کا کوئی ڈر ہی نہ ہو۔ آپ کا یہ انداز دیکھ کر قریش کے شہسوار گھبرا گئے۔ جونہی آپ رضی اللہ تعالیٰ ان کے سامنے آتے تو وہ خوفزدہ ہو جاتے۔ لیکن ان میں صرف ایک شخص ایسا تھا، جو آپ کے سامنے اکڑ کر کھڑا ہوتا تھا، لیکن آپؓ اس سے پہلو تہی اختیارکرتے اوراس کے ساتھ مقابلہ کرنے سے اجتناب کرتے۔ وہ شخص بھی آپؓ سے مقابلہ کرنے کے لیے بار بار آتا رہا لیکن آپؓ نے بھی اس سے پہلو تہی اختیارکرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔
بالآخر اس شخص نے جناب ابوعبیدہ ؓکے لیے تمام راستے بندکردئیے حتی کہ وہ آپؓ کے اور دشمنان اسلام کے مابین حائل ہوگیا لیکن آپؓ نے دیکھا کہ اب اس سے مقابلے سے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا تو اس کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا جس سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہوگئے اور وہ آپؓ کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔

بلاشبہ میدان میں حضرت ابوعبیدہؓ کو پیش آنے والی یہ آزمائش حساب دانوں کے حساب بھی ماوراء تھی اور ایسی نازک کہ انسانی قوت ادراک میں بھی نہ آسکے ۔جب آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ لاش تو جناب ابوعبیدہ ؓ کے والدعبداللہ بن جراح کی تھی تو آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے ۔

دراصل حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے باپ کو قتل نہیں کیا، بلکہ انہوں نے میدان بدرمیں اپنے باپ کے ہیولے کی شکل میں شرک کو نیست و نابود کر دیا۔ آپؓ کا یہ اقدام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ آپکی شان میں درج ذیل آیات نازل کردیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ:
جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کر دیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں جا داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے (اور) سن لکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنیوالا ہے ۔
(المجادلہ:22)

(طبقات ابن سعد)




islami tareekh k sunehray waqiaat
islamic history, urdu, annokha muqabla, khuda ka lashkar, ghawa badar,
hazrat Abu Ubaida Bin jarah (RA),

31 مئی، 2014

محبوب یا بیکار؟


 ایک فقیر ایک پھل والے کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ کے نام پر کچھ د ے دو۔ پھل والے نے فقیر کو گھور کے دیکھا اور پھر ایک گلا سڑا آم اٹھا کر فقیر کی جھولی میں ڈال دیا۔
فقیر کچھ دیر وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر پھل والے کو بیس روپے نکال کر دیے اور کہا کہ بیس روپے کے آم دے دو، دکاندار نے دو بہترین آم اٹھائے اور لفافے میں ڈال کر فقیر کو دے دیے۔
فقیر نے ایک ہاتھ میں گلا سڑا آم لیا اور دوسرے ہاتھ میں بہترین آموں والا لفافہ لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے کہنے لگا :
"دیکھ اللہ تجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا"

(مو منو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
سورة آل عمران-92

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم لوگ اللہ کے نام پر اپنی بہترین چیز دیتے ہیں

بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابو طلحہ انصاری مدینے میں بڑے مالدار تھے انہیں اپنے اموال میں بیرحا (باغ) بہت پیارا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کیا مجھے اپنے اموال میں بیرحا سب سے پیارا ہے میں اس کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں حضور نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت ابو طلحہ نے بایمائے حضور اپنے اقارب اور بنی عم میں اس کو تقسیم کردیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری کو لکھا کہ میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو جب وہ آئی تو آپ کو بہت پسند آئی آپ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمالیا۔

الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں ۔

23 مئی، 2014

ثمامہ کی قسمت بدل گئی

  ثمامہ بن اثال، یمامہ کے علاقے کا حکمران تھا، ثمامہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا ۔اس نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ الله قتل کرنے کا چیلنج دے رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الله سے اس پر قابو پانے کی دعا فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ ثمامہ عمرہ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ اس کی خوش قسمتی کہ وہ راستہ بھول کر مدینہ طیبہ کے قریب آ نکلا اور مسلمان سواروں کی گرفت میں آ گیا۔ چونکہ یہ شخص اپنے کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے، اس لیے اسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستوں سے باندھ دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اے ثمامہ کیا خبر ہے؟
اس نے عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) خیر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے ۔آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔
اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (اسے بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا)
ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کا اسیر ہوگیا۔ وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے، اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مشورہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے۔
جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا کیا تم صحابی یعنی بے دین ہو گئے اس نے کہا نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت نہ فرما دیں۔


صحیح مسلم:جلد سوم:باب الجہاد:حدیث نمبر 71
صحیح بخاری:جلد دوم:باب غزوات کا بیان:حدیث نمبر 383
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب الجہاد: حدیث نمبر201

اپنے وطن پہنچ کے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات پر عمل کیا اور مکہ مکرمہ کو اناج کی سپلائی بند کر دی ۔ مکہ میں قحط کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ اہل مکہ نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا ، جس میں اپنی قرابت داری کا واسطہ دیا اور درخواست کی کہ ثمامہ کے نام گندم کی ترسیل کے لیے حکم جاری فرمائیں۔
قارئین کرام! یہاں تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے اور غور کیجیے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عالی ظرف اوراعلیٰ اخلاق والے تھے کہ باوجود اہل مکہ کے زبردست مظالم کے آپ نے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھجوایا کہ اہل مکہ کے لیے گندم کی سپلائی بحال کر دیں ۔ کیا ایسے نادر اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا میں کوئی اور مثال نظر آتی ہے؟


12 مئی، 2014

آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو


نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک اعرابی(بدو) سے گھوڑا خریدا، اور اس سے جلدی چلنے کو کہا تا کہ گھر پہنچ کر اس کی قیمت ادا کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلدی جلدی آگے بڑھ گئے جبکہ بدّو پیچھے رہ گیا۔ راستے میں لوگ بدّو کے پاس آتے اور اس کے گھوڑے کی قیمت لگاتے، انھیں معلوم نہیں تھا کہ پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ گھوڑا خرید لیا ہے۔ ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ لگائی، چنانچہ بدو نے زور سے چلا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آواز دی اور کہا:
"اگر آپ کو یہ گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لیں، ورنہ میں اسے دوسرے کے ہاتھ بیچ دوں گا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

"کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟؟؟؟"

اعرابی نے کہا: نہیں نہیں ابھی خرید و فروخت مکمل نہیں ہوئی۔

پھر اعرابی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے درمیان بحث ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر لوگ ان کے پاس اکٹھے ہو گئے۔ اعرابی کہنے لگا:

"آپ اس بات پر کوئی گواہ پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے۔"

جو مسلمان بھی ان کی گفتگو سن کر وہاں آتا وہ بدو سے کہتا: تیرا ناس ہو! کیوں ضد کرتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ بحث و مباحثہ کر رہا ہے، کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حق کے خلاف بھی کوئی بات کریں گے؟

اسی دوران حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ وہاں آن پہنچے، جہاں وہ بدّو بار بارایک ہی بات کی رٹ لگاۓ بیٹھا تھا، کہ اگر کوئی گواہ ہے تو پیش کرو، ورنہ مجھے گھوڑا نہیں بیچنا۔ جب حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اعرابی کے درمیان بحث اور بدو کا یہ قول سنا کہ "آپ اس بات پر کوئی گواہی پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے؟" تو وہ کہنے لگے

"میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو نے اپنا گھوڑا پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھوں پر فروخت کر دیا ہے!"

یہ سننا تھا، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:

"آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو (جبکہ گھوڑے کی خرید و فروخت کے وقت تم ہمارے پاس موجود نہ تھے)؟"

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! جب آپ ہمیں آسمان کی خبریں(وحی) سناتے ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں، (کہ سچ کہا ہے آپ نے) تو پھر کیا میں آپ کے اس قول کی تصدیق نہیں کروں گا؟

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عرش پر مستوی بلند و بالا ہستی جب فرش پر مقیم سرور کائنات کے پاس اپنے خصوصی نمائندہ حضرت جبرئیل کے ذریعے سے کوئی وحی بھیجتی ہے جس میں ماضی کی تاریخ اور مستقبل کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں، تو ہم (صحابہ کرام) بلا چون و چرا قبول کر لیتے ہیں اور آپ کی تصدیق کر کے پوری بات من و عن تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس خرید و فروخت میں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قول کی تصدیق نہ کروں؟!

چنانچہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پیارے صحابی رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنتے ہی فرمایا،"اے خزیمہ تیری گواہی آج سے دو گواہوں کے برابر ہے"۔ اور انھیں ذوالشہادتین کا لقب دیا۔

ابو داؤد شریف، کتاب الآقضیہ، حدیث 3607
مسند احمد: جلد 5: حدیث 215

(حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ وہ بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے۔ فتح مکہ کے وقت اوسی قبیلہ حطمہ کا جھنڈا حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔)

22 اپریل، 2014

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا


یعقوب بن جعفر بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ عموریہ کی جنگ میں وہ معتصم کے ساتھ تھے۔ عموریہ کی جنگ کا پس منظر بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ایک پردہ دار مسلمان خاتوں عموریہ کے بازار میں خریداری کے لیے گئی۔ ایک عیسائی دوکاندار نے اسے بےپردہ کرنے کی کوشش کی اور خاتوں کو ایک تھپڑ رسید کیا۔۔ لونڈی نے بے بسی کے عالم میں پکارا۔۔۔
”وا معتصما !!!! “
ہائے معتصم ! میری مدد کے لیے پہنچو۔ سب دوکاندار ہنسنے لگے، اسکا مزاق اڑانے لگے کہ سینکڑوں میل دور سے معتصم تمہاری آواز کیسے سنے گا؟۔۔۔ ایک مسلمان یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا: میں اس کی آواز کو معتصم تک پہنچاؤں گا، وہ بغیر رکے دن رات سفر کرتا ہوا معتصم تک پہنچ گیا اور اسے یہ ماجرا سنایا۔ یہ سننا تھا کہ معتصم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ وہ بے چینی سے چکر چلانے لگا اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اونچی آواز میں چلانے لگا: میری بہن میں حاضر ہوں۔ میری بہن میں حاضر ہوں۔

اس نے فورا لشکر تیار کرنے کا حکم دے دیا۔۔ مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ ہو کر رومی قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ ایک بدبخت رومی ہر روز فصیل پر نمودار ہوتا اور رسول اکرم صلّی الله علیه و آله و سلّم کی شان میں گستاخی کرتا۔ مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ وہ اتنے فاصلے پر تھا کہ مسلمانوں کے تیر وہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ مجبورا اسے اس کے انجام سے دوچار کرنے کے لیے قلعہ فتح ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ جبکہ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اسے ایک لمحے سے پہلے جہنم رسید کر دیا جائے۔

یعقوب بن جعفر کہنے لگے: ان شا اللہ میں اسے واصل جہنم کروں گا ۔ انہوں نے تاک کر ایسا تیر مارا جو سیدھا اس کی شاہ رگ میں گھس گیا۔ وہ تڑپا، گرا اور وصل جہنم ہو گیا۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے الله اکبر کہا اور ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ معتصم بھی بہت خوش ہوا۔اس نے کہا: تیر مارنے والے کو میرے پاس لایا جائے۔ یعقوب بن جعفر معتصم کے پاس پہنچے تو اس نے کہا:
گستاخ رسول کو جہنم رسید کرنے کے عمل کا ثواب مجھے فروخت کر دیں۔
میں نے کہا: امیرالمومنین ! ثواب بیچا نہیں جاتا۔
وہ کہنے لگا: اگر آپ آمادہ ہوں تو میں ایک لاکھ درہم دینے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے کہا میں ثواب نہیں بیچوں گا۔
وہ مالیت بڑھاتا رہا۔۔ یہاں تک کہ اس نے مجھے پانچ لاکھ درہم کی پیشکش کر دی۔
میں نے کہا اگر آپ ساری دنیا بھی دے دیں تب بھی میں ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ میں آپ کو اس نصف ثواب تحفے میں دیتا ہوں اور اس بات کی گواہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ معتصم کہنے لگا: الله آپ کو اس کا اعلیٰ بدلہ عطا فرمائے میں راضی ہوں۔

ماخوز
دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے اوراق :  عبدالمالک مجاہد  ص 267



25 مارچ، 2014

ایک تھکا دینے والا امتحان

 
 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔

ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا؛ اے اللہ کی بندی، تم کون ہو؟
بڑھیا نے جواب دیا؛ میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں، ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا؛ یہ شیخ کون ہے جو تمہارا گھر میں آتا ہے؟

بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے، ہمارے لئیے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لئیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔

حضرت عمر یہ سُن کر رو پڑے اور کہا؛ اے ابو بکر، تو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے۔


روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین-ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ
 

13 مارچ، 2014

روز محشر بھی میرا بوجھ اٹھاؤ گے


رات کی تاریکی میں چاروں طرف سناٹا چھا چکا تھا۔ وہ رات کی تاریکی میں چلتا چلتا تین میل دور نکل آیا تھا۔ اچانک اسے ایک طرف آگ جلتی نظر آئی تو وہ اسی طرف ہو لیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک عورت چولہے پر ہنڈیا رکھے کچھ پکا رہی ہے اور قریب دو تین بچے رو رہے ہیں۔ عورت سے صورت حال دریافت کرنے پر اسے علم ہوا کہ یہ اس عورت کے بچے ہیں جو اشیا خوردو نوش کی عدم دستیابی کے باعث کئی پہر سے بھوکے ہیں اور وہ محض ان کو بہلا کر سلانے کے لیے ہنڈیا میں صرف پانی ڈال کر ہی ابالے جا رہی ہے۔ یہ سنتے ہی اس طویل قامت شخص کے بارعب چہرے پر تفکرات کے آثار امڈ آئے۔ وہ یک دم واپس مڑا اور پیدل ہی چلتا ہوا اپنے ٹھکانہ پر پہنچا۔ کچھ سامان خورد و نوش نکال کر اپنے خادم سے کہا سامان کی گٹھڑی میری پیٹھ پر لاد دو خادم نے جوابا کہا کہ میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں مگر طویل قامت اور بارعب شخصیت نے کہا روز محشر بھی میرا بوجھ اٹھاو گے، مجھے اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ المختصر یہ کہ اس نے اپنی پشت پر سامان لادا اور پیدل ہی تین میل کا فاصلہ طے کر کے اس ضرورت مند عورت اور اس کے بھوک سے بے تاب بچوں کو وہ سامان دیا۔ جب تک بچوں نے کھانا کھا نہیں لیا تب تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بچوں کو کھاتا دیکھ کر رات کی تاریکی ہی میں خوشی سے واپس آ گیا۔ طویل قامت اور بارعب شخصیت کو امت مسلمہ خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے جو عموما رات کو رعایا کے احوال سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔

آپ کا اسم گرامی عمر، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک نویں پشت پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ اللہ ان کے سینہ سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اللہ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ آپ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے۔ مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپ کے مقابل آتا۔

ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہے۔ غزو بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزو احد میں انتشار کے باوجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزو خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزو بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کر دیا تھا اس وجہ سے کفار پر دہشت طاری ہوگئی۔ غزو حدیبیہ میں آپ مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سرِ تسلیم خم کیا۔ اور جب سور فتح نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ سورت سنائی کیوں کہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت آپ رضی اللہ عنہ ہی کے لیے تھی۔ غزوہ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات فتح خیبر کا ایک اہم سبب ثابت ہوئیں۔ غزو حنین میں مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کی سرداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کعبہ میں عمرہ یا طواف کی اجازت طلب کی تو نبی علیہ السلام نے اجازت کے ساتھ فرمایا اے میرے بھائی!اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک جملہ کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپ رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو جب علم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی مواقع پر جو رائے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ظاہر فرمائی قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے پردہ، قیدیانِ بدر، مقامِ ابراہیم پر نماز، حرمتِ شراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت، تطہیرِ سیدہ عائشہ رضی اللہ جیسے اہم معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے، مشورہ اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علما و فقہا کے مطابق تقریبا 25 آیات قرآنیہ ایسی ہیں جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تائید میں نازل ہوئیں۔

جب آپ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر برسرِعام ٹوک دیا جائے۔ امیرالمومنین کا لفظ سب سے پہلے آپ ہی کے لیے استعمال ہوا۔ اپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ اپنے دورِ خلافت میں اپنے بیٹے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کا وظیفہ 3 ہزار مقرر کیا جب کہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا 5،5 ہزار اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا 4 ہزار وظیفہ مقرر کیا۔ آپ نے 17 ہجری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور 40 ہزار درہم مہر ادا فرمایا۔

آپ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازہ پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا ہوا ہے تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے۔ یہ معقول جواب سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مطمئن ہو گئے۔

اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1 ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فورا مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپ کے زمانہ میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبل اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپ کے حوالہ کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔ انہی سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جوابا ایک خط تحریر فرماکر روانہ کیا کہ یہ خط دریا کی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بلکہ پہلے سے چھ گنا زیادہ پانی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خط کا مضمون یہ تھا کہ اے دریا! اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تو اللہ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔"صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880
مزید ایک موقع پر فرمایا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔

کئی قرآنی وعدے اور نبوی خوش خبریاں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دورخلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپ رضی اللہ عنہ ہی نے قائم فرمایا تھا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابی ابن کعب، حضرت ابوالدردا، حضرت سعد اور حضرت ابو موسی اشعری وغیرہ جیسے اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ آپ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ 27 ذی الحجہ بروز بدھ ایرانی مجوسی ابو لل فیروز نے نماز فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اور یکم محرم الحرام بروز اتوار اسلام کا یہ بطلِ جلیل، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاوں کا ثمر، اسلامی خلافت کا تاج دار 63 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ روضہ نبوی میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیف بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبروں کے ساتھ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔

6 مارچ، 2014

امیر المومنین کی چوکیداری کے دوران پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ اپنے خلافت کے زمانہ میں بسا اوقات رات کو چوکیدار کے طور پر شہر کی حفاظت بھی فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی حالت میں ایک میدان میں گذر ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک خیمہ لگا ہوا ہے جو پہلے وہاں نہیں دیکھا تھا۔ اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک صاحب وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور خیمہ سے کچھ کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ آپ سلام کر کے ان صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور دریافت کیا کہ تم کون ہو۔ اس نے کہا ایک مسافر ہوں جنگل کا رہنے والا ہوں۔ امیر المومنین کے سامنے کچھ اپنی ضرروت پیش کر کے مدد چاہنے کے واسطے آیا ہوں۔

آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ خیمہ میں سے آواز کیسی آرہی ہے۔ ان صاحب نے کہا میاں جائو اپنا کام کرو۔ آپ نے اصرار فرمایا کہ نہیں بتادو کچھ تکلیف کی آواز ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ میری بیوی ہے اور بچے کی ولادت کا وقت قریب ہے، آپ نے دریافت فرمایا کہ کوئی دوسری عورت بھی پاس ہے۔ اس نے کہا کوئی نہیں۔ آپ وہاں سے اٹھے، اپنے گھر تشریف لے گئے اور اپنی بیوی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ایک بڑے ثواب کی چیز مقدر سے تمہارے لئے آئی ہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا ہے آپ نے سارا واقعہ بتایا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا ہاں ہاں تمہاری صلاح ہو تو میں تیار ہوں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ولادت کے واسطے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہو لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ گھی اور دانے وغیرہ بھی ساتھ لے لو، وہ لے کر چلیں۔ حضرت عمر رضی الله عنہ خود پیچھے پیچھے ہو لیے وہاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا تو خیمہ میں چلی گئیں اور آپ نے آگ جلا کر اس ہانڈی میں دانے ابالے، گھی ڈالا اتنے میں ولادت سے فراغت ہوگئی۔ اندر سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے آواز دے کر عرض کیا۔ امیر المومنین! اپنے دوست کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دیجئے۔

امیر المومنین کا لفظ جب ان صاحب کے کان میں پڑا تو وہ بڑے گھبرائے۔ آپ رضی الله عنہ نے فرمایا گھبرانے کی بات نہیں۔ وہ ہانڈی خیمہ کے پاس رکھ دی اور اپنی بیوی سے کہا کہ اس عورت کو بھی کچھ کھلا دیں۔ انہوں نے تھوڑی دیر بعد بانڈی باہر دے دی۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس بدو سے کہا کہ لو تم بھی کھائو۔ رات بھر تمہاری جاگنے میں گذر گئی۔ اس کے بعد اہلیہ کو ساتھ لے کر گھر تشریف لے آئے اور ان صاحب سے فرما دیا کہ کل تمہارے لئے انتظام کر دیا جائے گا۔

(حیات الصحابہ)




5 مارچ، 2014

کبھی نہ بھولنے والی کامیابی

رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔
"کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔"

یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھر جوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔ اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مجاہدین کی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ملک شام کے دارالسلطنت دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے مگر قلعہ تھا کہ کسی طور فتح ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ مجاہدین کو ایک دو دن کے آرام کا وقفہ دے کر وہ یا تو قلعے کے دروازے توڑنے کی کوشش کریں گے یا اس کی مضبوط دیواروں میں سرنگ لگانے کی ترکیب آزمائیں گے۔ انھیں یہ بھی یقین تھا کہ اللہ کی غیبی مدد ضرور آئے گی۔

اب یہ غیبی مدد آ پہنچی تھی! دمشق کے قلعے سے نیچے اترنے والے نوجوان نے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی گئی۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ مجاہدین کو قلعے کے اندر پہنچا سکتا ہے۔ اس کے مطابق کل رات رومیوں پر حملے کا بہترین موقع ہے۔ ان کے مذہبی رہنما "بطریق" کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور پورا دمشق جشن منا رہا ہے۔ اس جشن میں فوج سمیت سب شراب پئیں گے اور یہی ان پر فیصلہ کن وار کرنے کا موقع ہو گا۔ اگلی رات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ انھوں نے نہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور دوسرے ماتحت سالاروں کو اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا تھا اور نہ ہی وہ کوئی زیادہ فوج اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے۔ وہ یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتے تھے۔ صرف ایک سو مجاہد جنگجوؤں کو قلعے پر شب خون مارنے کے لیے منتخب کیا گیا۔

سب سے پہلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، پھرمسلمان ہونے والا عیسائی نوجوان یونس بن مرقس، پھر قعقاع اور آخر میں سو مجاہد کمندوں کے ذریعے سے مشرقی دروازے کی طرف سے قلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ انتہائی خطرے کا مرحلہ قریب آ چکا تھا۔ جوں ہی وہ دیوار سے اترے انھیں رومی فوجیوں کی باتیں سنائی دیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر یونس بن مرقس نے رومی زبان میں بارعب لہجے کے ساتھ ان رومی فوجیوں کو کہا:
"آگے چلو!" رومی پہرے دار سمجھے کہ یہ حکم ان کے کسی افسر نے دیا ہے۔ وہ دروازے پر اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے۔ اتنے میں مجاہد تیار ہو چکے تھے۔ انھوں نے پہرے داروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور آناً فاناً ان کا قصہ تمام کر دیا۔ راہ میں آنے والے ہر رومی پہرے دار سے یہی سلوک کیا گیا اور آخر کار بہت سی زنجیروں اور بھاری بھرکم تالوں سے بند دروازہ کھول دیا گیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا اپنا دستہ اس کے لیے پہلے سے تیار کھڑا تھا۔ وہ قلعے میں داخل ہوگیا اور رومی فوج کے دستوں کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بہادری کے بے مثال جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ رومی دستے بھی اسلامی سپاہیوں کے آگے ڈٹ گئے مگر خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ ان پر آہستہ آہستہ غالب آتا جا رہا تھا۔ غروب آفتاب تک مسلمان اس جنگ کو تقریباً جیت چکے تھے۔ مسلمان سپاہی اب آگے بڑھے تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب ان کے سامنے کوئی رومی سپاہی نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے اسے دشمن کی چال سمجھا اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔ جب وہ مرکزی گرجے کے پاس پہنچے تو وہاں سے اس کہانی کے ایک نئے موڑ کا آغاز ہوا۔

خالد رضی اللہ عنہ اپنے دستے کے ساتھ گرجے کی طرف آ نکلے تو سامنے ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت پر امن انداز میں سامنے سے آرہے تھے۔ ان سب کی تلواریں نیام میں تھیں اور رومی سپہ سالار "توما" اور اس کے خاص آدمی ان کے ساتھ تھے۔

"اے پروردگار! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟" خالد رضی اللہ عنہ کے خیالات اس وقت یقینا" یہی ہوں گے۔ دونوں نامور سپہ سالار خاصی دیر تک ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ آخر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سکوت توڑا اور بولے:

"ابوسلیمان! (خالد رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ اس کی ذات نے یہ شہر ہمیں بغیر لڑے عنایت کر دیا ہے؟"

خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: "کس صلح کی بات کرتے ہیں، ابو عبیدہ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں نے لڑ کر یہ شہر حاصل کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں خود شہر میں داخل ہوا ہوں۔ میں نے تلوار چلائی ہے اور میرے ساتھیوں پر تلوار چلی ہے، وہ شہید ہوئے ہیں۔ میں رومیوں کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ خیر و عافیت سے شہر سے چلے جائیں۔ ان کا خزانہ اور مال ہمارا مال غنیمت ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ صلح کس نے اور کیوں کی ہے؟"

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "ابو سلیمان! میں اور میرے دستے پرامن طریقے سے قلعے میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر آپ میرے فیصلے کو رد کرنا چاہیں تو کر دیں لیکن میں دشمن سے معافی کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو رومی کہیں گے کہ مسلمان اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ اس کی زد اسلام ہی پر پڑے گی۔"

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ننگی تلوار سے ابھی بھی خون ٹپک رہا تھا۔ ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ان میں کئی زخمی بھی تھے۔ انھوں نے پورا دن لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔ مگر یہ صلح کیوں اور کیسے؟ اس بات کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔

پھر خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ساری سازش سمجھ گئے۔ وہ یہ کہ خالد رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر رومیوں کو بر وقت ہوگئی اور وہ یہ جان گئے کہ ان کی مدہوش اور شراب کے نشے میں دھت فوج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ اسی لیے انھوں نے فوراً لشکر کے دوسرے سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ چونکہ خالد رضی اللہ عنہ کے شب خون سے ناواقف تھے اور قلعے کے طویل محاصرے سے پریشان بھی تھے، اس لیے انھوں نے صلح کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور رومیوں کو امان دے دی۔

یہ احساس ہوتے ہی چند مجاہد توما اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لیے لپکے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوتے، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ لپک کر ان کے بیچ میں آ گئے اور فرمایا:
"خبردار! میں ان کی جان بخشی کا عہد کر چکا ہوں۔"
خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے جاں باز ساتھی غصے سے بپھر رہے تھے۔ وہ کسی طور رومیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اس قلعے کو نہایت خطرناک مراحل سے گزر کر حاصل کیا تھا۔ اب وہ اپنی کامیابی کو یوں سازش کی نظر ہوتا دیکھ کر صبر نہیں کر پا رہے تھے۔

اب ایک طرف عہد کی پاس داری کا معاملہ تھا اور دوسری طرف مجاہدوں کی قربانیاں! ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اگرچہ لشکر کے سالار اعلی نہیں تھے، ان کے عہد کی پابندی خالد رضی اللہ عنہ کے لیے ضروری نہیں تھی مگر وہ مسلمان تو تھے اور وہ بھی نہایت ممتاز!
آخر جوش ہارگیا، غصے کو ناکامی ہوئی، عہد کی پاس داری ہوئی اور شیطان کو شکست!
خالد رضی اللہ عنہ نے بطور سالار اعلی تاریخی فیصلہ کیا۔۔۔۔ یہ فیصلہ تھا عہد کی پاس داری کا! وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی تاریخ پر عہد شکنی کا داغ لگے۔

پھر جب رومی اپنا مال و دولت، اپنی جانیں، سب کچھ بچا کے لے جا رہے تھے، تو خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دل پر پتھر رکھ کر انھیں جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہی رومی اسی اسلحے اور اسی مال کے ساتھ کسی دوسری جگہ ان کے ساتھ جنگ لڑیں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے سچے اور بااصول مجاہدین ہونے کا انمٹ ثبوت دے دیا ہے، عہد کی پاس داری کی اسلامی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور یہ ان کی نہایت عظیم کامیابی تھی۔۔۔۔ کبھی نہ بھولنے والی کامیابی!


20 جنوری، 2014

حضرت سعد الاسودؓ کی شادی


حضرت سعد الاسودؓ کا اصل نام تو سعد تھا لیکن ان کی غیر معمولی سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ ان کو ’’سعد الاسود‘‘ یا ’’اسود‘‘ کہا کرتے تھے۔ حضرت سعد الاسودؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی شخص میری بدصورتی کے سبب مجھ کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پیام دیے لیکن سب نے رد کر دیے۔ ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں اور کچھ غیر حاضر ہیں۔‘‘ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اس سیاہ فام شخص کو اللہ تعالیٰ نے نورانی جبلت عطا کی ہے اور جوشِ ایمان اور اخلاص فی الدین کے اعتبار سے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت تھے، بیکسوں اور حاجت مندوں کے ملجا و ماویٰ تھے۔ اپنے ایک جاں نثار کی بیکسانہ درخواست سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی نے گوارا نہ کیا کہ لوگ اس کو محض اس وجہ سے ٹھکرائیں کہ وہ ظاہری حسن و جمال سے محروم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سعد گھبرائو نہیں، میں خود تمہاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں، تم اسی وقت عمروؓ بن وہب ثقفی کے گھر جائو اور سلام کے بعد ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کر دیا ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد الاسودؓ شاداں و فرحاں حضرت عمروؓ بن وہب کے گھر کی طرف چل دیئے۔ 

حضرت عمروؓ بن وہب ثقفی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ان کے مزاج میں زمانۂ جاہلیت کی درشتی موجود تھی۔ حضرت سعدؓ نے ان کے گھر پہنچ کر انہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر ذہین و فطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہو سکتی ہے! انہوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعدؓ کا پیام رد کر دیا اور بڑی سختی کے ساتھ انہیں واپس جانے کے لیے کہا۔
سعادت مند لڑکی نے حضرت سعدؓ اور اپنے باپ کی گفتگو سن لی تھی، جونہی حضرت سعدؓ واپس جانے کے لیے مڑے وہ لپک کر دروازے پر آئی اور آواز دی: ’’اللہ کے بندے واپس آئو، اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمہارے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوں، جس بات سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں میں بھی اس پر راضی ہوں۔‘‘

اس اثناء میں حضرت سعدؓ آگے بڑھ چکے تھے، معلوم نہیں انہوں نے لڑکی کی بات سنی یا نہیں، بہرصورت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کر دیا۔ اُدھر ان کے جانے کے بعد نیک بخت لڑکی نے اپنے والد سے کہا:
’’
ابا قبل اس کے کہ اللہ آپ کو رسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجیے۔ آپ نے بڑا غضب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پروا نہ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔‘‘

عمروؓ بن وہب نے لڑکی کی بات سنی تو اپنے انکار پر سخت پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا۔‘‘

عمروؓ بن وہب نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں نے اس آدمی کو لوٹایا تھا لیکن یہ غلطی لاعلمی میں سرزد ہوئی۔ میں اس شخص سے واقف نہ تھا، اس لیے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا اور اس کا پیام نامنظور کر دیا، خدا کے لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ مجھے اپنی لڑکی کی شادی اس شخص سے بسرو چشم منظور ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمروؓ بن وہب کا عذر قبول فرمایا اور حضرت سعد الاسودؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’سعد میں نے تمہارا عقد بنت ِ عمرو بن وہب سے کر دیا۔ اب تم اپنی بیوی کے پاس جائو۔‘‘

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعدؓ کو بے حد مسرت ہوئی، بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر سیدھے بازار گئے اور ارادہ کیا کہ نوبیاہتا بیوی کے لیے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک منادی کی آواز پڑی جو پکار رہا تھا: ’’اے اللہ کے شہسوارو، جہاد کے لیے سوار ہو جائو اور جنت کی بشارت لو۔‘‘ سعدؓ نوجوان تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دل میں ہزار امنگیں اور ارمان تھے۔ بار ہا مایوس ہونے کے بعد شادی کا مژدہ فردوس گوش ہوا تھا، لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوشِ ایمانی غالب آگیا اور نوعروس کے لیے تحائف خریدنے کا خیال دل سے یکسر کافور ہوگیا، جو رقم اس مقصد کے لیے ساتھ لائے تھے، اس سے گھوڑا، تلوار اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں غزوہ پر جانے والے مجاہدین میں جا شامل ہوئے۔ اس سے پہلے نہ ان کے پاس گھوڑا تھا، نہ نیزہ و تلوار، اور نہ انہوں نے کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا، اس لیے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ یہ سعدالاسودؓ ہیں۔ میدان جہاد میں پہنچ کر سعدؓ ایسے جوش و شجاعت کے ساتھ لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک موقع پر گھوڑا اَڑ گیا تو اس کی پشت پر سے کود پڑے اور آستینیں چڑھاکر پیادہ پا ہی لڑنا شروع کردیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر شناخت کرلیا اور آواز دی ’’سعد‘‘۔ لیکن سعدؓ اُس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر اس جوش و وارفتگی کے ساتھ لڑرہے تھے کہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی بھی خبر نہ ہوئی۔ اسی طرح دادِ شجاعت دیتے ہوئے جُرعۂ شہادت نوش کیا اور عروسِ نو کے بجائے حورانِ جنت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ 

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعدالاسودؓ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاش کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دعائے مغفرت کی اور پھر فرمایا:
’’
میں نے سعدؓ کا عقد عمرو بن وہب کی لڑکی سے کر دیا تھا، اس لیے اس کے متروکہ سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔ سعدؓ کے ہتھیار اور گھوڑا اسی کے پاس پہنچا دو اور اس کے ماں باپ سے جا کر کہہ دوکہ اب خدا نے تمہاری لڑکی سے بہتر لڑکی سعد کو عطا کر دی، اور اس کی شادی جنت میں ہو گئی۔‘‘

قبول اسلام کے بعد حضرت سعد الاسودؓ نے اس دنیائے فانی میں بہت کم عرصہ قیام کیا، لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے اپنے جوشِ ایمان اور اخلاصِ عمل کے جو نقوش صفحۂ تاریخ پر ثبت کیے وہ امت ِ مسلمہ کے لیے تاابد مشعلِ راہ بنے رہیں گے۔

ابن الاثیر(اسد الغابہ:1/668)
أَخرجه أَبوموسى.(2/418)







Subscribe to Get new Posts in Email

14 جنوری، 2014

اطاعت رسولؑ کی ایک مثال


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعیناطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کس طرح دل و جان سے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل پر نفسانی میلانات و رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دوران خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشاد کان میں پڑا تو معا ان کے قدم زمین میں گڑ گئے اور وہ اسی جگہ بیٹھ گئے۔ اور اتنی بھی جرات نہ کرسکے کہ مسجد میں پہنچ لیں تو اس حکم کی تعمیل کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے جذبہ اطاعت پر بڑی مسرت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:

"الله تمھارے دل میں الله اور رسول کی اطاعت کا جذبہ اور زیادہ کرے"

یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبہ۔

خیر البشرؐ کے چالیس جانثار :از طالب الہاشم

ربیع الاوّل کا پیغام



ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے(تاریخ میں اختلاف ہے اور متعدد اقوال ہیں)۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دین کی تکمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ رسالت پہنچا دیا تو بارہ ربیع الاوّل 11ھ میں سوموار کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔

جب آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی

آل عمران:144

ترجمہ: اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا ‌شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گر گیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی

بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ موذّنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اذان نہ دے سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ کے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر أشھد أن مُحمد تک پڑھا اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔

جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63 سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔

کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی روشنی میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔ جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں، ہم رک جائیں اور جس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔

آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔ اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے۔ اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے اور اللہ تعالی سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔

12 جنوری، 2014

جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا


حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز چلتے پھرتے مدینے میں یہودیوں کے محلے میں پہنچ گئے۔ وہاں ایک بڑی تعداد میں یہودی جمع تھے اس روز یہودیوں کا بہت بڑا عالم فنحاس اس اجتماع میں آیا تھا۔

صدیق اکبر رضی الله نے فنحاس سے کہا اے فنحاس! اللہ سے ڈر اور اسلام قبول کر لے اللہ کی قسم تو خوب جانتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں اور تم یہ بات اپنی تورات اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہو اس پر فنحاس کہنے لگا۔

وہ اللہ جو فقیر ہے بندوں سے قرض مانگتا ہے اور ہم تو غنی ہیں۔ غرض فحناس نے یہ جو مذاق کیا تو قرآن کی اس آیت پر اللہ کا مذاق اڑایا۔

من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا (سورہ البقرہ ٢٤٥)

صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ اللہ کا دشمن میرے مولا کا مذاق اڑا رہا ہے تو انہوں نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا:

”اس مولا کی قسم جس کی مٹھی میں ابوبکر کی جان ہے اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا-“

فنحاص دربار رسالت میں آگیا۔ اپنا کیس حکمران مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا۔ کہنے لگا:
”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے! آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ اس اور اس طرح ظلم کیا ہے۔“

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا:
”آپ نے کس وجہ سے اس کے ٹھپڑمارا۔“

تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی :”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ کے دشمن نے بڑا بھاری کلمہ بولا۔ اس نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ غنی ہیں۔ اس نے یہ کہا اور مجھے اپنے اللہ کے لئے غصہ آگیا۔ چنانچہ میں نے اس کا منہ پیٹ ڈالا۔“

یہ سنتے ہی فنحاص نے انکار کردیا اور کہا :” میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔“

اب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دینے والا کوئی موجود نہ تھا۔

یہودی مکر گیا تھا اور باقی سب یہودی بھی اس کی پشت پر تھے۔

یہ بڑا پریشانی کا سماں تھا۔ مگراللہ نے اپنے نبی کے ساتھی کی عزت وصداقت کا عرش سے اعلان کرتے ہوئے یوں شہادت دی۔

لَقَد سَمِعَ اَللَّہُ قَولَ الَّذِینَ قَالُو ااِنَّ اللَّہ َ فَقِیر وَنَحنُ اَغنِیَائُ(آل عمران : ۱۸۱)
”اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں-“

(تفسیر قرطبی،4۔129، زاد المیسر1۔514، ابن کثیر1۔434)

قارئین کرام ! ….صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مولا کی گستاخی پر رب کے دشمن کے طمانچہ مارا اور جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا تو رب تعالیٰ نے صدیق کی صداقت کا اعلان عرش سے کر دیا۔

11 دسمبر، 2013

حضرت عبد اللہ بن حذافہ




حضرت عبد اللہ بن حذافہ السّہمی
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر پر بوسہ دے اور اس کی ابتدا میں کرتا ہوں ۔(ارشاد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ(

ہماری داستان کے بطل جلیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں جنہیں عبداللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے لئے ممکن تھا کہ وہ ان کے بارے میں بھی تغافل شعاری کا وہی سلوک روا رکھتی،جیسا کہ ہزاروں انسانوں کے بارے میں اس نے روا رکھا،لیکن اسلامی انقلاب نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو موقع عطا کیا کہ اس دور کی بڑی طاقتوں سے ملیں یعنی قیصر روم اور شہنشاہ ایران،اور ان سے مل کر ایسی داستانوں کو جنم دیں جو زمانہ کے حافظہ اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہے۔

فارس کے بادشاہ کسرٰی سے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات چھ ہجری کو ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمی بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دینے کی خاطر خطوط دے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وفود کی شکل میں مختلف ممالک کی طرف بھیجا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشن کی اہمیت کا پہلے سے اندازہ تھا۔یہ قاصد ایسے دور دراز ممالک کی طرف روانہ ہو رہے تھے جن کے بارے میں ان کو کوئی تجربہ اور علم نہ تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نہ تو ان ممالک کی زبان سے آشنا تھے اور نہ آداب شاہی اور مزاج شاہانہ کے محرم راز ہی تھے۔اس سے بڑھ کر طرہ یہ کہ ان کی دعوت کا مقصد بادشاہوں کو اپنا اختیار کردہ دین ترک کرنے،سلطانی و حکمرانی سے دستبردار ہونے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر آمادہ کرنا تھا۔

مہم بذات خود بہت خطرناک تھی۔اس کے معنی تھے کہ اس مہم پر جانے والا ہتھیلی پر جان رکھ کر جائے اور جب کامیابی سے لوٹ کر آئے تو یوں سمجھے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہے۔معاملہ کی اس اہمیت کے پیش نظر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام ضی اللہ عنہمم کو جمع کیا اور اللہ سبحانہ تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:
‘‘میں چاہتاہوں کہ تم میں سے بعض حضرات کو تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں شاہان عجم کی طرف روانہ کروں۔
خبردار! تمھاری جانب سے اس معاملہ میں اختلاف کی وہ نوعیت نہ پیدا ہونے پائے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے مابین رونما ہوئی تھی۔‘‘
اس کے جواب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یک زبان ہو کر عرض کیا:‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ کے حکم کی بہر حال تعمیل کریں گے اور آپ کی منشاء کے مطابق فرائض پوری زمہ داری سے سر انجام دیں گے۔آپ جہاں چاہیں ہمیں بھیج دیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا انتخاب کیاکہ ملوک عرب اور شاہان عجم کی طرف دعوتی خطوط لے کر جائیں۔ان چھ میں سے ایک عبد اللہ بن حزافہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی لے کر فارس کے بادشاہ کسرٰی کی جانب روانہ ہوئے۔

حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری تیار کی بیوی بچوں کو الوداع کہااور تنہا صحراؤں اور میدانوں کو طے کرتے ہوئے سرزمیں فارس میں پہنچے۔باشاہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی اور درباریوں کو مکتوب گرامی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔اس مرحلہ پر شاہ ایران نے ان کی آمد کی خبر سن کر شاہی دربار کو آراستہ کرنے کا حکم دے دیا اور اس سلسلہ میں ایک خصوصی اجلاس طلب کر لیا اور زعمائے فارس کو اس اجلاس میں شریک ہونے کا حکم دیا۔اس اہتمام کے بعد حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دربار میں آنے کی اجازت دی۔حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ شاہ ایران کے دربار میں اس کیفیت سے در آئے کہ انہوں نے ایک معمولی چادر زیب بدن کر رکھی تھی جس سے عربوں کی سادگی صاف طور پر جھلک رہی تھی ،آپکو سر بڑا اور جسم گٹھا ہوا تھا۔
اسلام کی عزت و وقار کے شعلے دل میں بھڑک رہے تھے اور اسی طرح ایمان کی عظمت و بلندی دل کی گہرائیوں میں دمک رہی تھی اور جب کسرٰی نے انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو حاشیہ نشینوں میں سے ایک کو اشارۃ کہا کہ وہ ان سے خط پکڑے ،ایوان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب ان سے خط لیناچاہا تو آپ نے فرمایا:
‘‘یہ نہیں ہو سکتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ خط براہ راست کسرٰی کے ہاتھوں میں تھماؤں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جرات ہرگز نہیں کرسکتا۔‘‘
یہ دیکھ کر کسرٰی نے حکم دیا : اسے چھوڑ دو اور میرے پاس آنے دو۔جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کسرٰی کے قریب آئے تو اس نے آپ کے ہاتھ سے خط وصول کیا اور اہل حیرہ کے عربی ترجمان سے کہا کہ اس خط کو کھولے اور اس کے مندرجات پڑھ کر مجھے سنائے۔
مکتوب گرامی کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا :

‘‘مِن مُحَمَّد رَسُولِ اللہ اِلٰی کِسرٰی عَظِیمِ فَارِسَ سَلَام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی‘‘
یہ پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے رسول کی جانب سے عظیم فارس کسرٰی کے نام۔سلامتی اس کا استحقاق اس کو ہے جو ہدایت کی راہ پر چلا۔

کسرٰی نے ابھی خط کے ابتدائی الفاظ ہی سنے تھے کہ اس کے سینے میں غیض وغضب کی آگ بھڑک اٹھی۔چہرہ سرخ ہو گیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط میں اپنا نام پہلے لکھا تھا اور اس کا بعد میں۔کسرٰی نے مغلوب الغضب ہو کر خط چھین لیا اور اسے پرزے پرزے کر دیا اور بغیر یہ جانے کہ خط میں کیا لکھاہے ۔چیخ کر یوں گویا ہوا:‘‘میراغلام ہو کر اسے یہ جرات کیسے ہوئی کہ مجھے اس طرح مخاطب کرے پھر حکم دیا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو میرے دربار سے نکال باہر کیاجائے،چنانچہ ان کو دربار سے نکال دیاگیا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ایوان کسرٰی سے نکل کر چل دیئے۔انہیں کچھ علم نہ تھا کہ اب ان کے ساتھ قضا و قدر کیاسلوک روا رکھنے والی ہے۔انہیں قتل کردیا جائے گا یا انہیں آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔
اس پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ کہہ اٹھے۔

’’بخدا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا دینے کے بعد مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا یہ کہہ کر اونٹنی پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔
جب کسرٰی کا غصہ تھما تو اس نے درباریوں کو حکم دیا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دوبارہ میرے پاس پیش کیا جائے،انہوں نے ہر چند تلاش کیا لیکن کہیں بھی آپ کا سراغ نہ ملا۔آخر میں انہیں اتنا پتہ چلا کہ وہ جزیرۃ العرب سے نکل کر کہیں آگے چلے گئے ہیں۔جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ اس نے آپ کے گرامی نامہ کو پھاڑ کر پھینک دیا تھا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالٰی اس کی قبائے اقتدار کے پرزے اڑا دے۔‘‘
ادھر کسرٰی نے یمن میں اپنے نائب باذان نامی جرنیل کو حکم دیا کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کا اعلان کیا ہے ،اسے گرفتار کرنے کے لئے فورا اپنے ہاں سے دو آدمی روانہ کرے،جو اسے پکڑ کر میرے دربار میں پیش کریں۔

باذان نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے دو مضبوط جرنیل ایک خط دے کر مدینہ منورہ روانہ کر دیئے۔اس خط میں لکھا تھا کہ خط دیکھتے ہی بلا تاخیر ان کے ہمراہ کسرٰی کے دربار میں پہنچ جائیں،انہیں یہ بھی تاکید کی کہ اس شخص کا پوری طرح کھوج لگائیں اور اس کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کریں۔
یہ دونوں شخص تیزی سے سفر کرتے ہوئے پہلے طائف پہنچے ۔قریش کے چند تاجروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا۔انہوں نے کہا وہ یثرب میں رہتے ہیں۔تاجروں کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ تو نبی علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے جا رہے ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔شاداں و فرحاں مکہ پہنچ کر قریش کو ان الفاظ میں مبارک دی:

’’اے اہل قریش!خوش ہو جاؤ اور چین سے رہو،اب کسرٰی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹھن گئی ہےاور ان کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے آدمی روانہ کر دئے ہیں۔اب تم اس کے شر سے بچ جاؤ گے۔‘‘
باذان کے ان دونوں نمائندوں نے مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔وہاں پہنچ کر نبی علیہ السلام سے ملاقات کی اور باذان کا خط آپ کو پہنچایا اور کہا:شہنشاہ کسرٰی نے ہمارے بادشاہ باذان کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو پکڑ کر اس کے دربار میں پیش کر دےہمیں اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جا کر اس کے حوالے کردیں۔اگر آپ ہماری بات مان لیتے ہیں تو اس میں آپ ہی کا بھلا ہےاور اگر آپ نے ہمارے ساتھ چلنے سے انکار کیا تو جان لیجئے کہ کسرٰی کا جاہ وجلال اور اس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔وہ اس بات پر قطعی قدرت رکھتا ہے کہ تمھیں اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو ہلاک کر دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ بچگانہ باتیں سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ آج تم اپنی قیام گاہ میں آرام کرو،کل دیکھا جائے گا۔جب دوسرے دن یہ نبی علیہ السلام کے پاس آئے اور پوچھا کیا آپ کسرٰی کے دربار میں پیش ہونے کے لئے آمادہ ہیں۔اس کے جواب مٰیں نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’کون کسرٰی؟،سن رکھو آج کے بعد تم اس کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پاؤ گے۔اللہ تعالٰی نے اسے ہلاک کر دیاہےاور اس کا بیٹا اس کو قتل کر کے خود سلطنت پر قابض ہو گیا ہے۔
ان دونوں کا اس خبر کا سننا تھا کہ حیران وششدر رہ گئےاور خوف و دہشت کے ملے جلے جزبات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے۔
جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں،کیا آپ کو اس کا یقینی علم ہے؟کیایہ وحشت اثر خبر ہم بازان تک پہنچا دیں؟
آپ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں یہ سچ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اسے بتادینا کہ دین اسلام کا دائرہ کسرٰی کی سلطنت تک پھیل جائے گا۔اگر تم اسلام قبول کر لو،تو ہم سبھی کچھ تمھارے حوالے کر دیں گے جو اب تمھارے پاس ہے گویا اس صورت میں تمھاری موجودہ حکمرانی اپنی قوم پر بدستور قائم رہے گی۔

یہ دونوں نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر باذان کے پاس پہنچے اور اسے یہ خبر سنائی۔اس نے سن کر کہا:’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اگر درست ثابت ہوئی تو پھر ان کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں،لیکن اگر یہ بات صحیح ثابت نہ ہوئی تو پھر ہم ان کے متعلق جو رائے قائم کریں گے وہ تم دیکھ لو گے۔ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ باذان کو کسرٰی کے بیٹے شیرویہ کا خط موصول ہوا جس میں یہ تحریر تھا’’میں نے کسرٰی کومار ڈالا ہے اور مارا بھی اسی لئے ہے کہ اپنی قوم کا انتقام لے سکوں۔اس نے اپنے عہد اقتدار میں میری قوم کے شرفاء کا قتل عام شروع کیا تھا۔یہی نہیں اس نے ان کی عورتوں کی بے حرمتی بھی کی اور ان کے مال و دولت کو غصب بھی کیا۔میرا یہ خط جب تمھارے پاس پہنچے تو تم میری حلقہ بگوشی اختیار کرنا۔‘‘
باذان نے شیرویہ کا خط جب پڑھا تو خط کو ایک طرف پھینک دیا اور اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا اور اس کے ساتھ بلاد یمن کے تمام فارس النسل باشندے بھی مسلمان ہو گئے۔


یہ تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی فارس کے بادشاہ کسرٰی کے ساتھ ملاقات کی دلچسپ داستان ہوئی۔قیصر روم کے ساتھ ان کی ملاقات کی تفصیلات کیاہیں؟
قیصر کے ساتھ اپ کی ملاقات کا واقعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا۔یہ بھی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔

۱۹ ھ میں حضرت عمر بن خطاب نے جنگ کے لئےمجاہدین اسلام کا ایک لشکر روانہ کیا جس میں حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے۔بادشاہ روم کے پاس لشکر اسلام کے متعلق خبریں برابر پہنچ رہی تھیں اور اسے معلوم تھاکہ مجاہدین اسلام پختہ حوصلے ،سچائی کے خوگر اور راہ خدا میں اپنی جانیں نثار کرنے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔
اس نے اپنے فوجیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ اگر لشکر اسلام میں سے کوئی قیدی تمھارے ہاتھ لگے تو اسے زندہ پکڑ کر میرے پاس لے آنا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رومی فوج نے گرفتار کر لیااور قیصر کے سامنے حاضر کیا۔اسے یہ بتایا کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کر کے لائے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ساتھیوں میں سے ہے جنہوں نے سب سے پہلے دعوت اسلامی کو قبول کیا۔
جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ روم کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے آپ کو بنظر غائر دیکھا۔پھر کہنے لگا۔
میری ایک تجویز ہے۔
حضرت عبدللہ نے فرمایا:’’وہ کیا؟‘‘
اس نے کہا میری تجویز ہے کہ آپ عیسائیت قبول کر لیں۔آپ کو میری یہ تجویز اگر قبول ہو تو میں اپ کو آزاد کر دوں گا اور آپ کے ساتھ عزت و تکریم والا معاملہ روا رکھوں گا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جرات و عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ممکن ہی نہیں،جس چیز کی طرف آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں ،اس سے ہزار درجہ یہ بہتر ہے کہ میں مر جانا پسند کروں۔
قیصر نے کہا۔
’’آپ مجھے بہادر انسان معلوم ہوتے ہیں۔آپ میری یہ تجویز قبول کر لیں تو میں آپ کو اپنی سلطنت میں شریک کر لینے پر بھی تیار ہوں۔
بیڑیوں میں جکڑا ہوا یہ قیدی اس پر مسکرایا اور یوں گویا ہوا:
اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی حکومت اور جزیرۃ العرب کی مملکت دے کر بھی یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لحظہ کے لئے بھی منحرف ہو جاوں۔
اس نے غضب ناک ہو کر کہا:
’’میں آپ کو قتل کر دوں گا۔‘‘
آپ نے فرمایا:’’آپ جو چاہیں کر دیکھیں ۔اس کے بعدآاپ کو پھانسی دینے کا حکم صادر کر دیا گیا اس کا حکم یہ تھا کہ تختہ دار پر پا بجولاں اس شخص کو اس طرح تیروں کا نشانہ لگاؤ کہ تیر اس کے ہاتھوں کے بالکل قریب گریں اور ہاتھوں کو زخمی کر دیں،چنانچہ اس کے حکم کے مطابق نشانہ باندھا گیا اور تیر چلایا گیا۔
اس نازک اور تکلیف دہ موقعہ پر قیصر نے آپ کو عیسائیت قبول کرنے کی تیسری مرتبہ دعوت دی۔لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا۔پھر اس نے حکم دیا کہ اب اس کے پاؤں کے بالکل قریب تیر مارو۔اس حکم کی بھی تعمیل کی گئی۔اس نے اس موقعہ پر بھی اسلام کو ترک کرنے اور عیسائیت کے حلقہ بگوش ہوجانے کی دعوت دی۔آپ نے ایسا کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔بالآخر قیصر نے حکم دیا کہ اسے تختہ دار سے نیچے اتار دو۔پھر ایک بہت بڑی دیگ منگوائی گئی اور اس میں تیل ڈال کر نیچے آگ جلا دی گئی،جب تیل کھولنے لگا تو اس نے حکم دیا کہ مسلمان قیدیوں کو حاضر کیا جائے ۔اس کے حکم کے مطابق دو مسلمان قیدی پیش کر دیئے گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے ایک کو کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دیا۔گرم اور کھولتے ہوئے تیل میں گرتے ہی اس کا گوشت پوست چثٹخنے لگا اور چشم ذدن میں کھال ہڈیوں سے الگ ہو گئی۔
اس کے بعد وہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوااور کہنے لگا اب بھی موقع ہےعیسائیت کو قبول کر لو ۔آپ نے پہلے سے بڑھ کر دعوت کو ٹھکرا دیا۔جب قیصر حد درجہ مایوس ہو گیا تو اس نے چاروناچار انہیں کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دینے کا حکم دے دیا۔جب آپ کو دیگ کے پاس لایا گیا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔قیصر کہ حواریوں نے جب یہ دیکھا تو عرض کی حضور یہ تو سچ مچ رو رہا ہے ۔اس نے گمان کیا شاید یہ اس تکلیف سے گھبرا گیا ہے۔
اسے میرے پاس لاؤ۔جب آپ کو قیسر کے سامنے پیش کیاگیا تواس نے پھر آپ کو تیسری مرتبہ عیسائیت کے سامنے سر جھکانے کی دعوت دی۔آپ نے اس بار بھی انکار کر دیا۔
اس نے تعجب سے پوچھا:ارے یہ بات تھی تو تم روتے کیوں تھے؟
آپ نے جواب میں کہا:’’میرے رونے کی وجہ یہ تھی یہ منظر دیکھ کر میرے خیال میں آیا تھا کہ میرے پاس تو صرف ایک ہی جان ہے۔کاش میرے پاس ہزارہا ایسی جانیں ہوتیں اور ہر جان کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا۔
اس ظالم کا یہ سننا تھا کہ انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا:کہنے لگا اب اگر تم میرے سر کو چوم لو تو میں تمھیں آزاد کر دوں گا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کر دو گے؟
اس نے کہا:
ہاں! میں تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر دوں گا۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
میںنے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میں اس دشمن دیں کے سر کو چوم لوں اور اس کے بدلے میں یہ سب مسلمان قیدیوں کو رہا کردے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
پھر آپ اس کے قریب آئے اور اس کے سر پر اپنا بوسہ ثبت کر دیا۔قیصر روم نے حسب وعدہ حکم دیا کہ تمام مسلمان قیدیوں کو حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا جائے۔تاکہ وہ ان کو اپنے ساتھ لے جائیں۔رہائی پا کر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سیدھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ سارا ماجرا تفصیل سے کہہ سنایا۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انتہائی مسرت کا اظہار فرمایااور کہنے لگے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آگے بڑھ کر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کو چوم لے اور لو میں سب سے پہلے ان کے سر پر بوسہ دیتا ہوں۔پھر آپ اٹھے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
۱۔الاصابۃ فی تمییزالصحابہ ۲/۲۸۷۔۲۸۸
۲۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام
۳۔حیاۃ الصحابہ لمحمد یوسف کاندھلوی ۴
۴۔تھذیب التھذیب ۵/۱۵۸
۵۔امتاع الاسماع ۱/۳۰۸
۶۔حسن الصحابہ ۳۰۵
۷۔المحبر ۷۷
۸۔تاریخ الاسلام علامہ ذھبی ۲/۸۸